Sunday, October 17, 2010

 

لہو اور تلوار کے نغمات





وہ ایک لڑکی جو جوان ہے، اچھا ذہن رکھتی ہے، خوب صورت ہے، اور تحریر و تقریر میں بلا کی مہارت رکھتی ہے۔ اور اپنی ہم عمر دوسری اٹھاءیس سالہ لڑکیوں کے مقابلے میں اسے ایک اور برتری حاصل ہے۔ اس لڑکی کے نام کے آخر میں بھٹو آتا ہے۔ فاطمہ بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی ہے اور حال میں شاءع ہونے والی اپنی تیسری کتاب لہو اور تلوار کے نغمات (سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ) کی ترویج کے لیے امریکہ کا دورہ کر رہی ہے۔ میں فاطمہ بھٹو کو سننے کے لیے اسٹینفرڈ پہنچا تو یہ سوچتا ہوا ہال کی طرف چلا کہ وہاں گھسنے کے لیے ایک طویل قطار لگی ہوگی۔ مگر ایسا نہ تھا۔ اور مجمع کم ہونے کی وجہ جامعہ اسٹینفرڈ کے اعلانات تھے جو اس تقریر کی تشہیر میں کیے گءے تھے۔ اعلان کیا گیا تھا کہ تقریب میں صرف اسٹینفرڈ کے طلبا اور ممبران اسٹاف کا داخلہ ممکن ہوگا۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی تقریر میں بھٹو خاندان کے حوالے سے پاکستان کی مختصر تاریخ بیان کی۔ ان کی باتوں سے واضح تھا کہ وہ سیاست میں خاندانی سلسلوں کی سیاست سے خوش نہیں ہیں۔
لہو اور تلوار کے نغمات ایک ضخیم کتاب ہے جس میں فاطمہ بھٹو نے بہت سی ایسی شخصیات کا انٹرویو کیا ہے جن کا واسطہ فاطمہ بھٹو کے دادا یا باپ سے پڑا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ فاطمہ کو اپنے بھٹو نام کی وجہ سے ان لوگوں تک رساءی حاصل کرنا آسان رہا ورنہ اٹھاءیس سالہ بہت سے صحافی بڑے لوگوں کا انٹرویو کر نے کے لیے جوتیاں چٹخانے پھرتے ہیں۔
بہت سے پاکستانیوں کو اس بات پہ بہت فخر ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو یعنی ایک عورت کو اپنا وزیر اعظم منتخب کیا تھا جب کہ امریکہ میں کبھی کوءی عورت صدر نہ بن پاءی۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کو لوگوں نے اس لیے نہیں ووٹ دیا کہ وہ اپنے طور پہ ایک پڑھی لکھی سمجھ دار عورت تھی بلکہ لوگوں نے بے نظیر کو اس لیے منتخب کیا کیونکہ اس کا باپ ایک مشہور آدمی تھا۔ مشرق میں عورتوں کو معاشرے میں ان کا جاءز مقام دینے کے سلسلے میں بے نظیر کے وزیر اعظم بناءے جانے کی مثال اتنی ہی غیر اہم ہے جتنی اندرا گاندھی کے وزیر اعظم ہونے کی مثال۔ اور یہ سلسلہ دنیا میں بہت دور تک نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اپنے باپ کی وجہ سے اور خالدہ ضیا اپنے شوہر کی وجہ سے کرسی اقتدار تک پہنچ پاءیں۔ سری مابو بندرا نائکے اپنے شوہر کی وجہ سے سری لنکا کی وزیر اعظم بنیں۔ فلپائن میں گلوریا مکاپگل ارویو اپنے باپ کی وجہ سے ایوان صدر تک پہنچیں۔ پاکستانی یا دیگر مشرقی معاشروں کے انصاف کے تو ہم جب قاءل ہوں گے جب ہمیں میگی تھیچر یا اینجلا مرکل جیسی خواتین آگے آگے نظر آءیں گی جو کسی مرد کے نام کے سہارے کے بغیر اپنے بل بوتے پہ آگے پہنچی ہوں اور معاشرے نے انہیں وسعت ذہن کے ساتھ اپنے بل بوتے پہ آگے آنے کی سہولت دی ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کے ساتھ سلوک کی بہتر مثال بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ ماءی مختاراں ہے۔ وہ پاکستانی عورت جس کی پشت پناہی طاقت ور مرد نہ کررہا ہو، بازار میں ننگی دوڑاءی جاتی ہے اور اس کے ساتھ شرم ناک سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ ہے عورت کی وہ حقیقت جس پہ ہمارا سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے اور دل میں نامنظور، نامنظور کی ایک ہوک اٹھتی ہے۔


فاطمہ بھٹو کی اسٹینفرڈ میں تقریر پہ انگریزی میں ایک خبر یہاں موجود ہے:



http://pakistanlink.org/Community/2010/Oct10/15/03.HTM

Labels: ,


 

صاف رنگ کے لوگ، آپ کے چندے کے صحیح حقدار




آج کل یوایس اردو نیوز کے لیے ہفتہ واری کالم لکھ رہا ہوں۔ یہ کالم دو ہفتے قبل لکھا گیا تھا۔

پچھلے ہفتے کے کالم میں فلاحی کام کرنے والوں کی ستاءش کے معاملے میں دنیا والوں کی نسل پرستی کا حال بیان کیا تھا؛ اس دفعہ امریکی فلاحی میدان کے ایک اور گھناءونے رخ کو کھول کر بیان کرنا چاہوں گا۔
ذرا غور کیجیے تو آپ کو نظر آءے گا کہ فلاح میں ان غریبوں کی مدد کو ترجیح دی جاتی ہے جو مغربی دنیا کے راءج خوب صورتی کے معیار کے مطابق قبول صورت ہوں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ میں چندہ جمع کرتے وقت کالے غریب لوگوں کے مقابلے میں گورے غریب لوگ آپ کی ہمدردی کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ غریبوں، محتاجوں کے لیے عطیات جمع کرتے ہوءے قبول صورت غریب لوگوں کی تصاویر دکھاءی جاتی ہیں۔ دنیا والوں کو ایسے غریب بچوں پہ ترس آتا ہے جن کے گال سرخ و سفید ہوں۔ کالے کلوٹے بچوں سے بھلا کون ہمدردی کرے گا؟ حالیہ پاکستانی سیلاب میں سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوءی ہے مگر تصویروں میں شمالی علاقے کے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جیسے گرم ملک میں "قبول صورت" لوگ تو صرف ٹھنڈے علاقوں میں مل سکتے ہیں۔
چنانچہ سینٹرل ایشیا انسٹی ٹیوٹ کی دکان بھی اسی لیے چمکتی ہے کیونکہ وہ ایسے علاقوں میں کام کر رہی ہے جہاں کے غریب لوگوں کی شکلیں مغربی دنیا کے لیے قابل قبول ہیں۔ گندے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایسے گورے بچے جنہیں دیکھ کر لوگ کہیں، "ہاءو کیوٹ" اور پھر فورا ایک بڑا چیک کاٹ کر چندہ جمع کرنے والے فلاحی ادارے کو تھما دیں۔
دوسرے امریکی فلاح میں ایسی نسل پرستی کو قبول کریں تو کریں ہم دیسی امریکیوں کو اس جال میں پھنسنے سے انکار کردینا چاہیے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ غربت اور افلاس کا اصل چہرہ بہت گھناءونا ہے۔ غربت اور افلاس کے چہرے پہ امارت اور فارغ البالی کی چمک اور سرخی تلاش کرنا بے وقوفی ہے۔ ہر غریب اور مفلس ہماری ہمدردی کا یکساں مستحق ہے چاہے اس کی کھال کا رنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ کسی بھی نسل سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ اور غریبوں سے ہمدردی میں ہمیں اپنے اوپر کسی قسم کا فخر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ یہ بس محض ایک اتفاق ہے کہ ہم غربت کے چنگل سے باہر ہیں۔ ورنہ کسی قسم کی بھی امارت، کسی بھی قسم کی سفید پوشی سے افلاس تک کا فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ ابھی ذرا حالات پلٹیں اور ہم بے دست و پا ہوجاءیں، دوسروں کے محتاج ہو جاءیں۔ اور اپنی اس کمزور حالت میں ہم یہ نہ چاہیں گے کہ دوسرے ہماری شکل دیکھ کر یا ہماری کھال کا رنگ دیکھ کر ہمارا ہاتھ تھامنے یا نہ تھامنے کا فیصلہ کریں۔
میں گریگ مورٹینسن کی حالیہ تقریب میں بیٹھا یکے بعد دیگرے اسکرین پہ "قبول صورت" غریب بچوں کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ اور بچوں کے ساتھ ہی ایک ایسے چھوٹے بچے کو بھی دکھا گیا جس کے متعلق بتایا گیا کہ وہ افغانستان میں ایک موٹر میکینک کی دکان پہ کام کرتا ہے۔ ایک نظر میں وہ بچہ کالا نظر آتا تھا مگر تھوڑا سا غور کریں تو معاملہ واضح ہوتا تھا کہ دراصل میکینک کی دکان پہ کام کرنے کی وجہ سے اس گورے سے بچے کے منہ پہ کالک لگی ہوءی ہے۔ پاکستان کے بہت سے موٹر میکینکوں کے پاس بہت سے دس گیارہ سالہ لڑکے کام کرتے ہوں گے مگر رحم کے قابل ایک گوری رنگت کا لڑکا ہی سمجھا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ اس معصوم گورے لڑکے کو دیکھیے، اس کے منہ پہ لگی کالک آپ کے گراں قدر عطیے کی طلبگار ہے؛ خواتین و حضرات، آپ کے چندے کا ہلکا سا چھینٹا اس لڑکے کے منہ پہ پڑے گا تو کالک اتر جاءے گی اور بالکل آپ کا جیسا صاف ستھرا، دھلا دھلایا، گورا لڑکا سامنے نکل کر آجاءے گا۔
فلاح میں نسل پرستی کا یہ پوشیدہ پیغام ہمیں بالکل قبول نہیں۔



تصویر بشکریہ
http://www.worldvisionreport.org


-------------------

Labels: , ,


Saturday, October 02, 2010

 

پاکستانی حقاءق، امریکی تصورات







پاکستان میں ایک عام شخص سے پوچھیے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ آپ کو جواب ملے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ خراب حکومت ہے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو عین ممکن ہے کہ جواب آءے کہ شدت پسندی اور مذہبی جنون پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے ہیں۔ پاکستانیوں سے پوچھیے کہ پچھلے دس سالوں میں کس فلاحی ادارے نے انہیں سب سے زیادہ اسکول بنا کر دیے ہیں، لوگ بلاشبہ کہیں گے کہ ٹی سی ایف نے شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں کاوش کے میدان میں امریکی عوام سینٹرل ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ کسی ادارے کو نہیں جانتے۔ پاکستانیوں سے پوچھیے کہ کس شخص کا احسان ان پہ سب سے زیادہ ہے کہ جس نے اپنی زندگی ان کی فلاح کے لیے وقف کر دی ہے، اور پاکستانی چاہیں گے کہ اس شخص کو اس کی بے لوث خدمت کے صلے میں امن کا نوبیل انعام دیا جاءے۔ اس سوال کے جواب میں پاکستان کے بیشتر لوگ عبدالستار ایدھی کی طرف اشارہ کریں گے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے تو لوگ آپ کو بتاءیں گے کہ پاکستان میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے گریک مورٹینسن صحیح معنوں میں نوبیل انعام کے حق دار ہیں۔ یہ ہیں پاکستانی حقاءق اور یہ ہیں امریکی تصورات۔ اور ان خام امریکی تصورات کے پیچھے ہاتھ ہے طاقتور امریکی میڈیا کا۔ اس کے پیچھے طاقت تیس کروڑ تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔ یہ امریکی میڈیا ہے جو دنیا کو بتاتا ہے کہ اس وقت سب سے اہم خبر کیا ہے اور کونسا موضوع دنیا بھر کے لوگوں کی اولین ترجیح کا حق دار ہے۔ پھر دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے ممالک کے خبررساں ادارے اس خبر کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
یہ ساری باتیں میں سنیچر کی رات ایک ایسی تقریب میں بیٹھا سوچ رہا تھا جس میں ایک ہزار سے اوپر لوگ شریک تھے۔ یہ لوگ گریگ مورٹینسن کو سننے اور ان کے فلاحی ادارے سینٹرل ایشیا انسٹیٹیوٹ کو چندہ دینے آءے تھے۔ حاضرین پہ ایک نظر دوڑا کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان میں اکثریت یورپی نژاد امریکییوں، جنہیں عوام زبان میں سفید فام کہا جاتا ہے، کی تھی۔ یہ غالبا وہ امریکی تھے جو عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ سے تنگ ہیں اور امن کا کوءی بہتر راستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی بے چین ذہنی حالت میں امریکی میڈیا انہیں ان امریکیوں کے بارے میں بتاتا ہے جو امن کے میدان میں ان ہی علاقوں میں کام کر رہے ہیں جہاں امریکی فوج بم برسا کر لوگوں کو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ امریکی عوام کے لیے ان کے یہ پرامن ہم رنگ و نسل بھاءی و بہن نہایت قابل قبول ہیں۔ اول تو امریکی میڈیا نے صحیح معنوں میں عبدالستار ایدھی کو دریافت ہی نہیں کیا ہے، لیکن فرض کریں کہ اگر امریکی ذراءع ابلاغ نے ایدھی کو پہچان کر انہیں امریکی عوام کے سامنے پیش بھی کیا ہوتا تو خود فیصلہ کیجیے کہ امریکی عوام کے لیے یہ بوڑھا آدمی کتنا قابل قبول ہوتا۔ یہ شخص تو یورپی نژاد امریکیوں کا ہم رنگ و نسل نہیں ہے۔ یہ تو اچھی انگریزی بھی نہیں بولتا۔ اس کے جھریوں والے چہرے پہ تو ایک داڑھی بھی ہے۔ اس کی شکل تو طالبان سے ملتی ہے، پھر یہ بھلا کوءی اچھا کام کیسے کر سکتا ہے؟

گریگ مورٹینسن یقینا ایک بہت عمدہ انسان ہیں اور شمالی علاقہ جات میں مبینہ اسکول بنا کر انہوں نے بہت سے بچوں پہ بڑا احسان کیا ہے مگر پاکستانیوں کو اپنے محسنوں کی ستاءش میں اس نسل پرستی سے کام نہیں لینا چاہیے جو امریکی میڈیا کا خاصہ ہے۔ سو روپے کے کام کے لیے پانچ پیسے کی ستاءش اور پانچ پیسے کے کام کے لیے سو روپے کی ستاءش دیانت ہرگز نہیں ہے۔ لوگوں کے کام کی ستاءش ان کی خدمات کے تناسب سے ہونی چاہیے نہ کہ ان کی کھال کے رنگ کی مناسبت سے۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?