Saturday, October 02, 2010
پاکستانی حقاءق، امریکی تصورات
پاکستان میں ایک عام شخص سے پوچھیے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ آپ کو جواب ملے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ خراب حکومت ہے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو عین ممکن ہے کہ جواب آءے کہ شدت پسندی اور مذہبی جنون پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے ہیں۔ پاکستانیوں سے پوچھیے کہ پچھلے دس سالوں میں کس فلاحی ادارے نے انہیں سب سے زیادہ اسکول بنا کر دیے ہیں، لوگ بلاشبہ کہیں گے کہ ٹی سی ایف نے شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں کاوش کے میدان میں امریکی عوام سینٹرل ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ کسی ادارے کو نہیں جانتے۔ پاکستانیوں سے پوچھیے کہ کس شخص کا احسان ان پہ سب سے زیادہ ہے کہ جس نے اپنی زندگی ان کی فلاح کے لیے وقف کر دی ہے، اور پاکستانی چاہیں گے کہ اس شخص کو اس کی بے لوث خدمت کے صلے میں امن کا نوبیل انعام دیا جاءے۔ اس سوال کے جواب میں پاکستان کے بیشتر لوگ عبدالستار ایدھی کی طرف اشارہ کریں گے۔ یہی سوال امریکہ میں پوچھیے تو لوگ آپ کو بتاءیں گے کہ پاکستان میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے گریک مورٹینسن صحیح معنوں میں نوبیل انعام کے حق دار ہیں۔ یہ ہیں پاکستانی حقاءق اور یہ ہیں امریکی تصورات۔ اور ان خام امریکی تصورات کے پیچھے ہاتھ ہے طاقتور امریکی میڈیا کا۔ اس کے پیچھے طاقت تیس کروڑ تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔ یہ امریکی میڈیا ہے جو دنیا کو بتاتا ہے کہ اس وقت سب سے اہم خبر کیا ہے اور کونسا موضوع دنیا بھر کے لوگوں کی اولین ترجیح کا حق دار ہے۔ پھر دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے ممالک کے خبررساں ادارے اس خبر کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
یہ ساری باتیں میں سنیچر کی رات ایک ایسی تقریب میں بیٹھا سوچ رہا تھا جس میں ایک ہزار سے اوپر لوگ شریک تھے۔ یہ لوگ گریگ مورٹینسن کو سننے اور ان کے فلاحی ادارے سینٹرل ایشیا انسٹیٹیوٹ کو چندہ دینے آءے تھے۔ حاضرین پہ ایک نظر دوڑا کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان میں اکثریت یورپی نژاد امریکییوں، جنہیں عوام زبان میں سفید فام کہا جاتا ہے، کی تھی۔ یہ غالبا وہ امریکی تھے جو عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ سے تنگ ہیں اور امن کا کوءی بہتر راستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی بے چین ذہنی حالت میں امریکی میڈیا انہیں ان امریکیوں کے بارے میں بتاتا ہے جو امن کے میدان میں ان ہی علاقوں میں کام کر رہے ہیں جہاں امریکی فوج بم برسا کر لوگوں کو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ امریکی عوام کے لیے ان کے یہ پرامن ہم رنگ و نسل بھاءی و بہن نہایت قابل قبول ہیں۔ اول تو امریکی میڈیا نے صحیح معنوں میں عبدالستار ایدھی کو دریافت ہی نہیں کیا ہے، لیکن فرض کریں کہ اگر امریکی ذراءع ابلاغ نے ایدھی کو پہچان کر انہیں امریکی عوام کے سامنے پیش بھی کیا ہوتا تو خود فیصلہ کیجیے کہ امریکی عوام کے لیے یہ بوڑھا آدمی کتنا قابل قبول ہوتا۔ یہ شخص تو یورپی نژاد امریکیوں کا ہم رنگ و نسل نہیں ہے۔ یہ تو اچھی انگریزی بھی نہیں بولتا۔ اس کے جھریوں والے چہرے پہ تو ایک داڑھی بھی ہے۔ اس کی شکل تو طالبان سے ملتی ہے، پھر یہ بھلا کوءی اچھا کام کیسے کر سکتا ہے؟
گریگ مورٹینسن یقینا ایک بہت عمدہ انسان ہیں اور شمالی علاقہ جات میں مبینہ اسکول بنا کر انہوں نے بہت سے بچوں پہ بڑا احسان کیا ہے مگر پاکستانیوں کو اپنے محسنوں کی ستاءش میں اس نسل پرستی سے کام نہیں لینا چاہیے جو امریکی میڈیا کا خاصہ ہے۔ سو روپے کے کام کے لیے پانچ پیسے کی ستاءش اور پانچ پیسے کے کام کے لیے سو روپے کی ستاءش دیانت ہرگز نہیں ہے۔ لوگوں کے کام کی ستاءش ان کی خدمات کے تناسب سے ہونی چاہیے نہ کہ ان کی کھال کے رنگ کی مناسبت سے۔
Labels: گرگ مورتینسن، گریگ مورٹینسن، گرگ مارتنسن، تھری کپس آف ٹی، چاءے کی تین پیالیاں، اسٹونز انٹو اسکولز