Wednesday, February 22, 2017

 

بینکاک سے ڈھاکہ




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو انیس

 فروری بیس، دو ہزار سترہ


بینکاک سے ڈھاکہ

علی حسن سمندطور



بنگال۔ مشرقی پاکستان۔ اس خطے سے میرے تعلق کی کئی جہتیں ہیں۔

مجھے یاد نہیں کہ میرے ساتھ اسکول میں کوئی بنگالی طالب علم پڑھتا تھا۔ البتہ مجھے بچپن میں گھروں میں بنگالی ملازمائوں کا نظر آنا یاد ہے۔ محلے میں جو شخص چورن کا ٹھیلہ لے کر آتا تھا وہ بھی ایک بنگالی آدمی تھا۔ وہ چورن کس طرح کے تھے؟ غالبا طرح طرح کی چٹنیاں تھیں، جن کو مختلف تراکیب اور مقدار سے ملا کر مختلف طرح کے چورن تیار کیے جاتے تھے۔ چورن اخبار کے کٹے ہوئے ٹکڑوں پہ ڈال کر دیے جاتے تھے۔ اسی چورن والے کے ٹھیلے پہ شیشے کے ایک مرتبان میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں۔
بچپن کی ایک یاد یہ بھی ہے کہ لفظ بنگالی کو لفظ بھوکے کے ساتھ جوڑا جاتا تھا اور یہ ایک منفی ترکیب تھی کہ اس دور میں اور اس خطے میں کسی کا بھوکا ہونا قابل ترس نہ تھا، قابل نفرت تھا۔ بنگال میں قحط سالی، جس سے بنگالیوں کے بھوکے ہونے کا تاثر ابھرا ہے، بہت پرانی بات نہیں ہے۔ جب تک اس علاقے کا انتظام وہیں کے لوگ چلاتے تھے بنگال ایک بہت خوشحال علاقہ تھا۔ انگریز کے اس علاقے میں آنے کے بعد اس خطے کا انتظام نوآبادیاتی آقائوں کے حساب سے چلنے لگا۔ نوآبادیاتی آقا تجارت سے پیسے بنانا چاہتے تھے اس لیے ان کا دھیان ان فصلوں کی طرف تھا جن سے خوب رقم کمائی جاسکے۔ اور اسی ترجیح کی وجہ سے بنگال کے کسان پہ زور دیا گیا کہ وہ خوراک اگانے کے بجائے نیل [رنگ] کی، اور جوٹ کی کاشت کرے۔ خیال یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے دوسرے خطے بہتر مقدار میں خوراک اگا سکتے تھے اور اضافی غلہ بنگال بھیجا جاسکتا تھا۔ مگر نوآبادیاتی آقائوں کا یہ منصوبہ کئی دفعہ ناکام ہوا اور ہر ناکامی کا عذاب اس علاقے کے لوگوں کو خوراک کی قلت سے سہنا پڑا۔ انگریز کے جانے کے بعد جب اس علاقے کا انتظام واپس علاقے کے لوگوں کے پاس آیا تو لوگوں کو کبھی قحط کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
اور بچپن کی ایک یاد محلے کی ایک خاتون کے توسط سے بھی ہے۔ شاید ڈھاکہ اور کراچی کے درمیان بحری جہاز بھی چلتے ہوں گے مگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان جانے کا رائج راستہ ہوائی سفر تھا۔ وہ خاتون کراچی سے ڈھاکہ گئیں تھیں۔ ان کے واپس آنے پہ سب کو اشتیاق تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کو کیسا پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں وہاں بہت غربت دیکھنے کو ملی۔ ایک پانچ سالہ بچے نے بھی ان خاتون کے مشاہدات کو غور سے سنا تھا۔
مشرقی پاکستان سے ایک اور تعلق مشہور مصنف امرائو طارق کے توسط سے رہا۔ امرائو طارق کی ہجرت کی داستان یوپی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان مسلمانوں سے مختلف نہ تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود بہت مذہبی نہیں تھے مگر جن کے نزدیک اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان رہنا اہم تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا بندھن علاقائی، لسانی اور قومیتی بندھن سے زیادہ قوی تھا۔ یہ لوگ ہندوئوں کی حکومت سے خوفزدہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد اکثریتی گروہ کی  حکومت مذہبی تعصبات سے بیگانہ نہ ہوگی اور مسلمانوں کو اس حکومت کی رعایا بن کر رہنے میں خوب سزا ملے گی۔ یوپی سے تعلق رکھنے والے یہ مسلمان سنہ سینتالیس کے فورا بعد مغربی پاکستان نہیں گئے، بلکہ آزاد ریاست حیدرآباد دکن چلے گئے۔ حیدرآباد دکن ایک مالدار مسلمان ریاست تھی اور یوپی سے بہت زیادہ دور نہ تھی۔ یہ لوگ حیدرآباد میں اس وقت تک رہے جب تک بھارت نے حیدرآباد پہ حملہ کر کے اسے بھارت میں شامل نہیں کرلیا۔ حیدرآباد کی بھارت میں شمولیت پہ یہ لوگ ایک دفعہ پھر ’ہندو حکومت‘ سے بھاگے۔ حیدرآباد دکن سے قریب ترین مسلمان ریاست مشرقی پاکستان تھی؛ اور اس لیے یہ لوگ حیدرآباد سے مشرقی پاکستان چلے گئے۔ امرائو طارق خوش قسمت تھے کہ مغربی پاکستان میں بسنے والے اپنے دوسرے رشتہ داروں کے زور دینے پہ سنہ ستر سے بہت پہلے کراچی آگئے۔ ورنہ ان کے ساتھی سنہ اکہتر کی جنگ میں عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہوگئے۔ یہ لوگ ترقی پسند تھے اور چاہتے تھے کہ بنگالی خود اپنے علاقے پہ حکومت کریں مگر اس خواہش کے ساتھ یہ پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے ذہنوں میں پاکستان اب تک ایک ایسا ملک تھا جو جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں کا مشترکہ خواب تھا۔ وہ اس خواب کو چکنا چور ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر حالات ایسے تھے کہ وہاں بہت زیادہ پیچیدہ خیالات کی گنجائش نہ تھی۔ یا تو آپ متحدہ پاکستان کے حامی تھے یا نہیں تھے۔ اگر مشرقی پاکستان میں رہتے ہوئے آپ متحدہ پاکستان کے حامی تھے تو آپ بنگالیوں کے دشمن تھے۔
مشرقی پاکستان سے ایک اور تعلق ایف این ڈی کنسلٹنگ انجینئیرز کے مالک فہیم صدیقی کے توسط سے بنا۔ سنہ اکہتر کی جنگ میں وہ اور ان کا خاندان محض اردو بولنے کی وجہ سے دشمن قرار پایا۔ جنگ ختم ہونے پہ فہیم صدیقی جنگی قیدی بنے اور کئی سال کے بعد کراچی پہنچے جہاں انہوں نے نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کی اور اپنی محنت اور لیاقت سے خوب نام کمایا اور کما رہے ہیں۔
بنگلہ دیش سے اور ایک اور تعلق پروفیسر عقیلہ اسماعیل کے ذریعے بنا جنہوں نے اپنی انتہائی دلچسپ اور پراثر کتاب ’آف مارٹرز اینڈ میری گولڈز‘کے ذریعے اس تاثر کو زائل کیا کہ سنہ اکہتر کی جنگ کے دوران سارا ظلم یکطرفہ تھا جو مغربی پاکستان کی فوج نے بنگالیوں پہ کیا۔ عقیلہ اسماعیل نے اپنی کتاب میں بنگالیوں کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے یا اردو بولنے والوں پہ مظالم کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
مشرقی بنگال سے ایک اور تعلق ڈاکٹر سلیمہ بوگانی کے ذریعے  ہے۔ ان کے جد بھی ہندو رائج سے خائف تھے۔ سنہ سینتالیس میں یہ لوگ گجرات سے نکل کر مشرقی پاکستان پہنچے تھے۔ سنہ اکہتر کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں پاکستان کے یہ حمایتی بھی دشمن تھے مگر اسماعیلی ہونے کے ناتے یہ لوگ پاکستان کے دوسرے حمایتیوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد آغٓاخان بذات خود ڈھاکہ پہنچ گئے اور انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کی کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والا ایک ایک آغاخانی خیریت سے نکل کر کراچی یا کسی اور محفوظ جگہ پہنچ جائے۔
اس علاقے سے اور ایک اور تعلق ذوالفقار رضوی کے ذریعے ہے۔  سنہ سینتالیس میں ان کا خاندان بہار سے مشرقی پاکستان پہنچا تھا۔ یہ لوگ بھی پاکستان کے تصور کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔ سنہ اکہتر میں ان کو بھی اس وفا کی خوب سزا ملی۔ ذوالفقار آج بھی بنگلہ دیش میں کسی ’بہاری کیمپ‘ میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اہل تشیع ہونے کی وجہ سے ان کو بنگالی حریت پسندوں میں ایک شیعہ حمایتی مل گیا جس نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو مکتی باہنی کی قید سے نکالنے میں مدد کی۔  ذوالفقار کے گھر والے بھی پاکستان کے حمایتی تھےمگر وہ جس طرح کے پاکستان کا حمایتی تھے، یہ وہ پاکستان نہیں تھا جس کے لیے اس وقت جنگ جاری تھی۔ اس وقت جس پاکستان کی بقا کے لیے جنگ جاری تھا وہ ایک استحصالی ملک تھا جو اپنی طاقت کے زور پہ ملک کے کمزور حصے کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا تھا۔ وہ استحصالی ملک ہار گیا۔ اور اس ہار کے ساتھ اس نظریے کے تمام حمایتیوں کو بھی ذلت آمیز شکست ہوئی۔

لوگ اپنی پہچان مختلف طریقوں سے بناتے ہیں۔ وہ کس علاقے میں پیدا ہوئے۔ وہ سیاسی طور پہ کس ملک کا حصہ ہیں۔ وہ کس لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کس مذہبی گروہ کے ساتھ ہیں۔ یہ سب انسان کی پہچان کے طریقے ہیں۔ انسان کی سب سے اچھی پہچان وہ ہوتی ہے جو انسان نے خود اپنے لیے بنائی ہو۔ مگر کم لوگ ایسی کوئی پہچان بناتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ تو بس پرانی پہچان کو چمکا کر، اسے اپنی پہچان بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور پہچان کے اس جدید میلے میں آپ کی سب سے طاقتور پہچان آپ کے ملک سے ہے۔ دنیا والوں کے لیے آپ کا پاسپورٹ آپ کی پہچان کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ پاسپورٹ کے توسط سے آپ کی پوری پہچان سمٹ کر ہتھیلی بھر کی رہ جاتی ہے۔
اور دوسروں کی نظروں میں آپ کی وہ پہچان آپ کی مکمل تاریخ ہے۔ بہت سے لوگ آپ کی اس پہچان کے ذریعے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں، کس قماش کے ہیں، آپ کا ماضی کیسا رہا ہے، اور آگے آپ سے کس قسم کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بنگلہ دیش پہنچنے پہ، وہاں ٹرین کا ٹکٹ خریدنے پہ، وہاں ہوٹلوں میں قیام میں مجھے بار بار اپنا پاکستانی پاسپورٹ دکھانا ہوگا۔ وہاں لوگ مجھے میرے پاسپورٹ کی وجہ سے کن نظروں سے دیکھیں گے؟ کہیں وہ لوگ سنہ اکہتر کے سارے تلخ تجربات کی ذمہ داری میرے کھاتے میں نہ ڈال دیں؟ میں بنگلہ دیش جاتے ہوئے اسی خوف میں تھا۔
مگر میرا یہ خوف بے بنیاد تھا۔ بنگلہ دیش نے کھلی بانہوں سے میرا استقبال کیا۔ اور وہاں پہنچنے پہ مجھے لگا کہ میں گھر پہنچ گیا ہوں۔



Wednesday, February 15, 2017

 

برما کے اوپر سے جست






ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو اٹھارہ

 فروری گیارہ، دو ہزار سترہ

برما کے اوپر سے جست


بینکاک میں فقیر سیاح بنگلامپھو نامی علاقے میں ٹھہرتے ہیں۔ ہم بھی وہیں ایک کاغذی دیواروں والے ہوٹل میں ٹھہرے۔ اسی ہوٹل میں ہمیں ایک افریقی نژاد امریکی ملا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ آپ کو سفر میں اس قسم کے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ ملکوں ملکوں کی سیر کرتے امریکی سیاحوں کی اکثریت یورپی نژاد امریکیوں کی ہوتی ہے۔
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، اس میں یورپی نژاد لوگ تعداد میں کم ہونے کے باوجود دنیا پہ چھائے ہوئے ہیں۔ طبیعات یا کیمیا یا ریاضی یا کسی اور سائنسی علم کی کتاب کھول لیجیے آپ کو سائنسی کارنامے دکھانے والے قریبا تمام لوگ یورپی نژاد نظر آئیں گے۔ کیا یورپی نژاد لوگوں کے علاوہ باقی دنیا جھک مار رہی ہے؟
یورپی نژاد لوگوں کی دنیا پہ چودھراہٹ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ سفر کے دوران آپ کو زیادہ تر سیاح سفید فام، سنہری بالوں، نیلی آنکھوں والے ملیں گے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ یورپی اور یورپی نژاد اکثریت والے ممالک خوشحال بھی ہیں اور یورپی نوآبادیاتی نظام کے تجربے کے بعد ان ممالک کے شہریوں کو دوسرے ممالک کے ویزے حاصل کرنے میں آسانی بھی ہے۔
 مغرب میں یہ رواج ہوچلا ہے کہ نسل کے متعلق بات کرنا برا خیال کیا جاتا ہے اور خاص طور پہ اگر کوئی سفید فام شخص مختلف نسلوں کے درمیان جسمانی فرق کو بیان کرے تو اس شخص کو فورا نسل پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سچ پوچھیے تو کسی نہ کسی قسم کی نسل پرستی تو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے وطن میں بھی لوگ چاند سی دلہن چاہتے ہیں۔
  کوئی بھی باشعور شخص باآسانی دیکھ سکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں ذات پات کا ایک واضح نظام قائم ہے جس میں سفید فام لوگ سب سے اوپر ہیں اور سیاہ فام لوگ سب سے نیچے۔ درمیان میں موجود لوگ اپنی اپنی کھال کے رنگ کے حساب سے ہیں۔ اور اسی لیے اس نسلی تفریق سے وضع شدہ دنیا کے متعلق مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے معلوم کرنا اچھا تجربہ ہوتا ہے۔
اس افریقی نژاد امریکی سے میری بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اس کی باتوں سے مجھے خیال ہوا کہ وہ اپنے لیے اور اپنے رنگ کے لوگوں کے لیے فخر کی تلاش میں تھا۔ شاید اسے اس اطمینان کی تلاش تھی جو دنیا کے ہرشخص کو ہونا چاہیے کہ وہ جیسا بھی ہے بہت خوب ہے،اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن سے جو چاہے حاصل کرسکتا ہے۔ شاید یہ فخر افریقی امریکی لوگوں سے غلامی کے تجربے میں چھن گیا ہے۔ بینکاک میں ملنے والے اس افریقی نژاد امریکی نے اپنے ذہن میں لوگوں کی جو درجہ بندی کی تھی اس کے حساب سے سفید فام لوگ ایک بالکل الگ گروہ تھے جب کہ وہ، میں، اور دوسرے گہرے رنگ والے لوگ ایک اور گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ دماغ میں پینیال نامی غدود انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مرکز ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ جلد کے رنگ کا اس غدود کی فعالیت سے تعلق ہے۔ اپنی اس بات سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سفید فام لوگوں کے مقابلے میں گہرے رنگ والے لوگ زیادہ تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
’’دیکھو، افریقی امریکی لوگوں کو صرف گانے بجانے اور کھیل کود کے میدانوں میں جگہ دی گئی ہے۔ اور وہاں ان لوگوں نے کیا دھوم مچائی ہے۔ اگر انہیں دوسرے شعبوں میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ کیا انقلاب برپا کردیں؟‘‘
میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا، بغیر یہ سوال کیے کہ آخر افریقی امریکیوں کا راستہ کون روک رہا ہے۔ انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جانے سے کون منع کررہا ہے۔ وہ بولتا رہا۔
’’سفید فام لوگوں کا دنیا پہ قبضہ ہے اور ہم ان کی ہر بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ ہم سےجھوٹ بولا جاتا ہے کہ دنیا کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ دنیا تو خالی پڑی یے۔ یہ میرا براہ راست مشاہدہ ہے۔ ہوائی جہاز سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جائو تو شہروں کے درمیان بالکل خالی جگہیں نظر آتی ہیں۔‘‘
میں دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ یہ شخص کیسے گھمنڈ کا شکار تھا کہ ہرروز لاکھوں لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں مگر صرف اس شخص کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ شہروں کے درمیان موجود خالی جگہوں کو انسان کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیا اس شخص نے کبھی سوچا کہ انسانی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت بڑا رقبہ زرعی اراضی کا چاہیے۔ اور زراعت کے لیے پانی چاہیے؟ کیا دنیا میں زراعت کے قابل بڑے بڑے قطعات خالی پڑے ہیں؟

بینکاک میں ہمارا قیام یوں طویل ہوگیا کہ ہمارے لیے آگے زمینی راستہ مسدود تھا۔ ہمارے پاس برما کا ویزا تھا مگر سیاح زمینی راستے سے تھائی لینڈ سے برما نہیں جا سکتے تھے۔ اور اگر اڑ کر برما پہنچ بھی جائیں تو آگے بھارت کا ویزا نہ تھا۔ ہم یورپی نوآبادیاتی تجربے کی میراثی باقیات میں زندہ تھے کہ موجودہ ممالک اور ان کی سراحد کم و بیش اسی تجربے کی بنیاد پہ وجود میں آئی ہیں۔ اور ہمارا بھرپور خیال ہے کہ یہ سلسلہ بہت آگے تک نہیں چلے گا۔ کئی سو سال کے بعد، دنیا کی تاریخ میں سنہ اٹھارہ سو چالیس سے سنہ اکیس سو تک کا عرصہ ممالک اور سراحد کی جکڑ بند کا دیکھا جائے گا۔ قریبا اٹھارہ سو چالیس سے پہلے بھی آزادی اور سنہ اکیس سو کے بعد بھی آزادی۔ جس کا دل چاہے جہاں چاہے اور نئی جگہ جا کر بس جائے۔ مگر کیا کیجیے کہ ہماری پوری زندگی اسی جکڑبند والی دنیا میں گزرے گی۔ بینکاک کے راما نہم پارک میں ادھر سے ادھر مٹرگشت کے دوران ہم نے آگے کے سفر کا فیصلہ کیا۔ طے یہ پایا کہ برما کو پھلانگ کر بنگلہ دیش پہنچیں اور پھر وہاں سے واپس کراچی لوٹ جائیں۔


Labels: , , ,


Sunday, February 12, 2017

 

محبت مردہ باد،


فیس بک کی گرمی بتا رہی ہے
جیسے جیسے ویلینٹائن دن قریب آرہا ہے نہی عن المنکر والے لڑائی مارکٹائی کی تیاری میں مشغول ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں یوم حیا ڈنکے کی چوٹ پہ مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا اور یوم محبت منانے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔
محبت مردہ باد، دنگا فساد اور نفرت زندہ باد۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?