Tuesday, May 28, 2013

 

اغوانستان



مءی  ستاءیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو انتالیس


اغوانستان


پاکستان کا کوءی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں؛ آپ اسے قتل و غارت گری اور اغوا کی خبروں سے بھرا پاءیں گے۔ اگر پاکستان میں رہتے ہوءے آپ کے ساتھ ہروقت ایک چھوٹی سی فوج موجود نہیں  ہے تو آپ مکمل طور پہ جراءم پیشہ لوگوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ اس بات سے کوءی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے بڑے طرم خان ہیں یا کس بااثر شخصیت کے خانوادے سے ہیں، آپ کو چٹکی بجاتے میں اغوا کیا جا سکتا ہے اور اغوا کی اس واردات کے بعد جب آپ کی آنکھ کھلے گی تو آپ اپنے آپ کو وزیرستان میں پاءیں گے۔  سچ پوچھیے تو پاکستانی ریاست قانون نافذ کرنے کے معاملے میں اس قدر کمزور ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ حالیہ انتخابات کے سلسلے میں بعض حلقوں میں اس قدر جوش و خروش کیوں تھا۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس قدر کمزور حکومتی مشینری کا انتظام سنبھالنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں؟
وارن واءنسٹاءن، پھر شہباز تاثیر، اور اب علی حیدر گیلانی؛ پرانے اغوا کا معاملہ حل نہیں ہوتا کہ ایک اور شخص اغوا ہوجاتا ہے۔ اور یہ تین مغوی تو بہت بااثر افراد تھے۔ متمول مگر بے اثر افراد کا اغوا تو روز کی بات ہے۔ اغوا کی ان وارداتوں کا انجام کبھی کبھی مثبت بھی نکل آتا ہے جیسا کہ بہادر آباد، کراچی کے ایک تاجر کے مغوی لڑکے کے ساتھ ہوا۔ مصطفی ڈوسل نامی اس لڑکے کو پولیس نے بازیاب کروالیا اور والدین پانچ کروڑ روپے تاوان میں دینے سے بچ گءے۔ لیکن اس جیسے کتنے ہی واقعات ہیں جن میں لوگوں نے تاوان میں بھاری رقومات دی ہیں۔ ان ہی حالات کی وجہ سے  کوءی بھی سیانا سیاح پاکستان کے قریب نہیں پھٹکتا؛ یقینا نادان تھیں وہ دو چیک سیاح خواتین جو قریبا دو ماہ پہلے ایران سے پاکستان میں داخل ہوءیں تھیں۔ ان دونوں کو تفتان سے کوءٹہ جاتے ہوءے ان کے سرکاری محافظ کے ساتھ اغوا کر لیا گیا تھا۔ آج تک ان کی کوءی خبر نہیں ہے۔  اغوا کی ان ہی مستقل وارداتوں کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ پاکستان کا نام بدل کراغوانستان رکھ دینا چاہیے۔
کچھ ہی دنوں میں پاکستان میں نو منتخب شدہ افراد حکومت کا انتظام سنبھال لیں گے۔ بجلی کا بحران ہو یا پانی کی عدم دستیابی، اس نءی حکومت کے سامنے مساءل کا ایک انبار جمع ہے۔ مگر ان تمام مساءل میں سب سے بڑا اور اہم مسءلہ امن وامان کا ہے۔ لوگ بجلی اور پانی کے بغیر تو رہ سکتے ہیں لیکن جہاں جان کے لالے پڑے ہوں اور ہروقت یہ دھڑکا لگا ہو کہ کوءی آپ کو یا آپ کے بچے کو اغوا کر لے گا، وہاں سے ہرذی ہوش شخص فورا روانہ ہونا چاہے گا۔ قتل و غارت گری، ڈاکہ زنی، اور اغوا کے اس ماحول میں کون صحیح الدماغ شخص پاکستان میں سرمایہ کاری کے بارے میں سوچے گا؟  جہاں امن و امان کی حالت نازک ہوگی وہاں کوءی کاروبار نہیں پنپ سکتا اور جب یوں معاشی حالات دگرگوں ہوں گے تو بے روزگاری بڑھے گی اور بے روزگار نوجوانوں کا جراءم کی طرف ماءل ہوجانا آسان ہوگا۔ اور اس طرح خستہ امن عامہ اور کمزور معاشی حالات کا یہ داءرہ مستقل پھیلتا جاءے گا اور جلد یا بدیر وہ وقت آءے گا جب وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔  اسی چکر کو توڑنا نءی  پاکستانی حکومت  کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔


  



Labels: , , , , , , , ,


Monday, May 20, 2013

 

نءے چیلنج اور الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم


مءی  بیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اڑتیس


نءے چیلنج اور الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم



کراچی میں تحریک انصاف کی راہ نما زہرہ شاہد حسین کا قتل تشویشناک ہے۔ اس قتل کے بارے میں متضاد اطلاعات مل رہی ہیں۔ پہلے خبر یہ آءی کہ زہرہ شاہد حسین ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران قتل ہوءیں جب انہوں نے اپنا پرس ڈاکوءوں کو دینے پہ مزاحمت کی۔ مگر بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ زہرہ شاہد کے قاتل انہیں مارنے ہی کے ارادے سے آءے تھے۔  زہرہ شاہد کا قتل حلقہ ۲۵۰ کے کءی پولنگ اسٹیشنوں پہ مکرر انتخابات سے ایک دن پہلے ہوا۔ اگر یہ قتل سیاسی دشمنی کا نتیجہ تھا تو اس واردات سے تحریک انصاف کے حریفوں کو، جس سے مراد لا محالہ ایم کیو ایم لی جاتی ہے، بھلا کیا فاءدہ ہوا؟  اس قتل سے تو الٹا تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی بڑھی اور اس جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
زہرہ شاہد کے قتل کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کے اغوا کا واقعہ بھی پاکستان میں امن عامہ کی ناگفتہ بہ حالت کا اعلی مظہر ہے۔ جیسے جیسے علی حیدر کی بازیابی میں ناکامی کی مدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ علی حیدر پاکستانی پولیس اور فوج کے داءرہ اثر سے دور وزیرستان پہنچا دیے جاءیں گے۔
کچھ ہی دنوں میں نو منتخب عوامی نماءندے اقتدار سنبھال لیں گے۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام یقینا اس وقت گڑگڑا کر دعا کر رہے ہوں گے کہ نءے حکمرانوں کو عوام کے اصل مساءل سمجھ میں آجاءیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے پہ یہ لوگ میٹرو بس، بلٹ ٹرین وغیرہ جیسے چکاچوند کرنے والے منصوبوں کی تکمیل سے کوڑے پہ مخمل کی چادر چڑھانے کی کوشش نہ کریں۔ اس وقت پاکستانی عوام کا سب سے بنیادی مسءلہ امن و امان کی دگرگوں حالت ہے۔ پاکستانی عوام نءے حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کرتی ہے کہ خدایا ہمیں امن دیں، جراءم پیشہ افراد کی سرکوبی کریں، دہشت گردی ختم کریں، اور قانون کی حکمرانی قاءم کریں۔ بجلی اور پانی کا مسءلہ بھی ثانوی حیثیت رکھتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔
زہرہ شاہد کا قتل اور علی حیدر کا اغوا، ان دونوں واقعات میں مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ان وارداتوں کا کوءی تصویری سراغ نہیں ہے۔ نہ ہی زہرہ شاہد کے گھر پہ کیمرے لگے تھے جو ان کے قاتلوں کی نشاندہی میں معاون ہوتے اور نہ ہی ملتان میں اس جگہ جہاں علی حیدر گیلانی  پیپلز پارٹی کے اجتماع میں شریک تھے کوءی کیمرہ مجمع پہ مستقل نظر رکھے تھا۔ پاکستان میں صبح و شام قتل اور اغوا براءے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں خیال ہوتا ہے کہ صاحب ثروت، جو کروڑوں کے گھروں میں رہتے ہیں اور مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، اپنے گھروں  پہ سرویلینس کیمرے لگاءیں گے اور گاڑیوں میں بھی ڈیش کیمرے نصب کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسی غلط فہمی میں ہیں کہ قتل اور اغوا کی یہ وارداتیں دوسروں کے ساتھ ہورہی ہیں، جب کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔
کارآمد اشیا کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ کارآمد لوگوں کی افادیت بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔  سیانے کارآمدا لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ میں اپنا اچھا نام قاءم رکھنے کے لیے کس موقع پہ ریٹاءرمنٹ لے کر ایک طرف ہٹ جانا چاہیے۔ لگتا ہے کہ یہ دوراندیشی ایم کیو ایم کے قاءد میں نہیں ہے۔ یوں تو الطاف حسین ایک عرصے سے بے سرو پا باتیں کرتے آءے ہیں مگر حال میں ان کی گفتگو کچھ زیادہ ہی بے تکی ہو گءی ہے۔  الطاف حسین اب اس تحریک کے راہ نما نہیں رہے جو انہوں نے شروع کی تھی، بلکہ اب وہ اپنی سیاسی جماعت پہ ایک بوجھ ہیں اور لگتا ہے کہ الطاف حسین اپنے بڑھتے ہوءے وزن کے ساتھ ایم کیو ایم کو بھی لے بیٹھیں گے۔ اگر پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے قاءدین کو اپنی سیاسی جماعت قاءم رکھنے میں دلچسپی ہے تو انہیں جلد از جلد الطاف حسین کو ریٹاءر کر کے ایک کنارے لگانا ہوگا۔
بہت سی خرابیوں کے باوجود ایم کیو ایم  ایک ایسی اہم جماعت ہے جو کراچی میں رہنے والے متوسط طبقے کی بہترین نماءندگی کرتی ہے۔ اس جماعت کو قاءم رہنا چاہیے۔  ایم کیو ایم میں فاروق ستار اور حیدرعباس رضوی جیسے سلجھے ہوءے بہت سے لوگ شامل ہیں۔ یہ بظاہر پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ جب الطاف حسین کا خرافات بھرا ٹیلی فونک خطاب سر جھکا کر سنتے ہیں اور الطاف حسین کی لغو باتوں کی تاءید میں سر ہلاتے ہیں تو ان بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی فکری صلاحیتوں پہ شبہ ہونے لگتا ہے۔ برا ہوگا وہ دن جب الطاف حسین کے پھیلتے متنازعہ کردار کی زد میں آکر ایم کیو ایم ہی تباہ ہوجاءے گی۔ وہ دن آنے سے پہلے ایم کیو ایم کی پاکستان کی قیادت کو تمغات اور پرتحسین کلمات کے ساتھ الطاف حسین کو ریٹاءر کرنا ہوگا۔

Labels: , , , , , ,


Monday, May 13, 2013

 

انتخابات کے بعد

 
 

مءی  تیرہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سینتیس


انتخابات کے بعد


گیارہ مءی کو گزرے آج دوسرا روز ہے۔ گیارہ مءی کی رات جہاں ایک طرف انتخابات کے نتاءج سامنے آءے وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پہ دھاندلی کی ویڈیو بھی آنا شروع ہوگءیں۔ ان ویڈیو میں لوگوں کو بیلٹ پیپر کے تھدے بیلٹ باکس میں ٹھونستے دکھایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ بیلٹ پیپر کے ان تھدوں پہ کس کو ووٹ دیا گیا ہے۔ کءی انتخابی حلقوں سے یہ شکایت سننے میں آءی ہے کہ ایک شخص جب شام کو ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کے نام سے تو ووٹ پہلے ہی پڑ چکا ہے۔ 
یقینا ہر دفعہ انتخابات میں اس قسم کی دھاندلی ہوتی ہوگی مگر اب فرق یہ ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ میں ایک فون ہے جس سے تصویر لی جا سکتی ہے یا ویڈیو بناءی جا سکتی ہے چنانچہ اب صرف دھاندلی کا الزام ہی سننے میں نہیں آتا بلکہ ساتھ ہی اس کی ویڈیو بھی دکھاءی جاتی ہے۔
دھاندلی کے سلسلے میں ایم کیو ایم پہ الزام ہے کہ اس نے کراچی میں خوب دھاندلی کی؛ پنجاب میں دھاندلی کی ایسی ہی شکایات مسلم لیگ نواز شریف سے ہیں۔ دھاندلی کا الزام لگانے والوں میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی آگے آگے ہیں۔ مگر صرف دھاندلی کا الزام لگانا کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں ٹھوس شواہد اکٹھے کیے جاءیں۔ سب سے موثر شواہد ان ووٹروں کے سلسلے میں ہو سکتے ہیں جو انتخابات کے وقت ملک میں موجود نہیں تھے۔ اگر کسی بھی حلقے میں سو، دو سو ایسے لوگوں کی فہرست بناءی جا سکے جو مءی گیارہ کو پاکستان میں موجود نہیں تھے مگر اس کے باوجود ان کے نام سے ووٹ ڈالے گءے ہیں تو یہ شواہد دھاندلی کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کو قاءل کرنے کے لیے موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
عمران خان ایک عرصے سے اپنے چاہنے والوں کو ایسی سونامی کی نوید سنا رہے تھے جو شمال سے جنوب تک پورے ملک کو بہا کر لے جاءے گی۔ اکثر مبصرین کو عمران خان کی اس پیش گوءی سے اختلاف تھا۔ انتخابات کے نتاءج نے ثابت کیا کہ عمران خان غلط تھے اور مبصرین صحیح تھے۔ سونامی اوپر سے بہہ کر نیچے تک نہیں آءی مگر خیبر پختوان خواہ میں ضرور آگءی۔ اگر دوسری جماعتیں خیبر پختوان خواہ کے نو منتخب شدہ آزاد اراکین اسمبلی کو خریدنے میں ناکام رہیں تو تحریک انصاف اس صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاءے گی۔ اور اس صورت میں عمران خان کا اصل امتحان شروع ہوگا۔ ان پہ زور ہوگا کہ وہ امریکہ کی جنگ سے فوری طور پہ علیحدگی اختیار کریں۔ یوں تو نواز شریف جن لوگوں کو ساتھ ملا کر انتخابات جیتے ہیں ان کی طرف سے مسلم لیگ پر بھی ایسا ہی زور ہوگا مگر کیونکہ جنگ خیبر پختون خواہ میں لڑی جا رہی ہے اس لیے اس جنگ کو رکوانے کے سلسلے میں عمران خان پہ زیادہ زور ہوگا۔ ایسی صورت میں محاذ آراءی کی ایک کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جس میں ایک صوبہ وفاق سے یا پاکستانی فوج سے متصادم ہوگا۔ ایسی محاذ آراءی میں تحریک انصاف کو سیاسی فاءدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہی بتاءے گا کہ آیا تحریک انصاف محاذ آراءی کی سیاست کرے گی یا خیبر پختوان خواہ کی معاشی حالت بہتر کر کے اپنی کارکردگی پورے ملک کو جتلاءے گی۔

Tuesday, May 07, 2013

 

جمہوریت یا خلافت




مءی چھ،  دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھتیس


جمہوریت یا خلافت


 جیسے جیسے پاکستان کے تاریخی انتخابات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہور رہا ہے۔ جہاں ایک طرف تحریک طالبان پاکستان  اے این پی اور ایم کیو ایم کے دفاتر اور امیدواروں پہ حملے کر کے برملا ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے وہیں دوسری طرف مذہبی عناصر کی طرف سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ جمہوریت ایک مغربی انداز حکومت ہے؛ جمہوریت نے مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا اور مسلمانوں کا اصل نظام حکومت خلافت ہونا چاہیے۔ عام حالات میں آپ اس احمقانہ منطق کو ہنس کر ٹال سکتے تھے مگر کیا کیجیے کہ ہوا کچھ یوں چل رہی ہے کہ بعض بظاہر پڑھے لکھے نظر آنے والے افراد بھی اس پروپیگنڈے کو ذہنی طور پہ قبول کررہے ہیں۔ چنانچہ اس دلیل ناتواں کا سنجیدگی سے جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔
اگر بعض مسلمانوں کو جمہوریت صرف اس لیے ناپسند ہے کیونکہ وہ 'مغربی' ہے تو پھر ان لوگوں کو موجودہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے غاروں میں بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ آج کی دنیا میں چھپے ہوءے قرآن سے لے کر مولوی کے لاءوڈ اسپیکر تک سب کچھ ہی 'مغربی' ہے۔ جمہوریت کے متعلق اس منطق کو سنتے ہوءے خیال آتا ہے کہ پندرہویں اور سولھویں صدی میں جب یورپ بیدار ہونا شروع ہوا تھا اور عربی کتابوں کا دھڑادھڑ ترجمہ یورپی زبانوں میں ہو رہا تھا تو یورپ میں یقینا چند ایسے نادان بھی ہوں گے جنہوں نے کہا ہوگا کہ اس نءے علم کا یورپی تمدن سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے علم کو یکسر نظرانداز کرتے ہوءے یورپ اپنی نءی راہ خود نکالے۔
علم اور ساءنس ایک انسانی تجربہ ہے جس میں ہر روز فکر کے نءے چشمے مل رہے ہیں اور یہ دریا  مستقل پھیلتا جا رہے ہے۔ ہر دور کے لوگوں نے پرانے ادوار کے لوگوں کے علم سے فاءدہ اٹھاتے ہوءے بات کو آگے بڑھایا ہے۔ علم حاصل کرنے میں 'میرا' اور 'تیرا' کیا معنی رکھتا ہے؟  اور یہی نوعیت سماجی تجربات کی بھی ہے۔ انسان مستقل سیکھ رہا ہے کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ اور اس سے بھی بڑھ کر، دنیا میں دوسرے نمونہ ہاءے حیات کے ساتھ کیسے مساوات سے رہا جاءے۔ ان ہی سماجی تجربات میں نظام حکومت کا تجربہ بھی شامل ہے۔ ہم بہت طویل راستے پہ چلتے ہوءے جمہوریت تک پہنچے ہیں۔  قباءلی طرز حکومت، پھر خدا-بادشاہ، پھر ایسے بادشاہ جنہیں درباریوں اور مذہبی عالموں کی مشاورت حاصل تھی، پھر مشاورت کے اور انداز حکومت جن میں خلافت بھی شامل تھی، اور پھر جدید دور کی جمہوریت جس میں نسل در نسل حکمرانی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، رعایا خود فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کس گروہ کو مختصر عرصے کے لیے حکمرانی کا حق دینا چاہے گی۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کو رد کر کے واپس خلافت کی طرف لوٹ جاءیں وہ اس بات کا جواب دینے سے کتراتے ہیں کہ خلافت کے اس نظام میں خلیفہ کس طرح چنا جاءے گا اور کون لوگ خلافت کے اہل ہوں گے۔ اور اس کترانے کی وجہ یہ ہے کہ اس متعلق خود ان لوگوں کے ذہنوں میں وضاحت نہیں ہے؛ رجعت پسند مذہبی عناصر نے ان کی سوچ گنجلک کرنے کے علاوہ انہیں کچھ نہیں دیا۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?