Thursday, November 24, 2016
ماٹی کے پتلے تجھے کتنا گمان ہے
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار تین
سو آٹھ
نومبر بیس، دو ہزار سولہ
ماٹی کے پتلے
تجھے کتنا گمان ہے
جیسے جیسے ستمبر کا مہینہ گزر رہا تھا بے جنگ میں سردی بڑھتی جارہی تھی۔ گو کہ
ہم بے جنگ سے شیاں جارہے تھے جہاں چین کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے مگر دل میں
اندیشہ تھا کہ شاید بے جنگ سے نکلنے کے بعد ہمیں مزیدار ویگر کھانے نہ ملیں گے۔
اسی لیے بے جنگ میں آخری دن ہم نے ایک ویگر ریستوراں میں ڈٹ کر کباب کھائے۔ کسی ویگر
ریستوراں کی خاص نشانی یہ ہوتی تھی کہ اس کے ماتھے پہ چاند ستارہ بنانا ہوتا تھا۔
چاند ستارہ اسلام کے ساتھ یوں جڑا ہوا ہے کہ گو کہ بقیہ دنیا شمسی کیلنڈر پہ چل
رہی ہے، سارے اسلامی تہواروں کا تعلق قمری کیلنڈر سے ہے۔
آپ چین میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ایک نہ ایک شخص ایسا ضرور مل جائے گا
جو کہ انگریزی سیکھ رہا ہوگا اور انگریزی کی اہمیت سمجھتے ہوئے آپ کے ساتھ
انگریزی کی مشق کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یہ مشق لامحالہ رٹے رٹائے سوالات سے شروع
ہوتی تھی۔ تمھارا نام کیا ہے؟ تمھاری عمر کیا ہے؟ تمھارے کتنے بہن بھائی ہیں؟
تمھارا تعلق کس ملک سے ہے؟ یہ آخری سوال
سب سے زیادہ معنی خیز ہوتا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب ملنے پہ کو آپ کو بہت غور
سے دیکھا جاتا تھا اور آپ کو عالمی خبروں کی زینت بننے والے واقعات کی روشنی میں سمجھنے
کی کوشش کی جاتی تھی۔ کہنے کو تو میں ایک
آدمی تھا مگر ان کے لیے میں پورا پاکستان تھا۔ میں پاکستان کا مکمل جغرافیہ تھا۔
وہاں کے دریا اور پہاڑ تھا۔ ان کے لیے میں پاکستان کے تمام شہر، قصبے، اور گائوں
تھا۔ میں پاکستان کے پورے بارہ کروڑ عوام تھا [اس وقت ملک کی اتنی ہی آبادی تھی]۔
میں پاکستان کی ہر اچھی اور بری خبر کا براہ راست ذمہ دار تھا۔ مجھے اتنا بوجھ
ساتھ لاد کر چلنا برا لگتا تھا۔ مگر میں مجبور تھا۔ مجھے اس بوجھ کو اتارنے کا
اختیار نہ تھا۔
بے جنگ سے صوبہ
شان شی کے شہر شیاں جاتے ہوئے ہمیں ٹرین میں سخت بستر مل گیا تھا۔ ہمارے ڈبے میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والا جان بھی تھا۔ وہ آسٹریلیا میں کافی
عرصہ رہا تھا۔ شیاں جاتے ہوئے ٹرین پہاڑی راستوں سے گزری مگر وہاں بھی ہر جگہ
آبادی نظر آئی۔ کوئی جگہ ایسی نہ ملی جو دور دور تک ویران ہو۔ جان کا کہنا تھا
کہ وہ چین میں مستقلا رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ ایسی جگہ رہنا چاہتا
تھا جہاں آبادی دور دور ہو اور بیچ میں خوب کھلی جگہ ہو۔
شیاں کے ریلوے اسٹیشن سے ہم نے وہ بس لی جس کے بارے میں ہمیں سفری کتاب میں
بتایا گیا تھا۔ بس قلعے کی دیوار سے باہر نکلی؛ پھر بہت دیر گھومنے پھرنے کے بعد
اس نے ہمیں ریل کی پٹری کے قریب چھوڑ دیا۔ ریل کی پٹری کے دوسری طرف ہمارا ہوٹل
تھا۔ ہوٹل کے سامنے ہی ’ڈیڈز ریستوراں‘ تھا۔ ڈیڈز کے برابر میں ’مامز ریستوراں‘
تھا۔ میاں بیوی کی تناتنی چل رہی تھی؛ اس لیے دونوں ریستوراں میں سخت مقابلہ تھا۔
آپ ایک ریستوراں کی طرف کھانا کھانے کے لیے بڑھیں تو دوسری طرف سے آپ کو آواز
دے کر اپنی طرف بلایا جاتا تھا۔ دونوں ریستوراں سے اٹھنے والی اس نیم انگریزی نیم چینی چیخ و پکار میں آپ کو
خود ہی یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ اس دفعہ شوہر کو خوش کرنا ہے یا بیوی کو۔
چین اس وقت تک پوری طرح سرمایہ داری نظام میں شامل نہیں ہوا تھا۔ اسی لیے جب
اس ہوٹل میں قیام کے دوسرے دن غسلخانے کی چوکھٹ گر گئی تو ہماری شکایت کو بہت
زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ غسلخانے کا دروازہ پہلے ہی موجود نہ تھا، اور اب
آنجہانی دروازے کی آخری نشانی، دروازے کی چوکھٹ، بھی جاچکی تھی مگر ہوٹل والوں
کا رویہ یہ تھا کہ اتنی کم رقم میں تو تمھیں یہی کچھ ملے گا۔ پٹ لو جو پٹنا ہے۔
شیاں کی جامع مسجد کے بعد شیاں کا دوسرا مقبول مقام دو صد قبل مسیح میں گزرنے
والے چینی بادشاہ چن شی ہوانگ کی فوج تھی۔ دراصل چن شی ہوانگ کو مٹی کے سپاہیوں کی
ایک پوری فوج کے ساتھ دفن کیا گیا تھا تاکہ بادشاہ کی موت کے بعد یہ سپاہی بادشاہ
کی حفاظت کا کام کریں۔ بادشاہ کی موت کے بعد کیڑوں نے بادشاہ کی لاش کو کھا لیا اور
حفاظت پہ معمور مٹی کے سپاہی کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ دو ہزار دو سو سال پرانے اس
تاریخی مقام میں دنیا والوں کی بہت زیادہ دلچسپی تھی اور چین کا رویہ واضح تھا:
دلچسپی ہے تو پیسے نکالو۔ مٹی کی فوج [ٹیرا کوٹا آرمی] دیکھنے کا ٹکٹ بہت مہنگا
تھا، اور ساتھ ہی اندر کیمرہ لے جانے کی ممانعت تھی۔ اگر آپ کو اندر جا کر مٹی کے
سپاہیوں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق ہے تو اضافی رقم دیجیے اور سرکاری
فوٹوگرافر کو یہ کام کرنے دیجیے۔ مٹی کی فوج دیکھنے کے لیے سیاح ہال میں ایک طرف
سے داخل ہوتے تھے اور پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے ایک مستطیل کے اطراف کا پورا چکر لگاتے
تھے۔ مٹی کے سپاہی قطار در قطار نیچے کھڑے نظر آتے تھے۔ ہمارے جیسے ڈھیٹ سیاح اس
سیاحتی مقام کے افسران کی بات نہیں مانے تھے اسی لیے اس نیم روشن ہال میں خراماں
خراماں چلنے والے سیاحوں کے جھنڈ سے کچھ کچھ دیر بعد کیمرے کی فلیش نظر آجاتی
تھی۔ مگر کچھ بھی کہیے مستعد کھڑے ان سپاہیوں کا نظارہ دلچسپ تھا۔ اس مشاہدے سے
خود اپنے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ پھر یہ خیال آیا کہ ہمیشہ سے
انسان موت سے اس قدر ڈرتا کیوں رہا ہے۔ وہ اپنی ادنی زندگی کی حقیقت کیوں نہیں
سمجھتا؟ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ طویل مدت پہ پھیلی اس کی موت اس کی زندگی کے دونوں
سروں پہ موجود ہے، پیدائش سے پہلے اور مرنے کے بعد۔
شیاں ایک گندہ شہر تھا۔ وہاں جگہ جگہ سڑک کے کنارے لگے کوڑے کے ڈھیر نظر آتے
تھے۔ اور اسی لیے چند دن بعد شیاں کو چھوڑنے پہ ہمیں کسی قسم کا ملال نہ تھا۔