Thursday, December 07, 2006

 

دنیا کی آبادی کتنی ہونی چاہیے؟



آپ مجھ سے یہ سوال چند سال پہلے کرتے تو میں سختی سے جواب دیتا کہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے زیادہ نہیں بڑھنی چاہیے اور میں اس عدد کی توجیہ میں کئی دلائل پیش کرتا۔ میں محدود آبی اور دوسرے قدرتی وسائل کا تذکرہ کرتا۔ میں حجت کرتا کہ نئے دور کے انسان کو روزمرہ کے کام مکمل کرنے کے لیے کس قدر توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور کس طرح اس ساری دوڑ کا براہ راست تعلق ماحولیاتی آلودگی اور دوسرے مسائل سے ہے۔ مگر یہ سب چند سال پہلے کی باتیں ہیں۔ آج اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ دنیا کی آبادی کتنی ہونی چاہیے تو میں آپ سے پلٹ کر پوچھوں گا کہ یہ آبادی کن لوگوں پہ مشتمل ہو گی۔ اگر اس تخیلاتی آبادی کے بیس فی صد لوگ بھی آئن اسٹائن کا ذہن رکھتے ہیں تو پھر آبادی جتنی زیادہ ہو اتنا کم ہے کہ یہ ذہین لوگ بڑی آبادی کے ساتھ ابھرنے والے ہر مسئلے کا حل نکال لیں گے۔


Sunday, December 03, 2006

 

عاطف اسلم کے نام



نہ جانے کب سے
امید کچھ باقی ہے
مجھے پھر بھی تیری یاد
کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے

عاطف اسلم کا یہ گانا میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے شاید پچاسویں دفعہ سنا ہے۔

آج سے بیس سال پہلے تک ہمارے موسیقار روایتی آلات موسیقی سے چمٹے ہوئے تھے۔ گٹار کہیں کہیں نظر آ جاتا تھا اور عالمگیر اور شہکی موسیقی کی باغی آوازیں خیال کیے جاتے تھے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں پانچ ستارہ ہوٹلوں میں مغربی طرز کے بینڈ نظر آتے تھے مگر وہ بینڈ اختراع نہ کرتے تھے بلکہ چرائے ہوئے مغربی گانے گاتے تھے۔
پھر اچانک ایک بڑی تبدیلی آئی۔ نئی نسل کے موسیقار جنہیں مغربی آلات موسیقی سے زیادہ انسیت تھی انہوں نے ان آلات پہ بنائی گئی دھنوں میں اردو میں گانا شروع کر دیا۔ شاید اس انداز کی ابتدا نازیہ اور صحیب حسن نے کی۔ مگر نازیہ اور صحیب کی موسیقی انگلستان اٹھی تھی۔ موسیقی کی اس نئی لہر کو صحیح معنوں میں عام قبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب اس نے ہماری دھرتی سے جنم لینا شروع کیا۔ شاید وائٹل سائنز اور پھر جنون کو موسیقی میں اس انقلاب کا بانی سمجھا جائے گا۔ اور اب یہ حال ہے کہ پاکستان میں اٹھارہ بیس سال کے نوجوان اس غضب کی موسیقی تشکیل دے رہے ہیں کہ آپ سر دھنتے رہ جائیں۔

یہ دراصل نئی نسل کا اپنے اوپر اعتماد ہے۔ وہ سینہ ٹھوک کر کہ رہے ہیں کھ، نئے دور کی ساری چیزیں ہماری ہیں۔ یہ گٹار، یہ ڈرم، سب ہمارا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے ایجاد کیے ہوئے کھیلوں میں مہارت حاصل کر کے ان قوموں کو شکست دے سکتے ہیں جو ان کھیلوں کی موجد ہیں تو پھر موسیقی کے میدان میں ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ پاکستان کے بیشتر لوگ جس مذہب کے ماننے والے ہیں وہ بھی تو بہت دور سے ہمارے پاس آیا ہے۔
روایت آخر کیا ہے؟ کیا روایت ماضی سے زبردستی چمٹے رہنے کا نام ہے؟
مگر وقت تو آگے بڑھ رہا ہے۔ معاشرے تو اسی وقت آگے بڑھتے ہیں کہ جب وہ روایت سے بغاوت کریں۔

پچھلے سال اکتوبر میں جس وقت میں پاکستان میں تھا عاطف اسلم نے لوگوں کو اپنی موسیقی کے سحر میں گرفتار کیا ہوا تھا اور ان کا یہ گانا ہر جگہ سنائی دیتا تھا۔
وہ موسیقی جو مجھے پسند آئے مجھ پہ ایک عجیب جادو کرتی ہے۔ یہ مجھے ایک خاص وقت کے ساتھ باندھ دیتی ہے۔
دو روز پہلے جب میں سنی ویل کے شالیمار ریستوراں میں کھانا کھا رہا تھا تو عاطف اسلم کا یہی گانا بجنے لگا اور یہ موسیقی مجھے گھسیٹ کر پاکستان لے گئی۔

نہ جانے کب سے
امید کچھ باقی ہے
مجھے پھر بھی تیری یاد
کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے

دور جتنا بھی تم مجھ سے
پاس تیرے میں
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
زندگی سے کوئی شکوہ بھی نہیں ہے
اب تو زندہ ہوں میں اس نیلے آسماں میں

چاہت ایسی ہے یہ تیری
بڑھتی جائے
آہٹ ایسے ہے یہ تیری
مجھ کو ستائے
یادیں گہری ہیں اتنی
دل ڈوب جائے
اور آنکھوں میں یہ غم نم بن جائے


اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں


سبھی یادیں ہیں
سبھی باتیں ہیں
بھلا دو انہیں
مٹا دو انہیں

اب تو عادت سی ہے مجھ کو


Friday, December 01, 2006

 

زنداں میں تعطیلات کا ایک اور موسم



آج شام میری بات واڎمہ مجددی سے فون پہ ہوئی تھی۔ واڎمہ حامد حیات کی وکیل ہے۔ واڎمہ نے بتایا کہ وکلا صفائی نے عدالت کے سامنے گزار شات پیش کردی ہیں کہ مقدمے کی سماعت نئے سرے سے کیوں ہو۔ اب ان گزار شات کے جواب میں استغاثہ کو اپنے دلائل پیش کرنے ہیں۔ وکلا صفائی نے گزارشات بیس اکتوبر کے دن عدالت میں جمع کرائی تھیں۔ استغاثہ اپنے دلائل دسمبر ۲۰ تک پیش کرے گا، پھر عدالت کی سماعت جنوری ۱۹ کے دن ہوگی۔
کس قدر آہستگی سے ہوتی ہے یہ عدالتی کاروائی۔ ہالووین، تھیکس گونگ، اور اب کرسمس۔ تعطیلات کا یہ ایک اور موسم حامد حیات قید میں گزارے گا۔ وہ کیا سوچتا ہوگا؟ کیا انصاف پہ اس کا اعتبار مکمل طور سے اٹھ گیا ہوگا؟



 

بستی



پچھلی صدی میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہروں کی طرف ہجرت نے معاشرتی زندگی کا ڈھنگ بدل دیا۔ کوئی بھی شخص کہیں سے اٹھ کر کہیں پہنچ گیا۔ آج دنیا کے بیشتر بڑے شہروں میں لوگوں کو اپنے پڑوسیوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے شہروں میں جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے اور لوگوں کا چھپ جانا آسان ہے، جرائم کی شرح دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں جرم اور تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دو مکروہات خوف کی فضا کو جنم دیتے ہیں۔ ایک ایسی خوف کی فضا جس میں لوگوں کی قدرتی صلاحیتوں پہ قدغن لگتی ہے اور آزاد فکر دم توڑتی ہے۔ اگر ہمیں ایسا مثالی معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں ہر فرد اپنی صلاحیتوں کی اعلی ترین منزل تک پہنچ جائے تو ہمیں جرم اور تشدد سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں ایسی بستیوں میں بسنا ہوگا جہاں ہم ایک دوسرے کو جانتے ہوں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، اور جہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ وہ کسی فرد یا معاشرے کے خلاف جرم کر کے چھپ جائے گا۔



This page is powered by Blogger. Isn't yours?