Sunday, May 21, 2023

 

ہمارا سچا قائد، عمران خان

 ہمارا سچا قائد، عمران خان



عمران خان کے بدترین دشمن بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عمران خان مغربی سامراجی طاقتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتا ہے۔ مسلمانوں کی قوت سے خوفزدہ، ان طاقتوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں اگر مسلم امہ جاگ گئی تو ان کی خیر نہیں۔

کیا عمران خان کی مخافت میں حد سے گر جانے والے لوگوں کو عمران خان کا وہ چار سالہ دور حکومت یاد نہیں جب ملک میں میں مکمل امن و امان تھا؟  یہ وہ سنہری دور تھا جب زیورات سے لدی پھندی ایک عورت سہراب گوٹھ سے حیات آباد تک بے خوف و خطر، تنہا سفر کرتی تھی اور اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اسے میلی آنکھ سے دیکھے۔
یہ وہ قابل رشک زمانہ تھا جب شیر اور بکری حقیقتا ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔
دنیا بھر میں پاکستان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا تھا۔ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو چکا تھا تھا اور ڈھونڈ نے سے ایسے ضرورت مند نہ ملتے تھے جنہیں کسی قسم کی مالی مدد درکار ہو اور اسی وجہ سے اس دور میں زکوۃ کی رقم سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھیجی جاتی تھی۔
اس عہد بے مثال کے چند نا قابل تردید حقائق  ملاحظہ فرمائیے:
پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 کھرب  ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے۔
دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں پاکستان پہلے نمبر پہ پہنچ گیا تھا۔
گندم کی برآمد میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔
گاڑیوں کے ریڈیٹر کی برآمد میں پاکستان پہلے نمبر پہ تھا۔

 یوں تو اس دور میں پورا ملک ہی جنت نظیر تھا مگر ہمارے کپتان کی ذاتی توجہ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو الگ ہی مقام حاصل تھا۔
خیبرپختونخوا میں ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ دس دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔

نیویارک ٹائمز اور دوسرے بین الاقوامی اخبارات اور جرائد لکھ چکے ہیں کہ کس طرح ہمارے قائد کے سنہری دور میں مغربی دنیا کے ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگتی تھی اور غیر ملکی، پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار نظر آتے تھے۔ مگر ہمارے کپتان کی ہدایت پہ ہر پاکستانی سفارتخانے نے سیاحتی ویزوں کا کوٹہ مقرر کر دیا تھا کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سیاحتی ویزے پہ پاکستان جانے والے غیر ملکی، غیر قانونی طور پہ ملازمت تلاش کریں گے اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلیں۔
 
ہمارے قائد کے دنیاوی کارنامے تو ضرب المثل ہیں مگر یہ بات  بھی لوگوں کے علم میں ہے کہ  عمران خان ایک نہایت پہنچے ہوئے  بزرگ ہیں جن کا شجرہ نسب خلفائے راشدین سے ملتا ہے۔
سینکڑوں بے اولاد جوڑے کپتان کی دعاؤں سے اولاد کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ عمران خان مردے کو زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔
اور کون بھول سکتا ہے کہ کس طرح ہمارے کپتان کے دور حکومت سے پہلے دریائے سندھ میں مستقل سیلاب آتے تھے؟ یہ سیلاب بہت تباہی مچاتے تھے۔ پھر جب امیر مدینہ ثانی کا دور شروع ہوا تو ہمارے قائد نے ایک خط دریائے سندھ کے نام لکھا  اور اس خط کو دریائے سندھ میں ڈال دیا گیا۔ اس خط میں ہمارے کپتان نے لکھا تھا کہ 'اے دریا، تجھے پاک پروردگار کی قسم جو آئندہ تو نے خلق خدا کو تنگ کیا'۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح دریائے سندھ میں سیلاب آنے بند ہوگئے۔


ان اوصاف کے باوجود ہمارے قائد میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ کپتان کے کمرے میں ایک چٹائی پڑی ہے جس پہ بیٹھ کر وہ دن کا بیشتر حصہ عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں۔ تقوی کا یہ عالم ہے کہ عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔
پچھلے رمضان ستائیسویں شب جب ساری رات عبادت کے بعد ہمارے کپتان نے روزہ رکھنے کا قصد کیا تو بی بی بشری نے بتایا  کہ گھر میں سوکھی روٹی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھائی اور روزہ رکھ لیا۔ پھر جب افطار کا وقت آیا تو بی بی بشری نے بتایا کہ اب تو سوکھی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے نمک سے روزہ کھولا اور رات گئے تک زاروقطارروتے رہے اور کہتے رہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
 
عمران خان کے دشمن کان کھول کر سن لیں کہ ہمیں عمران خان پہ مکمل اعتماد ہے۔ اقبال نے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، مسلم امہ کے جاگنے اور ایک ہونے کا جو خواب دیکھا تھا عمران خان اس کی تعبیر میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب امت مسلمہ عمران خان کی قیادت میں  یوں اٹھے گی کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں ایٹم بم  ہوگا، اور دنیا ہماری ہیبت سے کانپ رہی ہوگی۔


Friday, May 05, 2023

 

کراچی کس نے بنایا؟

 



کراچی کس نے بنایا؟

 

کچھ کچھ عرصے بعد سوشل میڈیا پہ یہ بحث دیکھنے میں آتی ہے کہ کراچی کس نے بنایا۔ اس بحث کے پیچھے دو گروہ کارفرما نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس کا کہنا ہے کہ کراچی سنہ سینتالیس کے بعد کراچی آنے والوں نے بنایا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کراچی سندھ کا ایک پرانا شہر تھا۔ سنہ سینتالیس کے بعد موجودہ بھارت سے آنے والوں نے اس شہر کو تباہ و برباد کردیا۔

 

کراچی کس نے بنایا؟

مختصر جواب یہ ہے کہ کراچی انگریزوں نے بنایا۔

 

مفصل جواب طویل ہے۔

یورپی نوآبادیاتی طاقتوں اور بالخصوص انگریز کے آنے سے پہلے ہمارے علاقے میں  ساحلی بستیاں زیادہ اہم نہیں خیال کی جاتی تھیں۔ سمندری تجارت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں تجارت زمینی راستوں سے ہوتی تھی اور سمندر کے ساتھ بسنے والی آبادیاں ماہی گیر بستیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔  رنگون سے لے کلکتہ، بمبئی اور کراچی تک یہی حال تھا۔

زمینی تجارت کے راستے ہمارے علاقوں سے نکل کر، شمال میں جا کر ریشم رستوں سے مل جاتے تھے۔ ریشم راستے تجارتی قافلوں کے وہ راستے تھے جو چین سے مشرق وسطی اور یورپ کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوتے تھے۔

یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی آمد سے پہلے ہمارے علاقوں میں وہ بستیاں اہم تھیں جو بڑی زرعی اراضیوں کے ساتھ جڑی ہوتی تھیں اور عموما ایسی ہی کوئی بستی دارالحکومت بنتی تھی اور یوں شہر بننا شروع ہوتے تھے۔ زراعت سے جڑے شہروں کی مثالوں میں موجودہ برما کا قدیم دارالحکومت مانڈلے یا ہندوستان کا دارالحکومت دہلی یا انگریز کے آنے سے پہلے سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد شامل ہیں۔

انگریز کیونکہ سمندری راستے سے ہمارے علاقے میں آیا اس لیے انگریز کے لیے ساحلی بستیاں اہم تھیں۔ انہیں اسی راستے سے واپس وطن جانا ہوتا تھا۔ اور اسی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں نے ساحلی بستیوں کو جدید شہروں کی صورت میں تشکیل دیا اور یہاں ایسی بندرگاہیں بنائیں جہاں بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکی۔

سنہ 1843 میں تالپوروں کو شکست دینے کے بعد انگریزوں نے حیدرآباد کے بجائے کراچی کو سندھ کا درالحکومت بنادیا۔ واضح رہے کہ سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک نہر سوئیز تعمیر نہیں ہوئی تھی اور انگریز جہاز پورے افریقہ کا چکر کاٹ کر جنوبی ایشیا پہنچتے تھے۔ سنہ 1869 میں نہر سوئیز کی تعمیر مکمل ہونے پہ صورتحال تبدیل ہوگئی اور انگریزوں کے لیے جنوبی ایشیا کی مغربی بندرگاہیں اہمیت اختیار کر گئیں۔ کراچی کی بندرگاہ جنوبی پنجاب سے حاصل ہونے والی کپاس کی تجارت کے لیے بہت اہم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کو ایک جدید شہر کی شکل دی اور کراچی کی بڑھتی اہمیت کی وجہ سے اندرون سندھ اور گجرات سے مخیر تاجر ]جن میں محمد علی جناح کے والد بھی شامل تھے[ وہاں آکر بسنا شروع ہوئے۔

انگریز کی جنوبی ایشیا سے روانگی کے وقت جن علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا وہاں لاہور اور ڈھاکہ دو اہم شہر تھے مگر جناح نے کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے پہ زور دیا اور یوں سنہ سینتالیس میں ننھا شہر کراچی ایک وسیع نوزائیدہ ریاست کا دارالحکومت بن گیا۔

قیام پاکستان کے بعد جو لوگ موجودہ بھارت سے یہاں آئے وہ کراچی کے دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں آئے۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں اور بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آبادی کا تناسب یکسر تبدیل ہو گیا۔ سنہ سینتالیس کےبعد دہلی راتوں رات ایک پنجابی شہر بن گیا کیا جب کہ کراچی میں اترپردیش، سی پی، اور بہار سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والوں کی وجہ سے کراچی کے سندھی اور گجراتی بولنے والے شہری اقلیت میں تبدیل ہوگئے۔

دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی بھی مستقل تبدیل ہورہا ہے۔ آج [سنہ 2023 میں[ کراچی میں اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پشتو ہے ۔

 

A short history of Karachi

 


This page is powered by Blogger. Isn't yours?