Monday, October 29, 2012

 

عمران خان سان ہوزے میں





اکتوبر انتیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو نو


 عمران خان سان ہوزے میں



خیال ہے کہ پاکستان میں انتخابات اگلے سال کے اول حصے میں ہوں گے۔ انتخابات کے اسی امکان کے پیش نظر پاکستانی سیاست میں گہما گہمی پاءی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے علم میں ہے کہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر رقم چاہیے ہوتی ہے۔ اور اسی لیے رقم کا انتظام کرنے کے لیے سیاسی راہ نما سرگرم نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چءیرمین عمران خان کو معلوم ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں میں کافی مقبول ہیں۔ اسی لیے عمران خان انتخابات کے لیے چندہ جمع کرنے کی غرض سے آج کل شمالی امریکہ آءے ہوءے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق جب موجودہ دورے میں عمران خان کینیڈا سے امریکہ کے لیے روانہ ہوءے تو انہیں جہاز سے اتار لیا گیا اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے افسران نے عمران خان سے ان کے سیاسی اور عسکری خیالات پہ پوچھ گچھ کی۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی اس احمقانہ کارواءی سے ہم تمام ٹیکس دینے والوں پہ یہ بات واضح ہو گءی ہے کہ امریکیوں کی حفاظت پہ ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہوم لینڈ سیکیورٹی کو اب تک یہ نہیں پتہ کہ اس کا منہ کہاں ہے اور دم کہاں۔ عمران خان پاکستان کے ایک نمایاں سیاسی قاءد ہیں؛ان کے خیالات صبح و شام اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور ویڈیو کی شکل میں باآسانی انٹرنیٹ پہ ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ پھر عمران خان کو جہاز سے اتار کر ان کے خیالات معلوم کرنے کی کیا تک تھی؟ اس واقعے کی اندرونی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون احمق افسر تھا جس کی ایما پہ عمران خان کو جہاز سے اتار کر ان سے پوچھ گچھ کی گءی۔
عمران خان ٹورنٹو سے نیویارک آءے اور پھر وہاں سے سییاٹل پہنچے۔ وہاں چندہ مہم کی تقریب میں شرکت کر کے سان فرانسسکو بے ایریا پہنچے۔ اس علاقے میں پہنچتے ہی انہوں نے دوپہر کے کھانے پہ ایک چھوٹے گروہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے لیے ہر شریک سے پانچ ہزار ڈالر لءیے گءے تھے۔ پھر اسی روز یعنی اتوار اکتوبر اٹھاءیس کو رات کے کھانے پہ انہوں نے پانچ سو افراد کی ایک محفل سے خطاب کیا۔ اپنے ہنگامی دورے میں عمران خان ہر شہر میں بہت مختصر قیام کر رہے ہیں مگر اس بھاگم دوڑ کے باوجود اتوار کی رات عمران خان چاق و چوبند نظر آءے۔ دنیا میں ایسے کم لوگ ہوں گے جو ساٹھ سال کے پیٹے میں جسمانی طور پہ اس قدر چست ہوں کہ جیسے عمران خان ہیں۔ یہ عمران خان کا کمال ہے کہ انہوں نے اٹھارہ بیس سال کی عمر سے لے کر اب تک اپنے آپ کو مستقل روشن ستارہ اور خبروں کی زینت بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یقینا ایسا کرنے کے لیے عمران خان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان کے بال باقاعدگی سے رنگے جاتے ہیں اور وہ روز سخت ورزش کر کے اپنے آپ کو بہترین جسمانی شکل میں رکھتے ہیں۔ اسی محنت کا انعام ہے کہ ایک زمانہ ان پہ فدا ہے۔ اور اسی لیے جب عمران خان کسی تقریب میں شرکت کریں تو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ایسی محفل میں شرکت کرنے والے کتنے لوگ عمران خان کے سیاسی خیالات سے متفق ہیں اور کتنے ہیں جو محض عمران خان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے آءے ہوءے ہیں۔  اکتوبر اٹھاءیس کی تقریب میں عمران خان نے وہی باتیں کیں جو وہ کرتے آءے ہیں۔ ان کی پیش گوءی تھی کہ آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت یعنی تحریک انصاف مکمل جھاڑو پھیر دے گی۔ [پاکستان کی بازاری زبان میں 'سوءپ کرجاءے گی' کا فقرہ استعمال کیا جاتا ہے۔] ان کی اس بات پہ ان کے مداحوں نے خوب تالیاں بجاءیں اور کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے ملتان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالقادر گیلانی نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ کے مشترکہ امیدوار کو شکست دی تھی، اس بارے میں عمران خان کیا کہتے ہیں۔ عمران خان کی تقریر کی سب سے اہم بات طالبان سے متعلق عمران خان کے خیالات تھے۔ واضح رہے کہ ترقی پسند حلقوں میں اس بات کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ عمران خان کبھی طالبان کی کسی ظالمانہ کارواءی کی مذمت طالبان کا نام لے کر نہیں کرتے اور طالبان کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی قتل و غارت گری کی واردات کو گھما پھرا کر ڈرون حملوں اور پاکستان کی امریکہ دوستی سے جوڑ دیتے ہیں۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے کہا کہ طالبان کسی ایک گروہ کا نام نہیں ہے بلکہ بہت مختلف طرح کے لوگ طالبان کے نام پہ جمع نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایسے لوگ جو ڈنڈے کے زور پہ اپنی من پسند اسلامی حکومت قاءم کرنا چاہتے ہیں بہت تھوڑے ہیں۔ دوسرا گروہ ان پشتون لوگوں کا ہے جو روایتی طور پہ باہر سے آنے والی ہر طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ تیسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک جہاد کے لیے تیار کیے گءے تھے مگر اب خود اپنے ملک میں تخریبی کارواءیاں کر رہے ہیں۔ چوتھی طرح کے طالبان وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ امریکہ کی جنگ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے اور اس لیے امریکہ سے اور اس کی حلیف پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا ایک جہاد ہے۔ اور پانچواں گروہ  ان لوگوں کا ہے جن کے رشتہ دار امریکی حملوں میں بے گناہ ہلاک ہوءے ہیں اور اب وہ بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اور چھٹے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو جراءم پیشہ ہیں اور طالبان کا نام استعمال کرتے ہوءے اغوا براءے تاوان جیسے دھندوں میں ملوث ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ہی امریکہ کی جنگ سے باہر نکلا طالبان کے درج بالا بیشتر گروہ پاکستان اور پاکستانی فوج سے لڑنا چھوڑ دیں گے اور پھر پاکستان کے لیے ایک نسبتا چھوٹے گروہ سے لڑنا زیادہ آسان ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان واقعی اتنے بھولے ہیں کہ وہ پاکستان میں بتدریج بڑھنے والی مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو امریکہ کی جنگ کے ردعمل کے ایک چھوٹے سے حصے کے طور پہ دیکھتے ہیں؟
عمران خان کی تقریب کی تصاویر یہاں ملاحظہ کریں:
تقریب کی یڈیو جھلکیاں یہاں دیکھیں:
طالبان سے متعلق عمران خان کے خیالات یہاں سنیں:

 

Labels: , , , , , ,


Monday, October 22, 2012

 

سچی اسلامی ریاست کا خواب




اکتوبر باءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو آٹھ


 سچی اسلامی ریاست کا خواب





ملالہ پہ حملے کے بعد اب سب پہ واضح ہو گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو جنگ جاری ہے وہ دراصل پاکستان کی روح کی جنگ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں آءندہ کس طرح کی حکومت قاءم ہوگی۔ اس سلسلے میں کءی اصطلاحات بغیر وضاحت کے استعمال کی جا رہی ہیں۔ سیکولر حکومت، اسلامی حکومت، شریعت، نظام مصطفی۔  کیونکہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لیے اسلامی ریاست کا خیال بہت سے لوگوں کو بھاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا نعرہ سن کر بہت سے لوگ جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور بغیر یہ سوال کیے کہ اسلامی نظام کا کیا مطلب ہے اسلام کا نعرہ لگانے والوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ اس وقت دیوبندی اسلام سے لے کر آغا خانی مسلک تک ہر طرح کے اسلام موجود ہیں، جن کے ماننے والے ایک دوسرے کو مستقل کافر قرار دیتے رہتے ہیں۔ کوءی یہ سوال نہیں کرتا کہ 'نظام مصطفی' میں کس برانڈ کا اسلام ہم پہ مسلط کیا جاءے گا۔ سب پہ واضح ہو کہ آج جو لوگ شریعت کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ ہم پہ اپنا من پسند اسلام لاگو کرنا چاہتے ہیں؛ وہ اسلام جس کے یہ ٹھیکے دار ہیں اور جس کے حساب سے صرف یہ صراط مستقیم پہ ہیں اور باقی سب گمراہ ہیں۔
بعض پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی نادانی میں عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی صحافی انصار عباسی نے اپنے حالیہ کالم میں تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان سیکولرزم کے نشانہ پہ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی گءی تو یہ ملک کو توڑنے کی ایک سنگین سازش ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ہی پاکستان کی وحدت کو قاءم رکھے ہوءے ہے اور اسلامی نظام ہی پاکستان کو یکجا رکھ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ انصار عباسی صاحب کو سنہ اکہتر کا سقوط پاکستان کا واقعہ یاد نہ ہو کہ اس وقت وہ صرف چھ سال کے تھے، مگر تاریخ کا مطالعہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سقوط ڈھاکہ نے ثابت کیا کہ اسلام کا بندھن کسی ایسے ملک کو یکجا نہیں رکھ سکتا جہاں انصاف نہ ہو۔ اگر کوءی ملک منصف ہے، وہاں امن و امان ہے، اور قانون ہر شہری پہ یکسا طور پہ لاگو ہوتا ہے تو وہ معاشرہ بہت مضبوط معاشرہ ہے اور لوگ اس جگہ پہ رہنا چاہیں گے۔ جہاں معاشرہ لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کرتا وہاں لوگ خود بخود اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور کسی جغرافیاءی خطے میں اکثریت رکھنے والے لوگ اپنے خطے کی آزادی کی جنگ لڑتے ہیں کہ انہیں خیال ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ اپنے لیے ایک بہتر منصف معاشرہ قاءم کر سکیں گے۔
پاکستان کے ان تمام لوگوں کو جو جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ انہیں طالبان کا، جماعت اسلامی کا، جمعیت علماءے اسلام کا اسلام قطعا قبول نہیں جس میں محض اسلام کا لیبل استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جو اسلام کی روح کے قریب تر ہو۔ اور ہمارے نزدیک وہ اسلامی روح تین ستونوں پہ قاءم ہے: عدل پہ، علم کی جستجو پہ، اور ماضی کے بجاءے موجودہ زمانے کے ساتھ چلنے کی خواہش پہ۔  ہم ایسے عادل پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں جہاں کے قانون سب پہ مساوی طور پہ لاگو ہوں۔ جہاں کسی مذہب، کسی منصب، کسی خاندانی تعلق، کسی زبان، کسی جغرافیاءی وابستگی کی بنیاد پہ کسی سے افضل یا احقر سلوک نہ کیا جاءے۔ ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں علم کو ترقی کی بنیاد گردانا جاءے اور جہاں لوگ علم  و تحقیق میں زمانے کے ساتھ یا زمانے سے آگے ہوں۔ اور ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جو جدید دنیا کے عمرانی رجحانات کے ساتھ چلے۔
ہم جس اسلامی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں اس میں ملک کے نام کے ساتھ اسلام کا لیبل لگانے کی کوءی ضرورت نہیں۔  ہم ایسے پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں جہاں مسلمان اپنے اچھے اعمال سے اپنے ساتھی مسلمانوں اور کفار کو دین حق کی طرف ماءل کریں، نہ کہ ڈنڈے کے زور پہ۔  ہم سعودی عرب کے نام نہاد اسلام کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم ایران کےنام نہاد اسلام کو شدید نا پاسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم ملاءیشیا جیسا اسلامی معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں مساجد بھی کھلی ہیں اور مے خانے بھی۔ جس کا دل چاہے نماز پڑھے، جوچاہے شراب پیے۔ ہم انسان کے ان انفرادی افعال کی جزا و سزا روز آخرت کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں جن افعال سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔
 

Sunday, October 21, 2012

 

شورش بربط و نے





ایک دوست کی فرماءش تھی کہ فیض کی نظم 'شورش بربط و نے' کے آخری مقبول عام حصے کا اچھا انگریزی ترجمہ تلاش کر کے انہیں ارسال کروں۔ انٹرنیٹ پہ تلاشا مگر مذکورہ نظم کا کوءی انگریزی ترجمہ نہ ملا۔ سوچا کہ میں خود ہی ان اشعار کا ترجمہ کردوں۔ چنانچہ یہ کم تر، آزاد ترجمہ حاضر ہے۔
اصلاح کا طالب
سمندطور

یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک، اس خوں میں حرارت ہے جب تک
Till these arms have life, and the blood is still warm

اس دل میں صداقت ہے جب تک، اس نطق میں طاقت ہے جب تک
Till the truth resides in the heart, and the voice is still strong
ان طوقِ سلاسل کو ہم تم، سکھلائیں گے شورشِ بربط و نَے
We will make music from these chains
وہ شورش جس کے آگے زبوں ہنگامۂ طبلِ قیصر و کَے
The kind of music that will shame the drums of Kaiser and Kay
آزاد ہیں اپنے فکر و عمل بھر پور خزینہ ہمت کا
We are free in our thoughts and actions, full of courage
اک عمر ہے اپنی ہر ساعت، امروز ہے اپنا ہر فردا
In every second we live our life; in today we live our tomorrow
یہ شام و سحر یہ شمس و قمر، یہ اختر و کوکب اپنے ہیں
The morning and the evening, the sun and the moon, and the stars, they are ours
یہ لوح قلم، یہ طبل و علم، یہ مال و حشم سب اپنے ہیں
This pen and paper which are our drum and the flag—these are our riches

Labels: ,


Tuesday, October 16, 2012

 

سفر کی ڈاءری




اکتوبر چودہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سات



 سفر کی ڈاءری


اکتوبر دس کی صبح جب میں کیل ٹرین کے اسٹیشن پہ کھڑی اءیر پورٹ فلاءیر میں داخل ہوا تو وہاں ہر شخص کو اپنے پی ڈی اے سے جوجتا پایا۔ آج سے مشکل سے دس بارہ سال پہلے آپ انتظار کرتے لوگوں کو کتابیں، اخبارات، اور جراءد پڑھتا دیکھتے تھے۔ اب یہی لوگ اپنے آءی فون میں مشغول ہوتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں عوامی ٹرانسپورٹیشن کا نظام بہت اچھا نہیں ہے اور گاڑی رکھے بغیر آپ کا گزارہ مشکل ہے مگر بے ایریا کے دونوں بڑے ہواءی اڈوں یعنی سان فرانسسکو اور سان ہوزے تک عوامی ٹرانسپورٹیشن کی سہولت موجود ہے۔ اگر مجھے سان فرانسسکو کے ہواءی اڈے سے اڑنا ہو تو میں کیل ٹرین اور بارٹ استعمال کرتے ہوءے باآسانی ہواءی اڈے تک پہنچ جاتا ہوں۔ سان ہوزے ہواءی اڈے کا معاملہ اور بھی آسان ہے۔ اگر میں کیل ٹرین کے سانٹا کلارا اسٹیشن تک پہنچ جاءوں تو وہاں سے ہر دس منٹ پہ ایک بس اءیرپورٹ فلاءیر شٹل کے نام سے چلتی ہے جو آپ کو مفت ہواءی اڈے پہنچا دیتی ہے۔  مگر کتنا ہی اچھا ہو اگر آپ ساءیکل سے ہواءی اڈے پہنچ سکیں؟ ساءیکل سے ہواءی اڈے جانے میں ان لوگوں کو یقینا مسءلہ ہوگا جو سوٹ کیس کے ساتھ سفر کرتے ہیں مگر میرے جیسے ہلکے پھلکے مسافر جو کمر پہ پشتی بستہ باندھ کر چل دیتے ہیں یقینا ساءیکل سے ہواءی اڈے جانے میں بہت آسانی محسوس کریں گے۔ آپ ساءیکل سے ہواءی اڈے پہنچیں، ساءکل کو ایک ریک سے تالے سے لگا کر جہاز میں چڑھ جاءیں۔ واپس آءیں تو ساءیکل پہ بیٹھ کر گھر آجاءیں۔ مجھے بے ایریا میں ساءیکل چلانے میں تکلیف یہ ہوتی ہے کہ اکثر و بیشتر آپ کے برابر سے گاڑیاں نہایت تیز رفتاری سے گزر رہی ہوتی ہیں اور اس بات کا عین امکان ہوتا ہے کہ کسی گاڑی کے ذرا سے بہک جانے سے آپ کا کام تمام ہو جاءے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ساءیکل راستے اور پیدل راستے سڑکوں سے بالکل الگ ہٹ کر بنے ہوں اور آپ ان راستوں پہ چلتے یا ساءیکل چلاتے ہوءے کہیں بھی پہنچ جاءیں؟  مجھے یقین ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں اور ساءیکل چلانے والوں کے لیے ایسے محفوظ راستے بناءے جاءیں تو میرے جیسے بہت سے لوگ اپنی گاڑیاں بیچ کر صرف ساءیکل پہ گزارا کریں گے۔ دو دن بعد واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر میں کانگریس مین ماءک ہونڈا کے دفتر گیا۔ آج کل کانگریس کی چھٹی ہے۔ اسی لیے ماءک ہونڈا بھی اپنے دفتر میں نہیں تھے۔ خیال تھا کہ ماءک ہونڈا سے پیدل اور ساءیکل چلانے والوں کے لیے بہتر راستوں کے موضوع پہ بات کروں گا۔ ہونڈا کی غیر موجودگی میں ان کی کرسی پہ بیٹھ کر تصویر کھنچوا کر واپس آگیا۔
 نوگیارہ کے فورا بعد ہواءی اڈے پہ سیکیورٹی کے انتظامات اس قدر سخت ہو گءے تھے کہ سیکیورٹی سے گزرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ کر کے اس عمل میں بہتری آءی اور اب اسکین کی وہ مشینیں آگءی ہیں جن کے سامنے پہنچ کر آپ ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک اسکینر باءیں سے داءیں چلتا ہے، دور بیٹھا کوءی شخص آپ کو برہنہ دیکھتا ہے، اور اگر آپ نے پستول یا آتش گیر مادہ نہ چھپایا ہوا ہو تو آپ کو آگے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔
سان ہوزے کے ہواءی اڈے پہ انٹرنیٹ کی سہولت مفت موجود ہے۔ میں نے اس سہولت سے فاءدہ اٹھاتے ہوءے جہاز جانے کے آخری اعلان تک کام کیا اور پھر گیٹ بند ہونے سے پہلے جہاز میں چڑھ گیا۔
جہاز پہ اتنی دیر سے چڑھنے کا نقصان یہ ہوا کہ تمام بالا خانے بھر چکے تھے۔ میں نے اپنی نشست سے اوپر بالاخانہ کھولنے کی کوشش کی تو قریب موجود پرسر نے کسی قدر ترشی سے کہا، "آل آف دم آر فل، سر۔" میرے دل میں آیا کہ اس سے پوچھوں کہ کیا میرا بستہ تم اپنے سر پہ اٹھا کر لے جاءو گے۔ مجھے تنبیہ کرنے کے بعد پھر وہ اچانک میری مدد کو آیا۔ شاید اسے خیال آیا تھا کہ میرا مسءلہ حل کیے بغیر جہاز نہ چل پاءے گا۔ اس نے کچھ فاصلے پہ موجود وہ بالاخانہ کھولا جس میں عملے کا سامان پڑا تھا۔ مجھے اس کھوکھے میں اپنا بستہ ٹھونسنے کی جگہ مل گءی۔
وانشگٹن ڈی سی میں یادگار لنکن پہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ یادگار لنکن سفید ستونوں کی ایک عمارت ہے جس میں لنکن کا بہت بڑا مجسمہ رکھا ہے۔ اس مجسمے میں لنکن ایک کرسی پہ نہایت شان سے بیٹھا ہے۔ بڑے ہال کے بغل میں داءیں اور باءیں چھوٹے ہال ہیں جن کی دیواروں پہ لنکن کی دو مشہور تقاریر لکھی ہوءی ہیں۔ ہم یادگار لنکن سے باہر نکلے اور سڑک پار کر کے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کی جہاں ہماری بس نے ہمیں اتارا تھا۔ دیکھا کہ ایک بس دوڑتی بھاگتی چلی آرہی ہے اور سڑک پار کرنے والوں کو راستہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ایک بس کو تو ہم نے اس طرح جانے دیا؛ جب اسی شکل کی دوسری بس نمودار ہوءی تو ہم کراس واک پہ آگءے اور ہاتھ کے اشارے سے بس کے ڈراءیور پہ ناراضگی دکھاءی کہ وہاں سڑک پار کرنے والے پیادہ افراد کا حق تھا وہ کیوں بس کو بے مہار ہاتھی کی طرح دوڑاتا آرہا ہے۔ ہم نے بس کے سامنے سے جان بوجھ کر آہستہ آہستہ سڑک پار کی۔ ہم ابھی سڑک کے دوسری طرف آءے ہی تھے کہ ایک زوردار آواز آءی، 'ایکسیوز می۔' لگتا تھا کہ کوءی ہم سے مخاطب ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک نوجوان پولیس والے کو وہاں موجود پایا۔ اس کی عمر اتنی ہوگی کہ اگر ہماری شادی اس عمر میں ہوجاتی جس عمر میں ایک نسل پہلے ہوا کرتی تھی تو ہمارا ایک بچہ اس عمر کا ہوتا۔ ہم نے استفسار سے پولیس والے کی طرف دیکھا۔ 'اس بس کے آگے پولیس کی گاڑی تھی۔ اور یہ تینوں بسیں اسی پولیس بدرقے میں چل رہی تھیں۔ تم کو چاہیے تھا کہ تم اس بس کو جانے دیتے۔ اگر کوءی بس پولیس بدرقے میں چل رہی ہو تو پھر تمھیں سڑک پار کرنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔' ہمیں حیرت ہوءی کہ وہ پولیس والا اچانک کہاں سے نمودار ہو گیا۔ ہم نے کہا کہ ہم نے دیکھا نہیں تھا کہ بس کے آگے پولیس کی نفری ہے۔ 'ہاں پولیس اس بس کے آگے تھی۔ سڑک پار کرنا اس وقت تمھارا حق نہ تھا،' اب کی بار اس نے ذرا سختی سے کہا۔ لگتا تھا کہ وہ نوجوان ہم سے لڑنا چاہ رہا تھا۔ اگر ہم ذرا بھی اس سے الجھتے تو بات خراب ہوسکتی تھی۔ ہم نے مصلحت یہی جانی کہ بات کو رفع دفع کریں۔ اس سے کہہ دیا کہ ہم آءندہ خیال رکھیں گے.


Monday, October 08, 2012

 

ایک اچھی خبر اور داستان گوءی کی محفل






اکتوبر آٹھ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھ
  
 ایک اچھی خبر اور داستان گوءی کی محفل

آج ایک اچھی خبر سے اس کالم کا آغاز کرتے ہیں۔ اور اس اچھی خبر کے وساءل بنے ہیں پاکستان کے دگرگوں حالات۔ بم دھماکے، قتل و غارت گری، ہڑتالیں، غرض کہ کسی نہ کسی بہانے سے کچھ کچھ عرصے بعد پاکستان کے اسکول اور کالج بند ہوجاتے ہیں۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کے باوجود پاکستانی طلبا کا پڑھاءی کا شوق کم نہیں ہوتا۔  ماں باپ اور خاندان کے دوسرے بزرگ مستقل بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسی افراتفری میں بچے گھر بیٹھے کیسے تعلیم حاصل کریں؟  اب سے دس سال پہلے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہ تھا مگر آج ایسی صورت نہیں ہے۔ اب خان اکیڈمی نامی ویب ساءٹ موجود ہے جس پہ بنیادی حساب سے لے کر کیلکولس، اور کیمیا، طبیعیات، اور دوسرے موضوعات پہ ہزاروں کے قریب تعلیمی ویڈیو موجود ہیں۔ آپ ایک ایک ویڈیو دیکھتے ہوءے، مشق کے سوالات حل کرتے ہوءے آگے بڑھتے رہیں تو آپ خان اکیڈمی کے ویڈیو دیکھ کر گھر بیٹھے اتنا علم حاصل کرسکتے ہیں جتنا کہ کسی اچھی جامعہ میں چار سال کی ساءنس کی ڈگری کے حق دار بننے میں حاصل ہوتا ہے۔ اور اب کورسیرا بھی ہے جس پہ آپ دنیا کی مشہور جامعات سے کراءے جانے والے مخصوص کورس مفت لے سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو انٹرنیٹ پہ موجود ان تمام سہولیات کے باوجود طلبا کے لیے مشکلات ہیں۔ اگر آپ کراچی میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں اور آپ کا اسکول شہر کے خراب حالات کی وجہ سے بند ہے تو آپ کیا کریں؟ آپ ایک کام تو یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی ریاضی کی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کریں اور جو بات آپ کو سمجھ میں نہ آءے اسے آپ انٹرنٹ پہ تلاش کریں؟ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آپ کی ریاضی کی کتاب کے ساتھ آپ کو ایک ڈی وی ڈی ملےجس میں ریاضی کی کتاب کے ہر سبق پہ ویڈیو موجود ہوں۔ ان ویڈیو میں آپ کو پوری بات مثالوں کے ذریعے سمجھاءی گءی ہو بالکل اس طرح جیسے اسکول میں ایک اچھا استاد آپ کو سمجھاتا ہے۔ بس جان لیں کہ آپ کی خواہش پوری ہوءی۔ کوشش فاءونڈیشن نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی کی کتابوں پہ تعلیمی ویڈیو تیار کر لیے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ تمام تعلیمی ویڈیو درج ذیل ویب ساءٹ پہ دستیاب ہیں۔
اسی ویب ساءٹ پہ ان کتابوں میں موجود ہر مشق کے سوالات کے حل بھی موجود ہیں۔ اگلے مرحلے میں ان تمام ویڈیو اور دیگر مواد کو ڈی وی ڈی پہ ڈال کر کراچی کے بازاروں میں لایا جاءے گا۔ کچھ ہی عرصے میں نویں دسویں کی کیمیا، طبیعیات، اور حیاتیات کی کتابوں پہ بھی کام شروع ہوگا اور یہ تعلیمی ویڈیو بھی انٹرنیٹ اور ڈی وی ڈی کی صورت میں فراہم کیے جاءیں گے۔
داستان گوءی۔
گزرے وقتوں میں رعایا کی زندگی حقیر تھی اور ساری قابل ذکر باتیں بادشاہ سے اور ان لوگوں سے وابستہ تھیں جن پہ بادشاہ کی نظر کرم ہو۔ بادشاہ کے دربار میں جہاں وزرا ور طبیب تھے وہیں گانے بجانے والے، شعرا، اور داستان گو بھی تھے۔ یہ لوگ بادشاہ کا دل بہلاتے اور اپنے ہنر کی داد بادشاہ سے انعام کی صورت میں پاتے۔  بادشاہت کا دور گیا تو درباری داستان گو، شعرا، اور گویوں کا بھی حقہ پانی بند ہوا۔  پھر ٹیکنالوجی نے بھی چھلانگ ماری اور ٹی وی اور فلم کا دور شروع ہوا۔ ہنرمندوں نے اپنے انداز بدلے اور ٹی وی اور  فلم کی دنیا میں گھس کر روٹی پانی کمانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا، مگر گویوں اور موسیقاروں کے مقابلے میں داستان گو اس طرح کا بھیس نہ بدل سکے اور اپنے آپ کو درباری داستان گو سے تبدیل کر کے عوامی داستان گو نہ بنا پاءے۔ ادبی حلقوں میں عام طور سے کہا جاتا ہے کہ اردو کے آخری داستان گو، میر باقر علی تھے جو سنہ ۱۹۲۸ میں انتقال کر گءے۔
ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین صاحب نے  میر باقر علی پہ اور اردو داستان گوءی پہ ایک عمدہ کالم لکھا ہے جو یہاں موجود ہے
واحد قباحت یہ ہے کہ اس کالم میں انتظار حسین صاحب نے ان کتابوں کا حوالہ نہیں دیا جن سے انہوں نے داستان گوءی کی اس تاریخ کے لیے استفادہ کیا۔  کہا جاتاہے کہ سر سید احمد خان نے اپنی کتاب آثار الصنادید میں داستان گوءی کے ہنر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ میر باقر علی کی ویڈیو تو درکنار کوءی تصویر بھی موجود نہیں ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ میر باقر علی کس طرح کی داستانیں اپنے سامعین کو سناتے تھے۔ مگر یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا، اور الف لیلوی کہانیاں سناتے ہوں گے۔ اگر آپ داستان گو صرف ان لوگوں کو کہیں جو کرتا پاجامہ پہن کر، چاندنی پہ بیٹھ کر، گاءو تکیے پہ ٹیک لگا کر، کٹورے سے پانی پیتے ہوءے جادوءی کہانیاں چٹخارے لے کر لوگوں کو سناتے تھے تو واقعی ایسے داستان گو وقت کے ساتھ ختم ہو گءے لیکن اگر داستان گوءی ہر طرح کی کہانی سنانا ہے تو پھر داستان گوءی تو ہزار صورتوں میں آج بھی جاری و ساری ہے۔ ماءیں اپنے بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں، مولوی ہر جمعے کے خطبے میں کہانیاں سناتے ہیں، اور اسی طرح پورے محرم میں کہانیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بھلا ہو مشہور اردو نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے محمود فاروقی کو راضی کیا کہ وہ داستان گوءی کی متروک روایت پرانے رنگ میں پھر سے شروع کریں۔ اس وقت تک محمود فاروقی محض ایک تاریخ دان تھے۔ محمود فاروقی نے اپنے اداکار دوست دانش حسین کو ساتھ ملایا اور ان دونوں نے داستان گوءی کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں جو بہت مقبول ہوءیں۔ ان محفلوں میں جہاں کمال داستان کا ہے، وہیں داستان گو کی اداءیگی اور حافظے کا بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ چکن کا کرتا اورکھلے پاءنچے کا پاجامہ پہن کر، دوپلی ٹوپی سر پہ لگا کر، چاندنی اور گاءو تکیے سجا کر ایک مخصوص ماحول بنایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی سننے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اردو میں تالی پٹنے کا محاورہ بے عزتی ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لیے حاضرین محفل تالیاں بجا کر داد نہ دیں بلکہ واہ واہ کہہ کر داستان گو کو سراہیں۔ یہ تاکید سن کر حاضرین میں سے چند سوچتے ہیں کہ معاشرے تو مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں؛ کسی زمانے میں تالی پیٹنا ضرور معیوب خیال کیا جاتا ہوگا مگر اب تالیاں بجانا پوری دنیا میں داد دینے کا سب سے راءج طریقہ ہے۔ اور اگر پچھلے دور کے ہی طریقے اپنانے ہیں تو پڑھا ہے کہ ان وقتوں میں لوگ خوشی سے بغلیں بجاتے تھے۔ آج کل جس طرح کا لباس پہنا جاتا ہے اسے پہن کرہاتھ بغل تک لے کر جانا ہی مشکل ہے اور اگر کسی طرح یوں کر بھی لیا جاءے تو سینکڑوں سامعین کی بجتی ہوءی بغلیں داستان گوءی کی محفل میں کس قدر بے ہودہ شور پیدا کریں گی۔
گزرے سنیچر کو برکلی یونیورسٹی کے سینٹر فار ساءوتھ ایشیا اسٹڈیز کی دعوت پہ محمود فاروقی نے بنکروفٹ ہوٹل کے ھال میں اپنے داستان گوءی کے فن کا مظاہرہ کیا۔ پروفیسر مونس فاروقی اور پروفیسر صبا محمود نے تعارفی کلمات ادا کیے۔ محمود فاروقی نے طلسم ہوش ربا کا ایک حصہ داستان گوءی کی صورت میں پیش کیا، پھر انہوں نے منٹوءیت کے عنوان سے بھی ایک خاکہ پیش کیا۔ محمود فاروقی نے بتایا کہ منٹوءیت نامی وہ تحریر منٹو کی زندگی پہ لکھنے والے بہت سے لوگوں کی 
تحریروں کو ملا کر تیار کی گءی تھِی۔ داستان گوءی کی اس سحر انگیز محفل میں دو سو کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔

Labels: , , , ,


Thursday, October 04, 2012

 

قاتل کا چہرہ دکھاءو


ستمبر تیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پانچ



 قاتل کا چہرہ دکھاءو


وہ اپنے دونوں بچوں کو اسکول چھوڑ کرواپس پلٹا۔ گھر کے دروازے پہ پہنچ کر اسے خیال آیا کہ وہ چابی ساتھ لے جانا بھول گیا تھا۔ مگر یہ کوءی تشویش کی بات نہ تھی۔ اس کی بیوی گھر پہ تھی، وہ دروازہ کھول دے گی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جس وقت اس کی بیوی نے دروازہ کھولا ٹھیک اسی وقت ایک موٹرساءیکل گھر کے سامنے آکر رکی۔ اچانک تین فاءر ہوءے۔ وہ خون میں لت پت اپنی بیوی کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ موٹرساءیکل تیزی سے آگے بڑھ گءی۔ اس کی بیوی ہزیانی آواز میں چیخیں مارنے لگی۔ لوگ مدد کو دوڑے مگر وہ اسپتال پہنچاءے جانے سے بہت پہلے دم توڑ چکا تھا۔ گھر میں صف ماتم بچھ گیا۔ سب سے مشکل کام دو چھوٹے بچوں کو یہ سمجھانا تھا کہ ان کا باپ اب انہیں کیوں کبھی نظر نہیں آءے گا، کہ ان کا باپ مر چکا ہے۔ اور ان معصوم بچوں کو یہ سمجھانا کہ ان کے باپ کی کسی سے کوءی ذاتی دشمنی نہیں تھی؛ اس کا قصور یہ تھا کہ اس کا نام حیدر رضوی تھا اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے نام والے تمام لوگوں کو مارنا عین ثواب ہے۔ بس چپکے سے پیچھے سے آکر وار کرو، ان کی جان لو، غازی کہلواءو، اور جنت میں اپنا مقام بنا لو۔

پاکستان میں شیعہ افراد کی تین بڑی قتل گاہیں ہیں: کراچی، کوءٹہ، اور گلگت۔  ایسے قتل آءے دن ہو رہے ہیں مگر شاذ و نادر ہی کوءی قاتل پکڑا جاتا ہے۔ میڈیا کے نزدیک یہ قتل محض فرقہ وارانہ فسادات ہیں اور ہر مقتول محض شماریات کی ایک معمولی کڑی۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کسی گروہ کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا مگر پاکستان میں ایسی خونریزی کوءی خاص بات نہیں، وہاں کاروبار زندگی معمول کے حساب سے جاری ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کی عمومی بے حسی تین ستونوں پہ قاءم ہے۔ اول، مذہبی راہ نماءوں کی خاموشی ہے۔ یقینا ایسے سنی علماءے دین ہیں جنہوں نے شیعہ مسلک کے افراد کے قتل کی مذمت کی ہے مگر یہ مذمت دبے دبے الفاظ میں ہوتی نظر آتی ہے۔  کہاں ہیں مفتی منیب الرحمان؟ کہاں ہیں مولانا راغب نعیمی اور مولانا تنویرالحق تھانوی اور وہ تمام علماءے دین جو مغرب کے سامنے اسلام کی امن دوستی ثابت کرنے کے لیے دلاءل دیتے ہیں کہ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟  وہ چھپ کر وار کرنے والے ان قاتلوں کے خلاف سخت زبان کیوں استعمال نہیں کرتے؟ قاتلوں کا ایسا گروہ ہے جسے سمجھا دیا گیا ہے کہ تم اسلام کے اصل نماءندے ہو، جو لوگ تمھارے اصل اسلام سے جس قدر دور ہیں ان کا قتل تم پہ اتنا ہی جاءز ہے۔ تم ہو برگزیدہ ہستیوں کی ناموس کی حفاظت کرنے والے۔ یہ دوسرے لوگ ان مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں، اس لیے ان لوگوں کا قتل تم پہ واجب ہے۔ جاءو اور وار کرو۔  کہاں ہیں وہ علماءے دین جو ان بھٹک جانے والے لوگوں کے کچے ذہنوں کو جھنجھوڑیں؟

اور کہاں ہیں شیعہ علما؟  یہ اپنے لوگوں کو اس قتل عام سے بچنے کی حکمت عملی کیوں نہیں بتاتے؟  یہ وہ قیادت کیوں فراہم نہیں کرتے جس کے زیر اثر لوگ اپنے محلوں، اپنے لوگوں کو محفوظ کر سکیں؟

شمار دوءم پاکستان کی افسوس ناک صورت حال کی ذمہ داری پاکستان کی سیاسی قیادت پہ ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف ایک عوامی تحریک بن کر سامنے آءی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ تحریک انصاف کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔ یہ صرف الیکشن کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر جارہے ہیں تو شاید اس لیے بھی کیونکہ ان کو کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر لوگوں کی اکثریت واقعی تحریک انصاف کے ساتھ ہے تو پھر الیکشن کا اور الیکشن میں اکثریت کی تاءید کی رسومات کا انتظار کیوں؟  اس حکومتی مشینری کو استعمال میں لانے کا انتظار کیوں جو پہلے ہی ناکارہ ہے اور جس کو صحیح کرنے کے لیے ایک لمبی مدت درکار ہوگی؟ جن جگہوں پہ اکثریت ہے وہاں قاءم کر لو اپنی مرضی کا نظام اور بنا دو ان علاقوں کو ایسی مثال کہ پورا ملک دیکھ لے کہ تم ملک میں کس قسم کی تبدیلیاں لانا چاہتے ہو۔

بے حسی کا تیسرا اور سب سے بڑا ستون پاکستان کے عوام ہیں جو ہرطرح کا ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ شہروں میں خوف کا عالم ہے۔ لوگ جب صبح کام کے لیے نکلتے ہیں تو ڈرتے ہیں کہ نہ جانے واپس گھر آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔  حکومتی سطح پہ معاشرے کا نظام پہلے ہی کچا تھا پھر اس کے اوپر اسلحے کی فراوانی ہے چنانچہ قانون شکن دندناتے پھر رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے عام لوگ اپنی طاقت نہیں سمجھتے اور خوف کے اس ماحول میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ غصے میں کیوں نہیں آجاتے؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ بس بہت ہوگءی، ہم حکومت کی ناکامی سمجھ گءے ہیں، اب جس قدر ممکن ہو انتظامات اپنے ہاتھوں میں لینے کا وقت آگیا ہے، ہم خود اپنے طور پہ ایسے کام کریں گے کہ ہمارے محلے محفوظ ہوجاءیں؟ کسی کی مجال نہ ہو کہ یہاں چپکے سے آکر کسی کو مار کر چلا جاءے۔

بڑی تعداد میں آزادی سے گھومنے کے باوجود قاتل آج بھی اپنا منہ چھپانا چاہتے ہیں۔ قاتل نہیں چاہتا کہ اس کی شناخت مشتہر ہو۔ اور یہی بات لوگوں کو گہراءی سے سمجھنی چاہیے۔ لوگ اپنی حفاظت کا ہر وہ کام کریں جس سے قاتل کے چہرے سے نقاب اٹھ جاءے اور وہ چہرہ وضاحت سے سب کو نظر آجاءے۔ پیغام یہ ہو کہ تم آکر ہمیں مار تو سکتے ہو مگر ہمیں مارنے کے بعد تم چھپ نہیں سکتے۔ عین ممکن ہے کہ تم پکڑے جانے کے باوجود عدالت سے بری ہوجاءو مگر ہم تمھاری تصویر ہر چوراہے پہ لگادیں گے کہ زمانے والو، دیکھو، یہ قاتل ہے، اور یہ اس وقت کی تصویر ہے جب اس نے قتل کیا تھا۔ آج سرویلنس کیمرے کی ٹیکنالوجی اس جگہ پہنچ گءی ہے جہاں بہت معمولی رقم سے آپ اپنے اطراف پہ بھرپور نظر رکھ سکتے ہیں اور ہر واقعے کو ٹیپ پہ مہینوں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں  لوگ اپنے پیاروں کے کفن دفن کے انتظامات کے لیے رقم خرچ کرنے کو تیار ہیں مگر تقریبا اتنی ہی رقم سرویلنس کیمروں پہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہر محلے میں لوگ سرویلنس کا ایسا نظام خود اپنے طور پہ نہیں چلاتے؟  پاکستان کے لوگو، جاگو، کہ اب انتظار کا وقت نہیں ہے، اب کام کا وقت ہے۔

Labels: ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?