Sunday, October 02, 2011

 

دو موضوعات: ممتاز قادری اور فلسطینی ریاست





ممتاز قادری
ممتاز قادری کو عدالت نے سزاءے موت سناءی ہے۔ میں ہر سزاءے موت کے خلاف ہوں، اسی لیے ممتاز قادری کی سزاءے موت کے بھی خلاف ہوں۔ دراصل میں جرم و سزا کے رواءیتی نظام ہی سے مطمءن نہیں ہوں۔ ہر انسان بہت سی صلاحیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے اور خود سے وابستہ لوگوں کے مستقبل کے لیے بہت سے امکانات رکھتا ہے۔ تو پھر کسی شخص کے ایک عمل کو جواز بنا کر مختلف صلاحیتوں کے اس پورے مجموعے کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہوا؟ ایک قاتل ہی کو لے لیجیے۔ قتل تو قاتل کا محض ایک عمل ہے؛ اس گھناءونے فعل کے باوجود وہ شخص ایک کارآمد شہری، ایک اچھی اولاد، ایک اچھا بھاءی، ایک اچھا شوہر، اور ایک اچھا باپ ہو سکتا ہے۔ جب ایک قاتل کو سزاءے موت دی جاتی ہے تو اس کی زندگی کے اور پہلوءوں کو نظرانداز کر کے محض اس کے ایک جرم پہ اس شخص کی زندگی ختم کرنے کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ مجھے اس سزا میں انصاف کا پہلو نظر نہیں آتا۔ ممتاز قادری نے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کر کے بہت برا کام کیا۔ اپنے اس عمل سے ممتاز قادری نے معاشرے میں ماوراءے عدالت کارواءیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی؛ اس گھٹیا انسان نے معاشرے میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی؛ یہ کوشش کی ہم سب مستقل خوف کے ماحول میں رہیں کہ نہ جانے کب کسے خیال ہو جاءے کہ ہم نے کوءی غلط کام کیا ہے اور کون گھات لگا کر ہم پہ وار کرے اور ہماری زندگی کا خاتمہ کر دے۔ مگر قتل کی اس واردات کے باوجود ممتاز قادری کی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے میرا اصولی اختلاف ہے۔

آزاد فلسطین
کچھ روز پہلے میں نے چند لوگوں کے سامنے اس بات پہ خوشی کا اظہار کیا کہ محمود عباس کی حکومت اقوام متحدہ میں آزاد فلسطینی ریاست کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک دوست نے خیال ظاہر کیا کہ یہ سب سیاست ہے؛ عباس کی حکومت اپنی ساکھ بچانے کے لیے یہ سیاسی بازی گری دکھا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سوچا کہ نہ جانے لوگ اس قدر قنوطی کیوں ہوتے ہیں۔ بالفرض محال اگر محمود عباس محض دکھاوے کے لیے یہ کارواءی کر رہے ہیں تو کیا آزاد فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ سے منوانے میں فلسطین کے کسی دوست کو کوءی براءی نظر آتی ہے؟ دو فریقین میں کسی جھگڑے کو نمٹانے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہوں اور ایک فریق کسی عمل کی تجویز پیش کرے اور اس تجویز پہ دوسرا فریق چراغ پا ہو جاءے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اس تجویز میں پہلے فریق کا فاءدہ پوشیدہ ہے۔ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کروانے کے سلسلے میں جب سے کام شروع ہوا ہے اسراءیل اور امریکی انتظامیہ کی برہمی واضح ہے۔ کیا اسراءیل اور امریکی انتظامیہ کے یہ بگڑتے تیور ظاہر نہیں کرتے کہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کروانے میں فلسطینیوں کا فاءدہ ہے؟ دنیا بھر کی نظروں میں فلسطین کو آزاد ریاست منوانے کے بہت سے فاءدے تو بالکل واضح ہیں۔ یہ آزاد ریاست ہر موقع پہ احتجاج کرے گی کہ ایک دوسرا ملک یعنی اسراءیل مستقل اس کے معاملات میں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ اسراءیل کو بار بار عالمی عدالت میں گھسیٹا جاءے گا۔ آزاد فلسطین مطالبہ کرے گا کہ غزہ کی بندرگاہ آزاد ہو تاکہ فلسطین براہ ریاست دنیا سے تجارت کر سکے۔ رفاع کا بارڈر دو آزاد ممالک یعنی مصر اور فلسطین کے درمیان ایک آزاد بارڈر بن جاءے۔ اور اردن اور فلسطین کے درمیان سفر کرنے والے لوگ حسین ایلن باءی پل سے کیوں داخل ہوں کہ جس پہ اسراءیل کا قبضہ ہے۔ دریاءے اردن کو کشتی سے کیوں نہ پار کیا جاءے کہ اردن سے آنے والے لوگ براہ راست فلسطینی ریاست میں داخل ہوں؟ اس آزاد فلسطینی ریاست میں ہواءی اڈہ کیوں نہ ہو کہ جہاں بیرونی دنیا سے آنے والے جہاز براہ راست اتر سکیں؟ فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پہ تسلیم کر لیا گیا تو دوسرے آزاد ممالک مطالبہ کریں گے کہ انہیں آزاد فلسطین سے آزادانہ تجارت کرنے کی آسانی ہو۔ غرض کہ امکانات کا ایک طوفان ہے جس کا تعلق فلسطین کو آزاد ریاست ماننے سے ہے۔
فلسطینیوں کو اقوام متحدہ سے انصاف حاصل کرنے سے دور رکھنے کے لیے ان کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو مغربی دنیا اور بالخصوص امریکہ کی طرف سے ان کی مالی مدد بند کر دی جاءے گی۔ امید ہے کہ فلسطینیوں کو یہ بات سمجھ میں آتی ہوگی کہ ان کو مالی مدد کی ضرورت اسی لیے تو پڑ رہی ہے کیونکہ وہ ایک آزاد ریاست نہیں ہیں اور دنیا سے معاملات کرنے میں اسراءیل کے رحم و کرم پہ ہیں۔ اگر فلسطین ایک آزاد ریاست بن جاءے تو وہ یقنیا ایک معاشی طور پہ مضبوط ریاست ہوگی اور اسے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اسراءیل کا قیام امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ ہی سے ممکن ہو پایا ہے اور اب بھی اسراءیل کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو اس کے راہ نما امریکہ سے مدد لیتے ہیں۔ چنانچہ آزاد فلسطین ریاست کے مطالبے کے جواب میں اوباما نے اقوام متحدہ میں تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ فلسطینیوں کو اقوام متحدہ سے اس قسم کے مطالبات نہیں منوانے چاہءیں۔ اوباما کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسراءیل کے درمیان امن اقوام متحدہ کی قراردوں سے حاصل نہ ہوگا بلکہ فلسطینیوں اور اسراءیلیوں کو ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے ہوں گے۔ اب کوءی بے انتہا بے وقوف فلسطینی ہی ہوگا جو امریکی انتظامیہ کے اس دھوکے میں آءے گا۔ فلسطینیوں پہ واضح ہے کہ اسراءیل ان سے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اسراءیل کی کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جاءے اور اس درمیان میں دریاءے اردن کے مغربی کنارے پہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں بساءی جاءیں تاکہ آءندہ کبھی فلسطینیوں سے برابری کی سطح پہ مذاکرات کرنے بھی پڑیں تو فیصلہ فلسطینیوں کے حق میں جانا محال ہو۔ پھر یہ بات تو سب پہ واضح ہے کہ فلسطینیوں کی ساری مصیبت اسراءیل کے قیام ہی کی وجہ سے تو ہے۔ ان حالات میں فلسطینیوں کا اسراءیل سے مذاکرات کرنا وہی معاملہ ہے جس کا حوالہ میر نے اس شعر میں دیا تھا۔
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوءے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?