Saturday, August 28, 2010

 

اردو کے ذومعنی الفاظ










ڈاکٹر سید فراست علی صاحب میرے محترم استاد ہیں۔ ڈاکٹر فراست نے مجھے جامعہ این ای ڈی میں بہت محبت، بہت شفقت، اور بہت محنت سے پڑھایا تھا۔ ہر وہ شخص جو میرا استاد رہا ہے میرے لیے قابل صد احترام ہے۔ میرے اساتذہ وہ قابل عزت شخصیات ہیں جنہوں نے میری ذہنی گرہیں کھولی ہیں اور مجھے چیزوں کو غور سے دیکھنا اور ان کے بارے میں سوچنا سکھایا ہے۔
ڈاکٹر سید فراست علی صاحب سے میری حالیہ ملاقات شکاگو میں این ای ڈی کنوینشن کے دوران ہوءی۔ اسی ملاقات میں ڈاکٹر فراست علی نے مجھے اپنے ایک دوست کے بارے میں بتایا جو مختلف زبانوں میں استعمال ہونے والے ذو معنی الفاظ کی فہرست بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر فراست علی نے مجھے ذو معنی اردو الفاظ کی فہرست بنانے کا حکم دیا۔
اردو میں یقینا سینکڑوں ذومعنی الفاظ ہوں گے۔ ایسے الفاظ کی ایک مختصر فہرست درج ذیل ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ڈاکٹر فراست سے ملاقات کے فورا بعد ذہن میں آءے۔ اگر موقع ملا تو اس فہرست میں مزید ذومعنی الفاظ جمع کروں گا۔ قارءین اگر اس سلسلے میں مدد کر سکیں تو ان کی عنایت ہوگی۔







لوٹا
واضح معنی کے علاوہ معنی
ایک ایسا شخص جو مسجد کے لوٹے کی طرح کبھی کسی کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور کے ساتھ۔


ہیرا
واضح معنی کے علاوہ معنی
عمدہ اوصاف والا شخص


گدھا
واضح معنی کے علاوہ معنی
کند ذہن شخص


لٹو
واضح معنی کے علاوہ معنی
استعمال: کسی پہ لٹو ہوجانا یعنی کسی پہ فریفتہ ہونا


چکنا گھڑا
واضح معنی کے علاوہ معنی
ایک ایسا شخص جس پہ کسی بات کا کوءی اثر نہ ہو، ایک ڈھیٹ شخص

مٹکا
واضح معنی کے علاوہ معنی
پیٹ، توند


چمچہ
واضح معنی کے علاوہ معنی
کسی اہم شخص کے ساتھ چلنے یا اس کی ہاں میں ہاں ملانے والا شخص


گائے
واضح معنی کے علاوہ معنی
استعمال: اللہ میاں کی گائے
سیدھا سادھا شخص


کھمبا ووٹ
واضح معنی کے علاوہ معنی
استعمال: کھمبا ووٹ
کسی جماعت سے وفاداری کے ساتھ، بغیر سوچے سمجھے ووٹ دینے والا شخص



Labels: , , ,


Monday, August 23, 2010

 

غازی علم دین نہ شہید تھا نہ غازی





ایک بظاہر پڑھے لکھے شخص نے مجھے غازی علم دین نامی شخص کے بارے میں بہت فخر سے بتایا تھا۔ واقعہ کچھ اس اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ غازی علم دین نامی ایک شخص کو خبر ملتی ہے کہ کسی غیر مسلم نے ایک تحریر میں ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کرنے کی کوشش ہے۔ علم دین جو بظاہر نبی کا عاشق ہے، طیش میں اٹھتا ہے اور مبینہ گستاخ رسول کو جان سے مار دیتا ہے۔ انگریز کی حکومت ہے۔ غازی علم دین گرفتار ہوتا ہے، اس پہ قتل کا مقدمہ چلتا ہے، اور اسے پھانسی کی سزا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں غازی علم دین نامی یہ شخص بہت عظیم ہے اور شہادت کے عہدے پہ فاءز ہے کیونکہ اس نے بظاہر ناموس رسول کے لیے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ دراصل غازی علم دین اسلام کا نادان دوست ہے،اس شخص کا جذبات کی رو میں بہہ کر کسی آدمی کو مار دینے کا عمل انسانیت کے نام پہ عموما اور مسلمانوں کے نام پہ بالخصوص ایک سیاہ دھبا ہے۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوءے میں نے ' ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کرنے کی کوشش' کا کلمہ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ ہمارے نبی اور عموما انبیا کا تو خیر الگ مقام ہے، اور بڑے لوگ بھی اپنی عزت یا تذلیل کے لیے دوسروں کی تحریر کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ اپنے کاموں سے اپنا اونچا یا نیچا مقام بناتے ہیں، کسی کی اپنے بارے میں تحریر یا تقریر سے نہیں۔ یہ بات تو ہمیں قرآن بھی بتاتا ہے کہ عزت یا ذلت دینے والی ہستی تو صرف اللہ کی ہے۔
غازی علم دین نامی اس گمراہ شخص نے کس عظیم ہستی کی ناموس کی حفاظت کی؟ وہ عظیم آدمی کہ دشمن اس کا مذاق اڑاتے ہوں، اس پہ پھبتیاں کستے ہوں، اور وہ ان لوگوں کی بات کا ذرا برا نہ مناءے اور ان کے لیے دعا کرتا ہوا آگے بڑھ جاءے۔ وہ شخص کہ جس پہ مہینوں کسی گھر سے کچرا پھینکا جاتا ہو اور ایک دن اس عمل میں خلل آجاءے تو وہ مذکورہ گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر روز کچرا پھینکنے والی عورت کی خیریت معلوم کرے۔ اس عظیم شخص کی ناموس کا محافظ علم دین نامی یہ کمتر انسان ہو سکتا ہے؟ ذرا سوچیے کہ اگر علم دین کو ہمارے پیارے نبی کے سامنے پیش کیا جاتا تو ہمارے نبی اس بے وقوف شخص سے کیا کہتے۔ وہ یقینا کچھ پیار سے اور کچھ غصے سے اس جاہل آدمی کو سمجھاتے کہ ایک عظیم پیغام اور اس کے پیمبر کی ناموس کی حفاظت کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس پیغام کے ماننے والے لوگ ہوش مند ہوں اور بہترین شہری بن کر دکھاءیں۔ وہ جذبات میں آکر خود انتظامیہ، خود عدالت، اور خود جلاد نہ بن جاءیں۔
مگر کیا کیجیے کہ آج ہمارے دین کا علم اس علم دین جیسے دوسرے بے وقوفوں کے ہاتھوں ہی میں نظر آتا ہے۔ وہ لوگ جو ناموس رسالت کے چیمپءین بن کر سڑکوں پہ نکلتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی املاک کو آگ لگا دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہم پہ ہونے والے تمسخر کا سبب ہیں۔ جن کی وجہ سے ہماری ہنسی اڑاءی جاتی ہے اور اسلام کی ایک مسخ شکل دنیا کے سامنے پیش ہوتی ہے۔
پاکستان میں غازی علم دین کے 'کارنامے' اور اس جیسے دوسرے احمقانہ واقعات کو فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔ بہت سی وجوہات میں شاید ایک وجہ یہ بھی ہے جس سے معاشرے میں تحمل اور رواداری ختم ہو رہی ہے۔ لوگ فوری انصاف کی خواہش رکھتے ہیں چاہے اس عمل میں کسی بے گناہ کی جان ہی کیوں نہ چلی جاءے۔ چند روز قبل سیالکوٹ میں دو بھاءیوں کا قتل بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔ یہ جنگل کے قانون کا ایک نمونہ ہے۔ بس ایک ٹولہ ہے جو جذبات میں بہہ رہا ہے۔ جس پہ جو چاہے الزام لگاءے اور فوری طور پہ ڈنڈوں سے سزا دے۔
میں نے گزری جولاءی کا بڑا حصہ کراچی میں گزارا۔ وہاں اپنے ایک پرانے شاگرد سے ملاقات ہوءی۔ اس نوجوان نے کسی قدر فخر سے کچھ عرصہ پہلے کا وہ واقعہ سنایا جب کسی محلے کے لوگوں نے مبینہ ڈاکوءوں کو پکڑ کر ان کے کپڑوں میں آگ لگا دی تھی۔ یہ لوگ جھلس کر مر گءے۔ میں نے اس واقعے پہ افسوس کا اظہار کیا تو اس نوجوان کو حیرت ہوءی۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگ موجودہ عدالتی نظام سے مایوس ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جراءم پیشہ لوگ پکڑے جاتے ہیں مگر پھر کچھ ہی عرصے میں رہا ہو جاتے ہیں۔ اس ناانصافی کو دیکھتے ہوءے لوگ خود اپنے ہاتھوں جراءم پیشہ افراد کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ میں نے سمجھایا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جس شخص کو مجرم کہا جارہا ہے اس نے واقعی جرم کیا ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس شخص کی شناخت میں کچھ لوگ غلطی پہ ہوں، یا پھر ان لوگوں کی اس شخص سے دشمنی ہو اور وہ اس پہ الزام لگا کر اپنا ذاتی عناد نکال رہے ہوں۔
پاکستان میں اسلام کا چیمپءن بننا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ وہاں ایسے بھی واقعات سننے میں آءے ہیں کہ ایک شخص نے کسی غیر مسلم کی جاءداد پہ قبضہ کرنے کے لیے اس پہ الزام لگایا کہ اس غیر مسلم نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔ ملزم داخل حوالات ہوا اور اس شخص نے اطمینان سے بے گناہ کی جاءداد پہ قبضہ کر لیا۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں پولیس اور عدلیہ کا نظام ایک ٹولے کے ہاتھوں میں نہیں سونپا جا سکتا۔ انصاف یہ ہے کہ ایک عدالت بیٹھے جس میں ہر فریق کی بات تحمل سے سنی جاءے اور پوری عدالتی کارواءی ہونے پہ سوچ سمجھ کر مقدمے کا فیصلہ دیا جاءے۔ اس تحریر کو پڑھنے والا وہ کونسا شخص ہے جو واقعی ایسے معاشرے میں رہنا چاہتا ہو جہاں جنگل کا قانون راءج ہو، جہاں 'فراہمی انصاف' ماوراءے عدالت ہو؟ جہاں کسی روز کہیں آتے جاتے اچانک چند لوگ اسے پکڑ لیں اور چلا کر دوسروں کو بتاءیں کہ انہوں نے اسے چوری کرتے دیکھا ہے، اور پھر ذرا سی دیر میں وہاں ایک مجمع جمع ہو جاءے، جو اسے مارنا پیٹنا شروع کر دے؟
سیالکوٹ کے واقعے کے مجرم صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو ان دو بھاءیوں پہ ڈنڈے برسا رہے تھے۔ وہ تمام لوگ جو مجمع میں شا٘مل تھے اور جن کے خاموش تماشاءی بننے کے عمل سے تشدد کرنے والوں کو شہ مل رہی تھی قابل سزا ہیں۔

تصویر بشکریہ
http://www.msnbc.msn.com


 

پانی کی قلت اور پھر پانی کا عذاب






خاموشی سے میرے ساتھ آءیے۔ اس شخص کو دیکھیے۔ یہ کتنا پریشان، کتنا افسردہ بیٹھا ہے۔ یہ ہر وقت اپنے مالی مساءل کا رونا روتا ہے۔ مستقل شکایت کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے اخراجات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اور تنگ دستی کی اس کیفیت میں یہ شخص دنیا کے بہت سے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے۔ مگر ایک اور معاملہ ہے جس کی وجہ سے یہ شخص مالی کسمپرسی کی کیفیت میں اپنے جیسے مفلسوں سے بالکل الگ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ نادار پانچ سال مستقل اپنی غربت کا رونا روتا ہے اور پھر ہر پانچ سال میں ایک دفعہ اس کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ لاٹری کے مالی انعام سے یہ شخص اچانک بہت امیر ہو جاتا ہے۔ مگر پھر یہ شخص انعام کی رقم کو اللے تلے ذرا سی دیر میں اڑا دیتا ہے۔ بلکہ جتنا عرصہ دولت اس کے پاس رہتی ہے یہ شخص پریشان ہی رہتا ہے کہ آخر اس کو یہ مال و دھن یوں چھپر پھاڑ کر کیوں مل گیا۔ اور یوں دولت کی کمی بھی اس کے لیے عذاب ہے اور دولت کا مل جانا بھی۔
اس شخص سے ملاقات کرنے اور اس کے حالات جاننے کے بعد آپ اچھی طرح سمجھ گءے ہوں گے کہ میں اس شخص کی کہانی کن موجودہ حالات سے مماثل دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پاکستان میں مختلف صوبے اور ان صوبوں میں رہنے والے تمام لوگ پانی کے مسءلے پہ مستقل ایک دوسرے سے دست و پا رہتے ہیں اور پھر جب زوردار بارش ہوتی ہے تو یہی پانی پورے ملک کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
دبءی سے العین کے بس چلی تو دبءی کی آبادی کو پیچھے چھوڑنے کے کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ بیاباں میں آگءے۔ اب ایک پتلی سی سڑک پہ ہماری یہ بس رواں دواں تھی اور سڑک کے دونوں طرف حد نظر صحرا کی تپتی ریت تھی۔ مجھے یہ سوچ کر ہول آرہا تھا کہ اگر بس کا اءیرکنڈیشننگ سسٹم خراب ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ جون کے اس گرم دن ہم چلچلاتی دھوپ کے نیچے ذرا سی دیر میں بھن جاءیں گے۔ جزیرہ نما عرب کا جغرافیہ جنوبی ایشیا کے جغرافیے سے اسی وجہ مختلف ہے۔ جنوبی ایشیا کے شمال میں اونچے اونچے پہاڑی سلسلے ہیں چنانچہ جب گرمیوں میں میدانی علاقے گرم ہوتے ہیں تو ان سے جڑی ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے؛ پھر اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے سمندر کے اوپر موجود مرطوب ہوا اس طرف بڑھتی ہے۔ یہ مرطوب ہوا پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتی ہے اور ٹھنڈی ہونے پہ کہیں برف اور کہیں بارش بن کر برستی ہے۔ جزیرہ نما عرب کے پاس کوءی اونچے اونچے پہاڑ نہیں ہیں۔ وہاں بھی گرمیوں میں صحرا کی گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور سمندر سے آنے والی مرطوب ہوا کو جگہ دیتی ہے۔ مگر پھر اونچے پہاڑوں کی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مرطوب ہوا رک کر برستی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو پسینہ پسینہ کر آگے نکل جاتی ہے۔ جغرافیے اور موسمی حالات کے اسی فرق کی وجہ سے تاریخی طور پہ جنوبی ایشیا ایک زرخیز اور نتیجتا امیر علاقہ رہا اور جزیرہ نما عرب ایک بنجر اور بدحال علاقہ۔ زرخیزی اور امارت کی وجہ ہی سے نوآبادیاتی نظام کا عذاب جنوبی ایشیا پہ جس زور سے ٹوٹا اس زور سے جزیرہ نما عرب پہ نہیں ٹوٹا۔ مگر پھر پچھلی صدی کے وسط میں تیل کے کنووں کی دریافت سے جزیرہ نما عرب کے دن پھر گءے۔ اب وہ امیر ہیں اور ہم مفلس۔ کسی زمانے میں وہ ہمارے پیسوں پہ پلتے تھے اب ہم دبءی کا ویزا حاصل کرنے کے لیے اور جزیرہ نما عرب میں کام کرنے کے لیے ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں۔ بھارت میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا میں بالعموم جس قسم کا آزاد جمہوری نظام ہے، ایسا سیاسی نظام جزیرہ نما عرب میں موجود نہیں ہے۔ مگر کم حیثیت سیاسی نظام ہونے کے باوجود پیسے کی ریل پیل بات بناءے ہوءے ہے۔ سلطان کا کہنا ہے کہ مجھ سے اوپر صرف خدا ہے چنانچہ میں خدا کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں، جو چاہے کروں، مگر میری رعیت میں جو لوگ ہیں وہ قوانین کی بھرپور پاسداری کریں گے اور بلا چوں چراں میرے راءج کیے نظام کو مانیں گے۔ تو وہ نظام چل رہا۔ بلکہ اس ٹھسے سے چل رہا ہے کہ آزاد جمہوری نظام کے زیرسایہ رہنے والے کروڑوں لوگ سلطان کے اس نظام کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔ کیا یہاں سیاسی نظام ہا کو پڑھنے والے طلبا کے لیے کوءی سبق ہے؟ جی ہاں۔ سبق واضح ہے۔ اظہر من الشمس سبق یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اس بات سے کوءی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی جگہ کا سیاسی نظام کیا ہے۔ اس کو تو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ کیا اس کی جان بچ جاءے گی، کیا اس کے اطراف نظام مخصوص قوانین کے تابع ہوگا، اور کیا اس کے محنت کرنے سے اسے پیٹ بھر کر کھانا مل جاءے گا؟

تصویر بشکریہ
http://www.dailymail.co.uk/


 

ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک اور اخبار



کئی برس پہلے جب فدوی کی پہلی کتاب شائع ہوئی تو ایک کرم فرما نے اپنے تبصرے میں البیرونی کا یہ شاہکار قول پیش کیا: خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروں کا کام دیتی ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ مگر خیالات کی جنگ میں ہتھیار صرف کتابیں نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کی شائع شدہ تحریر ہے۔ لکھنے والا تو اپنی بات لکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے، پھر یہ تحریر کہاں کہاں پہنچتی ہے اور کس کس پہ کس کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے، یہ ایک بہت پیچیدہ مگر تقریبا یقینی عمل ہے۔ ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ میں اخبارات اپنا جدا مقام رکھتے ہیں۔ آج کی مصروف دنیا میں بہت سے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ بیٹھ کر کتابیں پڑھیں۔ مگر کیونکہ حالات حاضرہ ہر شخص پہ ایک طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے ان سے باخبر رہنے کے لیے اخبارات اکثر خواندہ لوگ پڑھتے ہیں۔ خیالات کی جنگ کے مہلک ہتھیاروں میں ریڈیو اور ٹی وی بھی شمار ہوتے ہیں۔ جس طرح ڈرون نہایت اونچائی سے حملہ کر سکتا ہے اسی طرح سیٹیلائٹ ٹی وی بھی آپ کےذہنوں پہ دور سے حملہ کرتا ہے۔ مگر لکھی گئی بات کی اور بات ہے۔ انٹرنیٹ کسی بھی تحریر کو اپنی اعلی صلاحیت ترویج کے ذریعے مہلک ترین ہتھیار بنانے کی سکت رکھتا ہے۔ چنانچہ جب بھائی عظمت گل نے اخبار نکالنے کا اعلان کیا تو مجھے خوشی ہوئی کہ اپنا ایک اور آدمی توپ خانہ لے کر خیالات کی جنگ میں کود پڑا ہے۔
آج کی دنیا دس سال پہلے کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ آج تقریبا ہر روز کا اخبار جنگ اور قتل و غارت گری کی خبروں اور تصاویر سے بھرا ہوتا ہے۔ بہت سے ممالک اور ان کے ساتھ ان کے عوام معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں عام لوگوں کا مایوسی کا شکار ہوجانا بہت آسان ہے۔ اور بہت سے اخبارات لوگوں کو یاسیت کی اسی راہ پہ چلانا چاہتے ہیں۔ وہ خون خرابے اور ماردھاڑ کی سنسنی خیز خبروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ تو ان حالات میں جب بھائی عظمت نے اپنے اخبار میں لکھنے کی دعوت دی تو فدوی نے اس دعوت کو نہایت خوشی سے قبول کیا۔ اگر دوسرے کالم نویس مختلف منفی اور مثبت انداز سے قارئین پہ اثرانداز ہو رہے ہیں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے خیالات کا وار کروں۔ میرے کالم کے موضوعات کیا ہوں گے؟ میرے کالم کے موضوعات ان تمام خیالات سے متعلق ہوں گے جو روز عالم غیب سے مجھ پہ برستے ہیں۔ میں اپنے سفر کے بارے میں لکھوں گا، حالات حاضرہ پہ تبصرہ کروں گا، اور ان بلند فکر، بلند حوصلہ، اور باعمل لوگوں کے بارے میں لکھوں گا جو ہیرا ہیں اور یاسیت سے مکدر فضا کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا اچھا کام کیے جا رہے ہیں۔



This page is powered by Blogger. Isn't yours?