Tuesday, April 29, 2014

 

حامد میر اور آءی ایس آءی در آءی ایس آءی


اپریل ستاءیس،  دو ہزار چودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھیاسی

حامد میر اور آءی ایس آءی در آءی ایس آءی

دگرگوں معیشت، بڑھتی ہوءی بے روزگاری، ناکام ریاست، غیرقانونی اسلحے کی فراوانی۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں کراءے کے قاتل باآسانی دستیاب ہیں اور ہر کراءے کا قاتل کءی قتل کرنے کے باوجود آزادی سے دندناتا پھرتا ہے اور تازہ کاروبار کی تلاش میں رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں آج کل کراءے کے قاتل ستر ہزار روپے پہ دستیاب ہیں۔ یہ آپ سے رقم لے کر آپ کے بتاءے ہوءے شخص کو قتل کردیں گے۔ اگر کسی شخص کو آپ سے عناد ہے تو وہ کراءے کے قاتل کو ستر ہزار روپے دے اور آپ کا نام و پتہ لکھا دے۔ کراءے کا قاتل بتاءے ہوءے پتے پہ پہنچے گا، نام کی تصدیق کرے گا، آپ کی حرکات و سکنات کا جاءزہ لے گا، اور پھر ایک دن تیاری سے آکر آپ کو گولی مار دے گا۔ اسے اس بات سے کوءی سروکار نہیں کہ آپ کون ہیں، کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کراءے کے قاتل کو قتل کی رقم دی گءی ہے [شاید کچھ پیشگی اور بقیہ کامیابی سے قتل کی واردات مکمل کرنے پہ]؛ بس اتنا کافی ہے۔ حامد میر پہ قاتلانہ حملے کے متعلق میری راءے ہے کہ یہ واردات کرنے والا شخص کراءے کا قاتل تھا اور بہت زیادہ تجربہ کار نہ تھا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کراءے کے قاتل عموما بہت سادہ نوعیت کی وارداتیں کرتے ہیں۔ مثلا انہیں ایک شیعہ ڈاکٹر یا پروفیسر کو مارنے کی رقم دی جاءے تو وہ متعلقہ شخص کے متعلق اتنی تحقیق کریں گے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کس راستے سے آتا جاتا ہے۔ پھر اس راستے میں اس شخص کو مارنا جہاں سب سے زیادہ آسان ہو، کراءے کے قاتل وہاں قتل کی واردات مکمل کرتے ہیں۔ حامد میر پہ کراچی میں ہونے والا قاتلانہ حملہ کسی قدر پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہاں کافی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے یہ معلوم کرنا تھا کہ حامد میر کس پرواز سے کراچی پہنچ رہے ہیں۔ پھر کراچی پہنچنے پہ ہواءی اڈے پہ حامد میر کی شناخت کرنی تھی اور ان کا پیچھا کر کے معلوم کرنا تھا کہ وہ کس گاڑی سے ہواءی اڈے سے روانہ ہورہے ہیں۔ پھر شاید احتیاطا حامد میر والی گاڑی کا پیچھا بھی کیا گیا ہو تاکہ گاڑی ادھر ادھر نہ ہوجاءے [مثلا کسی وجہ سے ڈراءیور کا یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ہواءی اڈے سے نکل کر فورا سیدھے ہاتھ پہ مڑجایا جاءے اور پھر اسٹار گیٹ سے شاہراہ فیصل پہ آیا جاءے]۔ اور اس درمیان مستقل ان دو لوگوں سے فون پہ رابطہ رکھنا تھا جو شاہراہ فیصل پہ حامد میر کے انتظار میں کھڑَے تھے۔ اتنی زبردست منصوبہ بندی اور اتنے انتظامات کے اخراجات کراءے کے قتل کی عام واردات کے نرخ سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور اس ساری منصوبہ بندی میں سب سے پیچیدہ معاملہ یہ معلوم کرنا تھا کہ حامد میر کس پرواز سے کراچی پہنچ رہے ہیں۔ یہ خبر وہی شخص یا گروہ حاصل کرسکتا تھا جو یہ تو اندر کا شخص ہو یا جس کے پاس اس قدر وساءل ہوں کہ جہاز سے سفر کرنے والے تمام مسافروں کے ناموں پہ نظر رکھ سکے۔
یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے جراءم پیشہ افراد وارداتیں کرتے ہیں، اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان افراد کو پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ حامد میر کے واقعے میں کراءے کے قاتل کے مستقل فون پہ باتیں کرنے کے بارے میں غور کیجیے۔ وہ حملہ آور یقینا کسی ایسے شخص سے فون پہ بات کررہا تھا جو پل پل کی رپورٹ اسے دے رہا تھا کہ حامد میر کی گاڑی اس وقت کہاں ہے۔ حملہ آور جس شخص سے بات کررہا تھا، ممکن ہے وہ شخص گاڑی یا موٹرساءیکل پہ حامد میر کی گاڑی کا پیچھا کررہا ہو اور حملہ آور کو صرف یہ دیکھنا پڑا ہو کہ اس کے ساتھی کی گاڑی یا موٹرساءیکل سے آگے کونسی گاڑی تھی جس کا رنگ اور ماڈل نمبر وغیرہ حملہ آور کا ساتھی اس کو فراہم کرچکا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ موباءل فون سے کی جانے والی ہر کال جب قریب ترین ٹاور پہ جاتی ہے، اور وہاں سے آگے بڑھتی ہے تو ٹاور کی معلومات اس کال سے منسلک ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کسی ایک جگہ سے کسی خاص وقت ملاءی جانے والی کال کے اصل فون تک پہنچنا بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور اسی طرح ہواءی اڈے پہ لگے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے ان افراد کا تعین کرنا بھی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے جو حامد میر کو ان کی کراچی آمد پہ نظر میں رکھے ہوءے تھے اور شاید ان کا پیچھا کرتے ہوءے اس گاڑی تک آءے جس گاڑی میں حامد میر سوار ہوءے۔
حامد میر پہ قاتلانہ حملے کے واقعے میں بہت سے لوگوں کو جیو چینل کے رویے پہ اعتراض ہے کہ جیو نے اس واقعے میں آءی ایس آءی پہ کیوں الزام لگایا اور ظہیرالاسلام کی تصویر گھنٹوں ٹی پہ کیوں دکھاءی گءی۔ میں اس اعتراض کوسمجھنے سے قاصر ہوں۔ کسی بھی خبررساں ادارے کا کام تازہ خبر کو نشر کرنا ہوتا ہے۔ جس روز حامد میر پہ حملہ ہوا اس روز یہ خبر ملک کی سب سے بڑی خبر تھی۔ اگر جیو اس خبر کو نہ دکھاتا تو کیا کرتا؟ اور پھر اس خبر سے متعلق جو بھی نءی بات آرہی تھی اس کو بھی لوگوں تک پہنچانا ضروری تھا۔  قاتلانہ حملے کے فورا بعد حامد میر کے بھاءی جیو کے پاس یہ بتانے کے لیے پہنچ گءے کہ ان کے بھاءی [حامد میر] نے کہا تھا کہ اگر کبھی ان کے قتل کی کوشش کی جاءے تو اس واردات کی ذمہ دار آءی ایس آءی اور بالخصوص آءی ایس آءی کے ڈاءیریکٹر ظہیر الاسلام ہوں گے۔ اب جیو کیا کرتا؟ حامد میر کے بھاءی کو گھر روانہ کردیتا کہ ہم اس شخص کے ریکارڈ کردہ بیان کو ہرگز گھاس نہیں ڈالیں گے جس پہ ابھی ابھی قاتلانہ حملہ ہوا ہے؟ پھر چند معتضرین کا کہنا ہے کہ جیو نے ظہیر الاسلام کی تصویرکیوں دکھاءی؟ ارے، اللہ کے بندوں، یہ میڈیا گرافکس پہ چلتا ہے۔ اگر خبر میں ظہیرالاسلام کا نام آرہا تھا تو جیو ان کی تصویر نہ دکھاتا تو کیا کرتا؟ کیا یوں ہونا چاہیے تھا کہ خبر میں نام تو ظہیرالاسلام کا آتا مگر اسکرین پہ مسجد نبوی دکھاءی جاتی؟
آج [اپریل ستاءیس] حامد میر نے قاتلانہ حملے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو دیا ہے اور یہ بات واضح ہوگءی ہے کہ حامد میر ہرگز آءی ایس آءی کے پورے ادارے کو مورد الزام نہیں ٹہرا رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق آءی ایس آءی کے اندر موجود ایک آءی ایس آءی سے ہے۔ عام فہم زبان میں بات کچھ یوں سمجھ میں آتی ہے کہ آءی ایس آءی ایک بڑا ادارہ ہے جس میں بہت سے خفیہ اہلکار کام کررہے ہیں۔ اس بڑے ادارے میں خفیہ اہلکاروں کا ایک ایسا گروہ ہے جس کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے جو شاید پورے ادارے کے ایجنڈے سے مختلف ہے۔ شاید حامد میر کا ظہیر الاسلام پہ یہ الزام ہے کہ وہ پورے ادارے کے ڈاءریکٹر ہونے کے ناتے آءی ایس آءی میں موجود اس چھوٹے مادر پدر آزاد گروہ پہ کیوں قابو نہیں پاتے۔ یہاں کوءی بھی شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ جس طرح آءی ایس آءی کے اندر ایک آءی ایس آءی کا ہونا ممکن ہے اسی طرح جیو کے اندر بھی ایک اور جیو کا ہونا بھی تو ممکن ہے۔


Tuesday, April 22, 2014

 

خدا حافظ گابو




اپریل بیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچاسی


خدا حافظ گابو

 
ایک دن میری ماں نے کسی بات پہ مجھ سے پوچھا تھا کہ، 'تو کیا تم سیکھے پڑھے پیدا ہوءے تھے؟' ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بچے اپنے ماں باپ ہی سے تو سیکھتے ہیں۔ بچے یقیناً شروع میں اپنے ماں باپ ہی سے سیکھتے ہیں کہ افراد خانہ ہی بچے کی کل کائنات ہوتے ہیں۔ ہر بچہ اس کائنات میں آنکھیں کھولتا ہے اور اسی سے سیکھنا شروع کرتا ہے۔ مگر پھر جب بچے  بڑے ہو کر گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کتابیں، دوسرے لوگ، اور یہ پوری دنیا ان کی درس گاہ بن جاتی ہے۔ میں اتنی بڑی درس گاہ میں خصوصیت سے ان لوگوں کا قائل ہوں جنہوں نے اپنی کتابوں سے مجھے شعور کی منازل طے کرنے میں مدد دی ہے۔ میں نے جب مارکیز کا ناول صد سالہ تنہائی [سءین آنیوس دی سولیداد] پڑھا تو مجھے لگا تھا کہ میرے ذہن کی کئی گرہیں ایک ساتھ کھل گئی ہیں۔ مارکیز نے پوری انسانی زندگی کو میرے سامنے کھول کر بیان کر دیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے انسانی زندگی کا مشاہدہ کیا تھا مگر بچوں کو الگ، جوانوں کو الگ، اور بوڑھوں کو الگ دیکھا تھا۔ کسی ایک شخص کا بچپن سے لے کر پیران سالی میں موت تک کا سفر نہ میں نے دیکھا تھا اور [اپنی کم عمری کی وجہ سے] نہ ہی دیکھ سکتا تھا۔ مارکیز نے اپنی کہانی کے ذریعے مجھے یہ پورا سفر یکدم دکھا دیا تھا۔  ہوزے آرکادیو بوءندیا جب بوڑھا ہوا تو رفتہ رفتہ حافظہ کھو بیٹھا۔ ہوزے آرکادیو بوءندیا کو خود اپنے آپ سے بچانے کے لیے اس کے گھر والے اسے ایک درخت سے زنجیروں سے باندھ کر رکھتے تھے۔ یہ پڑھ کر 'صد سالہ تنہائی' کا قاری رو پڑتا ہے کیونکہ اسی کہانی کے شروع میں قاری نے ہوزے آرکادیو بوءندیا کو ایک جوان آدمی کے روپ میں دیکھا ہوتا ہے۔ ایک ایسا جوان جس میں بے پناہ توانائی تھی اور وہ بہت کچھ کرنے کا اہل تھا۔ مارکیز کی کہانی میں جوانی سے موت تک کے اس سفر کا حال پڑھ کر مجھے بھی ایک شخص یاد آیا تھا جس کا بچپن تو میں نے نہ دیکھا تھا مگر میں نے اسے توانا حالت میں ضرور دیکھا تھا۔ میں اپنے لڑکپن میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا اور اس سے سیکھتا کہ میں اس کا پوتا تھا۔ پھر میں نے اسے رفتہ رفتہ اپنے آپ سے گم ہوتے دیکھا۔ وہ بھول جاتا اور ماضی کے بھولے بسرے واقعات کو حال میں خلط ملط  کر دیتا۔ وہ ایک دن گھر سے باہر گیا تو ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس کے ماتھے سے بہت خون نکلا۔ گھر والے ڈر گءے۔ اگلی بار وہ بوڑھا شخص گھر سے باہر نکلے تو کہیں راستہ نہ بھول جاءے، کہیں سڑک پار کرتے وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوجاءے۔ ان ہی وسوسوں کو پالتے، اب گھر والوں کی پوری کوشش ہوتی کہ اسے گھر سے باہر ہی نکلنے نہ دیا جاءے۔ مگر وہ انسان تھا۔ آزادی سے جہاں اس کا دل کرے جانا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ وہ آدھی رات میں گھر سے باہر نکل جاءے۔ اس کو سمجھانا مشکل تھا اس لیے رات جب وہ سونے کے لیے لیٹتا تو گھر والے احتیاطا اس کے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیتے۔ پھر جب رات کے پچھلے پہر آنکھ کھلنے پہ وہ بند دروازے کو کمرے کے اندر سے پیٹتا، اپنے پوتوں کو آواز دے کر پکارتا، اور خدا کا واسطہ دے کر فریاد کرتا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھول دیا جاءے اور اسے باہر جانے دیا جاءے تو بستر پہ لیٹے لیٹے میری آنکھوں سے آنسو ٹپکتے اور مجھے زندگی کڑی در کڑی سمجھ میں آنے لگتی۔
وہ سارے لکھنے والے جن کی کتابوں کو پڑھ کر میں نے سیکھا ہے، میرے اساتذہ ہیں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ میں ان سے ملوں، اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کا شکریہ ادا کروں۔
دسمبر دو ہزار دس کی اس صبح یہی ساری باتیں میرے ذہن میں تھیں۔ وہ بوگوتا میں میرا دوسرا روز تھا۔ میں لا کالاندیریا کے علاقے میں پہنچا تو اسے سیاحوں سے بھرا پایا۔ مگر کاسا مارکیز، گیبرءیل گارسیا مارکیز کے گھر، پہ میرے لیے اچھی خبر نہ تھی۔ خبر یہ تھی کہ مارکیز اس وقت میکسیکو سٹی میں ہیں اور اب اپنا زیادہ تر وقت وہیں گزارتے ہیں۔ میں مایوس پلٹ آیا۔ دو ہفتے کولومبیا میں گزارنے کے بعد میں واپس کیلی فورنیا آگیا اور میکسیکو سٹی جا کر مارکیز سے ملنے کے ارادے کو مستقبل پہ ٹالتا رہا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تو ایک اخباری خبر سے معلوم ہوا کہ مارکیز کو نسیان کا عارضہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ایک محسن کا شکریہ ادا کرنے کا موقع کھو چکا تھا۔
آج سے چند دن پہلے، سترہ اپریل کو مارکیز اس دنیا سے رخصت ہوگءے۔
خدا حافظ گابو۔
تمھارا احسان ہمیشہ میری گردن پہ رہے گا، گابو۔



Labels: , , ,


Monday, April 21, 2014

 

تعلیم کی راہ، ترقی کی راہ









اپریل تیرہ،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چوراسی

تعلیم کی راہ، ترقی کی راہ


دنیا کے ان ممالک کو دیکھیے جہاں سیاسی استحکام ہے اور معیشت کا پہیہ رواں چل رہا ہے۔ آپ مشاہدہ کریں گے کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں سو فی صد یا اس کے نزدیک ترین خواندگی کا ہدف بہت پہلے حاصل کرلیا گیا تھا۔ اس بات پہ ایک اور انداز سے غور کریں۔ اگر آپ ایک کاروبار چلا رہے ہیں تو آپ کس قسم کے لوگوں کو ملازمت دینا چاہیں گے؟ آپ یقینا تعلیم یافتہ لوگوں کو ملازم رکھنا چاہیں گے تاکہ وہ اپنی محنت کے ساتھ اپنی سوچ سمجھ سے آپ کے کاروبار کو نفع بخش بنا سکیں۔ اسی طرح کسی ملک کی معیشت اور اس کے پورے نظام کو چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں مساءل کی بہتات نظر آتی ہے اور ان ممالک سے ہمدردی رکھنے والے لوگ مخمصے کا شکار رہتے ہیں کہ بہتری کی صورت پیدا کرنے کے لیے ان مساءل کا کونسا سرا پکڑیں۔ جب کبھی آپ اس طرح کے تذبذب میں گرفتار ہوں تو سمجھیں کہ آسان ترین راستہ تعلیم حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ جس طرح ایک رکی ہوءی گاڑی کو دھکا دے کر چلانا، ایک لڑھکتی گاڑی کو تھوڑا سا زیادہ دھکا لگا کر اور تیز چلانے سے زیادہ مشکل کام ہے، اسی طرح کسی شخص کو خواندگی کی اولین منازل طے کروانا، جن میں وہ لکھنا پڑھنا اور بنیادی حساب سیکھ جاءے، کسی معمولی خواندہ شخص کو مزید تعلیم دینے سے زیادہ مشکل عمل ہے۔ کیا ٹیکنالوجی کی مدد سے اس پہلے مرحلے کو آسان بنایا جاسکتا ہے؟ جی ہاں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ اس نتیجے پہ ایک ساتھ پہنچے ہیں۔ خان اکیڈمی کے بانی سلمان خان کو دیکھ لیجیے۔ جو سلسلہ سلمان خان کے اپنی عم زاد کو ریاضی کے چیدہ چیدہ موضوعات سمجھانے سے شروع ہوا تھا وہ آج اتنا بڑھا ہے کہ اب خان اکیڈمی شروع کی بارہ جماعتوں تک کا حساب اور بنیادی ساءنس سکھانے کی ویڈیو کے لیے دنیا بھر میں ایک معتبر ارادہ بن گیا ہے۔ کیا خان اکیڈمی کی ان ویڈیو کی مدد سے پاکستان میں تعلیم عام کی جاسکتی ہے؟ یقینا۔ اس بات کا ادراک خان اکیڈمی سے تعلق رکھنے والے بلال مشرف نے کیا۔ انہوں نے کوشش فاءونڈیشن نامی ادارے کا پچھلا عملی تجربہ دیکھتے ہوءے خان اکیڈمی کے انگریزی ویڈیو کا اردو میں ترجمے کا کام کوشش فاءونڈیشن [روح رواں: سہیل اکبر] کے حوالے کیا۔ کام بڑا تھا اور اس کو کرنے کے لیے مالی وساءل کی ضرورت تھی۔ اس مرحلے پہ مشہور پاکستانی امریکی ٹیکنالوجسٹ صفی قریشی نے بھرپور تعاون کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صفی قریشی کا نام سنہ بانوے میں اس وقت زبان عام پہ آیا جب صفی قریشی کی بناءی ہوءی کمپنی اے ایس ٹی نے امریکہ کی فورچون پانچ سو کمپنیوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ اپنے ملک کی مستقل ناکامی سے پریشان پاکستانی، پاکستان سے وابستہ کسی بھی کامیابی کو آنکھوں سے چومتے ہیں۔ امریکہ میں صفی قریشی کی کامیابی کو پاکستان میں نم آنکھوں سے سراہا گیا۔ راقم نے کراچی میں شاہراہ فیصل پہ صفی قریشی کی تصاویر سے مزین ساءن بورڈ دیکھے ہیں۔ صفی قریشی عام تعلیم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اسی لیے قریبا پندرہ سال قبل انہوں نے مقبول عام امریکی پروگرام 'سیسمی اسٹریٹ' کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ٹی وی کے ذریعے پاکستانی بچوں تک پہنچانے کے کام میں مالی معاونت کی تھی۔ خان اکیڈمی کے ویڈیو کے اردو ترجمے کے کام کے لیے بھی صفی قریشی نے مالی مدد کی۔ اس سلسلے میں صفی قریشی کے دست راست محبوب اختر بھی پیش پیش رہے۔ کوشش فاءونڈیشن نے صفی قریشی کی دی ہوءی رقم سے ویڈیو کے اردو ترجمے کا کام شروع کیا۔ کام یہ تھا کہ کسی بھی ویڈیو کو انگریزی میں سنا جاءے، اس ویڈیو کی آڈیو کا اردو میں ترجمہ کیا جاءے، اور پھر ویڈیو کی اصل انگریزی آڈیو نکال کر اس پہ اردو کی آڈیو ڈال دی جاءے۔ خیال یہ رکھنا تھا کہ نہ صرف ترجمہ اعلی معیار کا ہو بلکہ لمحہ بہ لمحہ آڈیو اور ویڈیو ساتھ ساتھ چلیں۔ ترجمے کا یہ مشکل کام دو قابل مترجمین، علیم احمد [گلوبل ساءنس کے مدیر] اور ذیشان حیدر کررہے ہیں۔ اس وقت تک سترہ سو سے زاءد ویڈیو کے ترجمے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جس طرح خان اکیڈمی کے انگریزی ویڈیو یوٹیوب پہ ہیں، اسی طرح اردو ویڈیو بھی یوٹیوب پہ ہیں، اور پاکستان میں یوٹیوب پہ پابندی ہے، تو یہ ویڈیو پاکستانی بچوں تک کس طرح پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر آج پاکستان میں یوٹیوب پہ سے پابندی ہٹ  جاءے تو شہروں میں رہنے والے طلبا تو خان اکیڈمی کے ویڈیو سے مستفید ہوں گے مگر وہ بہت سے بچے جن کی رساءی انٹرنیٹ تک نہیں ہے، اس قیمتی علمی وسیلے تک پھر بھی نہیں پہنچ پاءیں گے۔ پاکستان میں ان ترجمہ شدہ ویڈیو کو طلبا تک پہنچانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ شعبہ تعلیم میں دلچسپی رکھنے والے مخیر اشخاص ان ویڈیو کو ڈاءون لوڈ کریں اور پھر ان ویڈیو کو اپنی درس گاہوں میں استعمال کریں۔ کوشش فاءونڈیشن مستقبل قریب کے ایک ایسے دن کا خواب دیکھتی ہے جب اردو میں ترجمہ شدہ یہ ویڈیو ہر جماعت کے حساب سے لوگوں کے کمپیوٹر پہ محفوظ ہوں گے۔ کوءی بھی شخص نہایت کم لاگت سے ایک اسکول شروع کرسکے گا۔ انتظام صرف ایک ایسے کمرے کا کرنا ہوگا جس میں بچوں کو بٹھا کران کی تعلیمی استعداد کے حساب سے انہیں ایک اسکرین پہ ویڈیو دکھاءے جا سکیں۔ اگر زیادہ بجٹ دستیاب ہو تو اسی کمرے میں طلبا کے استعمال کے لیے ایسے کمپیوٹر رکھے جاسکتے ہیں جن پہ بچے مشقیں حل کرسکیں۔
اردو میں ترجمہ شدہ ویڈیو یہاں دستیاب ہیں:
کوءی بھی شخص ان ویڈیو کے معیار کو جانچنے کے لیے یہ گوشوارہ استعمال کرسکتا ہے:


Labels: , , , , , , , , ,


 

ملاءیشیاءی جہاز کی گمشدگی سے متعلق چند خیالات








اپریل چھ،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تراسی
 
ملاءیشیاءی جہاز کی گمشدگی سے متعلق چند خیالات
 
ملاءیشءین اءیرلاءنز کی پرواز تین سو ستر کو مارچ آٹھ صبح ساڑھے چھ بجے بیجنگ پہنچنا تھا۔ جب یہ جہاز اپنی متوقع آمد کے ایک گھنٹے بعد بھی اپنی منزل پہ نہ پہنچا تو ملاءیشیا نے اعلان کردیا کہ اس کا ایک جہاز غاءب ہے۔ اب اس بات کو ایک مہینہ ہونے کو آرہا ہے اور غاءب ہونے والے جہاز کی تلاش ہنوز جاری ہے۔ آج صبح کی خبر تھی کہ تلاش کرنے والے جہازوں کو ایسے سگنل ملے ہیں جو غالبا سمندر کی تہہ میں پڑے بلیک باکس سے آرہے ہیں۔ مگر ان سطور کی تحریر تک بلیک باکس کی بازیابی نہیں ہوسکی ہے۔ اس قیمتی آلے کے ملنے پہ ہی ساری بات کھل کر سامنے آسکے گی کہ مذکورہ جہاز کو کن مساءل کا سامنا تھا جن کی وجہ سے جہاز تباہ ہوگیا—اگر وہ واقعی تباہ ہوا ہے تو۔
اور آج ہی ملاءیشیا کے وزیر دفاع حشام الدین حسین کا بیان ہے کہ ملاءیشیا پرواز تین سو ستر کی تلاش جاری رکھے گا۔ حشام الدین حسین کا یہ بیان پڑھ کر ملاءیشیا پہ ترس آیا۔ ایک طرف اتنا بڑا اور گہرا سمندر، اور دوسری طرف بیچارہ ننھا منھا ملاءیشیا۔  واضح رہے کہ بحر ہند میں جو ممالک جہاز کی تلاش میں مصروف ہیں ان میں ملاءیشیا شامل نہیں ہے۔ بحر ہند کے اس حصے میں طاقتور ممالک اپنی ٹیکنالوجی کے جلوے دکھانے کے لیے بیتاب ہیں۔ مگر اتنی طویل مدت گزرنے کے باوجود جہاز کی تلاش میں ناکامی سے ان ممالک کی ٹیکنالوجی کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہم تو یہ سن کر مرعوب ہوتے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس ایسے سیٹیلاءٹ ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی گاڑی کی نمبر پلیٹ تک پڑھ سکتے ہیں۔ آج اس افسانوی سیٹیلاءٹ ٹیکنالوجی کی دھوتی ہمارے سامنے اتر چکی ہے۔ ہمیں سیٹیلاءٹ سے حاصل ہونے والی دھندلی تصاویردکھا کر بتایا جارہا ہے کہ ان تصاویر میں سطح سمندر پہ تیرنے والا، تباہ شدہ جہاز کا ملبہ صاف نظر آرہا ہے۔ ہم نے تجربہ گاہوں میں کام کیا ہے۔ غیرفوکس شدہ ماءکرواسکوپ سے کسی ماءع کی سطح پہ تیرنے والے چھوٹے بڑے ذرات بھی اسی طرح کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ساری ٹیکنالوجی کا زور دنیا کے کمزور لوگوں پہ چلتا ہے۔ جو کام یہ پھرتی سے کرسکتے ہیں وہ ہے فون پہ ہونے والی گفتگو ریکارڈ کرنے کا، ہمارے آپ کے بھیجے برقی پیغامات کو اپنے پاس محفوظ کرنے کا، یا ترقی پزیر ممالک میں لوگوں کو ڈرون حملوں میں مارنے کا۔
پرواز تین سو ستر کے مسافروں میں سب سے بڑی تعداد چینی مسافروں کی تھی؛ دوسرے نمبر پہ ملاءیشیا کے مسافر تھے۔ اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم بڑا ہوتا ہے، اس لیے گمشدہ جہاز کے مسافروں کے لواحقین کا غم و غصہ سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو زندگی کی ثباتی سے متعلق غیر حقیقی خیالات رکھتے ہیں؛ ان لوگوں کے نزدیک موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا صرف عمر رسیدہ لوگوں کو کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھول گءے ہیں کہ موت تو ہروقت آپ کے بالکل قریب ہے۔ یہ جب چاہے کسی نہ کسی بہانے سے آپ کو دبوچ سکتی ہے۔
جہاں ایک طرف گمشدہ جہاز کے مسافروں کے ایسے لواحقین ہیں جنہیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ وہ اب اپنے پیاروں سے کبھی نہ ملیں گے، وہیں دوسری طرف ایسے اعزا بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر جہاز غاءب ہوگیا تو یہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اور جہاز کے ملبے کو ڈھونڈنا فضول ہے۔ جو لوگ جہاز کے ملبے کو اور بالخصوص اس کے بلیک باکس کو ڈھونڈ رہے ہیں وہ ایسا ایک خاص مقصد کے تحت کررہے ہیں۔ یہ معلوم کرنا تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے کہ مذکورہ جہاز کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ وہ اپنا رخ بدل کر کہیں سے کہیں نکل گیا۔ اصل مقصد مستقبل کے لیے فضاءی سفر کو محفوظ بنانا ہے۔ اصل مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ مستقبل میں جہازوں میں کس طرح کی ترمیمات کی جاءیں کہ جہازوں کو ایسا حادثہ نہ ہو جیسا پرواز تین سو ستر کو ہوا۔ اور یہ جستجو کرنے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ ہم تقدیر کے چنگل میں پھنسے بے بس لوگ نہیں ہیں، بلکہ بہت کچھ ہمارے اختیار ہے جسے استعمال کرتے ہوءے ہم اپنی تقدیر بہت حد تک خود لکھ سکتے ہیں۔






Labels: , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?