Friday, September 09, 2022

 

آخری دیدار کی نامراد تمنا

 ستمبر دو، دو ہزار بائیس
پھر وہ دن آتا ہے کہ اداس ہونے کا دل چاہتا ہے۔ بے وجہ، پھوٹ پھوٹ کر رونے کا دل کرتا ہے۔ بہت دیر تک نعیم پوپل کو سنتا رہا۔ من مرد تنھائی شبم۔ پھر کورا پہ ایک ایسا واقعہ پڑھا کہ واقعی دل خون کے آنسو رو پڑا۔
وہ سارے ایسے واقعات مجھے بہت افسردہ کرتے ہیں جن میں ایک شخص بیمار ہو یا بالکل بستر مرگ پہ ہو، اور اس کو کسی کا انتظار ہو، ایک آخری ملاقات کی خواہش، ایک آخری دیدار کی تمنا، اور پھر جس کا انتظار ہو، وہ نہ آئے۔ اماں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جب شمیم ماموں کی وفات کے کئی ماہ بعد وہ ان کے گھر پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ شمیم ماموں اپنے آخری لمحات میں اپنی اس بہن یعنی میری ماں کی راہ تک رہے تھے۔ اپنی سانس اکھڑنے سے پہلے انہوں نے پوچھا تھا، 'چھوٹی آپا آنے والی ہیں؟' اور ان کے سرہانے کھڑے لوگوں کے پاس اس سوال کا کوئی مثبت جواب نہیں تھا۔ وہ آبدیدہ چہرے صرف خاموش رہے۔ میری ماں بتاتی ہیں کہ جب انہیں بتایا گیا کہ شمیم آخری وقت تک تمھارا انتظار کررہے تھے تو وہ یہ سن کر بہت روئیں۔
کورا پہ جو واقعہ میں نے پڑھا اسے میں کہانی کی شکل میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔

ٹونی سے اس کی نجی زندگی کی متعلق کم ہی بات ہوتی تھی مگر اس روز کمپنی کی کرسمس پارٹی میں شراب کے چند گلاس حلق میں اتارنے کے بعد ٹونی میرے سامنے کھلتا جارہا تھا۔
جانتے ہو، میری زندگی میں سب سے بڑا دکھ کیا ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
اس نے بولنا شروع کیا۔
دراصل اس دکھ سے منسلک ایک کسی قدر لمبی کہانی ہے۔
میرے والدین اسکول کے ہمجولی تھے۔ ان کے درمیان محبت کا گہرا رشتہ تھا اور وہ ہائی اسکول مکمل کرنے کے چند سال بعد رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ اس محبت کی شادی سے تین بچوں کا جنم ہوا۔ میں منجھلا ہوں۔ پھر وقت گزرتا گیا اور محبت میں کمی آتی گئی۔ شادی کا ساتواں سال بہت کٹھن ہوتا ہے۔ اس وقت تک شادی کا ہر نیا پن ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسا ہی میرے والدین کے ساتھ ہوا۔ اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ اس باسی محبت کے بیچ ، ایک نئی عورت آگئی۔ میرے باپ نے اس عورت سے اپنے تعلقات کو میری ماں سے چھپا کر رکھا مگر بالاخر ایک دن یہ راز فاش ہوگیا۔ اب میرے باپ کو دو ٹوک فیصلہ کرنا تھا، ادھر یا ادھر۔ اور اس نے کچھ ہی دیر میں فیصلہ کرلیا۔ وہ میری ماں اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر اس نئی عورت کے پاس چلا گیا۔ ہم تو بچے تھے جلد یہ جدائی بھول گئے مگر میری ماں اپنے شوہر کی اس بے وفائی پہ بہت روئی۔ اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔

چاہے محبت جوبن پہ ہو یا اچانک یوں ختم ہوجائے کہ ایک پریمی کا دل ٹوٹ جائے، وقت تو بس گزرتا جاتا ہے۔ اور ہمارے گھر کے اوپر سے بھی وقت ماہ و سال بن کر دوڑتا رہا۔ میرے باپ نے جس نئی عورت سے شادی رچائی تھی اس کے چند اقارب سے میری ماں کی بھی سلام علیک تھی؛ اس طرح ہمیں اپنے باپ کی خبر ملتی رہتی تھی۔ تیس برس پلک جھپکتے گزر گئے۔ تیس سال بہت وقت ہوتا ہے۔ مجھ سے بڑا بھائی اور مجھ سے چھوٹی بہن اپنے اپنے راستوں پہ چل نکلے۔ میں ماں کے ساتھ رہتا رہا۔

ایک دن ہمیں خبر ملی کہ ہمارا باپ ایک ایسے نرسنگ ہوم میں ہے جہاں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی یادداشت کھو چکے ہوں۔ میری ماں کے کہنے پہ ہم لوگ وہاں پہنچے جہاں میرے باپ کو اس کی دوسری بیوی نے داخل کرادیا تھا۔ ہمیں تعجب ہوا کہ وہ ہم دونوں کو پہچان گیا۔ وہ بہت کمزور ہوگیا تھا اور اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ ہم اسے اپنے گھر لے آئے۔ اس کی یادداشت یقیناً کمزور ہوگئی تھی مگر بالکل ختم نہیں ہوئی تھی۔ اگلے چند ہفتے میری ماں نے اس کا بہت خیال رکھا۔ اس کی صحت بہتر ہوتی گئی۔ اب وہ اس قابل ہوگیا کہ گھر سے نکل کر سامنے باغ میں چلا جاتا۔ ایک شام وہ سامنے باغ میں گیا اور بہت دیر تک گیندے کے پھولوں کو دیکھتا رہا۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو میری ماں نے اس سے کہا، 'تمھیں بنانا بریڈ پسند ہے نا؟ تم پہلے بہت شوق سے کھاتے تھے۔ میں کل تمھارے لیے بنانا بریڈ بنائوں گی۔'

اگلی صبح جب ہماری آنکھ کھلی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا باپ ہمارا گھر چھوڑ کرجا چکا تھا۔ اس نے یہ کام رات کے کسی پہر خاموشی سے کیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر میری ماں کو چھوڑ دیا تھا۔  ہم تک جلد ہی یہ خبر پہنچ گئی کہ وہ دوبارہ اپنی دوسری بیوی کے پاس پہنچ گیا تھا۔

وہ چلا گیا مگر وقت نہیں تھما۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ میری ماں کی صحت گرتی گئی۔ ایک دن اس کی حالت اتنی خراب ہوئی کہ میں اسے لے کر اسپتال دوڑا۔ بظاہر اسے کوئی مہلک بیماری نہیں تھی مگر لگتا تھا کہ اب زندگی میں اس کی دلچسپی بالکل ختم ہوچکی تھی۔ وہ اگلے دو دن زیادہ تر غنودگی کے عالم میں رہی۔ پھر ایک شام جب ہم تینوں بچے اپنی ماں کے پاس موجود تھے اس نے آنکھیں کھولیں، ہمیں غور سے دیکھا اور پوچھا، 'تمھارا باپ مجھے دیکھنے آیا تھا نا؟' ہم نے سر کے اشارے سے اسے بتایا کہ نہیں، وہ نہیں آیا۔ میری ماں کے چہرے کے تاثرات بدلے مگر پھر اس نے کہا، 'اب تک نہیں آیا تو کیا ہوا؟ وہ مجھے دیکھنے ضرور آئے گا۔'
اس روز زبردست طوفان آیا تھا۔ گرج چمک کے ساتھ بارش ہورہی تھی۔ اور بہت رات گئے، بادلوں کی ایسی ہی کسی کڑک کے ساتھ ایک پنجرہ کھلا اور ایک روح پرواز کرگئی۔ میری ماں دنیا سے گزر گئی۔ اپنی پہلی اور آخری محبت کا آخری دیدار کیے بغیر۔ بس یہی میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?