Monday, August 23, 2010

 

ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک اور اخبار



کئی برس پہلے جب فدوی کی پہلی کتاب شائع ہوئی تو ایک کرم فرما نے اپنے تبصرے میں البیرونی کا یہ شاہکار قول پیش کیا: خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروں کا کام دیتی ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ مگر خیالات کی جنگ میں ہتھیار صرف کتابیں نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کی شائع شدہ تحریر ہے۔ لکھنے والا تو اپنی بات لکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے، پھر یہ تحریر کہاں کہاں پہنچتی ہے اور کس کس پہ کس کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے، یہ ایک بہت پیچیدہ مگر تقریبا یقینی عمل ہے۔ ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ میں اخبارات اپنا جدا مقام رکھتے ہیں۔ آج کی مصروف دنیا میں بہت سے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ بیٹھ کر کتابیں پڑھیں۔ مگر کیونکہ حالات حاضرہ ہر شخص پہ ایک طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے ان سے باخبر رہنے کے لیے اخبارات اکثر خواندہ لوگ پڑھتے ہیں۔ خیالات کی جنگ کے مہلک ہتھیاروں میں ریڈیو اور ٹی وی بھی شمار ہوتے ہیں۔ جس طرح ڈرون نہایت اونچائی سے حملہ کر سکتا ہے اسی طرح سیٹیلائٹ ٹی وی بھی آپ کےذہنوں پہ دور سے حملہ کرتا ہے۔ مگر لکھی گئی بات کی اور بات ہے۔ انٹرنیٹ کسی بھی تحریر کو اپنی اعلی صلاحیت ترویج کے ذریعے مہلک ترین ہتھیار بنانے کی سکت رکھتا ہے۔ چنانچہ جب بھائی عظمت گل نے اخبار نکالنے کا اعلان کیا تو مجھے خوشی ہوئی کہ اپنا ایک اور آدمی توپ خانہ لے کر خیالات کی جنگ میں کود پڑا ہے۔
آج کی دنیا دس سال پہلے کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ آج تقریبا ہر روز کا اخبار جنگ اور قتل و غارت گری کی خبروں اور تصاویر سے بھرا ہوتا ہے۔ بہت سے ممالک اور ان کے ساتھ ان کے عوام معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں عام لوگوں کا مایوسی کا شکار ہوجانا بہت آسان ہے۔ اور بہت سے اخبارات لوگوں کو یاسیت کی اسی راہ پہ چلانا چاہتے ہیں۔ وہ خون خرابے اور ماردھاڑ کی سنسنی خیز خبروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ تو ان حالات میں جب بھائی عظمت نے اپنے اخبار میں لکھنے کی دعوت دی تو فدوی نے اس دعوت کو نہایت خوشی سے قبول کیا۔ اگر دوسرے کالم نویس مختلف منفی اور مثبت انداز سے قارئین پہ اثرانداز ہو رہے ہیں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے خیالات کا وار کروں۔ میرے کالم کے موضوعات کیا ہوں گے؟ میرے کالم کے موضوعات ان تمام خیالات سے متعلق ہوں گے جو روز عالم غیب سے مجھ پہ برستے ہیں۔ میں اپنے سفر کے بارے میں لکھوں گا، حالات حاضرہ پہ تبصرہ کروں گا، اور ان بلند فکر، بلند حوصلہ، اور باعمل لوگوں کے بارے میں لکھوں گا جو ہیرا ہیں اور یاسیت سے مکدر فضا کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا اچھا کام کیے جا رہے ہیں۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?