Tuesday, March 13, 2012

 

اچھی حکومت کے ساتھ باشعور عوام


مارچ چار، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم






کل یعنی ہفتہ، مارچ تین کے روز سان ہوزے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے منعقد کردہ ایک جلسے میں شریک ہوا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کا ٹکٹ دو صد ڈالر فی نفر تھا۔ تقریب سان ہوزے کنٹری کلب میں ہوءی جہاں جینز اور دیگر بد حال کپڑے پہن کر آنے پہ پابندی تھی۔ میرا ٹکٹ ایک دوست نے لے لیا تھا چنانچہ میرے لیے واحد چیلنج خوش حال کپڑے پہن کر تقریب میں پہنچنا تھا تاکہ دروازے سے واپس نہ روانہ کر دیا جاءوں کہ 'آگے بڑھو، یہ تحریک انصاف کا جلسہ ہے؛ یہاں ٹٹ پنجیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔' اس تقریب میں مہمان خصوصی جاوید ہاشمی تھے۔ اول، عمران خان کا ایک پیغام حاضرین محفل کو دکھایا گیا۔ اپنے اس پیغام میں عمران خان نے کہا کہ رشوت ختم کر کے، ٹیکس کی پہنچ آبادی کے بڑے حصے تک وسیع کر کے، اور سرکاری اداروں میں اقربا پروری کی بنیاد پہ اسامیاں پر کرنے کی روایت ختم کر کے، ملک کے معاشی حالات تیزی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر میں امید اور انقلاب کی باتیں کیں۔ اس محفل میں یقینا میں واحد شخص نہیں تھا جو سوچ رہا تھا کہ سیاست دان جو انقلابی اقدامات ملک گیر سطح پہ لانا چاہتے ہیں اس کا آغاز اپنے حلقہ انتخاب سے کیوں نہیں کر دیتے؟ خاص طور پہ ایسے لوگ جو اپنے حلقے سے بڑی اکثریت سے جیتتے رہے ہیں، ان کو تو عوام کی وسیع حمایت پہلے ہی حاصل ہے۔ عوام کی حمایت ہی تو راہ نما کی اصل طاقت ہوتی ہے تو پھر اس طاقت کو استعمال کرنے کے لیے انتخابات میں جیتنے کی شرط کیوں؟ اسی جلسے میں دریاءے سندھ پہ مجوزہ نءے بند کی بات بھی ہوءی۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر مستقبل کی بڑی آبادی کو پانی کی فراہمی کے لیے نہ کوءی کام ہوتا نظر آتا ہے، اور نہ ہی اس بارے میں کوءی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ پانی کا مسءلہ ہے کیا؟ روایتی معاشرے میں جہاں آبادیاں چھوٹی ہوتی تھیں پانی دریا یا کنویں سے حاصل کیا جاتا تھا۔ دریا کے مقابلے میں کنویں سے پانی حاصل کرنا بہتر ہے کیونکہ کنویں کا پانی دراصل وہ صاف پانی ہوتا ہے جو بارش کی صورت میں گرا تھا مگر مٹی سے چھنتا ہوا سیکڑوں فٹ نیچے پہنچا ہے۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی دھات کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے کا فن نکھرتا گیا۔ پاءپ کی ٹیکنالوجی سامنے آءی اور تیزی سے بڑھتے ہوءے شہروں کی آبادی کو پانی پہنچانے کے لیے پاءپ کا سہارا لیا گیا۔ پانی انسان کی ایک عجیب ضرورت ہے۔ ہوا اور غذا کی ضرورت ہمیں اس لیے ہے کیونکہ ہم ہوا اور غذا کو اپنے جسم میں استعمال کرتے ہیں۔ مگر پانی کو ہمارا جسم استعمال نہیں کرتا اور اس کا بڑا مقصد محض جسم کی صفاءی کرنا ہے۔ یعنی پانی کا وہی استعمال جو ہم اپنے جسم سے باہر کرتے ہیں، کپڑے، برتن دھونے اور دیگر قسم کی صفاءی کے لیے۔ شہری علاقوں میں پانی کے استعمال کے بعد استعمال شدہ پانی کی نکاسی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک دفعہ پھر پاءپ استعمال کر کے نکاسی کے پانی کو نکالا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں نکاسی کا پانی ڈھلوان کی طرف نکال دیا جاتا تھا یا اسے پھر دریا میں ڈال دیا جاتا تھا۔ مگر اب کوشش ہوتی ہے کہ نکاسی کے پانی کو تلف کرنے سے پہلے اسے نسبتا صاف کر لیا جاءے۔ پانی کی صفاءی کے لیے صفاءی گھر ہوتے ہیں جن میں پانی سے گند نکالی جاتی ہے اور پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر گھر کے لیے پانی کے دو پاءپ ہوتے ہیں۔ ایک پاءپ سے صاف پانی گھر کے اندر آتا ہے اور دوسرے سے نکاسی کا پانی باہر جاتا ہے۔ پھر ایک تیسری شے برساتی پانی کا نظام ہوتا ہے۔ یہ انتظام آپ کے گھر سے باہر ہوتا ہے۔ دراصل بارش بہت تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ برس سکتی ہے، اس لیے بارش کے پانی کی نکاسی عام نکاسی کے پاءپ سے نہ تو کی جا تی ہے اور نہ ہی کی جا سکتی ہے۔ برساتی پانی کا نظام سڑک کے ساتھ چلتے نالوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ بارش کے موسم میں پانی گھروں پہ برستا ہے اور پھر گھر سے باہر نکل کر سڑک پہ آتا ہے۔ اگر برساتی پانی کا نظام صحیح کام کرے تو یہ پانی سڑک کے ساتھ بنے نالے میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں سے دریا یا سمندر میں براہ راست خارج کر دیا جاتا ہے۔ مگر کراچی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ تو پانی کی ترسیل کا نظام صحیح ہے اور نہ نکاسی کا۔ اول تو برساتی نالے ہر جگہ موجود نہیں ہیں اور اگر کسی علاقے میں یہ نالے ہیں بھی تو اہل علاقہ ان کے مقصد سے واقف نہیں ہیں۔ برساتی نالے صرف بارش کے موسم میں کام آتے ہیں۔ اور مہینوں میں یہ نالے خشک پڑے ہوتے ہیں۔ لوگ ان خشک نالوں کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کا کوءی مقصد نہیں ہے اور پھر یہ نالے کوڑا پھینکنے کے کام آتے ہیں۔ یہ نالے کوڑے سے اڑے ہونے کی وجہ سے بارش کے موسم میں ناکارہ ہو جاتے ہیں اور بارش کا پانی سڑک پہ بہنے لگتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جہاں بہت سے مساءل حکومت کے اچھا ہونے سے سدھر سکتے ہیں وہیں ان کے حل کے لیے عوام کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگوں کو عمران خان سے یہ امید ہو چلی ہے کہ تحریک انصاف اگر انتخابات میں کامیاب ہو گءی تو عمران خان ایک جادو کی چھڑی چلاءیں گے اور پورے ملک کا نظام ذرا سی دیر میں ٹھیک ہو جاءے گا۔ ایسے بھولے لوگ یقینا اپنے لیے مایوسی کا سامان کر رہے ہیں۔ ایک اچھی، منصف حکومت تو ذرا سی دیر میں قاءم ہو سکتی ہے، لوگوں کو تعلیم دینے میں ایک بہت طویل عرصہ لگتا ہے۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?