Sunday, September 29, 2013

 

پشاور گرجا گھر حملہ، بلوچستان میں زلزلہ



ستمبر انتیس، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ستاون

پشاور گرجا گھر حملہ، بلوچستان میں زلزلہ

پاکستان میں کمزور ہونا ایک عذاب ہے۔ وہ ممالک جہاں قانون کی چادر کمزور کے سر سے اٹھ جاءے اور جہاں طاقت کے زور پہ کام ہونے لگے وہاں لامحالہ کمزور افراد سب سے بری طرح پستے ہیں۔ اپنے عقاءد کی وجہ سے ملک کی اکثریت سے مختلف ہونا، معاشی طور پہ مضبوط نہ ہونا، تعلیم یافتہ نہ ہونا، جسمانی طور پہ کمزور ہونا، اور ایسے معاشرے میں عورت ہونا جہاں عورت کو کم عقل، مرد سے نیچا، اور مرد کی کھیتی سمجھا جاتا ہو، یہ سب 'کمزوری' کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں سے مراد ہندو، عیساءی، اورسکھ ہوتے تھے۔ [یوں تو پارسی بھی مذہبی اقلیت ہیں مگر وہ اپنی معاشی اور تعلیمی طاقت کے زور پہ لاقانونیت کے وار کو سنبھال لیتے ہیں۔] وقت آگے بڑھا اور اسلام کے ٹھیکیداروں نے احمدیوں کوداءرہ اسلام سے خارج کر کے اقلیت ٹہرایا۔ اقلیت کے اس داءرے میں اب آغاخانی، بوہرے، شیعہ، اور بریلوی بھی شامل نظر آتے ہیں۔ غرض کہ پاکستان میں جو شخص بھی سنی سلفی نہیں ہے اقلیتی ہے اور وہ مار کھانے کے لیے تیار ہوجاءے۔ اس مار سے بچنے کے لیے اسلام کے داءرے سے باہر اور اندر کی یعنی کلمہ گو اقلیتوں نے اپنے اپنے طور پہ اپنی حفاظت کا انتظام کیا ہے اور دہشت گردی کے ہر واقعے سے سیکھ کر مزید انتظام کرتے جارہے ہیں مگر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس جنگل میں دہشت گردوں کو کہیں نہ کہیں غافل اقلیتیں مل ہی جاتی ہیں جن پہ یہ وار کر کے یہ شرپسند اپنے لیے دوزخ کماتے ہیں۔  پچھلے اتوار کو ایسا ہی ایک دہشت گردی کا واقعہ پشاور کے ایک گرجا گھر میں ہوا۔  دو جہنمی خودکش حملہ آوروں کے حملے میں اسی سے اوپر لوگ ہلاک ہوءے۔ جہاں مجھے اس واقعے پہ بہت افسوس ہوا وہیں کسی قدر تعجب بھی ہوا کہ پشاور کے یہ عیساءی اس قدر غافل کیوں تھے۔ ریاست کی اظہر من الشمس ناکامی کے بعد انہوں نے حالات کا رخ دیکھتے ہوءے اپنی حفاظت کا انتظام خود کیوں نہیں کیا؟  تعجب اس وقت بھی ہوتا ہے جب ایسے کسی واقعے کے بعد لوگ حکومت پاکستان سے احتجاج کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتی مشینری ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کرے۔ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آرہا کہ حکومت پاکستان کی رٹ دن کے اجالے میں بس کہیں کہیں ہی چلتی ہے اور پاکستان میں ایسے مسلح گروہ موجود ہیں جو جس وقت چاہتے ہیں حکومت کی رٹ کو للکارتے ہیں اور دوسری طرف سے محض بکری کی ممیانے کی آواز سناءی دیتی ہے؟ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ حکومت کے اعلی عہدیداران خود ڈرے سہمے، مسلح گارڈ کے ساتھ چلتے ہیں؟  پاکستان کی اقلیتوں کو کس دیوار پہ جلی حروف میں لکھ کر بتایا جاءے کہ 'پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؛ اپنی حفاظت کا انتظام خود کرو'؟  اگر اکیلے ہو، اقلیتی ہو، کمزور ہو تو جس قدر جلد ہوسکے پاکستان سے بھاگ نکلو۔  اگر ایک ناکام ریاست میں رہنے پہ بضد ہو اور گروہ کی صورت میں ہو تو اپنے گروہ کے گرد ایک حفاظتی حصار قاءم کرو اور اس حصار کی حفاظت یقینی بناءو۔
جہاں ایک طرف پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو مارنے میں لگے ہیں وہیں کسی قدرتی آفت کے آنے پہ غریب ہونے، تعلیم یافتہ نہ ہونے، اور آفت سے نمٹنے کی اچھی تیاری نہ ہونے کی سزا بھی ان لوگوں کو خوب خوب ملتی ہے۔ بلوچستان میں آنے والا حالیہ زلزلہ اسی سزا کی ایک مثال ہے۔ یہ بھی ریاست کی ناکامی کا ایک پہلو ہے کہ اگر بلوچستان کسی اچھی ریاست کا حصہ ہوتا تو سنہ ۲۰۰۳ کے ایران کے مشرق میں بم کے علاقے میں آنے والے زلزلے کے بعد بلوچستان کے گھروں کا جاءزہ لیا جاتا اور مکینوں کو بتایا جاتا کہ ممکنہ زلزلے سے نمٹنے کے لیے گھروں کی تعمیر کس طرح سے کی جاءے۔
جہاں ایک طرف طالبان پاکستان کی مٹی پلید کرنے پہ تلے ہوءے ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی قیادت انگشتت بدنداں ہے کہ طالبان سے کیسے نمٹا جاءے۔ ایسے میں عمران خان نے تجویز پیش کی ہے کہ طالبان کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جاءے۔ طالبان کے مستقل معصوم لوگوں کا قتل عام کرنے کے ردعمل میں بہت سے لوگ عمران خان کی اس تجویز کے خلاف ہیں۔ عمران خان کو سیاسی سوجھ بوجھ کا آءن اسٹاءن کہنا تو صحیح نہ ہوگا مگر ان کی مذکورہ تجویز وزن رکھتی ہے۔ اب تک طالبان ایک غیرمرءی طاقت کا نام ہے جس کا گڑھ شمالی وزیرستان ہے۔ عوام پہ ہونے والے ہر حملے کے بعد طالبان کی طرف سے محض ایک فون موصول ہوتا ہے جس کے ذریعے طالبان حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دے کر اس ہیولے کو ایک واضح شکل دینا ایک احسن قدم ہوگا۔ طالبان کا دفتر ہونے کی صورت میں ہمارا اس دفتر کے سامنے مظاہرہ کرنا آسان ہو جاءےگا۔ اور دفتر میں بیٹھنے والے لوگوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ طالبان کی طرف سے ہونے والے کسی حملے کے بعد وہ دفتر میں بیٹھ کر لوگوں کا سامنا کس منہ سے کریں۔
بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے بعد گوادر کے ساحل کے ساتھ سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ابھر آیا۔ چند ارضیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ جزیرہ دراصل ایک کیچڑ فشاں [مڈ وولکینو] ہے۔  مجھے اس موقع پہ باکو سے کچھ فاصلے پہ موجود کیچڑ فشاں کا دورہ یاد آیا۔
سفر تعلیم ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سفر سب سے اچھی تعلیم ہے کہ سفر میں آپ کے مشاہدے میں وہ ساری باتیں آجاتی ہیں جو الگ الگ، مختلف علوم کی کتابوں میں تحریر ہوتی ہیں۔ آپ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، دوسری معیشت میں کودتے ہیں، پہاڑوں دریاءوں کو دیکھتے ہیں اور ارضیات کے علم کو مشاہدے سے سیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرے لیے باکو کے قریب واقع گوبستان کے کیچڑ فشاں اہم تھے۔ جس طرح آتش فشاں آگ اگلتے ہیں اسی طرح کیچڑ فشاں [مڈ وولکینوز] کیچڑ اگلتے ہیں۔ گوبستان نامی قصبے کے کیچڑفشاں باکو سے چند میل کے فاصلے پہ ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے استقبالیہ کی بہت کوشش تھی کہ میں کیچڑ فشاں جانے کے لیے ان کی بتاءی گءی ٹیکسی لے لوں مگر ان کے نرخ زیادہ تھے۔ میں نے اپنی سفری کتاب کا مطالعہ کیا اور پھر انٹرنیٹ پہ تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ گوبستان کا سفر نہایت ارزاں طور پہ بسوں سے کیا جاسکتا تھا۔ طے پایا کہ میٹرو سے اچھرہ شہر [باکو کا قدریم اندرون شہر] پہنچوں۔ وہاں سے ایک بس سے ایک جگہ۔ پھر اگلی بس سے گوبستان۔ اور پھر گوبستان پہنچ کر ٹیکسی لےلوں اور سیاحتی مقامات کی سیر کروں۔ ان قابل دید مقامات میں کیچڑ فشاں کے علاوہ وہ چٹانیں بھی تھیں جن پہ بنی شکلیں قریبا نو ہزار سال پرانی تھیں۔ زبان کی تحریر محض سات آٹھ ہزار سال پرانا علم ہے۔ اس سے پہلے لوگ محض تصویریں اور شکلیں بنایا کرتے تھے۔ ان ہی تصاویر اور اشکال نے وقت کے ساتھ ساتھ حروف اور الفاظ کا روپ دھارا ہے۔ جاری ہے۔

Peshawar All Saints' Church, twin suicide attack, Earthquake in Balochistan, Avaran, Minorities in Pakistan, Pakistani Christians, Pakistani Hindus, Ahmadis, Agha Khani, Bohra, Pakistani Sikhs, New island near Gwadar, Mud Volcanoes of Gobustan,  


Labels: , , , , , , , ,


 

بے خبر علماءے اسلام؛ سفر کی تیاریاں







ستمبر اکیس، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھپن

بے خبر علماءے اسلام؛ سفر کی تیاریاں

ایک ایسے دوست سے بات ہورہی تھی جو کسی قدر مذہبی واقع ہوءے ہیں۔ نہ جانے کیسے ذکر آلو کا آگیا۔ میں نے یوں ہی ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اصحاب کرام ہفتے میں کتنی دفعہ آلو کھاتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ آلو سستی چیز ہے اور جن خدا کے بندوں کا ذکر ہورہا ہے ان کو پرتعیش زندگی سے کوءی سروکار نہیں تھا، کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اصحاب کرام بیشتر دن آلو ہی کھاتے ہوں گے۔ میں اس جواب سے محظوظ ہوا اور میں نے پوچھا کہ ٹماٹر کے متعلق کیا خیال ہے؛ اسلام کے اول زمانے میں کیا ٹماٹر بھی باقاعدگی سے استعمال ہوتے تھے؟ انہوں نے سوچ کر جواب دیا کہ شاید ٹماٹر اتنے استعمال نہ کیے جاتے ہوں گے۔ میں اس گفتگو کے مزے لے رہا تھا چنانچہ میں نے پوچھا کہ کیا اس وقت کے عرب علاقے میں ہری مرچ کا بھی استعمال ہوتا تھا۔ میرے دوست ان سوالات سے کسی قدر جھنجھلاءے مگر انہوں نے کہا کہ شاید ہری مرچ بہت زیادہ استعمال نہ کی جاتی ہوگی۔ پھر میں نے ان پہ بات واضح کی کہ بھاءی یہ تینوں چیزیں یعنی آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ پرانی دنیا میں نہ ہوتی تھیں اور کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد یہ چیزیں نءی دنیا سے پرانی دنیا لے جاءی گءی ہیں۔ چنانچہ پرانی دنیا [ایشیا، افریقہ، اور یورپ] میں آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ کی کاشت سولھویں صدی میں شروع ہوءی ہے۔ اصحاب کرام آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ نہیں کھا سکتے تھے کیونکہ اس وقت نہ امریکہ دریافت ہوا تھا اور نہ یہ چیزیں یہاں سے پرانی دنیا میں پہنچی تھیں۔ میرے دوست اس جواب سے کسی قدر خجل ہوءے مگر مجھ پہ ایک دفعہ پھر یہ بات واضح ہوگءی کہ جو جس قدر زیادہ مذہبی ہے اسی قدر معلومات عامہ سے بے بہرہ ہے۔ نماز روزے کے پابند عام لوگوں کے علاوہ ہم انہیں دیکھیں جنہیں علماءے اسلام کہا جاتا ہے تو وہ زمانے کے علم سے اور بھی زیادہ بے گانہ نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اسلام ترقی پسندی اور علم کی جستجو کا نام تھا۔ جب کہ آج کے 'علما' کے 'اسلام' سے صرف بوسیدگی کی بو اٹھتی ہے۔
احوال سفر۔ کوہ قاف کے نام سے جدید دور کے تین آزاد ملکوں کا خیال آتا ہے: گرجستان [جورجیا]، حیاستان [آرمینستان]، اور آذرباءیجان۔ کوہ قاف دو پہاڑی سلسلوں کا نام ہے: بڑا کوہ قاف اور چھوٹا کوہ قاف۔ آپ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ ان دو پہاڑوں پہ برسنے والا پانی مشرق میں دریاءے خضر یا بحرہ قزوین [کیسپءین] میں اور مغرب میں بحراسود میں گرتا ہے۔ بحر اسود تو آبناءے باسفور کے توسط سے دوسرے سمندروں سے ملا ہوا ہے مگر دریاءے خضر ایک جھیل ہے۔ ہر وہ جھیل جس کے پانی کی نکاسی نہ ہوتی ہو رفتہ رفتہ کھاری ہوتی جاتی ہے کہ پانی بخارات بن کر اڑنے پہ اپنے پیچھے نمکیات چھوڑ دیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جھیل کے پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ہر دفعہ دریا اور ندی کا پانی اپنے ساتھ زمین کی نمکیات بہا کرجھیل میں لاتا ہے۔ چنانچہ دریاءے خضر کا پانی بھی کھارا ہے مگر کہتے ہیں کہ اس پانی میں نمکیات دوسرے سمندروں کی نمکیات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ دریاءے خضر کی تجارتی دنیا ہی الگ ہے کہ وہ تمام ممالک  جن کی سرحدیں اس سمندر سے لگتی ہیں، اس آبی راستے سے ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں۔
جب ہمارا ارادہ ہوا کہ کوہ قاف کا سفر کیا جاءے تو سوچا گیا کہ ان ملکوں کا دورہ کس ترتیب سے کیا جاءے۔ کیا یہ سفر غیرگھڑی وار کیا جاءے یعنی  ترکی سے ایران پھر اوپر آذرباءیجان، پھر گرجستان، پھر حیاستان اور واپس ترکی پہنچا جاءے؟ یا اس کی الٹی سمت میں گھڑی وار سفر کیا جاءے؟ طے پایا کہ گھڑی وار سفر کیا جاءے اور عید کے قریب ایران پہنچا جاءے۔ بجٹ سفر کی خاص باتوں میں کم سے کم سامان لے کر چلنا اور ٹہرنے کے لیے ہوٹل کا تعین کرنا شامل ہوتے ہیں۔ کپڑوں کا یہ حساب ہوتا ہے کہ ہم جو پتلون پہن کر چلتے ہیں بس اسی میں پورا سفر گزارتے ہیں۔ ہر پانچ سات دن میں رات کے وقت شب خوابی کے کپڑے پہن کر پتلون کو دھو لیتے ہیں اور اگلے دن سے پھر اسے پہننا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہوٹل کے انتظام کے سلسلے میں بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ بڑے شہروں میں تو پہلے سے ہوٹل کی بکنگ کریں مگر چھوٹے قصبوں میں رہنے کی جگہ وہیں جا کر تلاش کریں۔ بڑے شہروں میں فاصلے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے وہاں پہنچ کر رہنے کی صحیح جگہ تلاش کرنا زیادہ کٹھن کام ہے۔ جب کہ چھوٹے قصبوں میں پیدل چل کر ٹہرنے کی زیادہ بہتر اور کم خرچ جگہ تلاش کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے استنبول اور انقرہ میں ہوٹل کا انتظام کر لیا تھا اور ساتھ ہی انقرہ سے قرص تک کے لیے ٹرین کے ٹکٹ بھی لے لیے تھے۔ استنبول کے مرکزی ریلوے اسٹیشن حیدرپاشا سے مشرق کے لیے ٹرینیں نہیں روانہ ہورہی تھیں کہ آگے ریلوے لاءن پہ کام ہورہا تھا چنانچہ استنبول سے انقرہ بس سے جانا تھا اور آگے جانے کے لیے انقرہ سے ٹرین لینی تھی۔ جاری ہے۔


Labels: , , , , , , ,


Thursday, September 19, 2013

 

شاہ زیب خان قتل، قصاص، اور سفر کا حال

ستمبر چودہ، دو ہزار تیرہ 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم 
کالم شمار ایک سو پچپن


شاہ زیب خان قتل، قصاص، اور ونودظور

یوں تو پاکستان میں ہر روز دسیوں اور کبھی سیکنڑوں لوگ قتل ہوتے ہیں مگر کبھی کوءی قتل لوگوں کے ذہنوں پہ سوار ہوجاتا ہے اور لوگ قتل کے اس مقدمے میں انصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قتل پچھلے سال شاہ زیب خان نامی نوجوان کا ہوا اوراس بات کے شواہد مل گءے کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوءی اور اس کے مسلح ساتھیوں نے قتل کیا تھا۔ قتل کے اس واقعے کے بعد شاہ رخ ملک سے فرار ہوگیا مگر اخبارات میں اور سوشل میڈیا پہ چلنے والی عوامی مہم کے زور پہ سندھ پولیس شاہ رخ کو دبءی سے گرفتار کر کے واپس پاکستان لے آءی۔ شاہ رخ پہ مقدمہ چلا اور اسے سزاءے موت ہوءی۔ مگر اب سننے میں آرہا ہے کہ شاہ رخ کی رہاءی قصاص اور دیت [وہ رقم جسے لے کر مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کریں] کے شرعی قوانین کے تحت ہونے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر سن کر وہ لوگ بہت طیش میں ہیں جو سوشل میڈیا پہ شاہ زیب قتل کے سلسلے میں انصاف کی مہم چلا رہے تھے۔ وہ لوگ جو مختلف ساءن لے کر کراچی کی سڑکوں کے کنارے دنوں کھڑے رہے اب کف افسوس مل رہے ہیں کہ ناحق انہوں نے اپنا وقت ضاءع کیا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں امیر کے لیے ہر طرح کی چھوٹ ہے؛ صرف غریب پہ تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ مگر معترضین وہ بات نہیں کہہ رہے جو ان کے دل میں ہے ۔ اور وہ یہ کہ ہم مذہب کے نام پہ خرافات برداشت کرتے کرتے تھک چکے ہیں؛ کہ ہمیں یہ نام نہاد 'شرعی قوانین' قبول نہیں جو شاید چودہ سو سال پہلے عرب کے ریگستان میں تو چلتے ہوں مگر جن کا ہمارے نءے دور سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ کہ جو قوانین 'شریعت محمدی' کے نام پہ لاگو کیے جا رہے ہیں، ان کا اسلام کی اصل ترقی پسند روح سے کوءی تعلق نہیں اور یہ دراصل صرف شریعت ملاءی ہیں۔ قصاص اور دیت کا ہی قانون لے لیں۔ اس قانون کا تعلق اس زمانے سے ہے جب لوگ قباءل میں بٹے ہوءے تھے۔ ہر شخص اپنے قبیلے کا ایک اہم رکن تھا۔ اس رکن کا ختم ہوجانا پورے قبیلے کا نقصان تھا مگر اس نقصان کی صورت میں قبیلہ یہ فیصلہ کرسکتا تھا کہ وہ کس شرط پہ یعنی کتنی رقم لے کر اس قتل کو معاف کردے گا۔ آج ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ ایک بہت بڑی سماجی اور معاشی اکاءی ہے۔ اس معاشرے کا ہر فرد پورے معاشرے کی ملکیت ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی مقتول کے گھر والے مخصوص دیت پہ قاتل کو معاف کردیں؟ فی زمانہ ہر قتل کی معافی قاتل کو پورے معاشرے سے مانگنا ہوگی۔ اگر دیت دے کر ہی قتل معاف کروانا ہے تو اس دیت کے حق دار وہ لوگ بھی ہیں جو سوشل میڈیا پہ انصاف کی مہم چلاتے ہیں یا وہ جو شاہ زیب قتل کیس میں رات دن سڑک کے کنارے کیمپ لگاءے بیٹھے رہے۔
سفر نامہ جاری۔ جب ہم سفر پہ نکلتے ہیں تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ بس آگے سے آگے چلتے چلے جاءیں۔ یریوان میں رہتے ہوءے بھی ایسا ہی خیال تھا۔ دل تھا کہ وہاں سے آگے کاراباغ جاءیں کہ کاراباغ دلچسپ جگہ ہے۔ کاراباغ وہ علاقہ ہے جو اس وقت حیاستان [آرمینستان] کے قبضے میں ہے مگر آذرباءیجان کا دعوی ہے کہ کاراباغ اس کا علاقہ ہے۔ جب کہ کاراباغ اپنے طور پہ اپنے آپ کو حیاستان اور آذرباءیجان سے الگ ملک سمجھتا ہے۔ مگر کاراباغ میں بے انتہا دلچسپی ہونے کے باوجود واضح تھا کہ ہمارے پاس حیاستان میں مزید جنوب میں جانے کے لیے وقت نہیں ہے اور اگر حیاستان میں ایک دو دن کی مہلت ہے تو یہ وقت حیاستان کے شمال میں گرجستان [جورجیا] کی سرحد کے قریب صرف کرنا ہوگا۔ چنانچہ انتخاب ہوا ونود ظور کا۔
ونودظور نامی شہر کی خاص بات نہ صرف اس کی تاریخی اہمیت ہے بلکہ اس سے قریب دو قدیم خانقاہیں سناہین اور ہاغپات ہیں۔ ہم یریوان میں اپنے ہوٹل سے نکل کر پیدل چلے اور کچھ فاصلے پہ ایک ٹیکسی کو ٹہرا لیا۔ ٹیکسی والا ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ بات کرتے کرتے اس کا سانس پھول جاتا تھا اور ہمیں خیال ہوا کہ وہ بلند فشار خون کا مریض ہوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ نیویارک میں رہ کر آیا تھا جہاں وہ گھروں میں مرمت کا کام کرتا تھا۔ وہاں اس کا باس ایک ہندوستانی تھا۔ اس ٹیکسی والے کو امریکہ میں رہنا بہت پسند آیا تھا مگر خاندان کے زیادہ ترلوگ حیاستان میں تھے اس لیے اسے واپس اپنے ملک آنا پڑا۔ سوویت یونین میں شامل دوسری ریاستوں کی طرح سوویت اتحاد ٹوٹنے پہ حیاستان کو بھی اپنا معاشی نظام یکایک بدلنا پڑا۔ عوام جو اس بات کے عادی ہوچکے تھے کہ ریاست ان کی مکمل ذمہ داری قبول کرتی ہے، ان کے لیے روزگار بھی فراہم کرے گی اور رہاءش کا انتظام بھی کرے گی، اچانک منڈی کی معیشت میں دھکیل دیے گءے۔ وہ معیشت جس میں جو جس قدر مضبوط اور وساءل سے مالامال ہے اسی قدر تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں یریوان میں جتنے بھی فقیر نظر آءے سب سن رسیدہ تھے۔ یقینا ان سب کی منفرد کہانیاں ہوں گی۔ کہ کس طرح ساری عمر انہوں نے ریاست کی ملازمت کی اور یہ خیال کیا کہ ریٹاءرمنٹ کے بعد ریاست ہی ان کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر پھر اشتراکیت کا دور ختم ہوگیا اور ان بوڑھے، کمزور لوگوں کو سرمایہ داری کے نظام میں پٹخ دیا گیا۔ ریاست نے بوڑھاپے میں ان کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا اور اب یہ لوگ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔
بس اڈے پہ ونودظور جانے کے لیے ایک وین اسی وقت روانہ ہوءی جب ہم وہاں پہنچے۔ دوسری وین کچھ دیر میں آءی اور رفتہ رفتہ مسافروں سے بھرتی گءی۔ بس اڈے پہ ہماری بات چیت ایک ایسی عورت سے ہو گءی جو تھی تو مقامی مگر فارسی بولتی تھی۔ وہ ان مسافروں کے لیے رہاءش کا انتظام کرتی تھی جو ایران سے آتے تھے۔ بہت دنوں بعد ہمیں تبریز میں سڑک کے کنارے ایسے ساءن لگے نظر آءے تھے جو لوگوں کو گرجستان میں چھٹیاں منانے کی دعوت دے رہے تھے۔
 وہ ایک گرم دن تھا مگر وین کے چلنے پہ باہر سے آنے والی ہوا نے سفر کو کسی قدر خوشگوار بنا دیا۔ وین میں ڈراءیور سمیت مختلف لوگوں کے سیل فون کچھ کچھ دیر بعد بجتے رہے۔ اپنے مداحوں کی تعداد میں وہ نوجوان سب سے آگے تھا جو ڈراءیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ ہر دفعہ فون آنے پہ وہ مدعی سے زور زور سے باتیں کرتا اور اس گفتگو میں کءی بار لفظ پاسپورٹ آتا۔
ونودظور کے راستے میں وین بس ایک ہی جگہ رکی۔ وہاں سڑک کے ساتھ ایک عمارت کے ساءے میں ایک نابینا فقیر بیٹھا تھا جس نے ایک بوسیدہ سوٹ کیس سے ہارمونیم نکال کر اسے کچھ دیر بجایا اور پھر ہارمونیم کو احتیاط سے واپس سوٹ کیس میں رکھ دیا۔
ونودظور میں وین نے ہمیں جہاں اتارا وہاں سے ہوٹل آرگشتی کا فاصلہ مشکل سے آدھا میل تھا۔ ہوٹل آرگشتی میں ہمیں ایک کمرہ دکھایا گیا۔ ہم نے کمرے کے چھوٹے ہونے کی شکایت کی تو ہمیں سب سے اوپری منزل پہ ایک دوسرا کمرہ دکھایا گیا مگر اس کا کرایہ پہلے کمرے کے کراءے سے کہیں زیادہ بتایا گیا۔ ہم نے مینیجر سے کہا کہ ہمیں یہ دوسرا کمرہ پسند تو آیا ہے مگر اس کے دام ہم وہی دیں گے جو ہمیں پہلے کمرے کے بتاءے گءے تھے۔ مینیجر نے ہم سے مہلت مانگی کہ وہ ہوٹل کے مالک کو فون کر کے پوچھے گا کہ آیا بڑا کمرہ اس نرخ پہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کہیں فون ملایا گیا، مختصر بات ہوءی اور پھر ہمیں فیصلہ سنا دیا گیا کہ ہمارے مطلوبہ نرخ پہ کمرہ ہمیں دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہوٹل شہر کے ناظم کی ملکیت تھا۔ یعنی وہی پرانا قصہ کہ جدید معاشرے میں دولت، اثرو رسوخ، اور شہرت جلد یا بدیر ایک نقطے پہ مرتکز ہوجاتے ہیں۔




APC and talks with Taliban; Karachi operation; Syria from WBT TV on Vimeo.

Labels: , , , , , ,


Tuesday, September 10, 2013

 

گارنی اور گغارد



ستمبر سات، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چون

گارنی اور گغارد


یوں تو لکھنے کے لیے بہت سارے موضوعات ہیں مگر ترجیح یہ ہے کہ جلد از جلد 'سفر کوہ قاف کا' نامی سفرنامہ ختم کیا جاءے۔ اس کالم کا زیادہ تر حصہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ مگر پہلے مختصر حال اس انیس سالہ لڑکی کا ہوجاءے جو دوسروں کی غفلت سے کراچی کے پانوراما سینٹر کی ساتویں منزل سے گر کر ہلاک ہو گءی۔ اخباری اطلاع کے مطابق وہ لڑکی ساتویں منزل سے نیچے اس طرح گری کہ ساتویں منزل سے نیچے جانے کے لیے اس نے لفٹ کا دروازہ کھولا اور بغیر دیکھے اندر قدم رکھ دیا۔ اندر لفٹ موجود نہ تھی۔ دیار کفر یعنی کسی مغربی ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو ذرا سی دیر میں مجرمانہ غفلت کا مقدمہ عمارت کے مالکان پہ قاءم کردیا جاتا مگر ایسا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوا ہے اس لیے اس بات کا عین امکان ہے کہ لڑکی کے متعلقین اس حادثے کو اللہ کی رضا جان کر خاموش رہیں۔
سفر کا حال۔ یریوان میں ایک اور دن۔ یریوان میں ہم جس ہوٹل میں ٹہرے ہیں اس میں ہر مالے پہ دو اپارٹمنٹ ہیں یعنی چھ منزلہ اس عمارت میں محض بارہ اپارٹمنٹ کراءے کے لیے ہیں۔ اس ہوٹل کے سامنے ہی ایک پارک ہے۔ اپنے کمرے کی بالکونی سے ہم اس پارک کا اور وہاں آنے والوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ دوپہر میں اس پارک میں آمدورفت کم ہوجاتی ہے اور جو اکا دکا لوگ نظر آتے ہیں وہ سایہ دار درختوں کے نیچے والی بنچوں پہ بیٹھ کر وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سردیوں میں جب یہاں برف پڑتی ہوگی تو پارک کے سارے درخت ٹنڈ منڈ ہو کر ایک دوسرا ہی منظر پیش کرتے ہوں گے۔
 یریوان کے قریب دو تاریخی عمارتیں ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں؛ ایک گارنی کا مندر اور دوسری گغارد کی خانقاہ۔ ہم نے جس ٹیکسی والے سے ان دو جگہ جانے کی بات کی اس نے منہ پھاڑ کر ہم سے دس ہزار درام مانگ لیے۔ ہم نے چھ ہزار درام سے بات شروع کی اور کسی طرح آٹھ ہزار درام پہ اس کو ان دو جگہ ہمیں لے جانے کے لیے راضی کر لیا۔ ٹیکسی شہر سے باہر نکلی اور پہاڑ پہ چڑھ گءی۔ گارنی دریاءے آزاد کے ساتھ واقع ہے۔  گارنی کا مندر اس لحاظ سے اہم ہے کہ آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کسی علاقے کے لوگ اپنا مذہب تبدیل کرنے پہ اپنے پرانے مذہب کی عبادت گاہوں کو اپنے نءے مذہب کی عمارتوں میں ڈھال لیتے ہیں۔ حیاستان میں عیساءیت کے آنے سے پہلے گارنی کے مندر میں نہ جانے کن بتوں کی پوجا ہوتی تھی مگر مقامی لوگوں کے عیساءی ہو جانے کے بعد یہ مندر اور مندر کا احاطہ عیساءی عبادت کے لیے استعمال ہونے لگا۔ گارنی کے مندر کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ بہت سے گول ستونوں والی اس عمارت کو یونان میں کہیں ہونا چاہیے تھا کہ اس کا طرز تعمیر ایتھنز کے پارتھینون جیسا ہے۔ مندر کے قریب ہی ایک حمام ہے۔ پرانے وقتوں میں ٹھنڈے علاقوں میں نہانا ایک عیاشی تھی جس کے متحمل امرا اور ملا ہی ہوسکتے تھے چنانچہ مندر کے احاطے میں موجود اس حمام کو گرم پانی فراہم کرنے کے لیے بہت اعلی انتظام تھا۔ پانی لکڑی کے چولھوں پہ گرم کیا جاتا اور ایک نالی کے ذریعے حمام کے اندر پہنچایا جاتا۔
گارنی سے گغارد زیادہ فاصلے پہ نہ تھا۔ گغارد کی خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی عمارت ایک پہاڑ کے ساتھ ہے اور کءی جگہ پہاڑ کو تراش کر ہی اس عمارت کے اندر موجود کمروں کی جگہ بناءی گءی ہے۔ خانقاہ کے صدر دروازے سے گھستے ساتھ ہی ہم نے ایک راہب کو اپنے کالے جبے اور کالی ٹوپی کے ساتھ ایک بنچ پہ براجمان پایا۔ اس راہب کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا ہدیہ پانچ سو درام وہیں ایک ساءن پہ درج تھا۔ حیاستان کے لوگ بہت مذہبی واقع ہوءے ہیں چنانچہ خانقاہ میں جا بجا موم بتیاں روشن تھیں اور نءے آنے والے موم بتی جلا کر اس جگہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے اور ہر جگہ یسوع مسیح کی تصویر دیکھ کر اپنے سینے پہ صلیب کا نشان ضرور بناتے۔ خانقاہ کے پیچھے لگے درختوں پہ لوگوں نے کپڑے کے چیتھڑے باندھے ہوءے تھے۔ جنوبی ایشیا میں بھی یہ روایت ہے کہ جو بیمار سفر کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو وہ اپنے کسی جاننے والے کو اپنے کپڑے کا ایک چیتھڑا دے دیتا ہے کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پہ یا کسی  اور مقدس مقام پہ جا کر اس چیتھڑے کو کسی درخت سے باندھ دے۔ خیال یہ ہے کہ اس طرح سفر کی سکت نہ رکھنے والے شخص کی حاضری اس مقدس مقام پہ لگ جاتی ہے اور اس کے دل کی مراد پوری ہونے کا امکان ہوجاتا ہے۔ پرانی مذہبی روایات کو نءے مذہب کے سانچے میں ڈھالنے کا کام ہرجگہ ہوتا رہتا ہے اور اسی درمیان ایسی تحاریک بھی اٹھتی رہتی ہیں جو ڈنڈے کے زور پہ لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ پرانی روایات چھوڑ کر دوسری نءی روایات اختیار کریں۔









Labels: , , , ,


Monday, September 02, 2013

 

تبریز میں چونسا


ستمبر ایک، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو ترپن

تبریز میں چونسا


احوال سفر۔ اگست گیارہ۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ دو آم کھاءے ہیں جو دوپہر ایک ریڑھی والے سے خریدے تھے۔ ریڑھی پہ دوسرے پھلوں کے ساتھ آم دیکھ کر تعجب ہوا تھا۔ آم کی شکل چونسے کی تھی۔ ریڑھی والے سے پوچھا کہ یہ آم کہاں سے آءے ہیں۔ اس نے کہا، از پاکستان۔ دل خوش ہوگیا۔ آم کے دام باقی پھلوں سے کہیں زیادہ تھے مگر دل کڑا کر کے دو آم خرید لیے۔ ہوٹل کے کمرے میں آم کھانے پہ خیال آیا کہ ہم واقعی پاکستان کے بہت قریب پہنچ گءے ہیں۔
آذرباءیجان کے شہر لنکاران سے ایران پہنچنے کی داستان بھی خوب ہے۔ لنکاران سے روانگی ہوتے ہوتے رمضان کا اختتام ہورہا تھا۔ ہمِیں ڈر تھا کہ کہیں عید پہ سب کچھ بند نہ ہوجاءے؛ ہم سرحد پار کرنے کے لیے نکلیں، پھنس جاءیں، اور سرحد پہ کسی جگہ بسیرا کرنے پہ مجبور نہ ہوجاءیں۔ مگر ایسا کچھ نہ تھا۔ آذرباءیجان میں عید کی خوشی ضرور مناءی جاتی ہے مگر اکثر کاروبار کھلے رہتے ہیں اور جو بند ہوتے ہیں وہ بھی صرف ایک دن کے لیے۔ جب کہ ایران میں عید کا دن پہلے سے طے تھا اور چاند دیکھنے کی شرط سے آزاد تھا۔
لنکاران کے ہوٹل کے کراءے میں صبح کا ناشتہ شامل تھا چنانچہ ایران روانہ ہونے سے پہلے ناشتہ خوب دل کھول کر کیا۔ ریستوراں میں جو بیرے کام کر رہے تھے وہ سب جواں سال تھے۔ ہم ناشتے کے لیے میز پہ بیٹھے تو ایک سولہ سترہ لڑکے کے ساتھ ایک تیس سالہ آدمی آیا۔ وہ آدمی مترجم کے فراءض انجام دینے آیا تھا۔ اس نے آتے ہی ہم سے پوچھا، 'آملیٹ؟'۔ ہم نے کہا کہ آملیٹ تو کل کھایا تھا آج تلا انڈہ کھاءیں گے۔ مگر لگا کہ بات اس آدمی کو سمجھ میں نہیں آءی ہے۔ وہ دونوں وہاں سے روانہ ہوگءے۔ مجھے یہ موقع دیے بغیر کہ میں ایک کاغذ پہ ایک تلا انڈہ بنا کر انہیں دکھاتا۔ کچھ دیر میں وہ لڑکا اس نوجوان عورت کے ساتھ نمودار ہوا جو ہوٹل کے استقبالیہ پہ نظر آتی ہے اور روانی سے روسی زبان بولتی ہے۔ اس عورت نے آتے ہی ہم سے معافی مانگی کہ جس آدمی کو پہلے مترجم کے طور پہ بھیجا گیا تھا اس کو بس معمولی انگریزی آتی ہے، اس لیے وہ ہماری  بات سمجھ نہ پایا،" تم مجھے بتاءو کہ تم ناشتے میں کیا کھاءو گے۔" ہم نے اپنا مدعا بیان کیا جو اس نے آذرباءیجانی میں ترجمہ کر کے لڑکے کو سمجھا دیا۔ دونوں وہاں سے روانہ ہوگءے، مگر مجھے کسی قدر افسردہ چھوڑ گءے۔ مجھے افسوس عورت کی معافی پہ ہوا تھا۔ اگر کسی کو انگریزی نہیں آتی تو اس میں اس قدر معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہم بس سے لنکاران سے آستارا تک کا سفر کرنا چاہتے تھے مگر ایک چرب زبان ٹیکسی والے نے ہمیں قاءل کر لیا کہ ہم اس کے ساتھ ایران کی سرحد تک جاءیں؛ وہ اس سفر کے دس منات لے گا۔ جب ہم اس کی گاڑی میں بیٹھ گءے تو اس کی نیت بدل گءی، اس نے گاڑی ایک پیٹرول پمپ پہ روکی اور ہم سے پیٹرول کی مد میں دس منات لیے اور اس کے ساتھ ہی ہم سے کہا کہ دس منات تو یہ ہوگءے، اب سرحد پہ پہنچ کر باقی دس منات دینا۔ ہم نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ یہ تم ہم سے کیا فراڈ کر رہے ہو؛ دس منات کی بات طے ہوءی تھی۔ تمھیں دس منات دے دیے تو بس کرایہ پورا ہوگیا؛ اب سرحد پہ پہنچ کر تمھیں ایک دھیلا نہیں ملے گا اور اگر تمھیں اسی طرح اپنی بات سے پھرنا ہے تو ہمارے دس منات واپس کرو، ہم ابھی تمھاری ٹیکسی سے اترتے ہیں۔ ٹیکسی والے کو ہمارے دھمکی سمجھ میں آگءی اور اس نے کہا کہ نہیں بس کل دس منات ہی کی بات ہے؛ سرحد پہ پہنچ کر تم سے مزید رقم کا تقاضہ نہیں کیا جاءے گا۔
لنکاران سے ایران کی سرحد تک راستہ بہت خوبصورت تھا۔ دونوں طرف دور تک ہریالی تھی۔ راستے میں وقفے وقفے سے دو قبرستان پڑے جہاں تازہ جنازے لاءے گءے تھے۔ ہمارے ٹیکسی والے نے ہر اس موقع پہ اسٹءیرنگ سے ہاتھ اٹھا کر دونوں ہاتھ دعا کی صورت میں جوڑ لیے اور ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ دعاءیں بڑبڑانے لگا۔ ہم کسی قدر پریشانی سے اس کی ان عبادات کا مشاہدہ کر رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ یہ شخص ڈراءیونگ سے یوں غفلت برتتا ہوا کہیں ہمارے جنازے کا انتظام نہ کردے۔
آستارا پہ آذرباءیجان اور ایران کی سرحدی چوکیوں کے درمیان ایک مختصر سی نو-مینز-لینڈ تھی جہاں ایک پل کے نیچے سے وہ ندی گزرتی تھی جو دونوں ملکوں کے درمیان اصل سرحد کا کام دیتی تھی۔ ہم ایران کی سرحدی چوکی پہ پہنچے تو اسے بند پایا۔ معلوم ہوا کہ عملہ دوپہر کے کھانے کے وقفے پہ ہے۔ ہم نے حجت کی کہ رمضان میں دوپہر کا کھانا کیسا۔ پھر کچھ ہی دیر میں سرحدی چوکی سے ملحق مسجد میں ظہر کی اذان ہوگءی۔ ہمار دل ڈوبا کہ اب عملہ نماز پڑھنے کے لیے روانہ ہوجاءے گا۔ اور شاید ایسا ہی ہوا کیونکہ چوکی کے باہر ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد چوکی کھلی۔ چوکی کے اندر ہمارے پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھے گءے اور پھر ان میں دخول کی مہر لگا کر ہمیں ایران میں خوش آمدید کہا گیا۔
آستارا سے آردیبل کے سفر میں ہمیں اندازہ ہوا کہ مذہب اسلام پتھر پہ لکھی کسی لکیر کا نام نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان بہت مختلف سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ مثلا جنوبی ایشیا کے مولویوں نے اپنے ماننے والوں کو بتایا ہے کہ اسلام کے برگزیدہ ہستیوں کی تصویر بنانا حرام ہے۔ جب کہ ایران پہنچ کر صاف معلوم ہوا کہ ایران کے مولوی نے اپنے ماننے والوں کو ایسا کچھ نہیں بتایا۔ چنانچہ آستارا سے آردیبل کے لیے نکلے تو ایک ٹرک نظر آیا جس پہ سید الشہدا امام حسین لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی امام حسین کی تصویر بھی بنی ہوءی تھی۔ اسی طرح حضرت علی کی تصاویر بھی جا بجا نظر آءیں۔




Labels: , , , , , ,


 

سکندر کا اسلام



اگست چوبیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو باون

سکندر کا اسلام

بات کچھ پرانی ہوچلی ہے مگر خبر پرانی صحیح، موضوع تازہ ہے۔ اور موضوع ہے پاکستان کے لوگوں کی اپنے موجودہ خراب حالات سے بے زاری۔ پے درپے حکومتوں کی ناکامی کے بعد پاکستان کے لوگ اتنے تنگ ہیں کہ ان میں سے چند بندوق نکال کر بیچ سڑک پہ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں کہ،'بند کرو اب یہ بکواس۔ اب یہ نظام بدلو۔' تو سوال یہ ہے کہ کیا سکندر مسلمان تھا؟ کونسا سکندر؟ نہیں، یہ اس سکندر کی بات نہیں ہورہی جس نے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ اس سکندر کی بات ہورہی ہے جس کے نام پہ اسلام آباد کو یرغمال بنانے والے سکندر کا نام رکھا گیا تھا۔ بات ہورہی ہے سکندر اعظم کی۔ یہ بات بہت پرانی ہے۔ اتنی پرانی کہ اس وقت مذہب انسانی معاملات کا بہت بڑا جز نہ تھا۔ چنانچہ سکندر اعظم نے جب معلوم دنیا کا بڑا حصہ فتح کیا تو اس نے لوگوں کو اپنا ہم مذہب نہیں بنا لیا بلکہ اس کی فوج نے صرف اس پورے علاقے میں اپنے بچے چھوڑ دیے۔ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیداءش سے ساڑھے تین سو سال قبل کی بات ہے۔ اس سکندر سے اس سکندر تک قریبا دو ہزار چار سو سال کا عرصہ ہے۔ یعنی اتنا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ پاکستان میں اب 'سکندر' ایک دھلا دھلایا، صاف ستھرا اسلامی نام نظر آتا ہے۔ تو اس سکندر نے ایک ایسے شہر میں جس کا نام ہی اسلام کے نام پہ رکھا گیا ہے، بندوق کے زور پہ یہ کیوں کہا کہ وہ فورا سے پیشتر پاکستان میں اسلامی نظام دیکھنا چاہتا ہے؟  آخر یہ اسلامی نظام ہوتا کیا ہے؟ اور وہ کونسا بٹن ہے جسے دبا کر اسلامی نظام فورا نافذ کیا جا سکتا ہے؟ اور سکندر کا یہ خیال کیوں تھا کہ پاکستان کے سارے لوگ ہی 'اسلامی نظام' کا نفاذ چاہتے ہیں اور اس لیے اس کا یہ مطالبہ دراصل سارے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے؟ کیا میری طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کو بھی بندوق نکال کر سکندر کے مقابلے پہ آنا ہوگا اور برملا کہنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان میں سکندر کا' اسلامی نظام' نہیں چاہیے۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان ہی میں کیا دنیا میں کہیں بھی کوءی ایسا نظام نہیں دیکھنا چاہتے جو لوگوں کو لکھ کر نہ دکھایا گیا ہو اور جس پہ لوگ متفق نہ ہوگءے ہوں۔ تو سکندر آخر یہ کس اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا تھا؟ سعودی عرب کا اسلامی نظام یا ایران کا اسلامی نظام؟ یا وہ اسلامی نظام جو طالبان نے افغانستان میں نافذ کیا تھا؟ یا پاکستانی طالبان کا سوات میں کچھ عرصے کے لیے قاءم کیا جانے والا اسلامی نظام؟ سکندر پہ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ درج بالا تمام اسلامی نظاموں سے متنفر ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس دنیا میں موجود ہے۔ اس موقع پہ چند نادان دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ اس اسلامی نظام کی بات کر رہے ہیں جو اسلام کے اول زمانے میں مدینہ میں قاءم کیا گیا تھا۔ یقینا مدینہ میں بہترین اسلامی ریاست عمل میں لاءی گءی ہوگی مگر یہ کام صحابہ اکرام نے انجام دیا تھا۔ فی زمانہ مسلمانوں کو 'اسلامی نظام' کی پٹیاں پڑھانے والے لوگ وہ صحابہ اکرام نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اور آپ کے جیسے عام انسان ہیں۔  یہ ہمارے سامنے قرآن لہرا کر نہیں کہہ سکتے کہ یہ رہا 'اسلامی نظام'۔  ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ ہمیں لکھ کر بتاءیں کہ ان کے 'اسلامی نظام' میں نظام کیسے چلے گا۔ حکمرانی کا حق کسے حاصل ہوگا، حکمران کیسے چنا جاءے گا، عدل کا کیا نظام ہوگا، معیشت کیسے چلے گی، وغیرہ وغیرہ۔ جب 'اسلامی نظام' کو تمام جزءیات کے ساتھ لکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاءے گا اور لوگ اس 'نظام' سے متفق نظر آءیں گے تو 'اسلامی نظام' کے نفاذ کے لیے بندوق کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام 

Sunday, September 01, 2013

 

باکی کے ملتانی بچے


اگست  چودہ،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اکیاون


باکی کے ملتانی بچے

علی حسن سمندطور


احوال سفر-اگست پانچ
ہم دوبارہ رمضان کے موسم میں داخل ہوگءے ہیں۔ ترکی سے گرجستان پہنچنے پہ رمضان سے باہر آگءے تھے۔ گرجستان سے حیاستان، اور پھر حیاستان سے واپس گرجستان تک رمضان سے باہر رہے۔ گرجستان کے دارالحکومت تبلیسی سے آذرباءیجان کے قصبے شیکی پہنچنے پہ دوبارہ رمضان میں داخل ہوگءے۔ مگر ترکی کی طرح آذرباءیجان میں بھی رمضان کی ایسی سختی نظر نہیں آتی جیسی کہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔ یعنی یہاں لا اکرہ فی الدین والا معاملہ ہے اور ڈنڈے کے زور پہ لوگوں سے روزے نہیں رکھواءے جاتے؛ چنانچہ دن کے وقت بھی کھانے پینے کی جگہیں کھلی رہتی ہیں اور لوگ سرعام سگریٹ پیتے بھی نظر آتے ہیں۔ البتہ نماز کے وقت فضا اذانوں سے گونج جاتی ہے۔
دریاءے خضر [کیسپین سی] دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ آذرباءیجان کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت باکی [باکو]  اسی سمندر کے ساتھ واقع ہے۔ باکی کی میٹرو استعمال کرتے ہوءے کءی دفعہ مجھے دیسی شکلوں کے لوگ ںظر آءے تھے۔ مجھے تجسس تھا کہ معلوم کروں کہ یہ لوگ کون ہیں۔
کل باکی کے پرانے شہر میں بخارا کاروان سراءے کے ساتھ ملتانی کاروان سراءے کا نشان دیکھا تو حیرت ہوءی۔ ملتانی کاروان سراءے؟ کیا اس ملتانی کاروان سراءے کا شہر ملتان سے کوءی تعلق ہے؟ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ملتانی کاروان سراءے کا شہر ملتان سے گہرا تعلق ہے۔ زمانہ قدیم میں شہر ملتان سے باکی آنے والے کاروان ملتانی کاروان سراءے میں ٹہرا کرتے تھے۔
باکی نے ہوشیاری یہ دکھاءی ہے کہ پرانے شہر کے بڑے حصے کو مختلف ریستورانوں کے سپرد کردیا ہے چنانچہ آپ کھنڈرات کے بیچ میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور تاریخ سے اپنا رشتہ محسوس کرتے ہیں۔ اور اس طرح ریستوراں والے ان کھنڈرات کی حفاظت کرتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہوتی ہے۔ ملتانی کاروان سراءے اور بخارا کاروان سراءے روبہ رو ہیں۔ آج کل ان دونوں قدیم عمارتوں میں ایک ریستوراں کام کرتا ہے۔ ہمارے استفسار پہ ہم سے کہا گیا کہ ہم اس قدیم عمارت کے تہہ خانے میں جا کر اس کاروان سراءے کا معاءنہ کرسکتے تھے۔ سورج ڈوب چکا تھا اور لوگ بخارا سراءے  میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب کہ ملتانی سراءے میں ابھی لوگ آنا نہیں شروع ہوءے تھے مگر وہاں بھی میزیں برتنوں اور گلاسوں سے سجی تھیں۔
ملتانی کاروان سراءے کے تہہ خانے میں ہمیں بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایک شیلف میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے پیش کیے جانے والا تحفے، مٹی کے نقشین برتن، موجود تھے۔ دیوار پہ ان مشہور شخصیات کی تصاویر تھیں جنہوں نے کبھی ملتانی کاروان سراءے کا دورہ کیا تھا۔ ان ہی تصاویر میں ایک تصویر پرویز مشرف کی بھی تھی۔
ملتانی کاروان سراءے سے واپس ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر میں بہت دیر تک زمانہ قدیم کے ان تجارتی کاروانوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہ قافلے کس راستے سے باکی پہنچتے ہوں گے؟ وہ غالبا ملتان سے کابل سے مشہد، پھر دریاءے خضر یعنی کسیپین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوءے ایران کے شمال میں اور پھر اوپر جاتے ہوءے باکی پہنچتے ہوں گے۔ ملتان سے باکی تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگتا ہوگا؟ راستے میں کن کن بڑے تجارتی مراکز میں ان کاروانوں کا پڑاءو ہوتا ہوگا؟ کیا ملتان کی کسی پرانی عمارت میں ان تاجروں کے حساب کتاب کے کاغذ کہیں دفن ہیں؟ کیا ایسی تحریری یادداشتیں بتا سکتی ہیں کہ پرانے وقتوں کے وہ تاجر کن اشیا کی تجارت کرتے تھے، یہ کاروان کتنے بڑے ہوتے تھے، ان میں کتنے لوگ اور کتنے باربرداری کے جانور ہوتے تھے؟  پرانے وقتوں میں تو سفر بہت خطرناک تھا۔ کہیں جنگ تھی، کہیں وباءی بیماریاں تھیں۔ میر کاروان کو ہر دم فیصلہ کرنا ہوتا ہوگا کہ آیا کاروان آگے بڑھے، کوءی دوسرا راستہ اختیار کرے، یا واپس پلٹ جاءے۔ یہ قافلے آگے کی خبر کیسے لاتے ہوں گے؟  کیا کچھ کچھ دیر بعد ایک تیزرفتار گھوڑا آگے روانہ کیا جاتا ہوگا کہ وہ اگلے پڑاءو سے متعلق خبر لاءے؟
اور ڈاکوءوں سے نمٹنے کے لیے ان قافلوں کے پاس کیا حکمت عملی ہوتی ہوگی؟ کیا قافلے میں چند لوگ ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہوں گے؟ میر کارواں کن صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہوگا؟ یقینا وہ دانا شخص ہوتا ہوگا جو کءی زبانیں جانتا ہوگا۔ ستاروں کی مدد سے سمت کا تعین کرنے کا اہل ہوتا ہوگا۔ کیا  زمانہ قدیم کے ان میران کاروان کے پاس یہ علم آگیا تھا کہ سفر میں سب سے زیادہ احتیاط پانی کے سلسلے میں کرنی ہوتی ہے؟  کیا کہیں یہ میران کاروان سفر ایک دوسرے کو یہ بات بتاتے ہوں گے سفر میں صرف چاءے پی جاءے یا پھلوں کے رس سے جسم کی پانی کی ضروریات پوری کی جاءیں؛ کہ عام پانی پینا انتہاءی خطرناک ہے۔ قدیم وقتوں کے سر پھرے جہاں نورد یقینا ان ہی کاروانوں کے ساتھ دنیا کی سیر کے لیے نکل جاتے ہوں گے۔ اور جب یہ آوارہ گرد کسی اچھی جگہ ٹہر جاتے ہوں گے اور ان کا قافلہ آگے روانہ ہوجاتا ہوگا تو یہ کس قدر بے چینی سے اگلے قافلے کی روانگی کا انتظار کرتے ہوں گے؟
کاروان میں شامل کوءی شخص بیمار پڑجاءے تو اس کے علاج معالجے کا کیا انتظام کیا جاتا ہوگا؟ اگر کوءی شامل قافلہ شخص مر جاءے تو یقینا اس کو راستے ہی میں گاڑ کر کاروان آگے بڑھ جاتا ہوگا۔  کیا زمانہ قدیم کے یہ تاجر مختلف علاقوں میں پڑاءو کرتے ہوءے اپنے بچے ان علاقوں میں چھوڑ جاتے تھے؟ کیا اسی وجہ سے باکی میں بہت سے لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو دیسی شکلوں کے ہیں؟ کیا ملتان میں بھی باکی کے بہت سے بچے موجود ہیں؟
اور سب سے اہم سوال یہ کہ آیا پاکستان سے تعلق رکھنے والا کوءی محقق ان قافلوں پہ تحقیق کررہا ہے کہ درج بالا سوالات کے جوابات حاصل کیے جا سکیں؟






Labels: , , , , ,


 

کوہ قاف



اگست گیارہ، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچاس


کوہ قاف

علی حسن سمندطور

 احوال سفر۔ جولاءی اٹھاءیس۔
  
یہ کمرہ بہت بڑا ہے اور اسی وجہ سے بہت ٹھنڈا ہے۔ سرد علاقوں میں اتنے بڑے کمرے بنانے کی کیا تک ہے؟ مگر ہمیں اوڑھنے کے لیے جو لحاف دیے گءے تھے وہ دبیز تھے اور کمرہ ٹھنڈا ہونے کے باوجود رات کو ہمیں ٹھنڈ محسوس نہ ہوءی۔ میں اس وقت کوہ قاف میں ہوں۔ وہی کوہ قاف جو ہمارے علاقے کی دیومالاءی کہانیوں میں پریوں کا دیس ہے۔ کوہ قاف کی یہ کہانیاں ہمارے پاس فارس سے آءی ہیں۔ فارس کے لیے کوہ قاف پہاڑوں میں واقع ایسی ہی جگہ تھی جہاں دیو ہیکل مرد اور پری چہرہ عورتیں بستی تھیں۔ یہ وہی کوہ قاف ہے جس سے منسوب کوہ قافی [کاکیژین] نسل ہے۔ اس قصبے کا نام کاذبغی ہے اور یہ ملک گرجستان [جورجیا]  میں روس کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں آپ کو چرواہے گاءے کے ریوڑ ہانکتے نظر آءیں گے۔ گاءوں کی فضا میں گوبر کی سوند بسی ہوءی ہے۔ روءی کے گالوں جیسے بادل پہاڑوں کی چوٹیوں سے سر جوڑے نظر آتے ہیں۔ کل شام سے وقفے وقفے سے بارش ہورہی ہے۔ ہم گرجستان کے دارالحکومت تبلیسی سے یہاں پہنچے ہیں۔  تبلیسی سے گرجستان کے دوسرے شہروں میں جانے کے لیے دودوبے کا بس اڈہ استعمال ہوتا ہے۔ ہم میٹرو سے دودوبے کے اسٹیشن پہ پہنچے تو اسٹیشن کے باہر موجود ایسے لوگ ملے جو سیاحوں کی مدد کے لیے تیار تھے۔  ان میں سے ایک نے ہم سے کسی شہر کا نام لیا۔ ہم نے جواب میں کازبغی کہا تو وہ ہمارے ساتھ چل دیا۔ کوانتو پرسوناز، اس نے ہسپانوی میں سوال کیا۔ ہم نے جواب دیا، 'کواترو' ۔ ہم اس شخص کی راہ نماءی میں اس جگہ پہنچے جہاں سے کاذبغی کے لیے گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں تو وہاں ایک وین کو پر پایا۔   ڈراءیور نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بتایا کہ اب اس کی گاڑی میں مزید لوگوں کی گنجاءش نہیں تھی۔ ہمارے ساتھ آنے والا خداءی مددگار اب دوسری گاڑیوں کو کاذبغی چلنے کے لیے راضی کرنے لگا۔ کاذبغی جانے والی چند اور سواریاں جمع ہوچکی تھیں اور یہ سواریاں قیادت کے لیے اس رضاکار کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ رضاکار نے ایک ڈراءیور سے مختصر بات کر کے اس کی وین کا دروازہ کھول کر لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا مگر اس وین کے ڈراءیور کو رضاکار کی یہ دیدہ دلیری پسند نہ آءی اور اس نے غصے سے وین کا دراوازہ بند کرلیا۔ وہاں ایک اور وین موجود تھی۔ اس وین کی ایک کھڑکی کا شیشہ غالبا حال میں ٹوٹا تھا اور کانچ کے ٹکڑے نشست اور فرش پہ پڑے ہوءے تھے۔ رضاکار نے اس وین کے ڈراءیور کو کاذبغی جانے کے لیے تیار کر لیا۔ مسافروں نے خود ہی شیشے کے ٹکڑے نشست سے صاف کیے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا لی۔ ہمارے ساتھ چار خواتین کی ایک ٹولی وین میں سوار ہوءی ۔ خواتین نے بس اڈے سے کھانے پینے کی بہت سی چیزیں لی تھیں۔ وہ مستقل کھاتی پیتی رہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے بءیر کی ایک بڑی بوتل کھولی اور تمام سہیلیوں کو گلاسوں میں بءیر پیش کی۔ کچھ دیر بعد جب ان پہ خمار چڑھا تو ان کو خوب ہنسی آءی اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کھن کھن ہنستی رہیں۔ وین تبلیسی سے نکل کر پہاڑ پہ چڑھنے لگی۔ جیسے جیسے ہم اونچاءی پہ چڑھتے گءے ہوا لطیف ہوتی گءی۔
جولاءی انتیس
کاذبغی کی جان وہ سڑک ہے جو قصبے کے وسط سے گزرتی ہے؛ اس پہ شمال کی طرف جانے والے مسافر روس جا رہے ہوتے ہیں اور بجنوب جانے والے مسافر تبلیسی۔ اس سڑک کے ساتھ ہی خیوی کیفے ہے۔ یہ ریستوراں ایک خاندان چلاتا ہے۔ چار بہنیں مسافروں کو کھانا پیش کرتی ہیں جب کہ ان کی ماں باورچی خانے میں کام کرتی نظر آتی ہے۔ جب رش ذرا تھم جاءے اور دختران خیوی کو فرصت کے چند لمحات میسر آءیں تو یہ مقامی آلات موسیقی بجاتی ہیں اور سب سے چھوٹی بہن لوچ دار آواز میں گانا گاتی ہے۔ کل جب میں نے گانے اور موسیقی کی یہ آواز سنی تھی تو مجھے خیال ہوا تھا کہ شاید یہ گانا ریڈیو پہ بج رہا تھا مگر آج کھانے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ ڈھول کی تاپ گانے کی لو سے بلند تر ہے اور یہ ساز یہیں ریستوراں میں بجایا جا رہا ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو تین دختران خیوی کاءونٹر کے پیچھے موجود تھیں۔ میں تجسس میں وہاں پہنچ گیا۔ میرے کاءونٹر پہ پہنچتے ہی گانا رک گیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آیا مجھے کچھ چاہیے۔ "نہیں، میں تو دیکھنے آیا تھا کہ کون اتنا اچھا گا رہا ہے۔ تم رک کیوں گءیں؟ گاءو۔" تینوں بہنوں نے شرما کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر طے کیا کہ وہ کونسا گانا گاءیں گی۔ ڈھول پہ تاپ پڑی، چھوٹی بہن نے چارتارہ بجایا اور ساتھ گانا شروع کیا۔ ایششنا، دھاروینا، اولا، تلاویونا، ساہو وے ونا۔ وہ غالبا گرجستان میں فی زمانہ ایک مقبول گانا تھا کیونکہ میں نے یہ گانا اور جگہ بھی سنا تھا۔ گانا ختم ہوا تو میں نے تالی بجا کر ان کے فن کو سراہا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد میں ریستوراں سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔ کاءونٹر کے پیچھے سے چھوٹی دختر خیوی نے سر نکالا اور شرماتے ہوءے مجھے ہاتھ ہلا کر خداحافظ کیا۔ میں نے بھی ہاتھ ہلایا اور سوچا کہ کبھی زندگی میں پھر کاذبغی جانے کا موقع ملا تو معلوم کروں گا کہ کوہ قاف کی ان فن کار، خوش آواز پریوں کو بیاہ کر لے جانے والے شہزادے انہیں کہاں لے گءے ہیں۔



Labels: , , , ,


 

ہمت مرداں، مدد خدا


اگست چار، دو ہزار تیرہ
 ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انتالیس
  
ہمت مرداں، مدد خدا
  
علی حسن سمندطور

احوال سفر۔ جولاءی سترہ۔
زندگی کے نہ جانے کس موڑ پہ یہ بات سمجھ میں آگءی تھی کہ جو دل میں ٹھانو کر جاءو اور ایسا کرنے میں ہمت نہ ہارو کہ ہار کسی چیز کا نام نہیں ہے، ہارتا وہ ہے جو ہار مان جاتا ہے۔
چنانچہ کل ترکی کے شہر قرص سے نکل کر گرجستان [جورجیا] کے قصبے اخلتس ایخ پہنچنے پہ معلوم کیا تھا کہ حیاستان [آرمینستان یا آرمینیا] کے شہر یرے وان کے لیے بس کب کب روانہ ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں سے یرے وان کے لیے صرف ایک بس جاتی ہے، صبح ساڑھے آٹھ بجے۔ یہ سن کر دل بجھ گیا۔ ہم پورے دن کے سفر کے بعد تھک گءے تھے اور بالکل ہمت نہ تھی کہ اگل صبح سویرے ہی اٹھ کر بس پکڑی جاءے۔ مگر سفر کے دنوں کا جو حساب لگایا تھا اس حساب سے گرجستان چھوڑ کر حیاستان جانا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ دل میں ٹھانی کہ صبح آرام سے اٹھیں گے، مگر حیاستان جاءیں گے ضرور؛ اپنی آسانی سے گرجستان اور حیاستان کی سرحد پار کریں گے۔ خیال تھا کہ اخلتس ایخ سے ایسی مرشروتکا [چھوٹی بس یا وین] ضرور مل جاءے گی جو حیاستان کی سرحد تک پہنچا دے گی۔ پھر سرحد تک پہنچ کر پیدل سرحد پار کریں گے اور حیاستان میں داخل ہونے پہ کوءی دوسری سواری تلاش کریں گے جو حیاستان کے شہر گومری پہنچاءے۔ گومری سے یرے وان تک کی بس تو ضرور مل جاءے گی۔ یہ تو وہ منصوبہ تھا جو دل میں باندھا تھے۔ کیا ہونے والا تھا اس کا اندازہ ہمیں بالکل نہ تھا۔
سستے ہوٹلوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے غسخانے میں نکاسی کا پاءپ پھنسا ہوتا ہے۔ ہوٹل پریسٹیج جہاں ہم ٹہرے تھے، وہاں بھی ایسا ہی قصہ تھا۔ چنانچہ صبح جب نہا کر فارغ ہوءے تو غسلخانے میں قریبا ٹخنے تک پانی کھڑا تھا۔
ہوٹل کے کراءے میں ناشتہ شامل نہ تھا چنانچہ نہا کر کھانے کی تلاش میں باہر نکلے۔ قریب ہی ایک نان باءی تازہ نان بنا رہا تھا۔  اس سے دو خوشبودار نان خریدیں، ساتھ ہی ایک دکان سے دہی خریدا اور واپس کمرے میں آکر ناشتہ کیا ۔
کمرہ چھوڑتے چھوڑتے گیارہ بج چکے تھے؛ ہوٹل کی مالکہ ہمیں ہوٹل سے روانہ کرنے کے لیے بے چین تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ ہوٹل میں ماسکو کے طلبا کا ایک بڑا گروپ آنے والا تھا۔ ہم ہوٹل سے نکل کر پیدل چلنا شروع ہوءے اور قصبے کے مرکز سے گزرتے ہوءے بس ٹرمینل تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ یریوان کے لیے بس تو بہت پہلے جا چکی تھی۔ گرجستان اور حیاستان کی سرحد کے قریب واقع قصبے اخل قلاقی  جانے کے لیے مرشروتکا ڈیڑھ بجے روانہ ہونا تھی۔ اخلتس ایخ کے بس اڈے پہ ایک ٹیکسی والا مل گیا جس نے ہم کو راضی کر لیا کہ بس کے لیے اتنا لمبا اتنظار کرنے کے بجاءے کچھ اضافی رقم خرچ کر کے اس کے ساتھ اخل قلاقی جانا بہتر ہے۔ چنانچہ ہم نے ٹیکسی اور بس کے کراءے میں فرق کا حساب لگایا، بچنے والے وقت کا خیال کیا اور پھر ٹیکسی سے اخل قلاقی کے لیے چل پڑے۔ راستہ خوبصورت تھا۔ ہم پہاڑوں میں چل رہے تھے۔ گھنٹےبھر سے زیادہ کی مسافت کے بعد اخل قلاقی کے بس اڈے پہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آرمینستان جانے کے لیے آج کوءی سواری نہیں ہے؛ اگلی بس سویرے چلے گی۔ اب کیا کریں؟ ٹیکسی والے سے پوچھا کہ ہمیں آرمینستان کی سرحد تک پہنچانے کے کتنے لو گے۔ اس نے مناسب رقم بتاءی۔ چنانچہ اس کی ٹیکسی پھر چل پڑی۔ اب سڑک خراب ہوچکی تھی۔ لگتا تھا کہ یہ راستہ زیادہ لوگوں کے استعمال میں نہیں ہے اور اسی لیے اس سڑک کی مرمت کی طرف سرکار کا دھیان بھی نہیں ہے۔ گھنٹے بھر کے مزید سفر کے بعد ہم گرجستان-آرمینستان کی سرحد پہ پہنچ گءے۔ یہاں سرحد عبور کرنے والے ٹرک تھے یا نجی گاڑیاں؛ پیدل  بس ہم ہی تھے۔ پیدل چلتے ہوءے گرجستان کی امیگریشن چوکی تک پہنچے۔ گرجستان والوں سے خروج کی مہر لگواءی اور آرمینستان کی چوکی کی طرف چل پڑے۔ ان دونوں چوکیوں کے درمیاں قریبا تین میل کا فاصلہ تھا۔ موسم گرم تھا اور دھوپ نکلی ہوءی تھی۔ تیز رفتار ٹرک اور گاڑیاں ہمارے قریب سے گزر رہیں تھیں۔ حیاستان کی چوکی تک پہنچنے سے پہلے حیاستان کے دو سپاہی ملے جنہوں نے ہم سے حیاستانی زبان میں سوالات کیے۔ ہم نے حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے پاسپورٹ طلب کیے۔ انہوں نے ہمارے پاسپورٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا، چند بے تکے سوالات کیے اور آگے بڑھ گءے۔ ہم پیدل چلتے ہوءے حیاستان کی امیگریشن چوکی تک پہنچ گءے۔ ہم نے حیاستان کے امیگریشن  افسر سے درخواست کی کہ وہ ہمارے پاسپورٹ میں دخول کی مہر نہ لگاءے کہ ہمیں آذرباءیجان جانا ہے اور آذرباءیجان والوں کو شاءد ہمارا حیاستان جانا پسند نہ آءے۔ واضح رہے کہ حیاستان کی آذرباءیجان سے نہیں بنتی۔ آذرباءیجان دو غیرمنسلک حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ بڑا مشرقی حصہ جہاں دارالحکومت باکو ہے، اور چھوٹا مغربی حصہ جو ترکی کی سرحد کے ساتھ ہے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان آذرباءیجان کی آنکھ میں کھٹکنے والا ملک حیاستان ہے۔ حیاستان کے افسر نے ہماری بات حیرت سے سنی اور اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ ہمارے پاسپورٹ میں دخول کی مہر نہ لگاءے۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ آیا چوکی کے باہر قریب ترین شہر کے لیے ہمیں کوءی سواری مل جاءے گی۔ یہ گفتگو ایک مسافر نے سن لی۔ اس نے پیشکش کی کہ وہ ہمیں اپنی گاڑی پہ قریب ترین شہر گومری چھوڑ دے گا۔ چنانچہ چوکی سے باہر نکل کر ایک ایسی گاڑی میں سوار ہوگءے جو اس مسافر کا دوست چلا رہا تھا۔ یہ لوگ یا تو مقامی زبان جانتے تھے یا روسی، چنانچہ ان سے بات نہ ہوپاءی۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھے 'ہزارہا شجر ہیں راہ میں سایہ دار کیے' والی تاکید کے بارے میں سوچ رہے تھے۔




This page is powered by Blogger. Isn't yours?