Sunday, August 21, 2022

 

بوڑھاپے کی عمر کیا ہے؟

 

فیس بک کے کسی گوشے میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ بوڑھاپا کس عمر سے شروع ہوتا ہے۔ جب تک اس سوال کا جواب وضاحت سے سمجھ میں آیا، سوال کہیں روپوش ہوچکا تھا۔ بوڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیں، کمزوری اور محتاجی سے ہے۔ اپنی عمر کے جس سال آپ ہمیشہ کے لیے محتاج ہوجائیں، سمجھ لیں کہ بوڑھاپا آگیا۔ ہمارے دور میں محتاجی کی سب سے واضح صورت دوائوں پہ انحصار ہے۔ جب وہ وقت آئے کہ کسی دائمی عارضے کے سبب آپ کے لیے ایک یا ایک سے زائد ادویات مستقل کھانا ضروری ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ آپ کا بوڑھاپا شروع ہوچکا ہے۔

 


Saturday, August 13, 2022

 

شب گزیدہ سحر

 

 

قیام پاکستان کے بہت سے نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ مذہبی منافرت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ دنیا کی دیگر پرانی آبادیوں کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی لوگوں کی شناخت کے ہزار ہا طریقے  موجود تھے اور ہیں۔ مختلف گروہ اپنی شناخت کسی مخصوص علاقے سے، کسی زبان سے، کسی ثقافت سے کراتے ہیں۔ لوگوں کی بہت سی دوسری شناختوں کو چھوڑ کر مذہبی پہچان کو قومیت کی کسوٹی بنا کر ایک نیا ملک بنانا خطرناک تجربہ تھا۔ اس تجربے نے مذہبی شناخت کو غیرمعمولی اہمیت دی اور خطے میں موجود لوگوں کے گروہ اپنے اپنے مذہبی اعتقادات کے معاملے میں اور پختہ ہوگئے۔

علاقہ، زبان، یا ثقافت کے مقابلے میں مذہبی شناخت کے ذریعے لوگوں کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا اس لیے ایک ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ اکثر مذاہب ضابطہ اخلاق فراہم کرتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہیں۔ کٹر مذہبی لوگ اپنے طور پہ بالکل صحیح راستے پہ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جو شخص اس راستے پہ نہیں چل رہا وہ ان کے نزدیک قابل نفرت ہوتا ہے۔

مذہبی شناخت کی بنیاد پہ ملک بنانے کا یہ انجام ہوا کہ جو لوگ اس مذہبی شناخت کی کسوٹی پہ پورے نہیں اترتے، وہ اپنے نہ رہے، پرائے ہوگئے۔

اس ضمن میں ایک واقعہ سنیے۔ اس پہ ہنسنا یا رونا آپ کا صوابدید ہے۔

ہمارے ایک سکھ دوست اسلام آباد سے کراچی جارہے تھے۔ ہوائی جہاز میں جو صاحب ہمارے دوست کے برابر میں بیٹھے تھے وہ کچھ دیر تو کنکھیوں سے ہمارے دوست اور ان کی پگڑی کی طرف دیکھتے رہے، پھر انہوں نے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے ہمارے دوست سے پوچھا: سردار جی، آپ انڈیا میں کس شہر سے ہیں؟

ہمارے دوست اس سوال کے احمقانہ قیاس پہ حیران ہوئے مگر پھر ہمارے دوست نے اپنے ساتھی مسافر سے جوابی سوال داغ دیا: پاکستان میں کتنے سکھ رہتے ہیں؟

وہ صاحب اس جوابی سوال پہ سٹپٹائے مگر پھر کچھ سوچ کر بولے: پاکستان میں بھی سکھ ہیں مگر بے چارے بہت تھوڑے ہیں۔

ہمارے دوست نے اتنی ڈھیلی گیند پا کر زوردار چھکا مار دیا۔ ہمارے دوست نے ان صاحب کا بازو پکڑ کر کہا: بس میں بھی ان ہی بے چاروں میں ایک ہوں۔

 


This page is powered by Blogger. Isn't yours?