Sunday, October 29, 2006

 

جیک اسٹرا اور برقعہ

انگلستان کے سابق وزیر خارجہ جیک اسٹرا برقعے پہ اپنی تنقید کی وجہ سے آج کل زیر عتاب ہیں۔ ان پہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اسلام دشمن ہیں اور نسل پرست ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیک اسٹرا کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ورنہ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ پڑھے لکھے روشن خیال مسلمانوں میں با کثرت پائے جاتے ہیں۔ میں یقیناً ایک با شعور معاشرے کے حق میں ہوں جہاں لوگوں کو مکمل آزادی ہو کہ وہ جس طرح زندگی جینا چاہیں جئیں مگر جب بات آ جائے دو ایسے لوگوں کے باہمی معاملے کی کہ جو بالکل الگ انداز سے زندگی جینا چاہتے ہیں تو پھر اس معاملے کے خد و خال دونوں کو مل کر طے کرنے ہوں گے۔ جس طرح میں ایک ایسے شخص سے معاملہ نہیں کرنا چاہوں گا جو مادر زاد برہنہ ہو اسی طرح مجھے ایک ایسے شخص سے بات چیت کرنے میں تردد ہو گا جو سر سے پاؤوں تک مکمل طور پہ ڈھکا ہو۔میں یقیناً ایک ایسے معاشرے میں رہنا چاہوں گا جہاں لوگوں کو مکمل آزادی ہو کہ چاہیں تو وہ مادر زاد برہنہ رہیں یا پھر اوپر سے نیچے تک اپنے آپ کو چھپا لیں مگر اس معاشرے میں مجھے بھی آزادی ہونی چاہیے کہ میں جس سے بات کرنا چاہوں کروں اور جس سے بات نہ کرنا چاہوں نہ کروں چاہے میں ایک عام آدمی ہوں یا عوام کا منتخب نمائندہ۔

یہ دلیل اکثر سننےمیں آتی ہے کہ عورت کا برقعے میں رہنا عورت کے لیے اچھا ہے اور پردے میں ڈھکی چھپی عورت دراصل اتنی آزاد ہے کہ جتنا کہ ایک مغربی عورت تصور بھی نہیں کر سکتی۔ پردے کے حق میں یہ دلیل جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ اگر پردہ ہی عورت کی آزادی کی معراج ہے تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں پردہ دار خواتین آگے سے آگے نظر آنی چاہئیں۔ کہ اسلامی ممالک میں سر سے پاؤوں تک ڈھکی عورتیں کامیابی کے نت نئے جھنڈے گاڑتی نظر آنی چائیں۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے اور یہی مشاہدہ پردے کی عظمت کی دلیل کی نفی کرتا ہے۔ عورت کا پردہ عورت کی اپنی مرضی سے نہیں ہے بلکہ مرد کے زور سے ہے۔ ایک ایسا مرد جو عورت کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور جس طرح وہ اپنے دوسرے قیمتی مال کو چوری سے بچانے کے لیے ڈھانپ کر رکھتا ہے اسی طرح وہ اپنی عورت کو بھی ڈھانپ کر رکھنا چاہتا ہے۔

Saturday, October 28, 2006

 

امریکہ کی جنوبی سرحد پہ کھڑی کی جانے والی دیوار

امریکہ میں ہر سال لاکھوں افراد غیر قانونی طور پہ امریکہ کی میکسیکو سے لگنے والی سرحد سے داخل ہوتے ہیں۔ موجودہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سرحد پہ باڑھ لگانا ضروری ہے ورنہ اس بات کا امکان ہے کہ تلاش معاش کے لیے آنے والے غیر قانونی افراد کے ساتھ دہشت گرد بھی ملک میں گھس آئیں گے۔ موجودہ حکومت شھریوں کو مستقل خوف میں مبتلا دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ وہ سمجہتی کہ خوف کے اس ماحول میں اس کے لیے شھریوں کے ووٹ حاصل کرنا آسان ہوگا۔ میں یقینا عالمی دہشت گردی کے خطرے کو سمجھتا ہوں مگر اس کے ساتھ میں اس مستقل کھڑے کیے جانے والے ہوے کی حقیقت کو سمجھتا ہوں۔ امریکہ کی جنوبی سرحد پہ باڑھ اس لیے نہیں کھڑی کی جا رہی کہ وہاں سے دہشت گردوں کے داخلے کو نا ممکن بنایا جائے، بلکہ وہ دیوار اس لیے بنائ جا رہی ہے کہ اب اس ملک میں مزید مالیوں اور کم اجرت پہ کام کرنے مزدوروں کی کھپت نہیں رہی، کہ اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ غیر قانونی طور پہ وارد ہونے والے لوگ باروزگار ہوں اور شھری بے روزگار، کہ اہل اقتدار کو یہ ڈر ہے کہ کہیں امریکہ میں ہسپانوی بولنے والے لوگ اس قدر نہ بڑھ جائیں کہ وہ جمہوری عمل سے اقتدار پھ قبضہ کر لیں۔ اور یہ آخری بات یقینا ایسی ہے کہ جس میں نسل پرستی کا رنگ نمایاں ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود میں جنوبی سرحد پہ مجوزہ باڑھ کے حق میں ہوں کیونکہ اول یہ کہ جب لوگ غیر قانونی طور پہ اس ملک میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اپنے لیے استحصال کے دروازے کھول لیتے ہیں اور دوئم ہہ کہ امیر ملکوں کو یہ حق بالکل حاصل نہیں کہ وہ غریب ملکوں سے کارآمد لوگ چھین لیں اور ان کی کم اجرت مزدوری پہ امیر سے امیر تر ہوتے جائیں۔

 

بلاگ کی دنیا، حاکمیت جمہور کی دنیا

میں سمجھتا ہوں کھ جہاں صاحب رائے افراد بڑی تعداد میں ہوں وہاں ایک مطلق العنان شغص کا اقتدار پھ قبضھ کرنا اور گدی پھ جمے رہنا بہت مشکل ہوجاتا ھے۔ یہ ٹیکنالوجی کا احسان ہے کہ اس نے بلاگ کی شکل مین ادنی سے ادنی صاحب رائے کو اپنے خیالات دنیا تک پہچانے کی سہولت دی ہے۔ مطلق العنان حکمراں کے دل میں ایک چور ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جس طرح وہ چور دروازے سے کرسی پہ قابض ہوا ہے اسی طرح کوئی اور بھی اسی چوری سے اسے دھکا دے کر اس سے کرسی چھین سکتا ہے۔ اسی لیے ہر مطلق العنان حکراں کو آزادی رائے سے ڈر لگتا ہے، اسے صاحب رائے افراد سے ڈر لگتا ہے۔

مجھے عالمیت یعنی گلوبائلیزیشن کا تصور ذرا نہیں بھاتا۔ مجھے یہ خیال بالکل پسند نہیں کہ رنگا رنگ دنیا اپنے تمام تر رنگ کھو کر بالکل ایک جیسی ہو جائے۔ مگر عالمیت سے اس بغض کے باوجود مجھے بعض جدید خیالات کا دنیا میں چھاجانا دل پسند لگتا ہے۔ چنانچہ چند دن پہلے جب ایک عزیز نے عالمیت کی برائیوں میں جمہوریت کو بھی شامل کر دیا تو مجھے وہ بات کچھ معیوب لگی۔ میرے ان دوست کا کہنا تھا کہ "یہ کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ ساری دنیا ایسی ہو جائے کہ آپ جہاں جائیں وہاں آپ کو میکڈانلڈ اور پیڑزاہٹ نظر آئیں اور ہر جگہ جمہوری نظام حکومت ہو۔"

میں سمجھتا ہوں کی کسی بھی با شعور معاشرے میں جہاں صاحب رائے افراد بڑی تعداد میں موجود ہوں، جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام قابل عمل نہیں ہے۔ میں دوستوں سے مذاق میں کہتا ہوں کہ مجھے صرف ایک طرح کی بادشاہت قبول ہے اور یہ وہ بادشاہت جس میں مجھے بادشاہ مان لیا جائے۔ جمہوریت ایک فکری معاہدہ کا نام ہے ایک ایسی جگہ جہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہوں جن کا خیال ہو کہ وہ حکمرانی کے اہل ہیں۔

Friday, October 27, 2006

 

ماضی کی ایک میٹھی یاد

ماضی کی ایک میٹھی یاد آئی اور حال کے اس لمحے میں شیرینی بھر گئی۔

 

ایک نیا اردو بلاگ


میں زیادہ تر اردو میں سوچتا ھوں۔ میں اردو میں لکھتا بھی ہوں۔ کچھ دنوں پہلے تک میرا
خیال تھا کہ ٹیکنالوجی وہاں نہیں پہنچی ہے کھ ویب پھ براہ راست اردو میں ٹائپنگ کی جا سکے۔ بھلا ھو ھمارے دوست آئ فقیر کا کھ جنہوں نے مجھے ونڈوز ایکس پی پھ اردو لکھنا سکھایا۔آج اس اردو بلاگ کی پیدائش کا دن ہے۔ میں کوشش کروں گا کھ جیسے جیسے میرے اوپر اردو میں خیالات اترتے رہیں میں انہیں یہاں آپ کے سامنے پیش کرتا رہوں۔

مجھے اپنے نیک خیالات میں یاد رکھیے گا۔
سمندطور



This page is powered by Blogger. Isn't yours?