Tuesday, April 22, 2014

 

خدا حافظ گابو




اپریل بیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچاسی


خدا حافظ گابو

 
ایک دن میری ماں نے کسی بات پہ مجھ سے پوچھا تھا کہ، 'تو کیا تم سیکھے پڑھے پیدا ہوءے تھے؟' ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بچے اپنے ماں باپ ہی سے تو سیکھتے ہیں۔ بچے یقیناً شروع میں اپنے ماں باپ ہی سے سیکھتے ہیں کہ افراد خانہ ہی بچے کی کل کائنات ہوتے ہیں۔ ہر بچہ اس کائنات میں آنکھیں کھولتا ہے اور اسی سے سیکھنا شروع کرتا ہے۔ مگر پھر جب بچے  بڑے ہو کر گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کتابیں، دوسرے لوگ، اور یہ پوری دنیا ان کی درس گاہ بن جاتی ہے۔ میں اتنی بڑی درس گاہ میں خصوصیت سے ان لوگوں کا قائل ہوں جنہوں نے اپنی کتابوں سے مجھے شعور کی منازل طے کرنے میں مدد دی ہے۔ میں نے جب مارکیز کا ناول صد سالہ تنہائی [سءین آنیوس دی سولیداد] پڑھا تو مجھے لگا تھا کہ میرے ذہن کی کئی گرہیں ایک ساتھ کھل گئی ہیں۔ مارکیز نے پوری انسانی زندگی کو میرے سامنے کھول کر بیان کر دیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے انسانی زندگی کا مشاہدہ کیا تھا مگر بچوں کو الگ، جوانوں کو الگ، اور بوڑھوں کو الگ دیکھا تھا۔ کسی ایک شخص کا بچپن سے لے کر پیران سالی میں موت تک کا سفر نہ میں نے دیکھا تھا اور [اپنی کم عمری کی وجہ سے] نہ ہی دیکھ سکتا تھا۔ مارکیز نے اپنی کہانی کے ذریعے مجھے یہ پورا سفر یکدم دکھا دیا تھا۔  ہوزے آرکادیو بوءندیا جب بوڑھا ہوا تو رفتہ رفتہ حافظہ کھو بیٹھا۔ ہوزے آرکادیو بوءندیا کو خود اپنے آپ سے بچانے کے لیے اس کے گھر والے اسے ایک درخت سے زنجیروں سے باندھ کر رکھتے تھے۔ یہ پڑھ کر 'صد سالہ تنہائی' کا قاری رو پڑتا ہے کیونکہ اسی کہانی کے شروع میں قاری نے ہوزے آرکادیو بوءندیا کو ایک جوان آدمی کے روپ میں دیکھا ہوتا ہے۔ ایک ایسا جوان جس میں بے پناہ توانائی تھی اور وہ بہت کچھ کرنے کا اہل تھا۔ مارکیز کی کہانی میں جوانی سے موت تک کے اس سفر کا حال پڑھ کر مجھے بھی ایک شخص یاد آیا تھا جس کا بچپن تو میں نے نہ دیکھا تھا مگر میں نے اسے توانا حالت میں ضرور دیکھا تھا۔ میں اپنے لڑکپن میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا اور اس سے سیکھتا کہ میں اس کا پوتا تھا۔ پھر میں نے اسے رفتہ رفتہ اپنے آپ سے گم ہوتے دیکھا۔ وہ بھول جاتا اور ماضی کے بھولے بسرے واقعات کو حال میں خلط ملط  کر دیتا۔ وہ ایک دن گھر سے باہر گیا تو ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس کے ماتھے سے بہت خون نکلا۔ گھر والے ڈر گءے۔ اگلی بار وہ بوڑھا شخص گھر سے باہر نکلے تو کہیں راستہ نہ بھول جاءے، کہیں سڑک پار کرتے وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوجاءے۔ ان ہی وسوسوں کو پالتے، اب گھر والوں کی پوری کوشش ہوتی کہ اسے گھر سے باہر ہی نکلنے نہ دیا جاءے۔ مگر وہ انسان تھا۔ آزادی سے جہاں اس کا دل کرے جانا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ وہ آدھی رات میں گھر سے باہر نکل جاءے۔ اس کو سمجھانا مشکل تھا اس لیے رات جب وہ سونے کے لیے لیٹتا تو گھر والے احتیاطا اس کے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیتے۔ پھر جب رات کے پچھلے پہر آنکھ کھلنے پہ وہ بند دروازے کو کمرے کے اندر سے پیٹتا، اپنے پوتوں کو آواز دے کر پکارتا، اور خدا کا واسطہ دے کر فریاد کرتا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھول دیا جاءے اور اسے باہر جانے دیا جاءے تو بستر پہ لیٹے لیٹے میری آنکھوں سے آنسو ٹپکتے اور مجھے زندگی کڑی در کڑی سمجھ میں آنے لگتی۔
وہ سارے لکھنے والے جن کی کتابوں کو پڑھ کر میں نے سیکھا ہے، میرے اساتذہ ہیں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ میں ان سے ملوں، اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کا شکریہ ادا کروں۔
دسمبر دو ہزار دس کی اس صبح یہی ساری باتیں میرے ذہن میں تھیں۔ وہ بوگوتا میں میرا دوسرا روز تھا۔ میں لا کالاندیریا کے علاقے میں پہنچا تو اسے سیاحوں سے بھرا پایا۔ مگر کاسا مارکیز، گیبرءیل گارسیا مارکیز کے گھر، پہ میرے لیے اچھی خبر نہ تھی۔ خبر یہ تھی کہ مارکیز اس وقت میکسیکو سٹی میں ہیں اور اب اپنا زیادہ تر وقت وہیں گزارتے ہیں۔ میں مایوس پلٹ آیا۔ دو ہفتے کولومبیا میں گزارنے کے بعد میں واپس کیلی فورنیا آگیا اور میکسیکو سٹی جا کر مارکیز سے ملنے کے ارادے کو مستقبل پہ ٹالتا رہا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تو ایک اخباری خبر سے معلوم ہوا کہ مارکیز کو نسیان کا عارضہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ایک محسن کا شکریہ ادا کرنے کا موقع کھو چکا تھا۔
آج سے چند دن پہلے، سترہ اپریل کو مارکیز اس دنیا سے رخصت ہوگءے۔
خدا حافظ گابو۔
تمھارا احسان ہمیشہ میری گردن پہ رہے گا، گابو۔



Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?