Friday, May 07, 2021

 

سمندطور انتقال کرگئے

 
انتقال پرمسرت

ہم بنی نوع انسان، فرزندان و دختران زمین، مندوبین اللہ فی الارض، نہایت خوشی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا فتنہ، علی حسن سمندطور، جس کو واصل جہنم کرنے کی خواہش بہت سے ایمان والوں کے دلوں میں ایک عرصے سے کسمسا رہی تھی، بالاخر ایک حقیر کیڑے کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔
اس خوشی کے موقع پہ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک عرصے سے کچھ کچھ روز بعد ایسی افواہ اڑتی تھی کہ یہ منحوس اس دنیا سے کوچ کرچکا ہے اور ایسی عمدہ خبر سن کر لوگوں کو قلبی سکون حاصل ہوتا تھا مگر پھر فورا ہی اس ملعون کی کسی فیس بک پوسٹ سے اس خبر کی تردید ہوجاتی تھی، لوگوں کو سخت مایوسی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اور دلوں پہ چھریاں چل جاتی تھیں۔ مگر اب انتظار کی گھڑیاں واقعی ختم ہوئیں۔ یہ ابوجہل واقعی یہاں سے جا چکا ہے۔  جی ہاں، یہ ناہنجار چند گھنٹے پہلے غازی کورونا کے ہاتھوں مارا گیا۔
تفصیلات کے مطابق یہ ملعون ایک عرصے سے کورونا کی شان میں گستاخی کررہا تھا۔ شروع میں تو یہ شخص کورونا کا منکر رہا مگر جب وبا کی حقیقت اظہر من الشمس ہونے لگی تو یہ ایمان لے آیا مگر شرک کے ساتھ؛ دوسرے نزلہ زکام کو کورونا کے ساتھ شامل کرتا رہا۔ یہ کورونا رحمتہ علیہ کی بڑائی تھی کہ وہ اس گستاخ کی اوچھی حرکتوں کو نظر انداز کرتے رہے اور سر جھکائے اخبار پڑھنے میں مصروف رہے۔ مگر برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو حضرت کورونا سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے اخبار ایک طرف رکھا، پان کی پیک کیاری میں تھوکی، نپے تلے قدموں سے چلتے ہوئے اس بدبخت تک پہنچے، اس بدخصلت کو پکڑ کر فضا میں بلند کیا اور اسے پیچھے سے کاٹ لیا۔
اس ابوجہل نے اپنے تئیں اپنے اور کورونا کے درمیان ہلدی، کلونجی، اور پھٹکری کی ایک دیوار کھڑی کردی تھی اور اس کا خیال تھا کہ یہ دیوار اس کی حفاظت کرے گی مگر یہ دیوار اعلی حضرت کورونا کے سامنے کیا بیچتی تھی؛ غازی زمانہ کورونا، پھٹکری کی اس دیوار کو پھاڑ کر اس ناہنجار تک پہنچ گئے۔
فی الحال اتنی لعن طعن کافی ہے۔ کچھ دیر کے لیے اس نووارد نار جہنم کو مرحوم کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مرحوم موت کے بارے میں عجیب و غریب خیالات رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جسم کے صرف کسی ایک عضو کی خرابی سے نہیں مرنا چاہتا کہ ڈاکٹر کہیں کہ 'ان کی موت صرف گردوں کی خرابی کی وجہ سے ہوئی، ورنہ بقیہ جسم تو بالکل صحت مند ہے؛ اگر گردے خراب نہ ہوتے تو یہ چند سال اور نکال جاتے'۔  مرحوم دعا کرتے تھے کہ 'اے رب، تو جتنی چاہے عمر دے مگر زندگی کچھ ایسی دے کہ زندگی کے آخری دن تک چلتا پھرتا رہوں اور پھر موت سے چوبیس گھنٹے پہلے پورا جسم ناکارہ ہونا شروع ہوجائے۔ سر کے بال جھڑ جائیں، سماعت جواب دے جائے، اندھا ہوجائوں، مسوڑھے ہڈیوں سے جا لگیں،  سارے دانت جھڑ جائیں اور منہ دادی اماں کے بٹوے جیسا ہوجائے، سارے جسم پہ پھنسیاں پھوڑے نکل آئیں، گردوں میں بڑے بڑے پتھر پڑ جائیں، ہڈیاں بھر بھری ہوجائیں اور چٹاخ چٹاخ کر کے پائوں کی چھنگلیوں سے سر تک ساری ٹوٹ جائیں، خون میں گٹھلیاں پڑجائیں، شریانیں فاسد مواد سے بھر کر یوں جام ہو جائیں جیسے کراچی کی گٹر لائنیں، پورے جسم میں سرطان پھیل جائے، اور پھر دل کا جان لیوا دورہ پڑے؛ نہ صرف بول و براز خطا ہو بلکہ کان پھاڑ دینے والی ریاح خارج ہونے کی آواز کے ساتھ روح صرف قفس عنصری سے نجات ہی حاصل نہ کرے بلکہ راکٹ کی مانند خلا کی جانب روانہ ہوجائے۔
جب لوگوں نے سمجھایا کہ ایسی مثالی موت تو صرف سعودی بادشاہوں کو نصیب ہوتی ہے تو مرحوم اپنی آنے والی موت سے مالی فائدہ اٹھانے کی ترکیب سوچنے لگے۔ اب ان کی دعا تھی کہ انہیں کوئی ایسی موذی بیماری لگے کہ ڈاکٹر مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے انہیں ایک حتمی تاریخ بتا دیں کہ فریج میں رکھی کھانے پینے کی تمام چیزیں اس تاریخ سے پہلے ختم کرلیجیے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ موت کا دن قریب آنے پہ وہ پس مانندگان کی اعانت کے لیے ایک تگڑی بیمہ پالیسی خریدیں گے اور پھر دھڑا دھڑ پی آئی اے سے سفر کرنے لگیں گے۔ پی آئی اے سے سفر اس لیے کیونکہ کچھ کچھ عرصے بعد پی آئی اے کا ایک نہ ایک جہاز تو گرتا ہی ہے؛ خاص طور پہ جب لاہور میں دھند چھائی ہو، یا ماہ صیام میں، جب پی آئی اے ایک جہاز کا صدقہ کرنا لازم خیال کرتی ہے۔
"پی آئی اے کی پرواز سات سو چھیاسی میں خوش آمدید۔
جہاز لاہور روانگی کے لیے تیار ہے۔ مسافروں سے درخواست ہے کہ کرسی کی پشت سیدھی کرلیں، کھانے کی میز الٹی کرلیں، اور اپنے اپنے کفن باندھ لیں۔"

مرحوم کو ہمیشہ ایک ایسے ظالم، سنگ دل، خود غرض، مفت خور، اور ذلیل شخص کے طور پہ جانا جائے گا جو کبھی کسی کے کام نہ آیا۔
مرحوم کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ مرحوم انتہا کےفسادی تھے۔ جس خانوادے سے انہوں نے پینگیں بڑھائیں وہاں جھگڑے شروع ہوگئے۔ مرحوم سگے بھائی بہنوں کو ایک دوسرے کا خون کا پیاسا کردیتے تھے۔
مرحوم کے دوست ان کی تشبیہ زہریلی مکھی سے کیا کرتے تھے۔  ایک ایسی مکھی جو جس پھول پہ بیٹھی وہ نہ صرف یہ کہ ذرا سی دیر میں مرجھا گیا بلکہ ایسا مرجھایا کہ جس جگہ وہ پودا لگا تھا وہ زمین ہمیشہ کے لیے بنجر ہوگئی۔ مرحوم ہمہ وقت اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے تھے۔
مرحوم بلا کے کنجوس تھَے۔  جب کورونا کے ٹیکے بازار میں دستیاب ہوئے تو مرحوم کی پوری کوشش تھی کہ انہیں یہ ٹیکہ مفت  میں لگ جائے۔ بھلا ہو ان افواہوں کا جن کے مطابق کورونا کا ٹیکہ لگانے کے بعد لوگوں کی جنس بدل جاتی ہے۔ مرد، عورت بن جاتا ہے اور عورت، مرد۔ مرحوم یہ افواہ سن کر ڈر گئے اور کہتے پائے گئے کہ عورتوں کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے میں مرد ہی بھلا، میں ٹیکہ نہیں لگوائوں گا۔ اسی افواہ پہ کان دھر کر محلے کے مولوی صاحب نے ایک فتوی داغ دیا کہ اگر ایک شادی شدہ جوڑے میں سے صرف ایک فریق ٹیکہ لگائے تو نکاح فسخ ہوجائے گا کیونکہ عورت کی عورت سے یا مرد سے مرد کی شادی نہیں ہوسکتی۔ ہاں، اگر دونوں فریقین ٹیکہ لگوائیں گے تو نکاح برقرار رہے گا کیونکہ دونوں فریقین میں جنس کی تبدیلی کے بعد شوہر بیوی بن جائے گا اور بیوی شوہر۔
بتایا جاتا ہے کہ کورونا کے کاٹنے کے بعد مرحوم نے کئی دفعہ اپنے جنازے کی مشق کروائی۔ مرحوم محلے کے لڑکوں کو معمولی معاوضہ دے کر مشقی جنازہ نکالنے پہ راضی کرلیتے؛ خود ایک چارپائی پہ سفید چادر لپیٹ کر لیٹ جاتے، لڑکے اس چارپائی کو اٹھا لیتے اور 'جنازے' کو سڑک پہ لے کر چلتے۔ ہر ایسی مشق کے دوران چند سادہ لوگ بے وقوف بن جاتے اور چارپائی کو اصل جنازہ سمجھ کر ساتھ چلنے لگتے مگر جب مرحوم کہنی کے زور پہ اٹھ کر اوپر سے آوازیں لگاتے کہ، 'تمیز کا مظاہرہ کریں، آگے سے پیچھے جائیں' تو ساتھ آنے والے لوگ گالیاں دے کر الگ ہوجاتے۔
کورونا کے کاٹنے کے بعد جب مرحوم کو بخار چڑھا تو مرحوم وینٹیلیٹر کی تلاش میں نکلے۔ وینٹیلیٹر حاصل کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ بیماروں کا رش بڑھ چکا تھا اور اسپتالوں سےاعلان ہورہا تھا کہ ،'کورونا کے مریض اپنے ساتھ اپنا وینٹیلیٹر لانا نہ بھولیں'۔ لاک ڈائون کی وجہ سے دکانیں بند تھیں اس لیے مرحوم نے انٹرنیٹ پہ وینٹیلیٹر  کی تلاش شروع کی۔ مگر یہاں بھی کنجوسی مرحوم کو لے ڈوبی۔ جب مرحوم کو وینٹیلیٹر کی قیمت گراں معلوم دی تو مرحوم نے وینٹیلیٹر خریدنے کا خیال دل سے نکال دیا اور دو سو روپے  میں سائیکل میں ہوا بھرنے والا ایک پرانا پمپ خرید لیا۔
جب مرحوم سائیکل کا پمپ کندھے پہ ڈالے اسپتال پہنچے تو اسپتال کا عملہ انہیں دیکھ کر ٹھٹکا ۔ ڈاکٹروں نے علاج کے پیسے پیشگی مانگے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ اگر مرحوم  صحتیاب ہوگئے تو وہ اسپتال سے راتوں رات رقم دیے بغیر فرار ہوجائیں گے۔ بیماری کے باوجود مرحوم نے مول تول شروع کی۔ کہنے لگے کہ 'اگر آپ لوگوں نے میری جان بچا لی تو منہ مانگا انعام دوں گا، ورنہ ایک پائی نہیں ملے گی۔ میرے اعضا بیچ کر جتنی رقم بنا سکتے ہیں بنا لیجیے گا۔'  یہ سن کر ڈاکٹروں نے مرحوم کو اس نظر سے دیکھا جس نظر سے موٹر میکینک کسی کھٹارا گاڑی کو اس کے کارآمد پرزوں کی تلاش میں دیکھتے ہیں۔
پہلے تو ڈاکٹروں نے سائیکل کے پمپ کو وینٹیلیٹر کے طور پہ استعمال کرنے سے انکار کیا مگر پھر مرحوم کی موت قریب دیکھتے ہوئے یہ کار لاحاصل انجام دینے پہ تیار ہوگئے۔
ڈیوٹی پہ موجود ڈاکٹر نے نرس کو آنکھ مار کر سائیکل کا پمپ چلانے کا اشارہ کیا۔ نرس نے یہ ہوشیاری  دکھائی کہ زنگ آلود سائیکل پمپ سے نکلنے والا کالا پائپ مرحوم کے ایک نتھنے میں ڈالا مگر دوسرے نتھنے کو روئی سے بند نہیں کیا۔ یوں جب نرس نے پمپ سے ہوا بھرنا شروع کی تو ہوا ایک نتھنے سے اندر جاتی اور دوسرے نتھنے سے باہر آجاتی۔ مرحوم کو سانس لینے میں دقت بڑھی تو وہ چلائے، 'سسٹر، پمپ تیز چلائیں، ہوا نہیں پہنچ رہی، شک ہو تو کانٹے سے چیک کر لیں۔'
یہ سلسلہ کچھ ہی دیر چلا اور پھر مرحوم سانس گھٹنے سے مرگئے۔ مرحوم کے مرتے ہی 'مبارک، سلامت' کا شور اٹھا۔ فوری طور پہ اسپتال میں مٹھائی بانٹنے کا فیصلہ کیا گیا  اور لوگ کورونا بھلا کر دیر تک ایک دوسرے سے گلے ملتے رہے۔



This page is powered by Blogger. Isn't yours?