Wednesday, November 30, 2016

 

گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو نو

 نومبر ستائیس، دو ہزار سولہ


گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں
 

شیاں سے چنگدو جانے کے لیے ہمیں رات کی ٹرین ملی تھی۔ مگر ہوٹل والوں نے اپنے چیک آئوٹ وقت کے مطابق ہم سے کمرہ خالی کرالیا۔ رات تک کیا کریں؟ تھوڑی دیر ادھر ادھر مٹر گشت کرنے کے بعد واپس ہوٹل والے علاقے میں آگئے۔ وہاں سامنے ریستوراں میں بیک پیکر سیاحوں کا ہجوم تھا۔ ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہماری نظر اس کتاب پہ پڑی جس میں ریستوراں آنے والے گاہکوں نے اپنے تاثرات تحریر کیے تھے۔ اس کتاب میں سب سے زیادہ تاثرات انگریزی زبان میں تھے۔ المانوی غالبا دوسری پسندیدہ ترین زبان تھی۔ عبرانی بھی پیچھے نہ تھی۔ ایک تبصرہ فارسی میں بھی نظر آیا مگر کئی سال پہلے شروع ہونے والی اس کتاب میں اردو میں کوئی تحریر موجود نہ تھی۔ بس اسی وقت ہمیں ٹرین کی روانگی سے پہلے وقت کاٹنے کا طریقہ سمجھ میں آ گیا۔ ہم نے اس کتاب میں چین میں اپنے سفر کی روداد لکھ دی اور اردو بولنے والے سیاحوں کو چین میں رقم بچانے کے طریقے بھی بتا دیے۔ نہ جانے وہ تحریر کبھی کسی نے پڑھی یا نہیں۔ [اگر آپ کا چنگدو جانا ہو اور تاثرات کی وہ کتاب آپ کو ملے تو آپ اس اردو تحریر کی تصویر کھینچ کر ہمیں ضرور بھیج دیجیے گا کیونکہ ہمارے پاس اس لکھائی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔]
اب رات ہوچلی تھی۔ ہم عوامی بس سے ٹرین اسٹیشن جانا چاہتے تھے مگر اتنی رات گئے بس چلنا بند ہوگئی تھی۔ ہم نے ایک مختصر رکشہ کروایا جو سڑک پہ دوڑتے بڑے بڑے ٹرکوں سے معجزانہ طور پہ بچتا ہوا اسٹیشن پہنچ گیا۔
ٹرین پوری رات چلنے کے بعد اگلے دن دوپہر میں چنگدو پہنچی۔ ہمارے ساتھ اور سیاح بھی تھے مگر ٹرین میں ان سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ ان سیاحوں میں ایک سیاہ فام امریکی نوجوان بھی تھا جس کے ساتھ ایک چینی لڑکی تھی۔ کیا وہ چینی لڑکی اس شخص کو امریکہ میں ملی تھی؟ اس چینی لڑکی کے ساتھ ایک سیاہ فام شخص کو دیکھ کر چینی لوگ اس جوڑے سے کس قسم کا رویہ رکھتے تھے؟ کیا ان واقعات پہ مسی سپی مصالحہ جیسی کوئی فلم بنائی جاسکتی ہے؟ ہم  دیر تک اس موضوع پہ سوچتے رہے۔



ہمیں اندازہ تھا کہ ہم جس سفری کتاب کی مدد سے کسی نئے شہر میں مناسب ہوٹل تلاش کررہے تھے، وہی سفری کتاب دوسرے سیاح بھی استعمال کررہے تھے۔ اس لیے چنگدو کے ٹرین اسٹیشن سے نکلنے پہ ہم سیاحوں پہ نظر رکھنا چاہتے تھے کہ وہ کونسی بس میں سوار ہوتے ہیں مگر وہاں اتنا رش تھا کہ رنگ برنگ بالوں والے سیاح ذرا سی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ہمارے سامنے صرف چینی عوام کا ایک ہجوم رہ گیا۔ ہم نے اپنی سفری کتاب سے استفادہ کیا اور اندازے سے ایک بس میں سوار ہوگئے۔ بہت آگے جا کر اندازہ ہوا کہ ہم غلط بس میں سوار ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے ایک جگہ ہمیں اتار کر چینی میں اچھی طرح سمجھایا کہ ہم کس طرح صحیح راستے پہ جائیں مگر اس کی بات ہمارے ذرا پلے نہ پڑی۔ ہم بس سے اتر کر کافی دیر تک پیدل چلتے رہے۔ پھر ہر دفعہ کی طرح ایک فرشتے کے ذریعے ہماری راہ نمائی کا انتظام کیا گیا۔ ہمیں ایک مہربان شخص مل گیا۔ اس نے ہماری سفری کتاب میں ہوٹل کا نام دیکھا جو انگریزی کے علاوہ چینی زبان میں بھی تحریر تھا۔ اس نے نقشے پہ ہمیں بتایا کہ ہم اس وقت کہاں تھے اور کس طرح اپنے ہوٹل جا سکتے تھے۔ اور پھر وہی سوال کہ تمھارا تعلق کس ملک سے ہے۔ اس نے جب پاکستان کا نام سنا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ ہم پہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے کئی بار چینی لہجے میں پاکستان پاکستان کہا، جیسے وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو اور پھر اس نے اچانک گانا گانا شروع کردیا۔
آوارہ ہوں۔ آوارہ ہوں۔ یا گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں۔ آوارہ ہوں۔
ہم اس کا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے اس لیے مسکرا کر کہہ دیا کہ ہاں وہی والا پاکستان۔
ہم شیاں سے چنگدو جاتے ہوئے شنلنگ پہاڑوں کے پاس سے گزرے تھے۔ یہ علاقہ پانڈا ریچھ کا آبائی وطن ہے اور تیزی سے نایاب ہونے والی ریچھوں کی اس منفرد نسل کے بچے کھچے جانور بانس کے اسی جنگل میں رہتے ہیں۔  چنگدو کا چڑیا گھر وہاں موجود پانڈا ریچھوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ چنگدو میں چڑیا گھر کی طرف جاتے ہوئے اچانک ٹریفک جام ہوگیا۔ ہم نے کافی دیر انتظار کیا مگر اس درمیان ہماری بس چند فٹ ہی آگے بڑھ پائی۔ ہم بس سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے چڑیا گھر پہنچے۔
چڑیا گھر سے واپسی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہم بس سے اترے تو دیکھا کہ ایک آدمی ایک بوڑھیا کے پیچھے دبے قدموں چلتا ہوا بوڑھیا کے پرس کو چاقو سے کاٹ رہا ہے۔ پہلے ہمیں خیال ہوا کہ وہ شخص اس بوڑھی عورت کا رشتہ دار ہےاور بوڑھیا کے ساتھ شرارت کررہا ہے مگر جب وہ شخص بوڑھیا کے پرس سے ایک چرمئی بٹوا نکالنے میں کامیاب ہوگیا اور بٹوہ لینے کے بعد پلٹ گیا تو ہم ٹھٹکے۔ ہمارے ساتھ چلنے والے دوسرے لوگوں نے بھی یہ واقعہ دیکھا تھا۔ ہم نے ان کی طرف ٹٹولتی نظروں سے دیکھا کہ شاید ان میں سے کوئی آگے بڑھ کر بوڑھیا کو گرہ کٹ کی اس واردات کے بارے میں بتائے۔ مگر جب ہم نے دیکھا کہ کوئی اس اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہم نے آگے بڑھ کر بوڑھیا کا بازو تھپتھپایا۔ اس عورت نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اسے اشاروں کی مدد سے سمجھایا کہ ایک شخص جس کے منہ میں سگریٹ دبی ہوئی تھی ابھی اس کا بٹوہ چرا کر پلٹا ہے۔ بوڑھیا نے اپنے کٹے ہوئے پرس کو دیکھا تو اسے ہماری بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔ وہ گھبرا کر پیچھے مڑی اور اس نے ایک دوسری عورت سے تیزتیز کچھ کہنا شروع کیا۔ اس وقت تک اس بوڑھیا اور چور کے درمیان فاصلہ اور بڑھ چکا تھا۔ وہ عورت شاید یہ فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ اس آدمی کو کیسے للکارے۔ اگر کمزور پہ کسی طاقتور کا سایہ نہ ہو تو کمزور اپنے ساتھ زیادتی ہونے پہ بھی اپنی کمزوری کی وجہ سے آواز نہیں بلند کرپاتا ہے۔



Thursday, November 24, 2016

 

ماٹی کے پتلے تجھے کتنا گمان ہے





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو آٹھ

 نومبر بیس، دو ہزار سولہ


ماٹی کے پتلے تجھے کتنا گمان ہے


جیسے جیسے ستمبر کا مہینہ گزر رہا تھا بے جنگ میں سردی بڑھتی جارہی تھی۔ گو کہ ہم بے جنگ سے شیاں جارہے تھے جہاں چین کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے مگر دل میں اندیشہ تھا کہ شاید بے جنگ سے نکلنے کے بعد ہمیں مزیدار ویگر کھانے نہ ملیں گے۔ اسی لیے بے جنگ میں آخری دن ہم نے ایک ویگر ریستوراں میں ڈٹ کر کباب کھائے۔ کسی ویگر ریستوراں کی خاص نشانی یہ ہوتی تھی کہ اس کے ماتھے پہ چاند ستارہ بنانا ہوتا تھا۔ چاند ستارہ اسلام کے ساتھ یوں جڑا ہوا ہے کہ گو کہ بقیہ دنیا شمسی کیلنڈر پہ چل رہی ہے، سارے اسلامی تہواروں کا تعلق قمری کیلنڈر سے ہے۔
آپ چین میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ایک نہ ایک شخص ایسا ضرور مل جائے گا جو کہ انگریزی سیکھ رہا ہوگا اور انگریزی کی اہمیت سمجھتے ہوئے آپ کے ساتھ انگریزی کی مشق کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یہ مشق لامحالہ رٹے رٹائے سوالات سے شروع ہوتی تھی۔ تمھارا نام کیا ہے؟ تمھاری عمر کیا ہے؟ تمھارے کتنے بہن بھائی ہیں؟ تمھارا تعلق کس ملک سے ہے؟  یہ آخری سوال سب سے زیادہ معنی خیز ہوتا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب ملنے پہ کو آپ کو بہت غور سے دیکھا جاتا تھا اور آپ کو عالمی خبروں کی زینت بننے والے واقعات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔  کہنے کو تو میں ایک آدمی تھا مگر ان کے لیے میں پورا پاکستان تھا۔ میں پاکستان کا مکمل جغرافیہ تھا۔ وہاں کے دریا اور پہاڑ تھا۔ ان کے لیے میں پاکستان کے تمام شہر، قصبے، اور گائوں تھا۔ میں پاکستان کے پورے بارہ کروڑ عوام تھا [اس وقت ملک کی اتنی ہی آبادی تھی]۔ میں پاکستان کی ہر اچھی اور بری خبر کا براہ راست ذمہ دار تھا۔ مجھے اتنا بوجھ ساتھ لاد کر چلنا برا لگتا تھا۔ مگر میں مجبور تھا۔ مجھے اس بوجھ کو اتارنے کا اختیار نہ تھا۔

بے جنگ سے صوبہ شان شی کے شہر شیاں جاتے ہوئے ہمیں ٹرین میں سخت بستر مل گیا تھا۔ ہمارے ڈبے میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والا جان بھی تھا۔ وہ آسٹریلیا میں کافی عرصہ رہا تھا۔ شیاں جاتے ہوئے ٹرین پہاڑی راستوں سے گزری مگر وہاں بھی ہر جگہ آبادی نظر آئی۔ کوئی جگہ ایسی نہ ملی جو دور دور تک ویران ہو۔ جان کا کہنا تھا کہ وہ چین میں مستقلا رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ ایسی جگہ رہنا چاہتا تھا جہاں آبادی دور دور ہو اور بیچ میں خوب کھلی جگہ ہو۔
شیاں کے ریلوے اسٹیشن سے ہم نے وہ بس لی جس کے بارے میں ہمیں سفری کتاب میں بتایا گیا تھا۔ بس قلعے کی دیوار سے باہر نکلی؛ پھر بہت دیر گھومنے پھرنے کے بعد اس نے ہمیں ریل کی پٹری کے قریب چھوڑ دیا۔ ریل کی پٹری کے دوسری طرف ہمارا ہوٹل تھا۔ ہوٹل کے سامنے ہی ’ڈیڈز ریستوراں‘ تھا۔ ڈیڈز کے برابر میں ’مامز ریستوراں‘ تھا۔ میاں بیوی کی تناتنی چل رہی تھی؛ اس لیے دونوں ریستوراں میں سخت مقابلہ تھا۔ آپ ایک ریستوراں کی طرف کھانا کھانے کے لیے بڑھیں تو دوسری طرف سے آپ کو آواز دے کر اپنی طرف بلایا جاتا تھا۔ دونوں ریستوراں سے اٹھنے والی  اس نیم انگریزی نیم چینی چیخ و پکار میں آپ کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ اس دفعہ شوہر کو خوش کرنا ہے یا بیوی کو۔
چین اس وقت تک پوری طرح سرمایہ داری نظام میں شامل نہیں ہوا تھا۔ اسی لیے جب اس ہوٹل میں قیام کے دوسرے دن غسلخانے کی چوکھٹ گر گئی تو ہماری شکایت کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ غسلخانے کا دروازہ پہلے ہی موجود نہ تھا، اور اب آنجہانی دروازے کی آخری نشانی، دروازے کی چوکھٹ، بھی جاچکی تھی مگر ہوٹل والوں کا رویہ یہ تھا کہ اتنی کم رقم میں تو تمھیں یہی کچھ ملے گا۔ پٹ لو جو پٹنا ہے۔
شیاں کی جامع مسجد کے بعد شیاں کا دوسرا مقبول مقام دو صد قبل مسیح میں گزرنے والے چینی بادشاہ چن شی ہوانگ کی فوج تھی۔ دراصل چن شی ہوانگ کو مٹی کے سپاہیوں کی ایک پوری فوج کے ساتھ دفن کیا گیا تھا تاکہ بادشاہ کی موت کے بعد یہ سپاہی بادشاہ کی حفاظت کا کام کریں۔ بادشاہ کی موت کے بعد کیڑوں نے بادشاہ کی لاش کو کھا لیا اور حفاظت پہ معمور مٹی کے سپاہی کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ دو ہزار دو سو سال پرانے اس تاریخی مقام میں دنیا والوں کی بہت زیادہ دلچسپی تھی اور چین کا رویہ واضح تھا: دلچسپی ہے تو پیسے نکالو۔ مٹی کی فوج [ٹیرا کوٹا آرمی] دیکھنے کا ٹکٹ بہت مہنگا تھا، اور ساتھ ہی اندر کیمرہ لے جانے کی ممانعت تھی۔ اگر آپ کو اندر جا کر مٹی کے سپاہیوں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق ہے تو اضافی رقم دیجیے اور سرکاری فوٹوگرافر کو یہ کام کرنے دیجیے۔ مٹی کی فوج دیکھنے کے لیے سیاح ہال میں ایک طرف سے داخل ہوتے تھے اور پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے ایک مستطیل کے اطراف کا پورا چکر لگاتے تھے۔ مٹی کے سپاہی قطار در قطار نیچے کھڑے نظر آتے تھے۔ ہمارے جیسے ڈھیٹ سیاح اس سیاحتی مقام کے افسران کی بات نہیں مانے تھے اسی لیے اس نیم روشن ہال میں خراماں خراماں چلنے والے سیاحوں کے جھنڈ سے کچھ کچھ دیر بعد کیمرے کی فلیش نظر آجاتی تھی۔ مگر کچھ بھی کہیے مستعد کھڑے ان سپاہیوں کا نظارہ دلچسپ تھا۔ اس مشاہدے سے خود اپنے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ پھر یہ خیال آیا کہ ہمیشہ سے انسان موت سے اس قدر ڈرتا کیوں رہا ہے۔ وہ اپنی ادنی زندگی کی حقیقت کیوں نہیں سمجھتا؟ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ طویل مدت پہ پھیلی اس کی موت اس کی زندگی کے دونوں سروں پہ موجود ہے، پیدائش سے پہلے اور مرنے کے بعد۔
شیاں ایک گندہ شہر تھا۔ وہاں جگہ جگہ سڑک کے کنارے لگے کوڑے کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ اور اسی لیے چند دن بعد شیاں کو چھوڑنے پہ ہمیں کسی قسم کا ملال نہ تھا۔



Thursday, November 17, 2016

 

غریب کے بچے








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو سات

 نومبر چھ، دو ہزار سولہ


غریب کے بچے


ترقی یافتہ ممالک کے باشندے بلاوجہ طعنے دیتے ہیں کہ ایک عرصے سے مغرب ہی ہر طرح کی نئی اختراع اور ایجاد کا مرکز ہے۔ ہم نے چینیوں کی ایک ایسی ایجاد دیکھی جس پہ ہم عش عش کر اٹھے۔ وہ اختراع بچوں کی پتلون میں تھی۔ ان پتلونوں میں پیچھے بیچ کی سلائی موجود نہ ہوتی تھی۔ بچہ سیدھا کھڑا ہو یا چلے پھرے تو آپ کو معلوم نہ ہوگا کہ پتلون پیچھے سے ان سلی ہے۔ مگر ادھر بچے نے فارغ ہونے کی خواہش ظاہر کی اور ادھر ماں نے اسے کچے میں بٹھا دیا۔ بیٹھنے پہ پتلون کے دو پھٹے حصے ادھر ادھر ہوگئے اور بچہ پتلون پہنے پہنے آرام سے فارغ ہوگیا۔

اسلام آباد جب نیا نیا آباد ہوا تھا تو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان سے کچھ فاصلے پہ ہے۔ ہمیں بے جنگ بھی اپنی ہئیت میں چین سے کچھ دور نظر آیا۔ مگر اسلام آباد کے مقابلے میں بے جنگ ایک تاریخی اور زندہ شہر ہے اور وہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بے جنگ میں ہفتہ بھر قیام کے دوران ہم ان تمام جگہوں پہ گئے جو سیاحوں میں مقبول تھیں اور جن سے چینی حکومت خوب رقم بنا رہی تھی۔ بے جنگ سے شمال میں دیوار چین جن مختلف مقامات پہ دیکھی جاسکتی ہے ان میں بدالنگ سب سے مقبول ہے۔ بدالنگ پہ سیاح اضافی رقم دے کر خودکار کھٹولے [کیبل کار] کی سواری سے اوپر دیوار تک پہنچ سکتے تھے۔ واپسی میں خودکار کھٹولے کے استعمال کے ساتھ ہی پھسل گنڈے [ٹوبوگان] کے ذریعے بھی نیچے آیا جاسکتا تھا۔ غرض کہ چین نے سیاحوں کی جیب ہلکی کرنے کی کوشش میں اس تاریخی مقام کو ایک امیوزمنٹ پارک بنا دیا تھا۔

اس وقت چین میں امریکی ریستورانوں کی آمد شروع ہوئی تھی اور بے جنگ میں میک ڈانلڈ اور کے ایف سی موجود تھے۔ ساتھ ہی فرانسیسیوں نے بھی اپنا بندوبست کرلیا تھا۔ بے جنگ کے وسط میں روح فرانس [ویدے فغانس] نامی بیکری موجود تھی جہاں کے تازہ بیگیٹ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ ہمیں اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کا خیال آیا۔ ٹیم بیرونی دورے پہ جاتی ہے تو کچھ مقامی لوگ اسی طرح کھلاڑیوں کی قربت حاصل کرتے ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کو حلال دیسی کھانے لا کر دیتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ اکثر لوگ سیاحت میں دوسرے حواس خمسہ پہ جوا کھیلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں مگر چکھنے کی حس کے استعمال میں قدامت پسند واقع ہوتے ہیں۔
یہ دنیا بہت ظالم جگہ ہے۔ آپ کی قسمت کا بیشتر تعین آپ کی جائے پیدائش سے ہوجاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پیدا ہونے والے لوگ صرف اپنے ملک میں ہی دھکے نہیں کھاتے بلکہ اگر ملک سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں تو بیرون ملک بھی غریب کے ان بچوں سے ان کی جائے پیدائش کی مناسبت سے سلوک کیا جاتا ہے۔ پاک چین دوستی زندہ باد کی وجہ سے ہمیں جو ویزا ملا تھا اس کی مدت میں اضافہ ہم نے پہلی بار تلفان میں کرایا تھا مگر اب بے جنگ پہنچتے پہنچتے وہ مدت بھی ختم ہورہی تھی۔
بے جنگ میں امیگریشن کے دفتر میں بہت رش تھا۔ وہاں مغربی سیاحوں کی بھرمار تھی اور ان کے ویزوں کی مدت مسکرا مسکرا کر بڑھائی جارہی تھی۔ ہم نے اپنا پاسپورٹ افسر کو تھمایا تو یوں لگا کہ پاسپورٹ ہاتھ میں لیتے ہی اس کو بجلی کا زوردار جھٹکا لگا ہو۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستانیوں کے لیے ویزے میں توسیع صرف ایک باری کی جاتی ہے اور ہم وہ سہولت پہلے ہی استعمال کرچکے تھے۔ یہ بہت بری خبر تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ہر حالت میں اگلے روز چین چھوڑ دینا تھا۔
ہم افسران سے بحث کرتے رہے کہ ہمارے لیے ایک دن بعد چین چھوڑنا ناممکن تھا کیونکہ ہم فضائی سفر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بے جنگ، چین کے پڑوسی ممالک سے اتنا دور تھا کہ ہم ایک دن میں ایسی کسی سرحد تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ مگر ہماری بحث بے سود نظر آتی تھی۔ وہ  افسران ہماری کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ ہمیں اپنے گلے میں گھٹتا محسوس ہوا۔
ہم نے ایک دفعہ پھر منت سماجت شروع کی۔ جو افسر آگے بڑھ کر سب سے اچھی انگریزی بول رہا تھا اس سے التجا کی کہ وہ کوئی راستہ نکالے اور ویزے کی مدت میں صرف ایک دفعہ دس مزید دن کی توسیع کردے۔ اس موقع پہ وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتیں کرنے کے دوران وہ کچھ کچھ دیر بعد ہماری طرف بھی دیکھ لیتے تھے۔ شاید ان کو ہمارے اوپر کچھ رحم آگیا تھا۔ آپس میں صلح کے بعد اچھی انگریزی بولنے والے افسر نے ہمیں ایک  دوسرے دفتر کا پتہ بتایا اور ہم سے کہا کہ ہم وہاں جا کر اپنی قسمت آزمائیں۔
ہمیں جس دفتر کا پتہ بتایا گیا تھا وہ تاریخی شہر ممنوعہ [فوربڈن سٹی] کے دوسری طرف واقع تھا۔ ہم جس قدر جلد ممکن تھا وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ دفتر بند ہورہا تھا۔ ہمیں وہاں ایک شفیق بوڑھا ملا۔ وہ عمر رسیدہ آدمی اس دفتر میں مترجم کے فرائض انجام دیتا تھا۔ مائو کے انقلاب سے پہلے جب چین میں خاص اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی تو اس نے بھی چینی میڈیم کی جگہ انگریزی میڈیم اسکول سے پڑھا تھا۔ وہ ہکلا کر بولتا تھا۔ اس کی قمیض پتلون سے باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ اپنی آنکھوں کے گرتے حلقوں پہ لگی عینک کے پیچھے سے ہمیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس شخص نے ہماری مدد کی۔ فیس کی ایک خطیر رقم اس دفتر میں دینے پہ ہمارے ویزے میں اکیس روز کی توسیع کردی گئی۔ مگر یہ ویزے میں آخری ممکن توسیع تھی۔ ہمیں ہر حال میں اکیس روز کے اندر چین چھوڑنا تھا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خود اس وقت تک چین سے بیزار آچکے تھے۔ لائوس اور چین کی باہمی سرحد کچھ عرصے پہلے کھلی تھی۔ ہم نے بے جنگ سے لائوس کا ویزا حاصل کیا اور اور اس سرحد کی طرف جنوب کے رخ چل دیے۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?