Monday, May 20, 2013

 

نءے چیلنج اور الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم


مءی  بیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اڑتیس


نءے چیلنج اور الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم



کراچی میں تحریک انصاف کی راہ نما زہرہ شاہد حسین کا قتل تشویشناک ہے۔ اس قتل کے بارے میں متضاد اطلاعات مل رہی ہیں۔ پہلے خبر یہ آءی کہ زہرہ شاہد حسین ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران قتل ہوءیں جب انہوں نے اپنا پرس ڈاکوءوں کو دینے پہ مزاحمت کی۔ مگر بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ زہرہ شاہد کے قاتل انہیں مارنے ہی کے ارادے سے آءے تھے۔  زہرہ شاہد کا قتل حلقہ ۲۵۰ کے کءی پولنگ اسٹیشنوں پہ مکرر انتخابات سے ایک دن پہلے ہوا۔ اگر یہ قتل سیاسی دشمنی کا نتیجہ تھا تو اس واردات سے تحریک انصاف کے حریفوں کو، جس سے مراد لا محالہ ایم کیو ایم لی جاتی ہے، بھلا کیا فاءدہ ہوا؟  اس قتل سے تو الٹا تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی بڑھی اور اس جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
زہرہ شاہد کے قتل کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کے اغوا کا واقعہ بھی پاکستان میں امن عامہ کی ناگفتہ بہ حالت کا اعلی مظہر ہے۔ جیسے جیسے علی حیدر کی بازیابی میں ناکامی کی مدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ علی حیدر پاکستانی پولیس اور فوج کے داءرہ اثر سے دور وزیرستان پہنچا دیے جاءیں گے۔
کچھ ہی دنوں میں نو منتخب عوامی نماءندے اقتدار سنبھال لیں گے۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام یقینا اس وقت گڑگڑا کر دعا کر رہے ہوں گے کہ نءے حکمرانوں کو عوام کے اصل مساءل سمجھ میں آجاءیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے پہ یہ لوگ میٹرو بس، بلٹ ٹرین وغیرہ جیسے چکاچوند کرنے والے منصوبوں کی تکمیل سے کوڑے پہ مخمل کی چادر چڑھانے کی کوشش نہ کریں۔ اس وقت پاکستانی عوام کا سب سے بنیادی مسءلہ امن و امان کی دگرگوں حالت ہے۔ پاکستانی عوام نءے حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کرتی ہے کہ خدایا ہمیں امن دیں، جراءم پیشہ افراد کی سرکوبی کریں، دہشت گردی ختم کریں، اور قانون کی حکمرانی قاءم کریں۔ بجلی اور پانی کا مسءلہ بھی ثانوی حیثیت رکھتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔
زہرہ شاہد کا قتل اور علی حیدر کا اغوا، ان دونوں واقعات میں مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ان وارداتوں کا کوءی تصویری سراغ نہیں ہے۔ نہ ہی زہرہ شاہد کے گھر پہ کیمرے لگے تھے جو ان کے قاتلوں کی نشاندہی میں معاون ہوتے اور نہ ہی ملتان میں اس جگہ جہاں علی حیدر گیلانی  پیپلز پارٹی کے اجتماع میں شریک تھے کوءی کیمرہ مجمع پہ مستقل نظر رکھے تھا۔ پاکستان میں صبح و شام قتل اور اغوا براءے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں خیال ہوتا ہے کہ صاحب ثروت، جو کروڑوں کے گھروں میں رہتے ہیں اور مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، اپنے گھروں  پہ سرویلینس کیمرے لگاءیں گے اور گاڑیوں میں بھی ڈیش کیمرے نصب کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسی غلط فہمی میں ہیں کہ قتل اور اغوا کی یہ وارداتیں دوسروں کے ساتھ ہورہی ہیں، جب کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔
کارآمد اشیا کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ کارآمد لوگوں کی افادیت بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔  سیانے کارآمدا لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ میں اپنا اچھا نام قاءم رکھنے کے لیے کس موقع پہ ریٹاءرمنٹ لے کر ایک طرف ہٹ جانا چاہیے۔ لگتا ہے کہ یہ دوراندیشی ایم کیو ایم کے قاءد میں نہیں ہے۔ یوں تو الطاف حسین ایک عرصے سے بے سرو پا باتیں کرتے آءے ہیں مگر حال میں ان کی گفتگو کچھ زیادہ ہی بے تکی ہو گءی ہے۔  الطاف حسین اب اس تحریک کے راہ نما نہیں رہے جو انہوں نے شروع کی تھی، بلکہ اب وہ اپنی سیاسی جماعت پہ ایک بوجھ ہیں اور لگتا ہے کہ الطاف حسین اپنے بڑھتے ہوءے وزن کے ساتھ ایم کیو ایم کو بھی لے بیٹھیں گے۔ اگر پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے قاءدین کو اپنی سیاسی جماعت قاءم رکھنے میں دلچسپی ہے تو انہیں جلد از جلد الطاف حسین کو ریٹاءر کر کے ایک کنارے لگانا ہوگا۔
بہت سی خرابیوں کے باوجود ایم کیو ایم  ایک ایسی اہم جماعت ہے جو کراچی میں رہنے والے متوسط طبقے کی بہترین نماءندگی کرتی ہے۔ اس جماعت کو قاءم رہنا چاہیے۔  ایم کیو ایم میں فاروق ستار اور حیدرعباس رضوی جیسے سلجھے ہوءے بہت سے لوگ شامل ہیں۔ یہ بظاہر پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ جب الطاف حسین کا خرافات بھرا ٹیلی فونک خطاب سر جھکا کر سنتے ہیں اور الطاف حسین کی لغو باتوں کی تاءید میں سر ہلاتے ہیں تو ان بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی فکری صلاحیتوں پہ شبہ ہونے لگتا ہے۔ برا ہوگا وہ دن جب الطاف حسین کے پھیلتے متنازعہ کردار کی زد میں آکر ایم کیو ایم ہی تباہ ہوجاءے گی۔ وہ دن آنے سے پہلے ایم کیو ایم کی پاکستان کی قیادت کو تمغات اور پرتحسین کلمات کے ساتھ الطاف حسین کو ریٹاءر کرنا ہوگا۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?