Thursday, January 23, 2014

 

جیفنا سے چند سطور


جنوری انیس،  دو ہزار تیرہ
  
ایک فکر کے سلسلے کا کالم 
کالم شمار ایک سو بہتر
  
جیفنا سے چند سطور

رات کے بارہ بجنے میں چند منٹ ہی رہ گءے ہیں۔ میں جلدی جلدی یہ کالم لکھ کر سونا چاہتا ہوں تاکہ صبح سویرے اٹھ کر اس شہر میں مارا مار پھروں اور دیکھوں کہ پرانی خانہ جنگی کے آثار کہاں کہاں نظر آتے ہیں۔ آج جب ہاءی وے نو پہ چلتے ہوءے ہم انورادھاپورا سے آگے بڑھ کر تامل اکثریت علاقے میں داخل ہوءے تو واضح ہوگیا کہ ہم ایک ایسے خطے میں پہنچ گءے ہیں جہاں لڑاءی تو ختم ہوچکی ہے مگر جھگڑا برقرار ہے۔ چند سال پہلے تک یہ پورا علاقہ تامل شیروں کے قبضے میں تھا اور یہاں سری لنکا کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا تھا۔ اس علاقے میں ہاءی وے نو کی ازسرنو تعمیر ہوءی ہے؛ ہم اسی سڑک پہ چل رہے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون کے کھمبے بھی نءے نءے لگے ہیں۔ سڑک کے دوسری طرف ریل کی نءی پٹری بچھ رہی ہے۔ سڑک کے ساتھ ہی کچھ کچھ دیر بعد فوجی چھاءونیاں نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پہ ہماری گاڑی کو روک کر گاڑی کے اندر موجود مسافروں کے بارے میں معلوم کیا گیا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آءے ہیں۔ اس علاقے میں جہاں جہاں خانہ جنگی کے معرکے ہوءے وہاں وہاں انگریزی میں ساءن لگے ہیں کہ، 'اب مزید تباہی نہیں ہوگی'۔
عمرانیات میں گروہوں کے درمیان تنازعات اور نءے ممالک کی پیداءش میں میری خاص دلچسپی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں آزادی کی کءی تحاریک کو کامیاب ہوتے اور کءی کو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ اکثر صورتوں میں ایک نءے ملک کی پیداءش کس قدر کرب سے ہوتی ہے۔ زچگی کے کرب و الم سے مماثلت رکھنے کے باوجود نءے ممالک کی پیداءش انسان کی پیداءش سے اس طرح مختلف ہے کہ نوزاءیدگی کے اس عمل سے گزرنے کے بعد ماں اور بچے کی شاذونادر ہی بنتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس زچگی میں ماں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بچہ بطن مادر ہی میں مرجاءے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کیوں کامیاب ہوءی اور خالصتان کی تحریک کیوں ناکام ہوگءی؟ تبت کیوں چین سے جان نہ چھڑا پایا مگر مشرقی تمور انڈونیشیا سے کیسے آزاد ہوگیا؟ یہ سوالات بہت مشکل ہیں کیونکہ ہرتحریک آزادی کا پیچیدہ تعلق بہت سے عوامل کے ساتھ ہوتا ہے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ جس ملک سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے اپنے کرتوت کیسے ہیں۔ منصف اور عسکری اعتبار سے مضبوط ممالک سے آزادی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے جب کہ وہ ممالک جو معاشی طور پہ بدحال ہوں اور جہاں کا ہرشہری بیزار ہو وہاں کسی بھی  گروہ کا آزادی کی تحریک چلانا آسان ہوجاتا ہے۔ اور آزادی کی تحریک بہت سوچ سمجھ کرچلانی چاہیے کیونکہ اس میں ناکامی کی سزا بہت  کڑی ہے۔ یہ وہ سزا ہے جو خالصتانی سکھوں کو ملی اور جو سری لنکا کے ان تمام تاملوں کو مل رہی ہے جن پہ شک تھا کہ وہ تامل شیروں کے زور کے زمانے میں ان سے ملے ہوءے تھے۔


Labels: , , , , , ,


 

نواز شریف کا طالبان سے خطاب



جنوری بارہ،  دو ہزار تیرہ
  
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکہتر

نواز شریف کا طالبان سے خطاب
  
جنوری نو کی ڈاءری۔ کراچی پہنچے تین روز ہوگءے ہیں مگر اب تک میرے دن رات سنبھل نہیں پاءے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ دوپہر تین بجے کے قریب بہت نیند محسوس ہوءی۔ میں بستر پہ لیٹا تو آنکھ لگ گءی۔ آنکھ کھلی تو ساڑھے چار بجے تھے۔ جنوری نو، شام ساڑھے چار بجے کا وقت بہت اہم تھا مگر میں اس سمے اس وقت کی تاریخی اہمیت سے واقف نہ تھا۔ ایک صاحب سے فون پہ بات ہوءی اور طے پایا کہ وہ کچھ دیر میں مجھ سے ملنے آءیں گے۔ میں بستر سے نکل کر اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں ان صاحب کا پھر فون آگیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج میرے پاس نہ آپاءیں گے کیونکہ شہر کے حالات اچانک خراب ہوگءے ہیں۔ انہوں نے مجھے ٹی وی دیکھنے کا مشورہ دیا۔
اور اس شہر خراب میں یوں ہی ہوتا ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں یوں جٹے رہتے ہیں کہ جیسے اس ملک میں ایک بڑی جنگ ہو ہی نہیں رہی ہو۔ پھر اچانک اس جنگ کا ایک بڑا معرکہ ہوتا ہے۔ میڈیا اس معرکے کی خبر نشر کرتا ہے اور لوگ سہم کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ٹی وی پہ مستقل چینل بدلتے ہیں اور حالیہ معرکے کی خبر کو مختلف صحافیوں کے منہ سے سنتے ہیں۔ پھر مختلف سیاسی شخصیات کے بیانات سامنے آتے ہیں اور پھر اس معرکے کی خبر پرانی ہوتی جاتی ہے۔ شہر پھر رواں ہوجاتا ہے یوں کہ جیسے جنگ ختم ہوچکی ہو، یوں کہ جیسے اس جنگ کا اگلا معرکہ اب کبھی نہ ہوگا۔ آج شام ساڑھے چار بجے کا وقت یوں تاریخی تھا کہ ٹھیک اسی وقت اس شہر کے ایک بڑے پولیس افسر پہ قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ سپرینٹینڈینٹ پولیس چودھری اسلم کے پولیس قافلے کو ایک زوردار بم کا نشانہ بنایا گیا۔ دو پولیس اہلکاروں سمیت چودھری اسلم اس حملے میں ہلاک ہوگءے۔ یہ وہی بہادر پولیس افسر تھا جس نے اس شہر سے گن گن کر طالبان دہشت گردوں کا صفایا کیا تھا۔ یہ پولیس افسر دہشت گردوں کے لیے دہشت بنا ہوا تھا۔ جنگ کے اس حالیہ معرکے میں تخریب کاروں کی جیت ہوگءی۔ جہاں اس معرکے کے کءی منفی پہلو ہیں وہیں یہ واقعہ حکام وقت کے لیے ایک سنہری موقع بھی ہے۔ منفی پہلو تو یہ ہیں کہ اس واقعے کا برا نفسیاتی اثر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پہ پڑے گا اور دہشت گردوں کے حوصلے اور بلند ہوں گے۔ مگر سنہری موقع یہ ہے کہ اس واقعے کی بنیاد پہ ریاست کے دشمنوں سے دوٹوک بات کی جاسکتی ہے، اس جنگ کو جیتنے کے لیے اپنی حکمت عملی بالکل واضح کی جاسکتی ہے؛ عوام کے ذہن بناءے جاسکتے ہیں کہ اس جنگ کو جیتنا اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا کیوں ضروری ہے۔ پاکستان کے عوام ترستی نظروں سے اپنی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہ قاءدین کب دو ٹوک بات کریں گے اورکب ایسے اقدامات کریں گے جن سے حالیہ جنگ جلد از جلد ختم ہوجاءے۔ دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی نواز شریف کے اس تاریخی خطاب کا منتظر ہوں جس میں طالبان سمیت سب لوگوں سے کھل کر بات کی جاءے گی۔ نواز شریف کی وہ تقریر کچھ اس طرح ہوگی۔
پاکستان کی جغرافیاءی حدود میں رہنے والے تمام لوگو،
انسان فانی ہے مگر جب تک وہ زندہ ہے ایک اچھی، پرسکون زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ امن سے دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنا ہماری ضرورت بھی ہے اور خواہش بھی۔ مگر اس وقت پاکستان کی جغرافیاءی حدود کے اندر ایک خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔ ہم اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جنگ یقینا ماضی کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی غلطی سے شروع ہوءی مگر یہ ایک پرانی بات ہے۔ آج کی بات یہ ہے کہ اب یہ ہماری جنگ ہے۔ اس میں ہمارا نقصان ہے اور مستقل ہورہا ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف پاکستان کی ریاست اور عوام ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اسلام کا نام لیوا کہتے ہیں۔ اسلام کے نام پہ دہشت گردی کرنے والے یہ لوگ بظاہر  دو وجوہات سے دہشت گردی کی کارواءیاں کررہے ہیں۔ اول، یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم امریکہ کے حمایتی ہیں اور یہ لوگ ہمیں امریکہ کا ساتھ دینے کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ دوءم، یہ لوگ اپنی پسند کا اسلام ہم سب پہ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
کلمہ دوءم کا گہرا تعلق کلمہ اول سے  اس طرح ہے کہ جس طرح اسلام کی مسخ شدہ لڑاکو شکل امریکہ کو ناپسند ہے، بالکل اسی طرح ایک عام مسلمان کو بھی یہ پرتشدد اسلام ہرگز نہیں بھاتا۔ اس معاملے میں امریکہ اور دوسرے نیٹو ممالک سے مکمل ہم آہنگی کے باوجود ہم نے اپنے حلیفوں سے ایک ماہ کی مہلت مانگی ہے۔ اس ایک ماہ میں نہ تو ہم کسی کو ڈرون حملے کرنے دیں گے اور نہ ہی عسکری معاملات میں ان ممالک کی معاونت کریں گے۔  اس ایک ماہ میں ہم متحارب گروہوں سے بات چیت کریں گے اور تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ہم طالبان سمیت تمام جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہتھیار رکھ کر ہم سے بات چیت کریں۔
اور ہمیں اندازہ ہے کہ اس بات چیت میں جہاں امریکہ کا ذکر آءے گا وہیں 'اسلامی نظام' اور 'شریعت مصطفی' کی بات بھی ہوگی۔ اس معاملے میں ہمارا موقف بہت واضح ہے۔ ہم کسی شخص، کسی گروہ کو اسلام کا چیمپءین نہیں سمجھتے۔ ہمارے نبی کی وفات کے بعد کسی شخص، کسی جماعت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناءب اللہ سمجھے اور باقی لوگوں کو ڈنڈے کے زور پہ اپنے 'اسلام' کی راہ پہ چلانے کی کوشش کرے۔ کسی قرآنی آیت کسی حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ہم کسی ایک شخص یا جماعت کی بات مانیں کہ ان کا اسلام ہی بالکل صحیح اسلام ہے۔ ہم تمھاری بات سننے کے لیے اسی طرح تیار ہیں جس طرح ہم دوسرے مذہبی علما کی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ان عالم دین کے درمیان واضح اختلافات موجود ہیں۔ چنانچہ ہم سب کی سنیں گے کہ ان کے نزدیک صحیح اسلام کیا ہے مگر پھر ہم اپنے حساب سے فیصلہ کریں گے کہ ہم اپنے لیے کیا چاہتے ہیں۔ اور یہ فیصلہ باہمی مشاورت سے ہوگا اور موجودہ جمہوریت جس میں ایک قانون ساز اسمبلی منتخب نماءوندوں کی مرضی سے ملک کے قوانین بناتی ہے اس مشاورت کا سب سے احسن راستہ ہے۔ جس شخص کو شوق ہے کہ وہ ملک کو اپنی پسند کے اسلام کی راہ پہ لاءے اسے چاہیے کہ وہ زور زبردستی کے راستے کے بجاءے پیارومحبت کا راستہ اختیار کرے تاکہ اس کے علاقے کے لوگ اسے جمہوری طور پہ منتخب کر کے قانون ساز اسمبلی میں بھیج سکیں۔
قصہ مختصر، اگلے تیس دن مکمل امن کے ہیں، کم از کم ہماری طرف سے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم تمام متحارب گروہوں سے مذاکرات کریں اور انہیں ایک مشاورتی عمل میں شامل کریں۔ اور اگر ان گروہوں نے ہمارا محبت سے بڑھا ہاتھ جھٹکا اور ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی تو پھر ہماری ان سے کھلی جنگ ہے۔ اس جنگ میں ہم نیٹو سمیت ہرطرح کے حمایتی کی مدد حاصل کریں گے اور جنگ کرنے والوں سے سختی سے نمٹیں گے کہ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?