Wednesday, October 19, 2022

 

کارخانے

 کارخانے



کیا آپ کسی کارخانے میں کام کرنا پسند کریں گے جہاں کارخانے کے مالک کی کوئی خبر نہ ہو، ایک منتظم [سپروائزر] کارخانے کے سارے معاملات کا ذمہ دار ہو اور منتظم آپ کو بتائے کہ آپ کو کیا کام کرنے ہیں اور یہ بتائے کہ یہ سارے احکامات دراصل منتظم کے نہیں بلکہ کارخانے کے مالک کے ہیں؟ آپ چاہیں کہ مالک سے آپ کی براہ راست بات ہوجائے مگر ایسا ممکن نہ ہو۔ آپ کی بات صرف منتظم سے ہو سکے جو کارخانے کے مالک کی منشا آپ تک پہنچاتا ہو۔

اور ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو اور کارخانے میں ایک سے زائد منتظمین ہوں۔ اور ان منتظمین کی آپس میں چپقلش ہو اور ہر منتظم کا دعوی ہو کہ کارخانے میں  کام کیسے ہونا ہے اس کے احکامات صرف اسے مالک کی طرف سے موصول ہوئے ہیں۔

اور یوں بھی تو ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو مگر کارخانے میں ایک کتاب موجود ہو جس کے بارے میں منتظم کا کہنا ہو کہ کارخانے کے مالک نے اپنی منشا اس کتاب میں لکھ دی ہے مگر جب آپ کتاب پڑھیں تو سر کھجاتے رہ جائیں کہ کیا احکامات دیے جارہے ہیں اور لامحالہ مالک کی مرضی جاننے کے لیے آپ کو منتظم کی مدد حاصل کرنا پڑَے۔



دنیا کے مذاہب ایسے ہی کارخانے ہیں۔


Saturday, October 08, 2022

 

سفر ایران کے

 
اپریل گیارہ،
1995
ہم زاہدان سے کرمان کے لیے روانہ ہوئے تو بس میں گنتی کے پندرہ، بیس مسافر تھے۔
یہ پورے دن کا سفر تھا۔ مجھے بس اور ٹرین کا طویل سفر پسند ہے بشرطکہ وہ سفر دن کی روشنی میں کیا جائے۔ آپ کھڑکی سے لگ کر بیٹھیں اور باہر مستقل بدلتے نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

ہم دو دن پہلے زاہدان پہنچے تھے۔ یعنی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز تربت اور پھر دالبندین اور پھر دالبندین سے ٹیکسی کے طور پہ چلنے والے ٹویوٹا ٹرک کے ذریعے تفتان۔ تفتان پہ موجود پاکستانی چوکی پہ کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد پیدل ایرانی سرحدی چوکی، میرجاوہ، اور وہاں پاسپورٹ میں دخول کی مہر لگوانے کے بعد بس سے زاہدان۔

دالبندین ہوائی اڈے سے تفتان جانے والے ڈرائیور نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کے وسیع خاندان کے افراد ایران پاکستان سرحد کے دونوں طرف رہتے تھے اور اسے سرحد عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار نہ تھا۔ دالبندین سے تفتان جاتے ہوئے ڈرائیور کا ایک دوست بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ بنگالی تھا۔ دالبندین سے تفتان کے راستے میں حد نظر کوئی آبادی، کوئی سبزہ نظر نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ تپتی مٹی پہ کالے پائوڈر کی ایک تہہ موجود تھی۔ نہ جانے وہ کالا پائوڈر کہاں سے آیا تھا، یا کس قسم کی معدنیات تھیں؟

ہم راستے میں نوک کنڈی میں تھوڑی دیر کے لیے رکے جہاں ڈرائیور اور اس کے دوست نے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کا بل ہمارے ذمے تھا۔ نوک کنڈی میں قابل ذکر ہندو آبادی بھی موجود تھی جو دکانوں کے ناموں سے ظاہر تھی۔

پاکستان سے ایران میں داخل ہوں تو آپ کو اچھا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کسی نسبتاً تمیزدار جگہ آگئے ہیں۔ زاہدان میں ہمارا قیام خاور ہوٹل میں تھا جہاں استقبالیے پہ موجود نوجوان کو انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ شاید وہ سیاحوں سے بات کر کے انگریزی کی مشق کررہا تھا۔

زاہدان میں ایک ٹاٹا ٹرک دیکھ کو ہم خوش ہوئے۔ ٹاٹا کے ٹرک افریقہ میں عام طور سے نظر آتے ہیں مگر ہمیں افریقہ سے آئے ایک عرصہ ہو چلا تھا۔ زاہدان میں نل سے آنے والا پانی ذائقے میں کڑوا تھا اور پینے کے قابل نہیں تھا۔ شاید تہذیب کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ ملک وہاں پہنچ جائے کہ اپنے شہریوں کو پینے کے قابل پانی نل سے فراہم کرسکے۔ پھر تہذیب کی ایک اور منزل کا مشاہدہ سڑکوں پہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کیسے رواں ہے، یہ عام لوگوں کی تعلیم اور سمجھ بوجھ ظاہر کرتی ہے۔ ٹریفک کے معاملے میں زاہدان پاکستان کے شہروں سے مختلف نہ تھا۔ اگر کوئی تبدیلی تھی تو وہ یہ کہ سڑکوں پہ کوئی گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر ایران اتنا ترقی یافتہ ضرور تھا کہ وہاں سڑک پہ ملنے والی اشیائے خوردونوش صاف ستھری تھیں اور انہیں کھا کر ہم بیمار نہیں پڑے۔

میں ایران کا سفر ایک خاص وجہ سے کررہا تھا۔ میں کراچی سے دور جانا چاہتا تھا۔ دراصل مجھے ساری زندگی یہ گمان رہا ہے کہ میں لطیف بادلوں پہ سوار ہوں، میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کیا ہے، اور مجھے یہ خیال رہا ہے کہ جیسے خدا کی مرضی میری ذات میں، میرے ہر فیصلے میں حلول ہے۔ مگر پچھلے نومبر سے کراچی میں قتل و غارت گری کا جو طوفان آیا تھا اس نے میرے وجود کو بھاری کردیا تھا۔ خوف کے اس ماحول میں مجھے یہ لگنے لگا تھا جیسے میری روح کی آزادی سلب کی جارہی ہو۔ ہر بلکتی ماں کے آنسوئوں کے ساتھ میری آنکھ سے بھی آنسو ٹپکتے۔ میں نے بارہا اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ سب کیوں ہورہا تھا اور کب تک ہوتا رہے گا۔ مگر مجھے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا اور مجھے لگا کہ شہر میں جاری خوں ریزی میرے وجود میں سرائیت کر کے مجھے ایک خونیں درندہ بنا دے گی۔ میں خود اپنے آپ سے بہت دور چلا جائوں گا۔ مجھے یہ دوری گوارا نہ تھی اور ماحول کی تبدیلی کے لیے میں ایران میں سفر کررہا تھا۔

زاہدان سے کرمان کا سات گھنٹے کا سفر چار سو پچپن تومان میں برا سودا نہ تھا اور میں کھڑکی سے لگا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا۔  بس ابھی دو گھنٹے ہی چلی ہوگی کہ آہستہ ہونا شروع ہوئی اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ وہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔  میں نے تجسس میں کھڑکی سے آگے کی طرف دیکھا۔ ہم ایک ناکے پہ پہنچ گئے تھے۔ پاسداران انقلاب کے مسلح جوان بس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حکم ہوا کہ سارے مسافر مع سامان بس سے اتر جائیں۔ ہم اپنا اپنا سامان لے کر بس سے اتر گئے اور حکم کے مطابق ایک قطار میں کھڑے ہونے لگے۔ ہمارا نامانوس چہرہ دیکھ کر ایک سپاہی نے تعجب سے پوچھا۔
شما بلوچ ہستید؟
ہم نے نفی میں جواب دیا اور وضاحت پیش کی کہ ہم خارجی ہیں، سیاحت کے لیے کرمان جارہے ہیں۔

اب سب لوگوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ سامان کے ساتھ جسمانی بھی۔ باہر مسافروں کی تلاشی ہورہی تھی اور بس کے اندر دو سپاہی نشستوں کے نیچے جھانک رہے تھے اور بالا خانوں میں ہاتھ ڈال کر اطمینان کررہے تھے وہاں کوئی سامان موجود نہیں تھا۔  غیر بلوچ ہونے کی وجہ سے ہماری رسمی تلاشی ہوئی جب کہ بس کے بلوچ مسافر خصوصی تلاشی کا نشانہ بنے۔ مگر اچھا ہوا کہ بس کے تمام مسافر جانچ کا یہ امتحان پاس کرگئے۔ کسی کے پاس سے کوئی اسلحہ، کوئی آتش گیر مواد برآمد نہ ہوا۔ مسافر پھر سے بس میں سوار ہونا شروع ہوئے۔ جن بلوچ نوجوانوں کی زوردار تلاشی ہوئی تھی وہ اس ہتک آمیز سلوک پہ خوش نہ تھے۔ وہ کسی قدر خفت سے، دوسرے مسافروں سے نظریں چراتے ہوئے اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے۔ بس پھر سے اسٹارٹ ہوئی اور اپنی منزل کی طرف چلنا شروع ہوگئی۔



Thursday, October 06, 2022

 

سندھی ٹوپی

سندھی ٹوپی وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے طرز تعمیر سے متاثر ہو کر وجود میں آئی ہے۔


Saturday, October 01, 2022

 

یٹا، چوٹ تو نہیں لگی؟

ماں کی ممتا کے موضوع پہ ایک پرانی کہانی نئے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔

 

 یٹا، چوٹ تو نہیں لگی؟

مجھے تم سے محبت ہے۔ اس نے اپنی محبوبہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے یقین دلایا۔
تمھیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟ محبوبہ نے پوچھا۔
اتنی محبت  کہ میں تمھیں پانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ اس نے جواب دیا۔
کچھ بھی؟ محبوبہ نے پوچھا۔
ہاں، کچھ بھی۔ تم کہہ کر تو دیکھو۔ اس نے اعتماد سے جواب دیا۔
اچھا اگر یہ بات ہے تو ایک طشتری میں اپنی ماں کا دل لا کر مجھے دکھائو۔ محبوبہ نے ایک ایک لفظ توڑ کر کہا تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔
وہ اس عجیب و غریب فرمائش پہ پریشان ہوگیا۔
جب وہ بوجھل قدموں سے گھر پہنچا تو ماں دروازے میں کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ماں نے بھانپ لیا کہ بیٹا پریشان ہے۔ ماں نے پوچھا "بیٹا، کیا پریشانی ہے؟"
اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس نے رات کا کھانا ماں کے ساتھ بیٹھ کر کھایا مگر بالکل خاموش رہا۔ اگلی صبح پھر وہی منظر تھا۔ بیٹا پریشان نظر آتا تھا۔ ماں سے برداشت نہ ہوا۔ ماں نے روتے ہوئے بیٹے سے کہا، "بیٹا مجھ سے تمھاری پریشانی نہیں دیکھی جاتی۔ میرے سر کی قسم مجھے بتا دو بات کیا ہے۔"
بیٹے نے مجبور ہو کر ماں کو سب کچھ صاف صاف بتا دیا۔
یہ ماجرا سننے کے بعد ماں کے ماتھے پہ ایک بل بھی نہ پڑا۔ اس نے کہا،
"ارے، میرے پیارے بیٹے، اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ تمھاری خوشی میں ہی تو میری خوشی ہے۔ اور تمھاری خوشی اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں ہے۔ تو اٹھائو سب سے بڑا خنجر۔ مجھے مار کر میرا دل نکال لو اور اس دل کو اپنی محبوبہ کے سامنے پیش کردو۔"
ماں کی یہ بات سن کر اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ پلٹا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
دو دن گزر گئے۔ وہ صرف کھانے کے وقت کمرے سے باہر نکلتا اور خاموشی سے کھانا کھا کر واپس اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ وہ مستقل بستر پہ پڑا چھت کو تکتا رہتا۔
تیسرے روز صبح ہوئی اور دن چڑھ آیا۔ کھڑکی سے آنے والی سورج کی کرنیں اسے تنگ کرنے لگیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ماں تو ہر روز صبح اٹھا دیتی ہے اور ناشتے پہ بلاتی ہے۔ آج کیا ہوا؟ ماں نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا؟  وہ انہیں خیالات میں الجھا اپنے کمرے سے نکلا اور ماں کے کمرے میں جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔ اس کی ماں کی لاش ایک رسی کے ذریعے پنکھے سے لٹک رہی تھی۔ لاش کے قریب ہی ایک پرچہ پڑا تھا۔ پرچے پہ لکھا تھا۔
میرے پیارے بیٹے، تم ہی میرا سب کچھ ہو۔ مجھ سے تمھاری پریشانی نہیں دیکھی جاتی۔ میں تمھاری خوشی کے لیے تمھارا کام آسان کرہی ہوں۔ خودکشی کر کے میں نے اپنے آپ کو مار لیا ہے۔ اب تم ہمت کر کے میرا سینہ چاک کرو اور میرا دل نکال کر اپنی محبوبہ کو پیش کردو۔ جب میرا دل پا کر تمھاری محبوبہ خوش ہوجائے گی اور خوشی سے تمھیں گلے لگا لے گی اور اس چاہت پہ تم مسکرا اٹھو گے تو وہ لمحہ بہت خوب صورت ہوگا۔ میں تمھاری اس مسرت کے بارے میں سوچ کر ہی خوش ہوں۔
اور پھر یوں ہی ہوا۔ وہ اپنی ماں کا دل لے کر اپنی محبوبہ کے گھر کی طرف دوڑا۔ تیز قدموں سے چلتے، راستے میں ایک پتھر سے اٹک کر وہ گر پڑا۔ طشتری میں رکھا دل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پہ جا پڑا۔
پھر دل سے آواز آئی، بیٹا، چوٹ تو نہیں لگی؟

Tags:

Bring me your mother's heart

Mother's heart for the lover


This page is powered by Blogger. Isn't yours?