Friday, May 30, 2014

 

وہی وحی








 مءی  پچیس،  دو ہزار چودہ
 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  نوے

وہی وحی

 
ناءیجریا میں اغوا شدہ طالبات ہنوز بازیاب نہیں ہوپاءی ہیں۔ ان لڑکیوں کو اغوا کرنے کا سہرا بوکو حرام نامی تنظیم کے سر ہے جس کے قاءد ابوبکر شیکاءو کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کی تنظیم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالی کے حکم سے کر رہے ہیں۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ اللہ تعالی کا حکم بوکو حرام تک پرانی مذہبی کتب کے ذریعے پہنچ رہا ہے یا ان پہ تازہ وحی نازل ہورہی ہے۔
تذکرہ ہو موجودہ عہد میں لوگوں تک 'خدا کی آواز' پہنچنے کا تو ذہن خود بخود ٹم میک لین کے قتل کے واقعے کی طرف جاتا ہے۔ اس کالم کو جو لوگ کینیڈا میں پڑھ رہے ہیں وہ تو اس مشہور قتل کے واقعے سے واقف ہوں گے مگر شاید دوسری جگہوں کے لوگ اس قتل کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔ ان ہی لوگوں کی معلومات کے لیے ٹم میک لین کے قتل کا واقعہ مختصرا تحریرکرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بات ہے سنہ ۲۰۰۸ کی گرمیوں کی۔ ٹم میک لین ایک باءیس سولہ کینیڈءین نوجوان ہے جو اس دنیا میں اپنا مقصد تلاش کررہا ہے اور چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے اپنا کام چلاتا ہے۔ وہ صوبہ مینیٹوبا کے شہر ونی پگ کا رہنے والا ہے۔ اسے گھر سے کافی دور صوبہ البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں ایک نماءش میں نوکری ملتی ہے۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے اس روز ٹم میک لین ایڈمنٹن سے واپس اپنے گھر جارہا ہے۔ اس سفر کے لیے وہ گرے ہاءونڈ نامی بس کمپنی کی ایک بس میں سوار ہوتا ہے۔ فاصلہ طویل ہے اور بس راستے میں آنے والے قصبوں میں رکتی ہوءی جارہی ہے۔ بس البرٹا اور مینیٹوبا کے درمیان واقع صوبہ سیسکیچیوان پار کر کے مینیٹوبا میں داخل ہوتی ہے اور کچھ دیر بعد ایرکسن نامی ایک قصبے میں رکتی ہے۔ ٹم میک لین اب اپنے شہر کے قریب آگیا ہے۔ ایرکسن  سے ونس لی نامی ایک شخص بس میں سوار ہوتا ہے۔ ونس لی کو اپنے آباءی ملک چین سے کینیڈا پہنچے چند سال ہی گزرے ہیں اور وہ اب تک انگریزی بولنے میں دقت محسوس کرتا ہے۔ اس کی نوکری لگتی چھٹتی رہی ہے اور وہ کام کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھٹکتا رہا ہے۔ بس میں سوار ہونے کے بعد ونس لی آگے کی ایک سیٹ پہ بیٹھ جاتا ہے۔ ٹم میک لین بس میں بہت پیچھے بیٹھا ہے۔ ٹم بس کی دیوار سے سر لگا کر اونگھ رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بس ایک اور جگہ رکتی ہے تو ونس لی بس میں پیچھے کی طرف آتا ہے اور ٹم میک لین کے برابر میں بیٹھ جاتا ہے۔ ٹم میک لین آنکھ کھول کر ایک نظر ونس لی کو دیکھتا ہے اور پھر اونگھنا شروع ہوجاتا ہے۔ بس ایک دفعہ پھر چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر کچھ دیر بعد اچانک ٹم میک لین کی زوردار چیخیں بلند ہوتی ہیں۔ بس میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ ونس لی کے ہاتھ میں ایک بڑا چھرا ہے جس سے وہ ٹم میک لین پہ  پے در پے وار کررہا ہے۔ ٹم میک لین اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہا ہے مگر ونس لی کے بڑے چھرے کے سامنے ٹم کی ایک نہیں چل رہی۔ ڈراءیور بس کو روک دیتا ہے۔ بس میں موجود دوسرے مسافر خوفزدہ حالت میں بس سے اترجاتے ہیں۔ وہ بس سے باہر کھڑے اندر کا منظر دیکھ رہے ہیں اور انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھے پہ یقین نہیں آرہا۔ ونس لی کے وار ٹم میک لین پہ جاری ہیں۔ جن مسافروں کے پاس فون ہیں وہ فورا پولیس کو فون ملاتے ہیں مگر بس ویرانے میں کھڑی ہے اور پولیس کو وہاں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ونس لی کے ہر وار کے ساتھ ٹم میک لین کی مزاحمت کمزور پڑتی جارہی ہے اور پھر بس سے باہر کھڑے مسافروں کے دیکھتے دیکھتے ونس لی ٹم میک لین کا سر تن سے جدا کردیتا ہے۔ اب ٹم میک لین کا کٹا سر ونس لی کے ہاتھ میں ہے۔ لوگ باہر کھڑے چیخیں ماررہے ہیں۔ وہ بسوں سے سفر کرتے رہے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن بس کے ایک عام سے سفر میں انہیں وہ کچھ دیکھنے کو ملے گا جو کسی ڈراءونی فلم میں بھی شاذونادر ہی دکھایا جاتا ہے۔ بس کے ڈراءیور نے بس کے دونوں دروازے باہر سے بند کردیے ہیں تاکہ ونس لی قتل کی اس واردات کے بعد فرار نہ ہو پاءے۔ مگر ونس لی فرار ہرگز نہیں ہونا چاہتا۔ اس کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اب ونس لی ٹم میک لین کے مردہ دھڑ کے مزید ٹکڑے کرتا ہے اور گوشت کو کھانے کا کام شروع کرتا ہے۔ کچھ دیر میں پولیس آجاتی ہے۔ پولیس ونس لی کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے مگر ونس لی بس سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بس کے مسافروں کو روانہ کیا جاتا ہے اور پولیس بس کا محاصرہ کیے وہیں موجود رہتی ہے۔ کءی گھنٹوں بعد ونس لی کی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ جب ونس لی کو قتل کے الزام میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ بیان دیتا ہے کہ اسے خدا کی طرف سے بشارت آءی تھی کہ ٹم میک لین کے اندر ایک شیطان موجود ہے؛ ونس لی کو خدا نے حکم دیا تھا کہ ونس لی ٹم میک لین کو فورا قتل کردے۔
خواتین و حضرات، ایک وقت تھا کہ اللہ تعالی اپنا پیغام ان مقدس ہستیوں کے ذریعے ہم تک پہنچاتا تھا جن پہ وحی اترتی تھی۔ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں اگر کوءی شخص دعوی کرے کہ اس پہ وحی نازل ہورہی ہے تو اسے فورا پاگل خانے پہنچانا چاہیے۔ مغرب میں یہ کام بخوبی ہورہا ہے۔ ونس لی کا نفسیاتی علاج جاری ہے۔ مگر دوسری جگہوں پہ خدا کی طرف سے بشارت کا دعوی کرنے والے  دندناتے پھر رہے ہیں اور 'خدا کی رضا سے' طالبات کو اغوا کررہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی 'اپنے' پاگلوں کو پکڑ کر ان کا نفسیاتی علاج کریں۔


Labels: , , , , , , , , , , , , , ,


Saturday, May 24, 2014

 

کرامت غوری کا بار شناساءی









مءی  اٹھارہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  نواسی


کرامت غوری کا بار شناساءی


 
کرامت غوری صاحب نے اپنی تازہ ترین کتاب کا عنوان بار شناساءی رکھ کر لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مشکل تذکیر و تانیث کے تعین میں ہے۔ یعنی اسے کرامت غوری کا بارشناساءی کہا جاءے یا کرامت غوری کی بارشناساءی۔ شاید ایک ہی جملے میں مذکر و مونث کا استعمال کر کے مسءلے کو حل کیا جاسکتا ہے: کرامت غوری کا بارشناساءی جو انہوں نے اپنی بارشناساءی میں اتارا ہے۔ کرامت غوری صاحب اپنی تازہ کتاب کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کی مہم پہ نکلے ہوءے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ سان فرانسسکو بے ایریا بھی آءے۔
سان فرانسسکو بے ایریا کے معروف شاعر تاشی ظہیر صاحب اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے نام سے اپنے مرحوم بھاءی انوار انجم کی یاد قاءم رکھنے کے لیے ماہانہ ادبی محافل منعقد کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور آج اردو اکیڈمی ایسا تناور درخت بن گءی ہے جس کے ساءے کا فاءدہ شمالی کیلی فورنیا سے گزرنے والا ہر طرح کا آرٹسٹ اٹھاتا ہے۔ شاعر، ادیب، ساءیکل پہ جہاں نوردی کرنے والے، اداکار، موسیقار، مغنی، ہر طرح کے یہ فنکار اردو اکیڈمی آ کر اپنے فن کا مظاہرہ اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کے سامنے کرتے ہیں اور ان محافل کی شہرت دور دور تک پھیل جاتی ہے۔
اردو اکیڈمی نے کرامت غوری صاحب کی کتاب بار شناساءی کی تعارفی تقریب سنیچر مءی سترہ کے روز چاندنی ریستوراں میں منعقد کی۔ کرامت غوری صاحب نے عمر کا بڑا حصہ پاکستان کے محکمہ خارجہ میں گزارا ہے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کرامت غوری صاحب نے کءی ممالک میں سفارت کاری کے فراءض انجام دیے ہیں۔ سفیر کے اہم عہدے پہ فاءز ہونے کی وجہ سے ان کا واسطہ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر شخصیات سے پڑا۔ شناساءی کے یہی قصے کرامت غوری صاحب کی کتاب 'بار شناساءی' کے موضوعات ہیں۔ مگر بار شناساءی محض چیدہ چیدہ قصاءص کی تحریر نہیں ہے بلکہ یہ گہرے مشاہدے اور تاریخ کے ادراک کا بیان ہے۔ اور یہی اس کتاب کی خاص بات ہے۔
کرامت غوری کی کتاب میں موجود شخصی خاکے تاریخی ترتیب کے ساتھ نہیں لکھے گءےہیں، بلکہ جس مشہور شخصیت سے کرامت غوری صاحب کا جتنا واسطہ پڑا، غوری صاحب نے اتنا زیادہ ہی اس شخص کے بارے میں لکھا ہے اور بارشناساءی طویل سے مختصر خاکوں کی ترتیب میں تشکیل دی گءی ہے۔
کرامت غوری صاحب کی کتاب نوشخصی خاکوں پہ مشتمل ہے۔  ان نوخاکوں میں چھ سربراہان مملکت کے ہیں: ضیا الحق ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، محمد خان جونیجو، نواز شریف، اور جنرل پرویز مشرف کے خاکے۔ اور تین خاکے مقتدر شخصیات کے ہیں: ڈاکٹر عبدالسلام، حکیم محمد سعید، اور، فیض احمد فیض کے خاکے۔ جن لوگوں کے شخصی خاکے لکھے گءے ہیں وہ سب کے سب، سواءے دو کے، اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
کہنے کو تو یہ کتاب نوشخصی خاکوں پہ مشتمل ہے مگر دراصل اس میں دس خاکے ہیں۔ اور دسواں خاکہ خود کرامت غوری صاحب کا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب خاکوں کی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوانح بھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کے بچپن سے لے کر تحریر کتاب تک کی زندگی کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس دسویں خاکے میں آپ ایک چھ سالہ لڑکے کو دیکھتے ہیں جو دہلی کی گلیوں میں ایک آزاد ملک کے حصول کے لیے نعرے لگا رہا ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ کراچی آتا ہے، جوجامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مختصر عرصہ نوکری کرتا ہے، اور پھر محکمہ خارجہ میں ملازمت کرنے پہ اپنی قابلیت سے ترقی کرتا کرتا سفیر بنتا ہے اور ملک ملک کی خاک چھانتا ہے۔
سربراہان مملکت کا کتاب لکھنا تو اب ایک عام بات ہے مگر سرکاری مشینری سے وابستہ دوسرے اہم افراد کا اپنی کتابوں کے ذریعے اپنے تجربات اور مشاہدات کا بیان بھی اہم ہے۔ ان ہی صاحبان کی کتابوں سے ہمیں تاریخی شخصیات اور واقعات کو نءے انداز سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔  کرامت غوری صاحب کی کتاب ہر بڑے شخص کے پیچھے موجود انسان کی کہانی ہے۔  انسان جو ایک پیچیدہ مشین ہے، وہ انسان جو چاہے کسی بھی منصب پہ پہنچ جاءے اپنی بنیادی ہءیت میں بالکل آپ اور میرے جیسا ہے۔ کرامت غوری کی کتاب ان ہی انسانوں کی وہ کہانی ہے جس میں آپ کو اہم عہدوں پہ فاءز ان لوگوں کے روز مرہ کے طور طریقے وضاحت سے نظر آءیں گے۔
خوبصورت نثر میں لکھی گءی یہ کتاب محض شخصی خاکوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں درج واقعات کو پڑھ کر آپ نوکرشاہی کے طور طریقے جان سکتے ہیں۔ آپ جانیں گے کہ نوکرشاہی کے افسران کے لیے یہ بات کتنی اہم ہوتی ہے کہ کسی شخص کو اس کے عہدے کے حساب سے محفل میں کہاں بٹھایا گیا اور ہواءی جہاز سے اترنے کے بعد کسی سربراہ مملکت نے کس شخص سے کتنی دیر ہاتھ ملایا۔
پھر اس کے ساتھ ہی آپ کو بیرون ملک دورہ کرنے والے پاکستانی وفود کا حال معلوم ہوگا کہ ان وفود میں شامل لوگ کس نیت سے بیرون ملک جاتے ہیں اور کس طرح ان کی دلچسپی سرکاری کاموں سے زیادہ گھومنے پھرنے، کھانے پینے، اور خریداری میں ہوتی ہے۔


Labels: , , , , , , ,


 

اوپن فورم ۲۰۱۴




مءی  گیارہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  اٹھاسی


اوپن فورم ۲۰۱۴




سان فرانسسکو بے ایریا میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی صحیح تعداد کے بارے میں حتمی طور سے کہنا تو مشکل ہے کہ اس آبادی کا تعین کرنے کے لیے کوءی ساءنسی سروے نہیں ہوا ہے، مگر اندازہ ہے کہ اس علاقے میں پانچ ہزار سے پندرہ ہزار کے درمیان ایسے افراد بستے ہیں جو پاکستان سے یہاں پہنچے ہیں۔ ان لوگوں میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی ہے جو 'ٹیکنالوجی' سے وابستہ ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ایک جماعت اپنے انگریزی مخفف اوپن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اوپن سلیکن ویلی ہر سال ایک کانفرینس اوپن فورم کے نام سے منعقد کرتی ہے۔ اس کانفرینس میں ایسے لوگ جمع کیے جاتے ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں یکتاءے روزگار ہوتے ہیں۔ ان کامیاب شخصیات کو سننے اور ان سے سیکھنے کے لیے لوگ دوڑے چلے آتے ہیں۔ مندوبین کی دلچسپی کے لیے کانفرینس کی بیشتر کارواءی تین متوازی حصوں میں چلاءی جاتی ہے۔ آپ کو ایک ساتھ چلنے والے تین پروگرام میں سے جو سننا ہے، اس جگہ چلے جاءیں۔ اوپن فورم ۲۰۱۴ میں مجھے جس پہلے پروگرام کو سننے کا موقع ملا وہاں سیکویا کیپٹل کے گواریو گرگ فاءر آءی سے متعلق اپنے مشاہدات اور خیالات بیان کررہے تھے۔ یاد رہے کہ فاءر آءی کے بانی اشعر عزیز ہیں جن کا تعلق کراچی اور اسلام آباد سے ہے۔ حال میں جب فاءر آءی کے حصص پبلک کیے گءے تو اشعر عزیز سمیت فاءر آءی کے کءی افسران راتوں رات بہت مالدار ہوگءے۔ فاءر آءی کی داستان سے متعلق اس پروگرام میں عارف ہلالی نے گواریو گرگ سے سوالات پوچھے۔
اسی ہال میں ہونے والے اگلے پروگرام میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور وکلا تحریک کے اہم قاءد منیر ملک نے پاکستان میں کاروبار اور تجارت سے متعلق قوانین کے بارے میں گفتگو کی۔ اس محفل میں بہت سے لوگ یہ سوچ کر شریک ہوءے تھے کہ سابق چیف جسٹس سے ملک کے سیاسی معاملات پہ بات ہوگی۔ مگر ایسا نہ ہوپایا۔
اوپن فورم ۲۰۱۴ میں دوپہر میں ہونے والے ایک پروگرام میں پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرن منٹر، اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز، اور صدر اوباما کے مشیر دلاور سید کے ساتھ  شریک تھے؛ موضوع تھا امریکی حکومت اور پاکستانی امریکیوں کی پاکستان میں ترقی کے منصوبوں میں ممکنہ معاونت۔ اس محفل میں کیمرن منٹر نے عسکری نوعیت کے سوالات [ڈرون حملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ، وغیرہ] کے جوابات دینے سے گریز کیا۔
اوپن سلیکن ویلی کے صدر شہاب ریاضی ایک نہایت کامیاب کانفرینس کے انعقاد پہ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اوپن فورم ۲۰۱۴ کی چیدہ چیدہ تصاویر یہاں ملاحظہ فرماءیے۔
http://karachiphotoblog.blogspot.com/
اوپن فورم میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ یہاں شمالی کیلی فورنیا میں کامیاب ہونے والے لوگ اپنے دیس میں ایسی کامیابی کیوں حاصل نہیں کر سکتے۔  میرا دھیان تربوز کے ان بیجوں کی طرف گیا جو میں نے قریبا دو ماہ پہلے چھوٹے گملوں میں لگاءے تھے۔ میں نے تجربہ کار باغبانوں سے یہ گر سیکھا ہے کہ بیجوں کو شروع مٹی [اسٹارٹر سواءل] میں لگایا جاءے۔ یہ شروع مٹی پودوں کی دکانوں میں باآسانی دستیاب ہوتی ہے۔ اس شروع مٹی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت بھربھری ہوتی ہے، اس میں کھاد ملی ہوتی ہے، اور اس مٹی میں پانی کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھنے کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب کبھی نءے بیج لگانے ہوں تو میں چھوٹے پلاسٹک کے گملچوں میں شروع مٹی بھرتا ہوں اور پھر بیج کو ہلکا سا دبا کر اوپر سے پانی ڈال دیتا ہوں۔ شروع مٹی میں بیج کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے اور ہفتے بھر کے اندر بیج سے نیا پودا پھوٹ پڑتا ہے۔ تربوز کے بیجوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ باہر موسم نسبتا سرد تھا اس لیے میں نے کءی ہفتوں تک تربوز کے ان نءے پودوں کو گملچوں میں کھڑکی پہ ہی رکھے رہنے دیا۔ چند ہی ہفتوں میں یہ پودے لمبی لمبی بیلیں بن گءے۔ پھر جب مجھے خیال ہوا کہ موسم بہتر ہوگیا ہے تو میں نے ان بیلوں کو باغ میں منتقل کردیا۔ مگر باغ کی مٹی کی زرخیزی کا مقابلہ شروع مٹی کی زرخیزی سے ذرا نہ تھا۔ اور ساتھ یہ غضب ہوا کہ باغ کی مٹی کو میں نے اچھی طرح کھود کر نرم نہیں کیا تھا۔ تین پودے تو کچھ ہی دنوں میں جل کر ختم ہوگءے۔ جو بچے ہیں وہ بھی اپنی نءی جگہ پہ بہت زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔  ثابت ہوا کہ اچھا بیج تو پورے معاملے کا محض ایک جز ہے۔ بیج سے پھل دار پودے تک کے سفر میں مٹی کا اچھا ہونا شرط ہے۔ پھر مستقل پانی ڈالنا بھی ضروری ہے، اور کھاد سونے پہ سہاگے کا کام کرتی ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک جہاں سیاسی استحکام عنقا ہے، ایسی ہی مٹی کی مانند ہیں جس میں اچھے سے اچھے پودے کا چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔






Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?