Thursday, March 15, 2012

 

ضمنی انتخابات اور باءیکاٹ کی سیاست






مارچ گیارہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں اس قت ساری آنکھیں تحریک انصاف پہ لگی ہیں۔ عمران خان کے ہر قدم، ہر فعل کو غور سے دیکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف میں حالیہ شمولیت کے لیے جن منتخب نماءندوں نے اپنی نشستوں سے استعفے دیے تھے ان نشستوں کے خالی ہونے پہ ضمنی انتخابات ہوءے۔ تحریک انصاف نے ان انتخابات کا باءیکاٹ کیا۔ دیکھنا یہ تھا کہ تحریک انصاف کے باءیکاٹ سے ان حلقوں میں انتخابات پہ کیا اثر ہوتا ہے۔ کیا تحریک انصاف واقعی وہ سونامی ہے جس کا یقین ہمیں عمران خان اپنی تقریروں میں کراتے رہے ہیں؟ دیکھنا یہ تھا کہ کیا تحریک انصاف واقعی اتنی مقبول جماعت بن چکی ہے کہ اس کے انتخابات کے باءیکاٹ کے اعلان سے زیادہ تر ووٹر ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں پہ بیٹھیں گے اور چناءو کے روز پولنگ اسٹیشن بھاءیں بھاءیں کریں گے۔ انتخابات ہوءے اور ہم سب نے ٹی وی کے ذریعے دیکھا کہ ان مقابلوں میں ووٹر جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوءے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں عوام کی زوردار شرکت سے تحریک انصاف کے مقبولیت کے دعووں کی قلعی کھل گءی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات کے باءیکاٹ کا اعلان کیا سوچ کر کیا تھا اور کیا یہ فیصلہ پارٹی کے اندر ایک جمہوری طور پہ لیا گیا تھا یا ایک فرد واحد نے اپنے طور پہ فیصلہ کر لیا کہ انتخابات کا باءیکاٹ کرنا چاہیے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، اس بارے میں میڈیا کے ذریعے ہمیں کسی ایسے اجلاس کی خبر نہیں ملی جس میں تحریک انصاف کے قاءدین اور رضاکار سر جوڑ کر بیٹھے ہوں اور کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا گیا ہو کہ ضمنی انتخابات کا باءیکاٹ پارٹی کے سیاسی مستقبل کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔ اس کے برخلاف میڈیا میں ہر طرح کی افواہیں گرم ہیں کہ کس طرح اس فیصلے سے تحریک انصاف کے اندر دراڑیں پڑ گءی ہیں۔ تحریک انصاف کی ویب ساءٹ پہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ان جھوٹی افواہوں کی تردید کی گءی ہے۔ اب آءیے پہلے سوال کی طرف۔ کوءی سیاسی جماعت جو جمہوری اداروں پہ یقین رکھتی ہے اور عوام کے ووٹ کے اعتماد کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتی ہے، انتخابات جیسے بنیادی سیاسی عمل کا باءیکاٹ کیوں کرے گی؟ ایک خیال یہ ہے کہ عمران خان ملک گیر انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں جن میں ہر حلقے میں تحریک انصاف اپنا امیدوار کھڑا کرے اور پورے ملک میں ان کی پارٹی اچانک چھا جاءے۔ شاید عمران خان کو یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ ان کی پارٹی کے چند اراکین پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوں اور بے اثر ہوں۔ مگر ساتھ ہی کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے ان انتخابات کا باءیکاٹ اس لیے کیا کیونکہ ان کو یقین نہ تھا کہ ان حلقوں میں تحریک انصاف کامیاب ہوگی۔ اور اگر انتخابات میں حصہ لینے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار ان نشستوں پہ ہار جاتے تو ایسی ہار کا عوام پہ برا اثر پڑتا اور آنے والے ملک گیر انتخابات میں لوگ تحریک انصاف کی حمایت میں ڈانواں ڈول ہوتے۔
پچھلے کالم میں سان ہوزے میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس جلسے کے مہمان خصوصی جاوید ہاشمی تھے۔ جلسے کے بعد بھی جاوید ہاشمی کچھ عرصہ کیلی فورنیا میں مقیم رہے۔ ان سے ایک نجی محفل میں ملاقات ہوءی۔ اس محفل میں جاوید ہاشمی سے ایک بہت اچھا سوال کیا گیا۔ وہ سوال بے ایریا کے ممتاز ساءنسدان اور بیوپاری ریحان جلیل نے کیا تھا۔ ریحان جلیل نے جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ تحریک انصاف نے کیا لاءحہ عمل تیار کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے فورا بعد کیا کرے گی۔ ساتھ ہی جاوید ہاشمی کو باور کرادیا گیا کہ پاکستان کے عوام مایوسی کی حالت میں ہیں اور اگر انہوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیا تو ایسا اس لیے ہوگا کیونکہ لوگ عمران خان سے بہت سی امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد ایسے اقدامات نہ کیے جن سے عوام کو ایک واضح تبدیلی آتی نظر آءے تو عوامی حمایت ذرا سی دیر میں بھاپ بن کر اڑ جاءے گی۔ یہ صورتحال بہت خطرناک ہوگی اور لوگوں کو تحریک انصاف سے بددل ہونے میں ذرا وقت نہیں لگے گا۔ جاوید ہاشمی نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ سوال کرنے والے کی فکر سے بخوبی آگاہ ہو گءے ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عمران خان سے غیرمعمولی کارناموں کی امید رکھتے ہیں۔ جو لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہیں یا بے روزگار ہیں ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے آتے ہی ان کو روزگار مل جاءے گا۔ جو لوگ آج بھوکے سو رہے ہیں ان کا خیال ہے تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی ان کوروٹی ملنا شروع ہو جاءے گی۔ جن علاقوں میں دہشت کی حکمرانی ہے وہاں کے باسیوں کا خیال ہے عمران خان کے مسند اقتدار پہ بیٹھتے ہی امن و امان ہو جاءےگا۔ جو لوگ دس دس بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی بجلی کا مسءلہ حل ہو جاءے گا۔ جن گھروں میں پانی نہیں آ رہا وہاں کے مکینوں کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی بتدریج بڑھتی ہوءی نشستوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ نل سے آنے والے پانی کی دھار موٹی سے موٹی ہوتی جاءے گی۔ غرض کہ تحریک انصاف کے لیے انتخابات جیتنے سے زیادہ عوام کی حد سے بڑھی ہوءی توقعات پہ پورا اترنا زیادہ بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

Labels: ,


Tuesday, March 13, 2012

 

اچھی حکومت کے ساتھ باشعور عوام


مارچ چار، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم






کل یعنی ہفتہ، مارچ تین کے روز سان ہوزے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے منعقد کردہ ایک جلسے میں شریک ہوا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کا ٹکٹ دو صد ڈالر فی نفر تھا۔ تقریب سان ہوزے کنٹری کلب میں ہوءی جہاں جینز اور دیگر بد حال کپڑے پہن کر آنے پہ پابندی تھی۔ میرا ٹکٹ ایک دوست نے لے لیا تھا چنانچہ میرے لیے واحد چیلنج خوش حال کپڑے پہن کر تقریب میں پہنچنا تھا تاکہ دروازے سے واپس نہ روانہ کر دیا جاءوں کہ 'آگے بڑھو، یہ تحریک انصاف کا جلسہ ہے؛ یہاں ٹٹ پنجیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔' اس تقریب میں مہمان خصوصی جاوید ہاشمی تھے۔ اول، عمران خان کا ایک پیغام حاضرین محفل کو دکھایا گیا۔ اپنے اس پیغام میں عمران خان نے کہا کہ رشوت ختم کر کے، ٹیکس کی پہنچ آبادی کے بڑے حصے تک وسیع کر کے، اور سرکاری اداروں میں اقربا پروری کی بنیاد پہ اسامیاں پر کرنے کی روایت ختم کر کے، ملک کے معاشی حالات تیزی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر میں امید اور انقلاب کی باتیں کیں۔ اس محفل میں یقینا میں واحد شخص نہیں تھا جو سوچ رہا تھا کہ سیاست دان جو انقلابی اقدامات ملک گیر سطح پہ لانا چاہتے ہیں اس کا آغاز اپنے حلقہ انتخاب سے کیوں نہیں کر دیتے؟ خاص طور پہ ایسے لوگ جو اپنے حلقے سے بڑی اکثریت سے جیتتے رہے ہیں، ان کو تو عوام کی وسیع حمایت پہلے ہی حاصل ہے۔ عوام کی حمایت ہی تو راہ نما کی اصل طاقت ہوتی ہے تو پھر اس طاقت کو استعمال کرنے کے لیے انتخابات میں جیتنے کی شرط کیوں؟ اسی جلسے میں دریاءے سندھ پہ مجوزہ نءے بند کی بات بھی ہوءی۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر مستقبل کی بڑی آبادی کو پانی کی فراہمی کے لیے نہ کوءی کام ہوتا نظر آتا ہے، اور نہ ہی اس بارے میں کوءی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ پانی کا مسءلہ ہے کیا؟ روایتی معاشرے میں جہاں آبادیاں چھوٹی ہوتی تھیں پانی دریا یا کنویں سے حاصل کیا جاتا تھا۔ دریا کے مقابلے میں کنویں سے پانی حاصل کرنا بہتر ہے کیونکہ کنویں کا پانی دراصل وہ صاف پانی ہوتا ہے جو بارش کی صورت میں گرا تھا مگر مٹی سے چھنتا ہوا سیکڑوں فٹ نیچے پہنچا ہے۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی دھات کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے کا فن نکھرتا گیا۔ پاءپ کی ٹیکنالوجی سامنے آءی اور تیزی سے بڑھتے ہوءے شہروں کی آبادی کو پانی پہنچانے کے لیے پاءپ کا سہارا لیا گیا۔ پانی انسان کی ایک عجیب ضرورت ہے۔ ہوا اور غذا کی ضرورت ہمیں اس لیے ہے کیونکہ ہم ہوا اور غذا کو اپنے جسم میں استعمال کرتے ہیں۔ مگر پانی کو ہمارا جسم استعمال نہیں کرتا اور اس کا بڑا مقصد محض جسم کی صفاءی کرنا ہے۔ یعنی پانی کا وہی استعمال جو ہم اپنے جسم سے باہر کرتے ہیں، کپڑے، برتن دھونے اور دیگر قسم کی صفاءی کے لیے۔ شہری علاقوں میں پانی کے استعمال کے بعد استعمال شدہ پانی کی نکاسی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک دفعہ پھر پاءپ استعمال کر کے نکاسی کے پانی کو نکالا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں نکاسی کا پانی ڈھلوان کی طرف نکال دیا جاتا تھا یا اسے پھر دریا میں ڈال دیا جاتا تھا۔ مگر اب کوشش ہوتی ہے کہ نکاسی کے پانی کو تلف کرنے سے پہلے اسے نسبتا صاف کر لیا جاءے۔ پانی کی صفاءی کے لیے صفاءی گھر ہوتے ہیں جن میں پانی سے گند نکالی جاتی ہے اور پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر گھر کے لیے پانی کے دو پاءپ ہوتے ہیں۔ ایک پاءپ سے صاف پانی گھر کے اندر آتا ہے اور دوسرے سے نکاسی کا پانی باہر جاتا ہے۔ پھر ایک تیسری شے برساتی پانی کا نظام ہوتا ہے۔ یہ انتظام آپ کے گھر سے باہر ہوتا ہے۔ دراصل بارش بہت تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ برس سکتی ہے، اس لیے بارش کے پانی کی نکاسی عام نکاسی کے پاءپ سے نہ تو کی جا تی ہے اور نہ ہی کی جا سکتی ہے۔ برساتی پانی کا نظام سڑک کے ساتھ چلتے نالوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ بارش کے موسم میں پانی گھروں پہ برستا ہے اور پھر گھر سے باہر نکل کر سڑک پہ آتا ہے۔ اگر برساتی پانی کا نظام صحیح کام کرے تو یہ پانی سڑک کے ساتھ بنے نالے میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں سے دریا یا سمندر میں براہ راست خارج کر دیا جاتا ہے۔ مگر کراچی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ تو پانی کی ترسیل کا نظام صحیح ہے اور نہ نکاسی کا۔ اول تو برساتی نالے ہر جگہ موجود نہیں ہیں اور اگر کسی علاقے میں یہ نالے ہیں بھی تو اہل علاقہ ان کے مقصد سے واقف نہیں ہیں۔ برساتی نالے صرف بارش کے موسم میں کام آتے ہیں۔ اور مہینوں میں یہ نالے خشک پڑے ہوتے ہیں۔ لوگ ان خشک نالوں کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کا کوءی مقصد نہیں ہے اور پھر یہ نالے کوڑا پھینکنے کے کام آتے ہیں۔ یہ نالے کوڑے سے اڑے ہونے کی وجہ سے بارش کے موسم میں ناکارہ ہو جاتے ہیں اور بارش کا پانی سڑک پہ بہنے لگتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جہاں بہت سے مساءل حکومت کے اچھا ہونے سے سدھر سکتے ہیں وہیں ان کے حل کے لیے عوام کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگوں کو عمران خان سے یہ امید ہو چلی ہے کہ تحریک انصاف اگر انتخابات میں کامیاب ہو گءی تو عمران خان ایک جادو کی چھڑی چلاءیں گے اور پورے ملک کا نظام ذرا سی دیر میں ٹھیک ہو جاءے گا۔ ایسے بھولے لوگ یقینا اپنے لیے مایوسی کا سامان کر رہے ہیں۔ ایک اچھی، منصف حکومت تو ذرا سی دیر میں قاءم ہو سکتی ہے، لوگوں کو تعلیم دینے میں ایک بہت طویل عرصہ لگتا ہے۔

Labels: ,


 

معاشرے کا بندھن


فروری چھبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

Vision 2047: from WBT TV on Vimeo.



انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ اس آزادی کے یہ معنی ہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی خوشی سے جو کرنا چاہے کرے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے شخص کی آزادی سلب کرے اور اس کو اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پہ مجبور کرے۔ اور اسی لیے آزادی سے اپنا کام کرنے کے سلسلے میں جب کبھی کوءی مداخلت ہوتی ہے تو انسان کو برا لگتا ہے۔ مگر جب لوگ معاشرے کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں تو انہیں ایک ایسے سمجھوتے پہ متفق ہونا ہوتا ہے جس میں اس بات کی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ ایک شخص کی خوشی دوسرے کا عذاب نہ بن جاءے، کہ ہر شخص کی آزادی کا برابر خیال رکھا جاءے۔
ایک شخص کی مثال لیجیے جس کی خوشی یہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے ایک لٹھ ہوا میں گھماتا رہے۔ یہ شخص جنگل میں اکیلا رہ کر اپنی خوشی سے جتنی دیر چاہے آنکھیں بند کر کے لٹھ گھماتا رہے مجھے آپ کو اس کے اس فعل پہ کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر یہی شخص میرے اور آپ کے درمیان آ کر رہنا چاہے تو ہمیں اس آدمی سے سمجھوتہ کرنا ہوگا کہ یہ شخص ہماری موجودگی میں آنکھیں بند کر کے لٹھ نہیں گھماءے گا۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے اس فعل سے دوسرے لوگوں کو جسمانی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ معاشرہ اس شخص کی آزادی میں اس لیے مخل ہو رہا ہے کہ اس ایک شخص کی آزادی اور خوشی دوسروں کا عذاب نہ بن جاءے۔
آپ جب کبھی لوگوں کے ساتھ رہیں، ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، ایک سمجھوتہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ سمجھوتہ اکثر و بیشتر کہا نہیں جاتا، لکھا نہیں جاتا، مگر سب کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سمجھوتے کے شراءط کیا ہیں۔ آپ اپنے دوستوں سے ملنے جاتے ہیں تو کسی نے آپ سے لکھوایا نہیں ہے مگر یہ بات طے ہے کہ وہاں آپ اچانک اٹھ کر برابر بیٹھے شخص کو مارنا نہیں شروع کر دیں گے یا آپ ننگے اپنے دوستوں سے ملنے نہیں چلے جاءیں گے۔
ایک بہت بڑے معاشرے کی مثال کسی ملک کی ہے جس کے قوانین وہ سمجھوتہ ہیں جو اس ملک میں رہنے والے لوگوں کے درمیان ہے۔ اس سمجھوتے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آپ اس ملک میں داخل ہوں گے تو آپ اپنے داخلے کی وجہ سے خود بخود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ سمجھوتے کو مانتے ہیں اور اس ملک کے قوانین آپ پہ لاگو ہوتے ہیں۔
موجودہ دنیا میں اکثر معاشرے جہموریت کی طاقت کو سمجھ گءے ہیں۔ یہ معاشرے اپنے قوانین سب لوگوں کی مرضی سے بناتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے قوانین یا لوگوں کے درمیان سمجھوتہ ان پانچ ضمروں سے متعلق ہوتا ہے: کہ لوگ ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کیسے کریں گے؛ کہ سانجھے کی چیزیں، مثلا ہوا، پانی، مٹی، سانجھے کے املاک کی حفاظت کیسے کی جاءے گی؛ کہ کیسے یقین کیا جاءے گا کہ لوگ سمجھوتے پہ عمل درآمد کر رہے ہیں؛ کہ اگر کسی نے قانون توڑا تو اسے کس طرح سزا دی جاءے گی؛ اور یہ کہ قوانین میں ردو بدل کیسے کیا جاءے گا۔
معاشرے اسی سمجھوتے، سوشل کانٹریکٹ، سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھوتے بہت پرانے ہیں۔ یہ سمجھوتے لکھاءی ایجاد ہونے سے پہلے بھی وجود میں تھے۔ مذاہب اپنے ماننے والوں کو اخلاقیات کا جو سبق دیتے ہیں، وہ بھی اسی قسم کے سمجھوتے کی شقیں ہیں۔ اخلاقیات انسان کی حیوانی جبلت کو اس طرح لگام دینے کا طریقہ ہے کہ معاشرہ لوگوں کے راءج خیالات کے حساب سے رواں رہے۔
جان و مال اور نسل آگے بڑھانے کے سلسلے میں قوانین بہت پرانے ہیں، مگر سانجھے کی چیزوں کے بارے میں سمجھوتے کی شق نسبتا نءی ہے۔ سانجھے کی چیزوں سے متعلق قوانین میں ماحولیات سے متعلق قوانین سرفہرست ہیں۔
فرض کریں کہ مجھے سگریٹ پینے میں مزا آتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ سگریٹ نوشی میری صحت کے لیے اچھی نہیں ہے مگر مجھے اس بات کی کوءی خاص پرواہ نہیں۔ مجھے سگریٹ پی کر بے انتہا خوشی ہوتی ہے، اس لیے میں ایسا ہی کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میرے اس فعل پہ دوسرے لوگ اعتراض کر سکتے ہیں؟ کیا میں اپنے اس فعل سے لوگوں کے ساتھ باہمی سمجھوتے کی نفی کر رہا ہوں؟ اگر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھا ہوں تو یقینا دوسرے لوگ میری سگریٹ نوشی پہ اعتراض کر سکتے ہیں کیونکہ کمرے کی ہوا سب کے سانجھے میں ہے۔ میں اپنے عمل سے سانجھے کی اس چیز کو خراب کر رہا ہوں۔ میرا چھوڑا ہوا سگریٹ کا دھواں دوسرے لوگوں کے پھیپھڑوں میں جا رہا ہے اور ممکن ہے کہ لوگوں کو یہ بات بری لگے۔
ایک اور مثال لیں۔ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا گنڈیریاں کھا رہا ہے۔ وہ گنڈیری چوسنے کے بعد چوسی ہوءی گنڈیری فرش پہ پھینک دیتا ہے۔ کیا معاشرے کو اس شخص کے اس فعل پہ اعتراض ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ اس شخص کا اپنا گھر ہے اور وہ جس طرح چاہے اپنے گھر میں رہے۔ لیکن فرض کریں کہ یہ شخص گنڈیریاں کھاتا کھاتا اپنے گھر سے باہر نکل آتا ہے۔ کیا وہ گھر سے باہر فٹ پاتھ پہ چوسی ہوءی گنڈیریاں پھینکتا چلے تو لوگوں کو اس شخص کے اس فعل پہ اعتراض ہو سکتا ہے؟ بالکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ فٹ پاتھ سب لوگوں کے سانجھے میں ہے۔ اس شخص کو یہ ہرگز اختیار نہیں کہ وہ اپنے فعل سے سانجھے کی چیز کو خراب کر دے۔
ایک ایسے ملک میں جو بہت بڑا ہو، اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوگی جو بڑی تعداد ہونے کے باوجود اکثریت میں نہ ہوگی اور اسے خیال ہوگا کہ ملک کے فیصلے اس کی مرضی کے خلاف ہورہے ہیں۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?