Saturday, June 07, 2008

 

فیض پہ ایک یادگار محفل کا انعقاد








فیضان فیض محفل
انڈین کمیونٹی سینٹر
مل پی ٹس ، کیلی فورنیا
جون ۱، ۲۰۰۸


فیض کا شمار ان گنتی کے چند اردو شعرا اور ادیبوں میں ہوتا ہے جنہیں ان کی زندگی میں ہی شہرت مل گئی۔ اپنے وقت کے سب سے طاقتور سیاسی رجحان کے زیر اثرفیض احمد فیض اشتراکی نظریات رکھتے تھے۔ ان کی سب سے موثر شاعری اشتراکی نظام کے بالاخر چھا جانے کی پیش گوئی سے متعلق ہے۔ ناقد کا یہ اعتراض درست نہیں کہ فیض مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے شاعر تھے جس نے محض مروجہ فیشن کے تحت اشتراکی فلسفے سے تعلق جوڑا تھا۔ کہ اگر پاکستان میں اشتراکی انقلاب آتا تو سب سے پہلے فیض کے ہاتھوں سے گراں ولایتی شراب کی بوتل اور انگلیوں سے مہنگی سگریٹ چھینی جاتی۔ فیض کوئی کمیونسٹ لیڈر نہیں تھے۔ وہ ایک شاعر تھے اور اپنے عہد کے سب سے بڑے سخنور تھے۔ ان کی شاعری میں توانائی تھی، ایسی طاقت جو آج بھی مظلوم کو جدوجہد کا سبق دیتی ہے، فتح کی نوید پہنچاتی ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم مظلوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
فیض کا انتقال ۱۹۸۴ میں ہوا۔ اگر وہ ۱۹۸۹ تک زندہ رہتے تو شاید سوویت یونین کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر جیتے جی مر جاتے۔

حمیدہ چوپڑہ صاحبہ اردو پڑھاتی رہی ہیں۔ اب وہ سان فرانسسکو بے ایریا میں باقاعدگی سے ایسی محفلیں منعقد کراتی ہیں جن میں گزرے شعرا اور ان کے کلام کو یاد کیا جاتا ہے۔حال میں انہوں نے ایسی ہی ایک محفل فیض احمد فیض کی یاد میں منعقد کی۔ محفل کا نام فیضان فیض رکھا گیا تھا۔ اور یہ بہت مناسب نام ہے کیونکہ یہ فیض کا اردو پہ، اور اس توسط سے ہم اردو بولنے والوں پہ، احسان ہے کہ انہوں نے ہماری زبان کو پا بہ جولاں، خوں بہ داماں سمیت سینکڑوں خوبصورت استعارے عطا کیے ہیں۔
فیضان فیض محفل کی صدارت پروفیسر لو شوڎیانگ نے کی جو بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے نگران اعلی ہیں۔ حمیدہ چوپڑہ صاحبہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور فیض پہ پڑھے جانے والے اپنے مقالے میں فیض کے حالات زندگی بیان کرنے کے علاوہ ان کے فن پہ بھی روشنی ڈالی۔ حمیدہ چوپڑہ نے کہا کہ، "فیض نے غم جاناں کو غم دوراں میں بڑی خوبی اور خوبصورتی سے سمویا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں، 'سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا وہ یہ تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا پہلے تو ممکن نہیں اور اگر ہو بھی تو نہایت غیر سودمند فعل ہے۔ انسان کی وسعت کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔ چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔"
مقامی شاعر تاشی ظہیر صاحب نے فیض کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔
گلشن یاد میں پھر آج مہک ہے تیری
اس محفل میں مندرجہ ذیل افراد نے فیض کی شاعری سے چنیدہ حصے سنائے۔
اروند کانسل
انشمن چندرا
ڈاکٹر جیوتی دھمدیر
تاشی ظہیر
خالدہ صاحبہ
انوپما دلال
پروفیسر انل چوپڑہ
ہتن ورما
فیضان فیض محفل میں دو سو سے اوپر لوگ شریک ہوئے۔ محفل کے اختتام پہ ایک آڈیو سی ڈی کا اجرا بھی ہوا۔ اس سی ڈی میں حمیدہ چوپڑہ صاحبہ نے فیض کی شاعری اپنے منفرد انداز میں پڑھی ہے۔

Labels: , , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?