Monday, June 16, 2008

 

صابر دہلوی اور میر حسن پہ ادبی محفل کا انعقاد





تاشی ظہیر صاحب سان فرانسسکو بے ایریا میں اردو اکیڈمی کے روح رواں ہے۔ اردو اکیڈمی ہر ماہ کے تیسرے اتوار ایک ادبی نشست منعقد کرتی ہے۔ جون کی ادبی نشست میں دو شعرا، صابر دہلوی اور میر حسن، کو یاد کیا گیا۔
درج ذیل مضمون اس محفل میں پڑھا گیا۔


گرد ،گدا، گرما، گورستان اور صابر دہلوی

میں نثر لکھتا ہوں اور میرے لیے شاعری سمجھنا دشوار ہوتا ہے مگر تاشی ظہیر صاحب کے کہنے پہ صابر دہلوی کے اوپر مضمون لکھنے بیٹھ گیا۔
قلم تھاما تو سب سے پہلے اپنے آپ سے سوال کیا کہ تم صابر دہلوی صاحب کے متعلق کیا جانتے ہو؟ جواب آیا، ککھ نہیں۔
آنکھوں کے سامنے تارے سے لرز گئے کہ اب تاشی ظہیر صاحب کو کیا منہہ دکھائوں گا۔
پھر ایک محفل تھی کہ جہاں ایلٹن جان آئے ہوئے تھے۔ اس محفل میں انگریزی گانوں کے بعد محفل کو اردو رنگ اوڑھنا تھا اور مجھے وہاں صابر دہلوی صاحب پہ مضمون پڑھنا تھا۔ میری تیاری بالکل نہیں تھی اس لیے میں پریشان تھا۔ پھر ساتھ ہی وہاں ایک ٹائم بم بھی تھا جس کا علم صرف مجھے تھا اور جسے اگلے ۳۶ سیکنڈ میں پھٹ جانا تھا۔ مجھے اس بم کو پھٹنے سے پہلے اسے پانی میں پھینکنا تھا۔ غرض کہ ایک ساتھ کئی پریشانیاں لاحق تھیں۔ اور میرے پسینے چھوٹ رہے تھے …کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے شکر ادا کیا کہ وہ سب کچھ خواب تھا۔ مگر اردو اکیڈمی کی ماہانہ محفل میں صابر دہلوی پہ مضمون پڑھنے کی ذمہ داری ہرگز خواب نہیں تھی۔ میں سر کھجا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔
بھلا ہو تاشی ظہیر صاحب کا کہ انہوں نے مشکل حل کر دی؛ امتحانی پرچے کے ساتھ ساتھ نقل کرنے کے لیے صابر دہلوی پہ مواد بھی پکڑا دیا۔ اور یہ مواد تھا محترمہ عذرا بتول صاحبہ کا تحقیقی مقالہ جو صابر دہلوی صاحب پہ تھا اور جسے عذرا بتول صاحبہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اردو میں ایم فل کی سند حاصل کرنے کے لیے ۱۹۹۶ میں لکھا تھا۔ عذرا بتول صاحبہ کے تحقیقی کام کے نگران ڈاکٹر انور احمد صاحب تھے۔

نہ جانے ڈاکٹر انور احمد صاحب نے عذرا بتول صاحبہ کے اس مقالے کو جانچنے کے بعد انہیں پاس کیا یا نہیں لیکن مجھے قیاس ہے کہ اگر صابر دہلوی صاحب حیات ہوتے عذرا بتول صاحبہ کو تحقیق میں مزید جستجو کرنے کے لیے اکساتے ۔
اس مقالے کی ورق گردانی کے بعد صابر دہلوی صاحب عذرا بتول سے شفقت سے پیش آتے اور ان کی کاوش کو یقینا سراہتے مگر ساتھ ہی عذرا بتول سے کہتے کہ "خاتون، تھوڑی محنت کرنا سیکھیں۔ ایم فل کی سند آسانی سے نہیں ملتی۔ کہنے کو تو آپ نے ۲۴۰ صفحات کا مقالہ لکھا ہے مگر اس مقالے میں کل آٹھ صفحات آپ کے اپنے ہیں جب کہ بیشتر صفحات میں آپ نے میرے کلام کو حروف تہجی کے حساب سے بانٹ دیا ہے کہ الف سے صاہر دہلوی کا یہ شعر ہے، ب سے یہ، اور ج سے یہ۔ یہ کام تو چھٹی جماعت کا بچہ بھی کر سکتا تھا۔ عذرا بتول خانم، ذرا دنیا کی دوسری جامعات پہ نظر کیجیے اور یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ دوسری قوموں کے طلبا اپنے تحقیقی مقالوں پہ کتنی محنت کر رہے ہیں۔"

ساتھیو، مختصرا یہ کہ عالم خیال میں عذرا بتول پہ صابر دہلوی صاحب کی یہ سرزنش سن کر میں بالکل ہی مایوس ہو گیا۔
مگر پھر مجھے خیال ہوا کہ صابر دہلوی صاحب کا یوں تن تنہا رہ جانا کوئی اتنا برا نہیں ہے۔
قلم کا میدان ایسا ہی میدان ہے جہاں انسان تنہا اترتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں نہ اولاد کی سند کام کرتی ہے اور نہ اسلاف کے پرانے کارنامے۔ اس میدان میں لکھنے والا، شعر کہنے والا کمر باندھ کر کودتا ہے اور پھر ہر طرف سے تیر اور نیزے کی بارش ہو جاتی ہے۔ اور جو ان تمام واروں کو سہہ کر آگے بڑھتا رہے بس وہی سورما کہلاتا ہے۔
پھر میں خود ہی صابر دہلوی کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا۔ ان کا کلام تھاما اور اسے پڑھ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کی۔ اور مجھے ایک ایسے اچھے شاعر سے واقفیت ہوئی جو اپنے دور کے تمام مضبوط رجحانات کا ترجمان ہے۔ جس نے نعت سے لے کر غزل اور نظم تک ہر صنف میں جھنڈے گاڑے ہیں۔

نعت کا شعر ملاحظہ کیجیے:
بخشش کا غم نہ خوف عذاب و ثواب کا
دامن پکڑ لیا ہے رسالت مآب کا

اور غزل کے یہ چند شعر ہیں:

کبھی زمیں کے کبھی کھائے آسماں کے فریب
مرے نصیب میں لکھے تھے وہ جہاں کے فریب

کچھ اس طرح سے بھی ہوتی ہے قلب کو تسکین
کہ ہم نے جان کے کھائے ہیں پاسباں کے فریب

اور یہ کہ،
میری کشتی ہی نہیں بحر حوادث کا شکار
کس نے دریائے محبت کا کنارا دیکھا

وہ یہ کہتے ہیں کہ جب شعر سنے صابر کے
ایک جذبات کا بہتا ہوا دریا دیکھا

اور یہ کہ،
اپنا یہی عقیدہ ہے دنیائے عشق میں
جب دل حسیں نہیں ہے تو دنیا حسیں نہیں

اور یہ کہ،
مانا کہ اب کرم سے ہی پیش آئیے گا آپ
لیکن مذاق عشق کہاں پائیے گا آپ

مانا کہ اب رہے گا ہمیشہ میرا خیال
مانا کہ اب نہ ہوگا میری ذات سے ملال
مانا کہ اب نہ آئے گا لب پر کوئی سوال
مانا کبھی نہ اب مجھے ٹھکرائیے گا آپ
لیکن مذاق عشق کہاں پائیے گا آپ

ہم نے کیا ہے آپ کی باتوں کا اعتبار
ہم نے کیا ہے قلب خزیں آپ پر نثار
ہم نے کیا ہے دامن دل غم سے تار تار
یہ دیکھ کر بھی رحم جو فرمائیے گا آپ
لیکن مذاق عشق کہاں پائیے گا آپ

مانا کہ اب نہ ہوگی مری زندگی تباہ
مانا کہ اب نہ ہوگی کبھی قہر کی نگاہ
مانا کہ اب نہ ہوں گے کبھی جور بے پناہ
مانا کہ اشک آنکھوں میں بھر لائیے گا آپ
لیکن مذاق عشق کہاں پائیے گا آپ

صابر دہلوی کی شاعری میں مجھے نئے تجربے کا شوق بھی ملا۔ میرے مختصر اردو شاعری مطالعے میں کسی شاعر کی کھانسی پہ کوئی نظم نظر سے نہیں گزری۔ صاہر دہلوی کی کھانسی پہ یہ خوب صورت نظم ملاحظہ فرمائیے۔


اب غم انگیز ہو گئی کھانسی
پہلے سے تیز ہو گئی کھانسی

ڈاکٹر کی دوائیں کھا کھا کر
اور بھی تیز ہو گئی کھانسی

اسپ کی طرح دوڑتا ہوں میں
یعنی مہمیز ہو گئی کھانسی

رات دن سینہ کوبی کرتا ہوں
شاہ گردیز ہو گئی کھانسی

اس کی تعظیم اٹھ کر کرتا ہوں
بنت پرویز ہو گئی کھانسی

صابر دہلوی اپنے وقت کے ایک اہم شاعر تھے۔ ان کے دور میں ان کے دم سے مشاعروں کی رونق رہتی ہو گی۔ مگر ان تمام باتوں کے ساتھ ہمارے لیے صابر دہلوی یوں اہم ہیں کہ انہوں نے تاشی ظہیر صاحب کی پرورش کی ہے۔ صابر دہلوی یوں تو تاشی ظہیر صاحب کے دادا تھے مگر تاشی ظہیر صاحب کے والد کی غیر موجودگی کی وجہ سے صاہر دہلوی صاحب نے ہی باپ بن کر تاشی ظہیر صاحب کو پالا۔ اور صابر دہلوی صاحب نے یہ کام بخوبی کیا کہ خاندان میں جس ادبی ذوق کی روایت چلی آرہی تھی اس روایت کو انہوں نے اگلی نسل میں دونوں لڑکوں یعنی انوار انجم اور تاشی ظہیر تک بڑھا دیا۔ تاشی ظہیر صاحب کی ادبی کاوشوں کو دیکھ کر صابر دہلوی صاحب کی روح آج بھی طمانیت پاتی ہوگی۔

صابر دہلوی صاحب کی تصویر: بشکریہ تاشی ظہیر صاحب



Labels: , , , , ,


Saturday, June 07, 2008

 

فیض پہ ایک یادگار محفل کا انعقاد








فیضان فیض محفل
انڈین کمیونٹی سینٹر
مل پی ٹس ، کیلی فورنیا
جون ۱، ۲۰۰۸


فیض کا شمار ان گنتی کے چند اردو شعرا اور ادیبوں میں ہوتا ہے جنہیں ان کی زندگی میں ہی شہرت مل گئی۔ اپنے وقت کے سب سے طاقتور سیاسی رجحان کے زیر اثرفیض احمد فیض اشتراکی نظریات رکھتے تھے۔ ان کی سب سے موثر شاعری اشتراکی نظام کے بالاخر چھا جانے کی پیش گوئی سے متعلق ہے۔ ناقد کا یہ اعتراض درست نہیں کہ فیض مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے شاعر تھے جس نے محض مروجہ فیشن کے تحت اشتراکی فلسفے سے تعلق جوڑا تھا۔ کہ اگر پاکستان میں اشتراکی انقلاب آتا تو سب سے پہلے فیض کے ہاتھوں سے گراں ولایتی شراب کی بوتل اور انگلیوں سے مہنگی سگریٹ چھینی جاتی۔ فیض کوئی کمیونسٹ لیڈر نہیں تھے۔ وہ ایک شاعر تھے اور اپنے عہد کے سب سے بڑے سخنور تھے۔ ان کی شاعری میں توانائی تھی، ایسی طاقت جو آج بھی مظلوم کو جدوجہد کا سبق دیتی ہے، فتح کی نوید پہنچاتی ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم مظلوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
فیض کا انتقال ۱۹۸۴ میں ہوا۔ اگر وہ ۱۹۸۹ تک زندہ رہتے تو شاید سوویت یونین کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر جیتے جی مر جاتے۔

حمیدہ چوپڑہ صاحبہ اردو پڑھاتی رہی ہیں۔ اب وہ سان فرانسسکو بے ایریا میں باقاعدگی سے ایسی محفلیں منعقد کراتی ہیں جن میں گزرے شعرا اور ان کے کلام کو یاد کیا جاتا ہے۔حال میں انہوں نے ایسی ہی ایک محفل فیض احمد فیض کی یاد میں منعقد کی۔ محفل کا نام فیضان فیض رکھا گیا تھا۔ اور یہ بہت مناسب نام ہے کیونکہ یہ فیض کا اردو پہ، اور اس توسط سے ہم اردو بولنے والوں پہ، احسان ہے کہ انہوں نے ہماری زبان کو پا بہ جولاں، خوں بہ داماں سمیت سینکڑوں خوبصورت استعارے عطا کیے ہیں۔
فیضان فیض محفل کی صدارت پروفیسر لو شوڎیانگ نے کی جو بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے نگران اعلی ہیں۔ حمیدہ چوپڑہ صاحبہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور فیض پہ پڑھے جانے والے اپنے مقالے میں فیض کے حالات زندگی بیان کرنے کے علاوہ ان کے فن پہ بھی روشنی ڈالی۔ حمیدہ چوپڑہ نے کہا کہ، "فیض نے غم جاناں کو غم دوراں میں بڑی خوبی اور خوبصورتی سے سمویا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں، 'سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا وہ یہ تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا پہلے تو ممکن نہیں اور اگر ہو بھی تو نہایت غیر سودمند فعل ہے۔ انسان کی وسعت کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔ چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔"
مقامی شاعر تاشی ظہیر صاحب نے فیض کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔
گلشن یاد میں پھر آج مہک ہے تیری
اس محفل میں مندرجہ ذیل افراد نے فیض کی شاعری سے چنیدہ حصے سنائے۔
اروند کانسل
انشمن چندرا
ڈاکٹر جیوتی دھمدیر
تاشی ظہیر
خالدہ صاحبہ
انوپما دلال
پروفیسر انل چوپڑہ
ہتن ورما
فیضان فیض محفل میں دو سو سے اوپر لوگ شریک ہوئے۔ محفل کے اختتام پہ ایک آڈیو سی ڈی کا اجرا بھی ہوا۔ اس سی ڈی میں حمیدہ چوپڑہ صاحبہ نے فیض کی شاعری اپنے منفرد انداز میں پڑھی ہے۔

Labels: , , , , , , , , , , , ,


Monday, June 02, 2008

 

مشرف علی فاروقی کے قلم سےداستان امیر حمزہ کا ترجمہ





میں آج داستان امیر حمزہ کو یاد کروں تو مجھے بچپن کا بے فکری کا زمانہ یاد آتا ہے۔ فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ اب جب کہ امیر حمزہ کی فوج میں شامل لندھور سمیت بہت سے پہلوان گھائل ہو چکے ہیں امیر حمزہ کا کیا بنے گا۔ کیا عمرو عیار کوئی ایسی چال چلے گا کہ امیر حمزہ کو ان مشکل حالات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا؟

حیدرآباد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے مشرف علی فاروقی اب ٹورنٹو میں رہتے ہیں اور اپنے بچپن کی سب سے خوب صورت کہانی کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حال ہی میں مشرف فاروقی نے داستان امیر حمزہ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ رینڈم ہائوس نے شائع کیا ہے۔ اپنی اس کتاب کی نمو کے لیے مشرف فاروقی شمالی امریکہ کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں۔ مجھے ان کی گفتگو سننے کا موقع اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے بیکٹیل سینٹر میں ملا۔

Labels: , , , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?