Tuesday, August 28, 2012

 

شیری رحمان کے لیے استقبالیہ اور جشن جاذب قریشی









اگست چھبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار سو


 شیری رحمان کے لیے استقبالیہ اور جشن جاذب قریشی

علی حسن سمندطور

پچھلے منگل، اگست اکیس کے روز سان فرانسسکو بے ایریا کے شہریوں نے امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان کے اعزاز میں ایک عشاءیے کا اہمتمام کیا۔ اس تقریب کا انعقاد پاکستانی امریکن کلچرل سینٹر نے دوسری تنظمیں کی مدد سے ہلٹن ہوٹل، نو ارک میں کیا تھا۔ اس عشاءیے میں لمبی لمبی تقریرں ہوءیں مگر دل میں خلش رہی کہ باتیں تو بہت ساری ہوءیں مگر کام کی کوءی بات نہ ہوءی۔ تقریب سے واپس پلٹنے کے بعد میں شیری رحمان کے بارے میں سوچتا رہا کہ انہوں نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور کہاں پہنچ گءیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ آج ایک ایسی جگہ پہنچ گءی ہیں جہاں پہنچنے کے بارے میں ان کی نہ تو کوءی خواہش تھی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کبھی سوچا تھا؟ آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو، اور کراچی کے دوسرے بااثر سندھیوں کی طرح شیری رحمان بھی ایک ایسے سندھی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جس نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کراچی کو یکسر تبدیل ہوتے دیکھا۔ ان خاندانوں کے بچے کراچی میں ہی پلے بڑھے جہاں یہ لوگ کراچی کی اکثریت یعنی مہاجروں کے رنگ روپ میں ڈھل گءے اور اندرون سندھ سے ان کا تعلق محض نام کا رہ گیا۔ شیری رحمان ولاءیت سے پڑھ کر لوٹیں تو انگریزی میں سیاسی تجزیے لکھنے لگیں۔ بس وہاں سے عملی سیاست میں پہنچیں اور بالاخر وفاقی وزیر بنیں۔ انہوں نے حدود آرڈینینس کو ختم کروانے کی کوششیں شروع کیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا؛ پیپلز پارٹی کی حکومت سے ایک دوسرے معاملے پہ اختلاف ہوا تو انہوں نے وزارت سے استعفی دے دیا۔  جب میمو گیٹ کے جعلی اسکینڈل میں حسین حقانی کو واشنگٹن میں سفارت کے عہدے سے استعفی دینا پڑا تو شیری رحمان کے آصف علی زرداری سے مراسم کام آءے اور شیری رحمان امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن گءیں۔ کیا شیری رحمان کی کبھی خواہش تھی کہ وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن جاءیں، یا ان کے چند عزاءم تھے کہ جنہیں سفیر بننے کے بعد انہیں پورا کرنا تھا؟ شاید نہیں۔ اور اسی لیے منگل کو شیری رحمان کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی تقریب میں تقریریں تو بہت ہوءیں مگر کسی بات میں کوءی جان نہ تھی۔
اس تقریب کی تصاویر یہاں ملاحظہ فرماءیں:
[اس تقریب میں کی جانے والی تقاریر کا ربط بھی تصاویر کے ساتھ موجود ہے۔]
 شیری رحمان کی تقریب کے مقابلے میں اتوار، اگست چھبیس کے روز اردو اکیڈمی کی ماہانہ ادبی نشست میں جاذب قریشی کی تقریر اور شاعری سننے کا موقع ملا۔ دل خوش ہوگیا۔ یہاں گفتگو اور شاعری میں حرارت ہی نہ تھی بلکہ تپش تھی؛  گفتار میں شعلہ بیانی تھی، زندگی کی تڑپ تھی۔ اس بزرگ، کہنہ مشق، اور مایہ ناز شاعر کا کلام سنیں تو آپ اس کلام کے پیچھے موجود اس کڑک دار آواز کو سن سکیں گے جو کہہ رہی ہے کہ مجھے دیکھو، میں اپنی محنت سے کہاں پہنچا ہوں۔ کہ پانچ سال کی عمر میں باپ کے انتقال کے بعد میں ڈھلاءی کے کارخانے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ میں وہاں سے نکلا اور کتابیں پڑھ پڑھ کر علم کے اس مقام پہ پہنچا کہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا اور پھر میں نے ہزاروں طلبا کو پڑھایا۔ میری شاعری پڑھو کہ نہ صرف اس میں تم میرے عہد کے رجحانات دیکھ سکو گے، بلکہ تمھیں اس شاعری میں وہ لافانی پیغام ملے گا جو ہر دور میں تازہ، شاداب، اور برمحل نظر آءے گا۔
جشن جاذب قریشی کی تصاویر اور صوتی مسل کا ربط بھی کراچی فوٹو بلاگ پہ موجود ہے۔
اردو اکیڈمی کی ہر محفل کے پہلے حصے میں کسی گزر جانے والے عالی مرتبہ شاعر کو یاد کیا جاتا ہے۔ محفل کے اس حصے کی خاص بات وہ تحقیق ہوتی ہے جو یاد کیے جانے والے شاعر پہ کی جاتی ہے۔ محفل کے اس حصے کی نظامت عموما ڈاکٹر طاہر محمود صاحب کرتے ہیں اور یاد کیے جانے والے شاعر کی زندگی کو مختلف کتابوں کی مدد سے کھنگالتے ہیں۔   اردو اکیڈمی کی حالیہ محفل میں جشن جاذب قریشی سے پہلے اردو کے عظیم شاعر تلوک چند محروم کی زندگی اور فن کو یاد کیا گیا۔ تلوک چند محروم کے حالات زندگی ڈاکٹر طاہر محمود نے جستہ جستہ اس طرح بیان کیے کہ شاعر کی پوری زندگی کو ایک ایسی دلچسپ کہانی کی شکل دے دی جس کا اگلا حصہ سننے کے لیے سامعین بے تاب رہتے۔
محفل کے دوسرے حصے میں جاذب قریشی صاحب نے حاضرین جلسہ کو چالیس منٹ سے اوپر اپنی شاعری سناءی اور خوب داد وصول کی۔ جاذب قریشی صاحب کی شاعری کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:

ہم آءینہ ہیں ہمیں ٹوٹنا تو ہے لیکن
ہم اپنے عکس چٹانوں میں چھوڑ آءے ہیں
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعاءیں
تم اپنے شکستہ درو دیوار تو دیکھو
اس دشت میں سیلاب مجھے چھوڑ گیا ہے
مجھ میں میرے تہذیب کے آثارت تو دیکھو
میں اندھیرے میں بھی جی سکتا ہوں
گھر میں مانگے کا اجالا نہ کرو
پیاسے تھے جو درخت وہ بارش میں جل اٹھے
ایسا تو دھوپ کا بھی رویہ نہیں رہا

اور حاصل محفل جاذب قریشی کا یہ شعر تھا:
دوسرا کوءی قبیلہ نہیں دشمن میرا
پیاس خود میرے لہو کی میری شمشیر میں ہے



اردو اکیڈمی کے جشن جاذب قریشی کی آڈیو فاءل یہاں سنیے:



Labels: , , ,


Monday, August 20, 2012

 

لا حوت لا مکاں






اگست انیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ننانوے



 لاحوت لا مکاں

علی حسن سمندطور


لاحوت لامکاں کے چونے کے غاروں کا ذکر بعد میں ہوگا۔ پہلے آپ سب کو عید کی دلی مبارکباد۔ مگر اس مبارکباد کے ساتھ یہ اعتراف کہ عید منانے کی رتی بھر خوشی بھی دل میں نہیں ہے۔ پے درپے افسوس ناک خبریں ملک سے آتی رہتی ہیں۔ ابھی ایک خبر پہ دل خراب ہونا بند نہیں ہوا ہوتا کہ اس سے بڑی بری خبر آجاتی ہے۔ ایک خبر یہ تھی کہ جیکب آباد سے سینکڑوں کی تعداد میں سندھی ہندوءوں نے پاکستان چھوڑ کر بھارت میں بس جانے کا قصد کیا ہے۔  سندھ میں رہنے والے ہندو سندھ کے اصلی باشندے ہیں۔  ان کا اپنے وطن کو چھوڑنے پہ مجبور ہونا ایک نہایت افسوس ناک بات ہے۔  ایک عرصے سے پاکستان جس مذہبی شدت پسندی کی سمت میں جارہا ہے، اس طرف چلتے چلتے اب وہ مقام آگیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو ایک طرف خود اسلام کے اندر مختلف مکتب فکر رکھنے والے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں کامرہ کے منہاس فوجی اڈے پہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوءوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں ایک فوجی اور نو کے نو حملہ آور ہلاک ہوءے۔ اس بڑے جانی نقصان کے باوجود وہاں بڑا مالی نقصان نہیں ہوا۔ جمعرات کو پنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی تین بسوں کو ناران سے آگے روکا گیا۔ مسافروں کو نیچے اتار کر ان کے شناختی کارڈ جانچے گءے۔ ان سارے لوگوں کو جن کے نام شیعہ محسوس کیے گءے ایک قطار میں کھڑا کیا گیا اور ذرا سی دیر میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔  اس بیہیمانہ کارواءی کے بعد مجرم آسانی سے جاءے واردات سے فرار ہوگءے۔ خیال ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہونے والی ان وارداتوں کے پیچھے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بناءے جانے والے ملک پاکستان کے قاءداعظم شیعہ مسلمان تھے۔ جناح کی روح یقینا مذہبی شدت پسندی کے ان واقعات پہ خوب تڑپتی ہوگی۔
سنہ بانوے میں ایک طویل سفر کے بعد میں کراچی پہنچا تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد خواہش ہوءی کہ شہر سے باہر نکل کر کہیں جایا جاءے۔ کسی ایسی جگہ جہاں یہ محسوس نہ ہو کہ انسان زمین سے ابل ابل کر نکل رہے ہیں۔ ایسی جگہ جہاں قدرت کی صناعی کا کوءی انوکھا مظاہرہ ہو۔ کسی نے لاحوت لامکاں کے غاروں کے بارے میں بتایا۔ چونا پتھر کے غار دنیا میں بہت سی جگہوں پہ پاءے جاتے ہیں۔ یہ غار عام غاروں سے اس طرح مختلف ہوتے ہیں کہ عام غاروں کے مقابلے میں جو محض ارضی اتھل پتھل سے وجود میں آنے کے بعد سادگی سے قاءم ہوتے ہیں، چونے کے یہ غار چکندوں اور چکیدوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی جب ان پہاڑوں پہ برستا ہے جن میں یہ غار ہوتے ہیں، تو برسات کا پانی چونے اور دوسری معدنیات کو اپنے اندر حل کر لیتا ہے۔ جب یہ محلول غار کی چھت سے ٹپکتا ہے تو چونا اور دوسری معدنیات پیچھے رہ جاتی ہیں اور پانی ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح ان غاروں میں چھت سے لٹکی چونے کی لمبی لمبی سلاخیں ملتی ہیں جن کو چکندے کہتے ہیں۔ اور اگر کبھی یوں ہو کہ محلول کا پانی فورا ہوا میں تحلیل نہ ہو، اور پورا محلول غار کی زمین پہ ٹپکے تو وہاں ملغوبے کا ایک بڑا سا ڈھیر بن جاتا ہے جس کا پانی بہت عرصے میں ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد اپنے پیچھے چونے اور معدنیات کا ایک گومڑا سا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ گومڑا کبھی گندھے ہوءے آٹے کے ڈھیر کی طرح اور کبھی اوپر اٹھتی سلاخ کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس گومڑے کو چکیدہ کا نام دیا جاتا ہے۔ چکندوں اور چکیدوں سے مزین چونے کے یہ غار بڑے عجیب و غریب محسوس ہوتے ہیں۔ آپ غار کے دھانے سے غار میں داخل ہوں تو نوکیلے چکندوں کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے آپ کسی ایسے عفریت کے منہ میں جارہے ہیں جس کے بڑے بڑے نوکیلے دانت ہیں۔  لاحوت لامکاں کے چونے کے غار بلوچستان کے شہر خضدار کی سمت میں کراچی سے قریبا ساٹھ میل دو واقع ہیں۔ یہاں ایک مزار بھی ہے جسے شاہ نورانی کہا جاتا ہے۔ ہم کراچی سے شاہ نورانی ایک جیپ سے پہنچے تھے۔ لاحوت لامکاں کے غار کا دھانہ کسی قدر اونچاءی پہ تھا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے لوہے کی سیڑھی لگی تھی۔ ہم غار کے اندر داخل ہوءے تو وہاں جگہ جگہ موم بتیاں جل رہی تھیں جن سے اٹھنے والا کالا دھواں غار کی چھت کو خراب کر رہا تھا۔ غار کا فرش کیچڑ سے اٹا ہوا تھا۔ زیادہ تر چکندوں کے سرے ٹوٹ چکے تھے۔ ایک چکیدے کے متعلق ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت ایوب کی اونٹنی تھی جو کسی معجزے سے اب پتھر کی بن گءی تھی۔ اور اسی قسم کی بے سر و پا حکایات چنکدوں اور چکیدوں کی اور شکلوں کے بارے میں بھی موجود تھیں۔
لاحوت لا مکاں کے مقابلے میں چونا پتھر کے اور غار دیکھنے کا حالیہ تجربہ پورتو ریکو میں اریسیبو نامی قصبے کے قریب کاموءی میں ہوا۔ ہمیں غار کی سیر کرنے کے لیے ٹکٹ لینے پڑے اور غار میں گھسنے سے پہلے ایک فلم دکھاءی گءی جس میں بتایا گیا کہ ہر چکندہ دراصل فطرت کی سینکڑوں سال کی کارواءی کا نتیجہ ہے اس لیے کسی بھی چکندے یا چکیدے کو ہرگز ہاتھ نہ لگاءیں۔  کاموءی کے ان غاروں سے پورتو ریکو کی حکومت بیس لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ بناتی ہے۔ جب کہ لاحوت لامکاں کے غاروں سے رقم بنانے کا موقع بلوچستان کی حکومت نے گنواں دیا ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ غربت اپنے وساءل کے غلط استعمال یا ان وساءل کو ضاءع کرنے سے حاصل ہوتی ہے؟
چونے کے غار کی تصاویر یہاں ملاحظہ فرماءیے:

 

اولمپکس کی حقیقت، شاعر محمد اقبال



اگست تیرہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ستانوے

 اولمپکس کی حقیقت، شاعر محمد اقبال


لندن میں ہونے والے اولمپکس ۲۰۱۲ ختم ہوءے۔ ہر چوتھے سال منعقد ہونے والے کھیل کے ان مقابلوں میں دنیا بھر کے کھلاڑی سالہا سال کی تیاری کے بعد شریک ہوتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ کھیلوں کے یہ مقابلے کھلاڑیوں کے درمیان مقابلوں سے زیادہ ملکوں کے درمیان مقابلے بن گءے ہیں۔ اب ہر اولمپکس کے خاتمے پہ تمغوں کی گنتی کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کس ملک نے کتنے طلاءی، نقرءی، اور کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ اس گنتی سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ کون سا ملک کتنے پانی میں ہے۔ آءیے دیکھیں کہ لندن اولمپکس ۲۰۱۲ میں ہمارے خطے کے ممالک نے کیا کارنامے انجام دیے۔ لندن اولمپکس میں ہندوستان نے صفر طلاءی، دو نقرءی، اور چار کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ ان مقابلوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، اور بھوٹان کے کھلاڑی بھی شریک ہوءے تھے۔ ان پانچوں ممالک کے کھلاڑیوں نے کوءی طلاءی، نقرءی، یا کانسی کا تمغہ حاصل نہیں کیا۔ گویا دنیا کی آبادی کے قریبا بیس فی صد لوگوں سے نکلنے والے کھلاڑی ان عالمی مقابلوں میں انتہاءی پیچھے رہ گءے۔ اصل بات یہ ہے کہ موجودہ دور کے کھیلوں کے مقابلے کھیل کے مقابلے کم اور ساءنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے زیادہ ہیں۔ اب مقابلہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو کس قسم کی سہولیات حاصل ہیں؛ ان کی تربیت پہ کس قدر توجہ دی جارہی ہے اور کتنی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ظاہر کے وہ ممالک جو زیادہ وساءل اپنے کھلاڑیوں پہ لگا سکتے ہیں، اولمپکس مقابلوں میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
اب بات ہو جاءے علامہ سر محمد اقبال کی۔ جنوبی ایشیا کے اردو ہندی بولنے والے لوگ بالعموم اور جنوبی ایشیا کے مسلمان بالخصوص اقبال کے کلام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اقبال کو قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ عقیدت کے اظہار کے طور پہ محمد اقبال کو علامہ، شاعر مشرق، حکیم الامت، اور مفکر پاکستان کے القابات سے جانا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد اقبال کو یہ القابات کن لوگوں نے دیے اور کیا اب اقبال ساری دنیا میں ان ہی القابات سے جانے جاتے ہیں۔ اس کالم کے ذریعے یہ سوال اس کالم کے قارءین سے کیا جارہا ہے اور ان سے درخواست ہے کہ وہ اس کالم نویس کی معلومات میں ضرور اضافہ کریں۔ اور یہ سوالات اہم ہیں کیونکہ اس وقت انٹرنیٹ پہ وکی پیڈیا کے قلم نویسوں کے درمیان یہ گرماگرم بحث چل رہی ہے کہ وکی پیڈیا پہ موجود محمد اقبال کی سوانح میں ان القابات سے متعلق متن کس طور سے پیش کیا جاءے۔ کچھ لوگوں کی راءے ہے کہ صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ 'سر محمد اقبال شاعر مشرق اور حکیم الامت کے طور پہ جانے جاتے ہیں'۔ جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ لکھنا کہ 'محمد اقبال شاعر مشرق کے طور پہ جانے جاتے ہیں' صحیح نہیں ہے  کیوں کہ یہ جملہ بظاہر ایک عالمی سچ ظاہر کر رہا ہے۔ کہ اس جملے کو پڑھ کر خیال ہوتا ہے کہ پوری دنیا اقبال کو شاعر مشرق کے طور پہ جانتی ہے۔ اردو بولنے والے تو محمد اقبال کو شاعر مشرق کہتے ہیں۔کیا فارسی بولنے والے بھی اقبال کو شاعر مشرق کہتے ہیں؟ کیا چینی بھی یوں ہی کہتے ہیں؟ کیا عرب بھی اقبال کو اسی طرح جانتے ہیں؟ یعنی، اگر آپ ایران یا چین کے کسی اسکول میں جا کر پوچھیں کہ  بتاءو کہ کس شاعر کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے تو کیا تمام طلبا باآواز کہیں گے کہ "محمد اقبال کو"؟ عقل نہیں مانتی کہ ایسا ہوگا۔  اس کے برعکس یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر جگہ وہاں کے اپنے شاعر کو دوسروں پہ فوقیت دی جاتی ہے۔  کسی ایرانی سے پوچھیں، وہ کہے گا حافظ کے آگے اقبال کی کیا حیثیت۔ کسی بنگالی سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتاءے گا کہ ٹیگور کے سامنے اقبال کیا تیل بیچتے ہیں۔ اور کسی چینی سے ایسی بات کرنے کی ہمت بھی نہ کریں۔ وہ آپ کا گریبان پکڑ کر کہے گا کہ ہم ایک بلین سے زیادہ لوگ جن کی پانچ ہزار سال پرانی ثقافت اور زبان، اور تم اپنے ایک شاعر کو ہمارے تمام شعرا سے بڑھ کر سمجھتے ہو؟ مگر یہ تمام مفروضے ہیں۔ اس کالم کے پڑھنے والے قارءین کیا سمجھتے اور جانتے ہیں۔ کیا محمد اقبال واقعی پوری دنیا میں اب شاعر مشرق کے طور پہ جانے جاتے ہیں؟
پھر ایک تشویش کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال عالمی طور پہ شاعر مشرق کے طور پہ نہیں جانے جاتے بلکہ صرف برصغیر کے اردو ہندی بولنے والے اقبال کو اس لقب سے جانتے ہیں، ان پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اقبال  پہ تنقید کر کے ان کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ اول تو حقاءق کا اعتراف کسی پہ تنقید نہیں ہے۔ دوءم یہ انتہاءی تشویش کی بات ہے کہ محمد اقبال پہلے علامہ محمد اقبال، پھر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بنے اور اب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ بنا کر ہر قسم کی تنقید سے بالاتر بنا دیے گءے ہیں۔ اسی طرح محمد علی جناح، پہلے قاءد اعظم محمد علی جناح بنے اور اب قاءد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ بن کر فکری جستجو سے بلند تر ہو گءے ہیں۔ محمد اقبال بہت عظیم شاعر تھے مگر انہیں شاعر مشرق سمجھنا ایشیا کے بقیہ ڈھاءی ارب لوگوں کی ثقافت کا مذاق اڑانا ہے۔ اسی طرح محمد علی جناح یقینا بہت بڑے انسان اور اچھے قاءد تھے مگر انہیں دنیا کا سب سے بڑا قاءد سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ اور اسی طرح محد اقبال یا محمد علی جناح کی زندگی پہ تنقیدی نظر ڈالنا پاکستان سے غداری ہرگز نہیں ہے۔

Labels: ,


Monday, August 06, 2012

 

پانی سے چلتی گاڑی، ہوا سے چلتا ہواءی جہاز


اگست چھ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ستانوے

 پانی سے چلتی گاڑی، ہوا سے چلتا ہواءی جہاز

علی حسن سمندطور

خبر آءی ہے کہ خیرپور، سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نوجوان نے وہ ٹیکنالوجی ایجاد کر لی ہے کی گاڑی اب صرف پانی سے چلا کرے گی۔ یہ خبر پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ واہ، واہ، واہ، یہ ہوءی نہ بات۔ ہمارا دل پہلے ہی کفار کی پٹرول والی ٹیکنالوجی کے استعمال پہ کڑھتا تھا اور ہم پٹرول کی ہر دم بڑھتی ہوءی قیمت پہ غم زدہ رہتے تھے۔  دل نے خوش ہو کر کہا کہ، لعنت بھیجو پٹرول پر، اب آءے گا نہ آزادی کا اصل مزا۔  پھر ایک وسوسہ آیا کہ وطن میں بجلی کے قحط کے ساتھ پانی کا قحط بھی تو ہے، بجلی بنانے کے لیے میٹھا صاف پانی کہاں سے لاءیں گے۔  مگر پھر فورا تسلی ہوءی کہ وطن میں بارشیں بھی تو ہوتی ہیں؛ بس برسات کے موسم میں پانی سے اتنی بجلی بنا لیا کریں گے کہ پورے سال کے لیے کافی ہوجاءے۔ بلکہ ایک دفعہ پانی سے بجلی بننا شروع ہوجاءے تو اسی بجلی کی مدد سے سمندر کے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کریں گے اور پھر اس میٹھے پانی سے مزید بجلی بناءیں گے۔ پھر وطن میں اتنی بجلی ہوگی کہ ہر طرف بجلی دوڑ رہی ہوگی۔ یہ بجلی ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اضافی بجلی ہم ہندوستان کو بیچ سکیں گے۔ بلکہ ایران سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے تیل کے کنویں بند کرے اور جتنا خرچہ زمینی تیل کو پٹرول بنانے میں خرچ ہوتا ہے اس سے آدھے میں ہم سے پانی سے بنی بجلی خرید لے۔
وطن کے قابل فخر سپوت آغا وقار احمد خان کے اس اعلان کے بعد پاکستان کا  قریبا پورا انگریزی میڈیا اور اردو میڈیا میں موجود سامراجی ایجنٹ ہمارے اس موجد کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گءے ہیں۔ انگریز کے پٹھو یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ آغا وقار کا دعوی جھوٹا ہے اور یورپ اور امریکہ کی ساءنس بالکل ٹھیک ہے۔ مغرب کے ان گماشتوں کو اپنے لوگوں کی  کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ہمارا اپنا آدمی کوءی کارنامہ انجام دے تو یہ فورا اس پہ اوچھے وار شروع کردیتے ہیں۔  گویا ہمارے اپنے لوگ تو عظمت کے اہل ہیں ہی نہیں۔ ساری عظمت یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں ہے۔ تف ہے ان پہ اور ان کی غلامانہ ذہنیت پہ۔ اور فخر ہے ہمیں اپنے آغا وقار پہ جس نے ثابت کردیا ہے کہ پچھلے پانچ سو برس میں یورپ اور امریکہ نے ساءنس میں جو جھوٹا زور لگایا ہے ہم اس زور کو ایک جھٹکے سے ختم کر سکتے ہیں اور ان کے بتاءے گءے ساءنس کے اصول ان کے منہ پہ مار سکتے ہیں۔
آغا وقار کی اس حیرت انگیز ایجاد نے ہمارے لیے فکر کے نءے راستے کھول دیے ہیں۔ اگر زمین پہ گاڑی پانی سے چلاءی جا سکتی ہے تو یقینا بحری جہاز بھی پانی سے چلاءے جا سکتے ہیں۔ زمین پہ چلنے والی گاڑی کے لیے تو پانی پھر بھی گاڑی تک لانا پڑے گا مگر بحری جہاز تو پہلے ہی پانی میں چل رہا ہوتا ہے۔ بس سمندر کا پانی ایک طرف سے بحری جہاز کے اندر آءے گا اور بحری جہاز اس ایندھن کی مدد سے آگے چلنا شروع ہوجاءے گا اور یہ سلسلہ لامتناہی طور پہ چلتا رہے گا۔  پھر ایک خیال یہ بھی آیا کہ موجدوں کی شان رہی ہے کہ ذرا سی ادل بدل سے ایک ایجاد سے دوسری ایجاد تک پہنچ جاتے ہیں۔ ٹی وی کے موجد نے پہلے سیاہ و وسفید تصاویر لہروں کے ذریعے ارسال کیں اور پھر ذرا سی تبدیلی سے رنگین تصاویر بھی ٹی وی کی ٹیکنالوجی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیں۔ ہمیں آغا وقار سے بھی ایسی ہی ایجاد در ایجاد کی توقعات ہیں۔ اب جب کہ آغا وقار نے گاڑی کو صرف اور صرف پانی سے چلانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ کوءی ایسا کام کریں کہ ہواءی جہاز ہوا سے چلنا شروع ہو جاءیں۔ ان دو ایجادات سے پاکستان ذرا سی دیر میں صف اول کا ملک بن جاءے گا۔ دنیا بھر کے سمندروں میں پاکستان کے بحری جہاز اور فضا میں پی آءی کے ہواءی جہاز دندناتے پھر رہے ہوں گے۔ امریکہ، روس، اور چین کے ڈیزل سے چلتے بحری جہاز ہانپتے کانپتے آگے بڑھ رہے ہوں گے اور پاکستان کے پانی سے چلنے والے بحری جہاز فراٹے بھرتے ہوءے ان سے آگے نکل جاءیں گا۔ اسی طرح دنیا بھر کی اءیرلاءن کے جیٹ فیول سے چلنے والے ہواءی جہاز ابھی آہستہ آہستہ رن وے کی طرف بڑھ ہی رہے ہوں گے کہ پی آءی اے کا ہوا سے چلنے والا ہواءی جہاز پیچھے سے آءے گا، تیزی سے ہوا میں بلند ہو گا اور ٹاٹا کرتا ذرا سی دیر میں کہیں کا کہیں پہنچ جاءے گا۔

 

پلوٹو اور پورتوریکو، اور ورجن جزیرے





جولاءی اٹھاءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چھیانوے


 پلوٹو اور پورتوریکو، اور ورجن جزیرے

علی حسن سمندطور


ہمارے نظام شمسی کے نو سیارے ہیں، اگر اس خاندان میں آپ سیارہ پلوٹو کو جوڑیں تو۔ ان تمام سیاروں کا تعلق سورج ماں سے۔ کچھ بچے اس ماں کے قریب ہیں اور کچھ قدرے فاصلے پہ۔ ان سیاروں میں پلوٹو سب سے زیادہ فاصلے پہ ہے۔ یہ سیارہ سورج سے اس قدر دور ہے کہ سیارہ زمین تک سورج کی جو روشنی قریبا آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے وہ پلوٹو تک قریبا چھ گھنٹے میں پہنچتی ہے۔   یہ سورج کا وہ بچہ ہے جو باقی خاندان والوں سے اس قدر دور ہے کہ بقیہ خاندان شک ہی کرتا ہے کہ نہ جانے یہ ہمارے خاندان کا حصہ ہے بھی یا نہیں۔  جہاں قربت اور دوری کی ایسی مثالیں انسانی خاندانوں میں نظر آتی ہیں وہیں ملکوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ہر ملک کا ایک فکری مرکز ہوتا ہے؛ اس مرکز پہ وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ ملک کے وہ لوگ جو اس فکری مرکز کے قریب رہتے ہیں، اس ملک اور قوم کے تعلق کو زیادہ گہراءی سے محسوس کرتے ہیں۔ جغرافیاءی فاصلہ بڑھنے کے ساتھ کسی علاقے کے لوگوں میں ملک اور قوم سے متعلق فکری احساس کمزور پڑتا جاتا ہے۔ پورتو ریکو امریکہ کا وہ حصہ ہے جو اڑتالیس جڑی ریاستوں سے دور سمندر میں واقع ایک جزیرہ ہے اور اسی لیے وسیع ترامریکہ میں رہنے والے لوگوں کو پورتوریکو کو امریکہ کا حصہ سمجھنا شاید اتنا ہی دشوار لگتا ہو جتنا پورتوریکو میں رہنے والے لوگوں کو اپنے آپ کو امریکی سمجھنا۔ پورتوریکو آنے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا پورتوریکو میں بینک آف امریکہ کی شاخیں ہیں۔ کسی آن لاءن فورم میں ایک مبصر نے اس سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ بینک آف امریکہ صرف امریکہ میں ہے، اور اس لیے پورتوریکو میں اس بینک کی کوءی شاخ نہیں ہے۔ اس سیانے کو یہ خبر نہیں تھی کہ پورتوریکو امریکہ کا ہی حصہ ہے۔ پورتو ریکو صرف جغرافیے ہی میں وسیع تر امریکہ سے دور نہیں ہے۔ ایسے تو الاسکا بھی امریکہ سے دور ہے۔ ہواءی اور زیادہ دور ہے۔ اور گوام تو بالکل ہی ایشیا میں ہے۔ مگر پورتو ریکو الاسکا، ہواءی، اور گوام سے اس طرح مختلف ہے کہ یہاں انگریزی کی جگہ ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ پورتو ریکو ایک عرصہ ہسپانوی تسلط میں رہا ہے اور اسی لیے یہاں کے رہنے والے آج بھی ہسپانیہ اور نءی دنیا کے ہسپانوی علاقوں سے اپنا ثقافتی تعلق اپنے امریکی تعلق کے بارے میں زیادہ گہراءی سے محسوس کرتے ہیں۔  پورتو ریکو ہی کی طرح ورجن جزیرے بھی ہیں۔ ان جزیروں میں کچھ امریکہ کی ملکیت ہیں اور کچھ برطانیہ کی۔ ورجن جزیروں کی خاص بات یہ ہے کہ وسیع تر امریکہ کے مقابلے میں یہاں ٹریفک باءیں ہاتھ پہ چلتی ہے۔ امریکی ورجن جزیروں میں سب سے اہم جزیرہ سان ٹامس ہے۔ یہ کالم اسی جزیرے سے لکھا جا رہا ہے۔ پورتو ریکو کے شہر سان ہوان سے سان ٹامس کا ہواءی سفر آدھے گھنٹے کا ہے۔ صبح جہاز سان ہوان سے اڑا تو پورتوریکو کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلا اور پھر سمندر پہ پرواز کرتا ہوا ذرا سی دیر میں سان ٹامس پہنچ گیا۔  سان ٹامس پہنچ کر گاڑی کراءے پہ لی اور بچوں کو کام پہ لگا دیا کہ کچھ کچھ دیر میں نعرہ لگاتے رہیں کہ "گاڑی الٹے ہاتھ پہ چلاءیں"۔ بچوں کا یہ نعرہ کءی جگہ کام آیا کہ گاڑی سڑک کے داءیں طرف چلانے کی عادت بہت پختہ ہو گءی ہے اور دایاں یا بایاں موڑ مڑتے ہوءے گاڑی بے اختیار طور پہ سیدھے ہاتھ پہ آجاتی ہے۔ سان ٹامس کا سیاحتی مواد دیکھیں تو خیال ہوگا کہ یہاں ہنستے مسکراتے، سمندر میں نہاتے، دھوپ سینکتے صرف سفید فام لوگ ہی رہتے ہوں گے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ مقامی آبادی سیاہ فام لوگوں پہ مشتمل ہے۔ یہ لوگ نءی دنیا کے دور غلامی میں افریقہ سے لاءے گءے تھے۔ غلامی نے ان لوگوں پہ اس قدر کاری ضرب لگاءی کہ غلامی ختم ہونے کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ لوگ تعلیم میں پیچھے ہیں اور معاشی غلامی سے باہر نہیں نکل پاءے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو پوری دنیا ہی اب تک نوآبادیاتی نظام کے اثر سے باہر نہیں نکل پاءی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے دوران دنیا کا جو سیاسی نقشہ بنایا گیا تھا وہ بڑی حد تک اب تک برقرار ہے۔

 

متفرق موضوعات


جولاءی تءیس، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار پچانوے


 متفرق موضوعات

علی حسن سمندطور

یوسف رضا گیلانی کی وزیراعظم کے عہدے سے نااہلی کے بعد ملتان میں ان کی  قومی اسمبلی کی نشست خالی ہو گءی تھی۔ ہفتہ بھر پہلے ملتان کی اس قومی اسمبلی کی نشست پہ ضمنی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کا لڑکا عبدالقادر گیلانی کامیاب ہو گیا۔ چند ناقدین کا کہنا تھا کہ عبدالقادر گیلانی کی شوکت حیات بوسان کے مقابلے میں صرف چار ہزار ووٹ سے کامیابی کوءی معنی نہیں رکھتی۔ واضح رہے کہ شوکت بوسان ایک آزاد امیدوار کے طور پہ کھڑے ہوءے تھے مگر ان کو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ اس ضمنی انتخاب کے نتاءج میں بہت سی باتیں سمجھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان میں انتخابات میں ایسی اندھی دھاندلی نہیں ہوتی جیسی کہ مشہور ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے باوجود ان کا امیدوار اس ضمنی انتخاب میں ہار گیا۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں انتخابات کا ایک منفرد انداز ہے۔ وہاں علاقے کا ایسا بااثر شخص جس کی بہت ساری زمینیں ہوں اور ان زمینوں پہ بہت سے لوگ کام کرتے ہوں، انتخابات میں جیت جاتا ہے۔ گویا ان دیہی علاقوں میں میڈیا سے نشر ہونے والی خبروں اور پروپیگنڈے کا کوءی اثر نہیں ہوتا۔  عمران خان بار بار یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ اگلے ملک گیر انتخابات میں ان کی جماعت جھاڑو پھیر دے گی۔ عمران خان کو زیریں پنجاب اور سندھ کے انتخابات کا یہ انداز سمجھ میں آنا چاہیے۔ ان انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کا وہی امیدوار جیتے گا جو علاقے کا بااثر شخص ہوگا اور جس کے پاس بہت ساری زمینیں ہوں گی۔ پھر پیپلز پارٹی کی یہ طاقت بھی سمجھنی چاہیے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے متفقہ امیدوار کو ہرا سکتی ہے؛ ملک گیر انتخابات میں جب ہر حلقے میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اپنے الگ الگ امیدوار کھڑے کریں گے تو پیپلز پارٹی کو ان امیدواروں کو ہرانا کس قدر آسان ہوگا۔
اب آءیے ان موضوعات کی طرف جو گزشتہ چند ہفتوں سے ڈبلیو بی ٹی-ٹی وی کے مالک فرخ شاہ خان صاحب کے ٹی وی پروگرام وژن ۲۰۴۷ میں زیر بحث آءے ہیں۔
بچہ مزدوری- غربت و افلاس کے تنگ داءرے میں پھنسے لوگ۔ ایک ایسی زندگی گزارتےلوگ کہ جسے زندگی کہتے ہوءے بھی شرم آءے۔  آخر ایسا کیوں ہے؟ غربت کے کنویں میں گرنے کے کءی طریقے ہیں جن میں اپنے وساءل کا غلط استعمال اول شمار ہے۔ غربت کی وجہ سے اپنے کم سن بچے کو نوکری پہ لگا دینا اپنے وساءل کا ایسا ہی غلط استعمال ہے۔ کسی بچے کو مزدوری پہ شاید یہ سوچ کر لگایا جاتا ہے کہ اس عمل سے غربت دور ہوگی، مگر اکثر صورتوں میں یہ قدم خاندان کی اگلی نسل کو بھی غربت کے تنگ داءرے میں باندھنے کا سبب بنتا ہے۔ بچہ مزدوری نہ صرف یہ کہ بچے کا استحصال ہے اور اپنے خاندان اور بچے کے مستقبل کا قتل ہے بلکہ کسی بچے کو تعلیم سے دور رکھ کر مزدوری پہ لگانا پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے کہ یہ بچہ جو آج کتابوں سے دور ہے اور کارخانے میں مزدوری کر رہا ہے  نہ جانے تعلیم حاصل کرنے پہ کیا کچھ کرنے کا اہل تھا۔  بچہ مزدوری کا براہ راست تعلق غربت سے ہے اور اسی لیے ہم اس مسءلے کا وہ سطحءی حل نہیں چاہتے جس کی سفارش مغربی ادارے کرتے ہیں۔ غربت ختم کیے بغیر بچہ مزدوری پہ پابندی بے معنی ہے۔ ہم ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر معاشرہ اپنے وساءل کا بھرپور استعمال کرے اور اسی لیے معاشرے کا ہر فرد اچھی طرح سمجھے کہ معاشرے کا ایک خاندان اگر غربت سے تنگ آکر اپنے بچے کو مزدوری پہ لگاتا ہے تو اس عمل میں پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ ہم ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر بچے کو تعلیم کے مساوی مواقع حاصل ہوں تاکہ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے وہ بچہ اپنی ذہنی استعداد کے حساب سے اپنے پیشے کا تعین کر لے اور ایک ایسی خوشحال اور مطمءن زندگی گزارے جس سے پورا معاشرہ مستفید ہو۔
عورتوں کے حقوق- حقوق نسواں ایک نسبتا نیا خیال معلوم دیتا ہے مگر عورت ایک عرصے سے ان ہی بنیادی حقوق کی خواہش کر رہی ہے جن کا حق دار مرد ہے۔ اکثر رواءیتی معاشرے عورت کے لیے ظالم ہیں۔ ان معاشروں میں مرد کی حکمرانی ہے اورعورت کا درجہ ثانوی ہے۔ من گھڑت مذہبی روایات اور کھوکھلی معاشرتی اقدار کی اوٹ میں عورت کو دبا کر رکھا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں عورت مرد کی طرح ایک انسان نہیں ہے، بلکہ مرد کی جاگیر ہے۔ وہاں جس طرح زمین اور دولت مرد کی منتقلہ جاگیر ہے، اسی طرح عورت بھی مرد کی جاگیر ہے۔ ان معاشروں میں عورت کی اپنی خواہش تو کجا، اس کی اپنی کوءی زندگی ہی نہیں ہے۔  وہ مستقل اپنے آس پاس کے مردوں کو خوش رکھنے میں لگی رہتی ہے۔
آج بنی نوع انسان فکری ارتقا کی اس منزل پہ ہے جہاں جدید معاشروں میں عورت کو مرد جیسا مکمل انسان سمجھا جاتا ہے۔ اور اس خیال کی ساءنسی حقیقت ہے۔ عورت اور مرد میں جسمانی طور پہ فرق ہیں، مگر ذہنی طور پہ ان دو میں کوءی فرق نہیں۔   آج دنیا میں وہی معاشرے خوشحال ہیں جہاں عورت آزادانہ طور پہ مرد کے شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ جو معاشرے اپنی عورتوں کو گھر پہ باندھ کر رکھنا چاہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ اپنی آدھی آبادی پہ ظلم کر رہے ہیں بلکہ ان کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنی ایک ٹانگ باندھ کر اس دوڑ میں شامل ہوں جس میں باقی لوگ دونوں ٹانگوں سے دوڑ رہے ہوں۔ آج ہم جنوبی ایشیا میں ایسے ہی رواءیتی معاشرے دیکھتے ہیں جہاں عورت مرد کے اشاروں پہ چلتی ہے۔ یہ معاشرے عورت کے لیے پرتشدد ہیں اور گھیر در گھیر بندشوں سے عورتوں کو نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔
ہم ایک ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں عورت مرد کے چنگل سے مکمل آزاد ہو۔ اسے تحفظ حاصل ہو کہ وہ گھر سے تنہا باہر نکل کر اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرے یا نوکری کے مواقع تلاش کرے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔

Labels: ,


 

زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے





جولاءی سولہ، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چورانوے


 زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

علی حسن سمندطور

انسان اپنے دماغ سے بہت سارے منصوبے بناتا ہے مگر یہ نہیں سمجھتا کہ وہ ایک بزرگ تر کھیل کا حصہ ہے جس کے چند ہی پہلو بمشکل اس کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں، چنانچہ اس بات کا عین امکان موجود رہتا ہے کہ اس کے ساتھ کوءی ایسا حادثہ ہوجاءے جس کے بارے میں اس کا کبھی وہم و گمان بھی نہ رہا ہو۔ ایک دفعہ میں اپنے دوست سے اسی نکتے پہ بات کررہا تھا۔ ہمارے سامنے میز پہ کھانے پینے کی چند چیزیں موجود تھیں اور اسی وجہ سے ایک بھنگا وہاں منڈلا رہا تھا۔ مجھے اس بھنگے کی موجودگی وہاں اچھی نہ لگی اور میں نے ایک تالی بجا کر اس کی زندگی ختم کر دی۔ میرے دوست نے برجستہ کہا کہ 'ہاں، یہ بھنگا بھی نہ جانے کیا کچھ سوچ رہا ہوگا، اس نے اپنی زندگی میں آگے تک نہ جانے کس کس طرح کے منصوبے بناءے ہوں گے مگر یہ بلند تر کھیل کے تمام پہلو نہ سمجھتا تھا اور اسے یہ خیال نہ تھا کہ اچانک دو ہاتھ آءیں گے اور اس کی زندگی یوں ختم کر دیں گے۔'  تو ایسا ہی کچھ معاملہ ان اٹھارہ غریب نوجوانوں کے ساتھ ہوا جو بے روزگاری سے تنگ آ کر کر اپنے گھروں سے نکلے۔ نہ جانے کس نے انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان میں کام ملنا مشکل ہے، سرحد پار کر کے ایران چلے جاءو۔ کسی ایجنٹ کے توسط سے وہ بلوچستان کے قصبے تربت پہنچے۔ وہاں سے ایک بس انہیں ایران کی سرحد کے قریب لے گءی جہاں انہیں پیدل سرحد عبور کرنا تھی اور پھر ایران میں اپنا انتظام کرنا تھا۔ بس اسی وقت اچانک موٹرساءیکلوں پہ مسلح افراد نمودار ہوءے۔ مسلح افراد نے ان نوجوانوں کی بس پہ اندھادھند فاءرنگ کر دی اور اٹھارہ نوجوان چٹ پٹ ختم ہو گءے۔ مسلح افراد کے متعلق خیال ہے کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند تھے جو ہر طریقے سے پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات ٹھیک نہیں ہیں، کسی غیر بلوچ اور بالخصوص کسی پنجابی یا مہاجر کا یہ خیال نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی سے بلوچستان میں آ جا سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ایف سی کے نوجوان کسی طرح اس دور افتادہ مقام تک پہنچے اور اٹھارہ لاشوں کو کراچی پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ عبدالستار ایدھی ایسا فرشتہ صفت انسان ہے جس نے مستقل وہ کام کیا ہے جس کو کرتے ہوءے ایک عام آدمی کی ٹانگیں کپکپاءیں گی۔ ایدھی کی عمر مقتول افراد، سربریدہ لاشوں، اور کٹے پھٹے مردہ جسموں کو غسل دے کر انہیں دفنانے میں گزری ہے۔ مگر اب ایدھی کی عمر پچاسی سال ہے۔ جب یہ اٹھارہ لاشیں سہراب گوٹھ پہ واقع ایدھی سینٹر میں اتاری گءیں تو عبدالستار ایدھی ان لاشوں کو دیکھ کی بے ہوش ہوگءے۔ ایدھی گردے کے عارضے میں مبتلا ہیں اور اسی لیے اس واقعے کے بعد انہیں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولجی نامی اسپتال میں داخل کیا گیا۔  ایدھی کی ناسازی طبیعت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے میں پھیل گءی۔ کءی جگہ سے ایدھی کی صحت کے لیے اپیل کی گءی۔ نہ جانے کتنے ہاتھ دعا کے لیے ہوا میں بلند ہوءے، کتنی آنکھوں سے آنسو ٹپکے، کتنے رندھے گلوں سے دعا نکلی اور یہ پرخلوص گڑگڑاتی دعاءیں عبدالستار ایدھی کو موت کے منہ سے واپس زندگی میں کھینچ لاءیں۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایدھی اسپتال سے نکل کر سیدھے کام پہ پہنچ گءے ہیں۔
کل سوز جگر نامی ایک ادبی محفل میں جگر مرادآبادی کو یاد کیا گیا۔ ہر تین چار ماہ میں آءی سی سی میں ہونے والی ان ادبی محافل کا انعقاد حمیدہ بانو چوپڑہ صاحبہ کرتی ہیں۔ کل کی محفل کی صدارت وجے نگم صاحبہ نے کی جن کے والد جگر کے گہرے دوست تھے۔ وجے نگم صاحبہ نے بتایا کہ جگر اس قدر عمدہ انسان دوست تھے کہ وجے نگم صاحبہ کے والد کے انتقال کے بعد بھی وجے نگم صاحبہ کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر جاتے تھے۔ ملاقات مختصر ہوتی، کچھ اس انداز سے کہ جگر تانگے پہ وجے نگم صاحبہ کے سسرال پہنچتے، تانگہ گھر کے باہر ہی کھڑا رہتا، جگر اندر جا کر وجے نگم صاحبہ کا حال پوچھتے، ان کے سر پہ ہاتھ پھیرتے اور پھر کچھ کھاءے پیے بغیر ہی وہاں سے چل پڑتے۔ سوز جگر نامی محفل میں امجد نورانی، انشمن چاندرا، الماس حمید شبوانی، الکا اجمانی، روی خورشید، انل چوپڑہ، اشرف حبیب اللہ، بمبءی سے آنے والے موسیقار روی، اور انوپما دلال نے جگر کی شاعری پڑھی۔ محفل کی خاص بات جگر مرادآبادی کی وہ بے مثال غزل تھی جو انوپمادلال نے اپنی خوب صورت آواز میں گا کر سناءی۔

طبیعت ان دنوں بے گانہ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی مہ خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ
مگر آواز نوشہ نوش مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگر یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

کل تک ایدھی کی بحالی صحت کی خبر نہیں ملی تھی اور میرا دل وسوسوں سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ جگر کی درج بالا غزل کے مقطع کے 'زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے' والے حصے پہ خاص دھیان تھا۔ کہ زندگی واقعی یوں ہی ہے۔ جوانی میں انسان موت کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے مگر پھر عمر بڑھنے کے ساتھ جسم کی تواناءی کم ہوتی جاتی ہے، اعضا جواب دینے لگتے ہیں اور زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے۔

Labels: ,


 

دہری شہریت، دہری وفاداری؟

جولاءی آٹھ، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ترانوے

 دہری شہریت، دہری وفاداری؟



عدلیہ اور ایوان صدر کے درمیان جنگ ایک عرصے سے افتخار محمد چوہدری اور آصف علی زرداری کے درمیان ذاتی لڑاءی کے طور پہ دیکھی جارہی ہے۔ افتخار چوہدری چاہتے ہیں کہ آصف زرداری پہ رشوت کے مقدمات چلاءے جاءیں مگر کیا کیجیے کہ ایوان صدر پہنچ کر زرداری تہہ در تہہ قانونی پیچیدگیوں کے پیچھے جا چھپے ہیں۔ اب افتخار چوہدری جس جس زاویے سے ایوان صدر پہ وار کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کو دہری شہریت کے قانونی شکنجے میں پھنسا کر نوکری سے فارغ کرنا بھی ایسا ہی ایک وار ہے۔ قصہ محمود اختر نقوی ایڈووکیٹ کی عدالت میں درخواست سے شروع ہوا۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ فرح ناز اصفہانی اور رحمن ملک سمیت بہت سے منتخب نماءندے اپنے عہدوں کے اہل نہیں ہیں کیونکہ آءین کے مطابق ان عہدوں پہ صرف ایسے لوگ فاءز ہو سکتے ہیں جو صرف اور صرف پاکستانی شہری ہوں، جب کہ فرح ناز اصفہانی پاکستانی ہونے کے ساتھ امریکی شہریت رکھتی ہیں، رحمن ملک پاکستانی ہونے کے علاوہ برطانوی شہری بھی ہیں، اور اسی طرح کی دہری شہریت درخواست میں شامل دوسرے افراد کی بھی ہے۔  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت درخواست دہندہ سے کہتی کہ اس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ درج بالا افراد واقعی دہری شہریت رکھتے ہیں۔ مگر عدالت نے محمود اختر نقوی کی درخواست قبول کی اور دہری شہریت کے حامل منتخب نماءندوں کو حکم دیا کہ وہ ثابت کریں کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو وہ اپنے عہدوں سے فارغ ہیں۔ فرح ناز اصفہانی نے خاموشی سے فرار کا راستہ اختیار کیا جب کہ رحمن ملک کے وکیل عدالت سے لڑ رہے ہیں کہ ان کا موکل اپنی برطانوی شہریت منسوخ کر چکا ہے۔ اور حکومت عدالت عالیہ کے اس وار سے پریشان ہو کر آءین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تاکہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی انتخابات بھی لڑ سکیں اور اعلی حکومتی عہدوں پہ فاءز بھی ہو سکیں۔
اس قانونی جھڑپ سے ملک میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ پاکستان سے باہر بسنے والے پچاس لاکھ سے اوپر پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان کیسا سلوک کرے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ انتخابات بھی لڑیں اور سرکاری عہدے بھی رکھ سکیں وہ کہہ رہے ہیں کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، کیا وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ پاکستان کو اپنا وطن سمجھ کر وہاں کے ہر معاملے میں شریک ہوں؟ جب کہ جو لوگ دہری شہریت والے پاکستانیوں سے متعلق آءینی شق کو جوں کا توں دیکھنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ دہری شہریت سے دہری وفاداری وابستہ ہے۔ دہری وفاداریاں رکھنے والے لوگ ہر موقع پہ پاکستان کا مفاد عزیز نہ رکھیں گے، اس لیے ان لوگوں سے متعلق آءینی شق کے تحفظات بجا ہیں۔
غور سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی دو بڑے حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو مشرق وسطی میں کام کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو مغربی ممالک میں جا بسے ہیں۔ جو لوگ مشرق وسطی میں کام کرتے ہیں وہ  بالعموم چاہے کتنا عرصہ بھی ان ملکوں میں رہیں وہاں کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے۔ جب کہ مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو یہ سہولت ہے کہ وہ ان ممالک کے شہری بن سکتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں رقم کی ترسیل کا تعلق ہے اس زرمبادلہ کا بڑا حصہ مشرق وسطی کے پاکستانیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یا اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بیرون ملک بسنے والے وہ پاکستانی جو پاکستان کو سب سے زیادہ مالی فاءدہ پہنچا رہے ہیں دہری شہریت کے حامل نہیں ہیں۔ پھر ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ مواصلات میں انقلاب کے بعد ملک اور قوم سے وفاداری بتدریج بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔  پرانے وقتوں میں لوگ ظالم بادشاہ کے چنگل سے بھاگتے تھے اور اچھے بادشاہ کی راج دہانی میں پہنچ کر سکون کا سانس لیتے تھے۔ آج بھی لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانی پاکستان سے نہیں بھاگے ہیں، وہ پاکستان کے خراب نظام سے بھاگے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے ہمدرد ہیں اور پاکستان کا نظام تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو آءین کے ذریعے سرکاری عہدوں سے دور رکھنا شاید بہت دانشمندانہ قدم نہیں ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت ہے۔ پاکستان میں عوام کی مرضی سے حکومت بنی ہے اور آءندہ بھی بنے گی۔ چنانچہ ہم آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمانی کارواءی کے ذریعے آءین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر کسی وجہ سے حکومت کا یہ قدم عوام کو قبول نہیں ہے تو اگلے انتخابات کے بعد نءے منتخب نماءندے سامنے آءیں گے اور وہ ایک اور پارلیمانی کارواءی کے ذریعے پہلے کی جانے والی ترمیم منسوخ کرواسکیں گے۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?