Monday, April 29, 2013

 

شغل اور شخصیت



اپریل انتیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پینتیس



شغل اور شخصیت




اس نءے دور میں زیادہ تر لوگ جبر کی زندگی گزارتے ہیں۔ جبر کی یہ زندگی  غلامی کی زندگی سے صرف ایک درجہ بہتر ہے کہ یہاں آپ کا مالک کوءی اور نہیں آپ خود ہیں اور آپ کی جبر کی زندگی خود آپ کی اختیار کردہ ہوتی ہے۔ مگر ہوتی پھر بھی یہ جبر کی زندگی ہے کہ آپ زندگی کے شکنجے میں یوں بری طرح گرفتار ہوتے ہیں کہ میکانیکی انداز سے زندگی کا ہر دن گزارتے ہیں۔ آپ ہفتے میں پانچ دن اور کبھی چھ دن یا ساتوں دن صبح سے شام کام کرتے ہیں اور طویل عرصے تک زندگی یوں ہی بسر کرتے جاتے ہیں کہ آپ کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی کہ اپنی زندگی پہ ایک نظر ڈال کر سوچیں کہ آپ کی سمت کیا ہے اور آپ اصل میں کہاں جانا چاہتے ہیں۔ اور یوں جبر کی زندگی گزارتے لوگ نہ جانے کس دن کی تیاری میں عمر کا بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں۔ وہ کل کی تیاری میں آج کا دن گنوا دیتے ہیں۔ کالی داس کی درج ذیل نظم 'اس دن کو دیکھو' زندگی پہ ایک لاجواب تبصرہ ہے۔

اس دن کو دیکھو، اس لمحے کو پہچانو
کہ یہ دن زندگی ہے، زندگی کی زندگی
کہ اس دن کے مختصر دورانیے میں
پنہاں ہیں تمہاری زیست کے تمام انداز
بالیدگی کا لطف
عمل کی عظمت
فتح یابی کا سرور
یہی تو ہیں زندگی کے انداز
کل جو گزر گءی محض ایک یاد ہے
اور فردا محض ایک خیال
آج کا دن جو اچھا گزرے، وہ بن جاتا ہے
گزری کل کی خوب صورت یاد
اور ایسا اچھا دن، فردا کو بناتا ہے،
ایک پرامید خیال
بس پہچان لو اس لمحے کی طاقت کو
یہی ہے ہر صبح نو کا پیام

پیشے انسان کی شخصیت پہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟  انسان جس شغل کو جس قدر وقت دیتا ہے وہ شغل اس شخص کی نفسیات پہ اسی قدر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک منشی [اکاوءنٹنٹ] اگر صبح سے شام تک رقم کو جوڑنے گھٹانے کا کام کرتا رہے گا تو یہ کام اس کے ذہن پہ یقینا اثرانداز ہوگا۔ اور یوں اپنے پیشے پہ بہت زیادہ وقت لگانے والے لوگ اسی پیشے کے حساب سے ڈھل جاتے ہیں۔ اسی لیے انسان کو کوءی بھی کام بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کہ ایک طرف تو وہ شخص وہ کام بنا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ کام  اس شخص کو بنا رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی طویل مدت والے کام کو شروع کرنے سے پہلے بغور جاءزہ لینا غوروفکر کی وہ منزل ہوتی ہے کہ جہاں انسان خود اپنے طور پہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ مستقبل میں وہ کس طرح کا روپ دھارنا چاہتا ہے۔

/div> 


Monday, April 22, 2013

 

ذکر پرویز مشرف کی بے حساب دولت کا


اپریل بیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چونتیس


ذکر پرویز مشرف کی بے حساب دولت کا


پاکستان کے لوگ بہت غصے میں ہیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے حکومتوں کی مسلسل ناکامی دیکھی ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت چاہے فوجی آءے یا جمہوری، ان کی پریشانیوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی کے بے مہار اضافے اور اسلحے کی فراوانی نے نت نءے مساءل کو جنم دیا ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ مواصلات کے انقلاب نے یہ آسان بنا دیا ہے کہ آپ اپنے خراب حالات میں بھی ٹی وی پہ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں دوسری جگہوں پہ لوگ کیسے سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس طرح کے مشاہدات سے پاکستانیوں کا اپنے حالات پہ عدم اطمینان اور اضطراب اور بڑھ رہا ہے۔ پھر ایسے میں پرویز مشرف جو قریبا پانچ سال پہلے صدارت کی کرسی سے ہٹے تھے، واپس پاکستان پہنچ گءے۔ لوگوں کو اپنا غم و غصہ نکالنے کے لیے ایک آسان ہدف مل گیا۔ مشرف پہ مقدمات کی بوچھاڑ کر دی گءی ہے۔ اب پرویز مشرف ہی پاکستان کی ہر خرابی کے ذمہ دار ٹہراءے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں کم لوگ ہیں جو ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ پرویز مشرف پہ چلاءے جانے والے مقدمات میں انتقامی جذبات کا کتنا بڑا دخل ہے۔
جہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو پرویز مشرف سے کسی نہ کسی بات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں وہیں دوسری طرف میڈیا میں ایسے افراد ہیں جو عوامی جذبات کو بھڑکا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں اور حقاءق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ اخبارات میں پرویز مشرف کے اثاثوں کی جعلی فہرستیں شاءع کی جار ہی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف ارب پتی ہیں۔ اس سلسلے میں زرد صحافت کے ان بدکار نماءندوں سے کوءی ثبوت بھی نہیں طلب کر رہا۔ اسی طرح چک شہزاد میں پرویز مشرف کے پانچ ایکڑ کے فارم کو کہیں تین ہزار ایکڑ اور کہیں پانچ ہزار ایکڑ کی زمین بتایا جا رہا ہے۔ ہوا کچھ ایسی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف ہر بات بلا تصدیق قبول کی جارہی ہے۔ مشرف کی بے حساب دولت کے ان دعووں کے تناظر میں ذرا غور کیجیے تو نظر آءے گا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف پہ تو مالی بے قاعدگیوں کے درجنوں مقدمات رہے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پہ پرویز مشرف پہ لوٹ مار کا ایسا کوءی مقدمہ موجود نہیں ہے۔
ان حالات میں ان لوگوں کی گواہی کی ضرورت ہے جو پرویز مشرف اور ان کے خاندان کو قریب سے جانتے ہوں۔
پرویز مشرف کے خاندان کے کچھ لوگوں کے کیلی فورنیا منتقل ہونے پہ مجھے ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے گھروں میں روپے پیسے کی وہ ریل پیل نظر نہیں آتی جو بھٹو خاندان یا نواز شریف کے خانوادے میں نظر آتی ہے۔ جن پاکستانی حکمرانوں نے اپنے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کے گول گپے بچے یا تو لندن میں ان جاءیدادوں کے حساب کتاب میں مصروف رہتے ہیں جو اس لوٹے ہوءے پیسے سے بناءی گءی ہیں، یا پاکستان اور دبءی کے درمیان آرام سے گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔  ایسے حکمرانوں کے بچے کیلی فورنیا میں نوکری کر کے اپنا پیٹ نہیں پالتے۔  ایسے حکمرانوں کے بچے سینٹا کلارا کے ایک موٹرمیکینک کی دکان پہ اپنی دس سالہ پرانی گاڑی کی مرمت کرواتے نظر نہیں آتے۔
پھر پرویز مشرف کے 'اربوں ڈالر' کہاں ہیں؟ شاءد یہ دولت محض مشرف کے دشمنوں کے ذہنوں میں ہے جہاں نفرت بھری ہر سانس کے دم سے یہ خیالی اثاثے دن بہ دن پھولتے جا رہے ہیں۔  
پرویز مشرف پہ داءر مقدمات کے سلسلے میں بہت سے معصوم لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت مشرف کے ساتھ انصاف کرے گی۔  لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستانی عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ جواب واضح ہے۔ ہماری عدلیہ بیرونی دباءو سے یقینا آزاد ہے مگر اپنے تعصبات سے آزاد نہیں ہے۔ عدلیہ 'آزاد' ہے مگر آزاد خیال نہیں ہے۔
پرویز مشرف پہ نومبر سات کی ایمرجنسی لگانے کا مقدمہ بالکل جاءز ہے مگر ایک بغاوت کا مقدمہ چلانا اور دوسری بغاوت کو بھول جانا کیونکہ اس بغاوت میں موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی برابر کے شریک تھے، انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔
پرویز مشرف پہ داءر مقدمات کے سلسلے میں مشرف کے وکلا کا موقف واضح ہونا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وکلا 'عدالتی انصاف' کے جس جھانسے میں آگءے تھے، پرویز مشرف کے وکلا کو اس جھانسے میں مشرف کو پھنسانے سے انکار کرنا چاہیے۔ مشرف کے وکلا کا واضح موقف ہونا چاہیے کہ جب تک افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس کے عہدے پہ براجمان ہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام میں ان ججوں کی اکثریت ہے جو سنہ دو ہزار سات کی ایمرجنسی سے چوٹ کھاءی بیٹھی ہے اس وقت تک پرویز مشرف کو پاکستانی عدالتوں سے انتقام تو مل سکتا ہے، انصاف نہیں۔




Monday, April 08, 2013

 

وہ داغ داغ اجالا


اپریل آٹھ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو بتیس



وہ داغ داغ اجالا



میں پاکستان بننے کے بہت بعد پیدا ہوا۔ جیسے جیسے میں نے ہوش سنبھالا مجھے ادھر ادھر سے معلوم ہوا کہ سنہ سینتالیس کے فسادات میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوءے تھے۔ پھر میں نے کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ میں نے 'علی پور کا ایلی' پڑھی اور 'شہاب نامہ' پڑھا۔ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ساتھ میں نے عبداللہ حسین کا ناول 'اداس نسلیں' پڑھا اور منٹو کے وہ افسانے پڑھے جو 'صبح آزادی' کے وحشت ناک دنوں سے متعلق ہیں۔ اسی طرح میں نے انگریزی میں لکھی جانے والی وہ کتابیں بھی پڑھیں جو جنوبی ایشیا کی انگریز سامراج سے آزادی کے متعلق تھیں مثلا لیری کولنس اور ڈومینیک لاپءیغ کی 'فریڈم ایٹ مڈناءٹ'، بپسی سدھوا کی 'آءس کینڈی مین' وغیرہ۔ مگر یہ سارا مواد پڑھنے کے باوجود سنہ سینتالیس کے فسادات سے متعلق تجسس برقرار رہا۔ فسادات کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟ وہ علاقے جو اس وقت پاکستان میں ہیں وہاں کن کن قصبوں اور دیہاتوں میں ہندو اور سکھ اکثریت میں تھے؟ وہ کون فسادی تھے جنہوں نے زمین کے ان قدیم باسیوں کو مارا اور ہجرت پہ مجبور کیا؟ اسی طرح وہ قصبے اور دیہات جو اس وقت ہندوستان کا حصہ ہیں وہاں کن جگہوں پہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور فسادات نے کس طرح وہاں کے مسلمانوں کو نقل مکانی پہ مجبور کیا؟ یہ سارے سوالات مستقل میرے تحت الشعور میں رہے۔ سنہ سینتالیس کے فسادات ہماری حالیہ تاریخ کا ایک دردناک اور اہم باب ہے مگر تاریخ کی کتاب کے اس خونی باب سے متعلق عام آدمی کی کہانیاں کسی نے نہیں جمع کی ہیں۔ میری طرح یقینا اور لوگ بھی اس متعلق تشنگی محسوس کرتے ہوں گے لیکن ایک جوان لڑکی جس کا نام گنیتا سنگھ بھلا ہے اس نے تشنگی محسوس کرنے پہ اکتفا نہ کی۔ سنہ سینتالیس کے فسادات میں بلواءیوں نے گنیتا کے دادا کو اپنے آباءی شہر لاہور سے ہجرت پہ مجبور کیا تھا۔ گنیتا نے ان فسادات کی کہانیاں اپنے بچپن میں سنی تھیں۔ جاپان میں ایٹم بم کی تباہی سے متعلق یادگار دیکھ کر گنیتا نے یہ بیڑا اٹھایا کہ وہ سنہ سینتالیس کے فسادات سے متعلق عام لوگوں کی کہانیاں جمع کرے گی۔ اور اس طرح '۱۹۴۷ پارٹیشن آرکاءیو' نامی منصوبے کا آغاز ہوا۔ جو لوگ سنہ سینتالیس میں عاقل و بالغ تھے اور فسادات میں بچ گءے، ان میں سے زیادہ تر لوگ دنیا سے گزر چکے ہیں۔ جو بچے ہیں اس وقت اسی یا اس سے اوپر عمر کے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی دور کا مشاہدہ کرنے والے وہ لوگ جو اب بھی زندہ ہیں ان کا جلد از جلد انٹرویو کیا جاءے اور ان کی کہانی ریکارڈ کر لی جاءے۔ گنیتا سنگھ بھلا کا ادارہ بالکل یہی کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے کارکنان ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش میں ان لوگوں کا انٹرویو کر رہے ہیں جنہوں نے سنہ سینتالیس کے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر کام بہت بڑا ہے اور رضاکاروں کی نفری تھوڑی ہے۔ پچھلے سنیچر کے روز پارٹیشن آرکاءیو نے ایک فنڈ ریزر کا اہتمام کیا۔ برکلی میں منعقد ہونے والی اس تقریب کی مہمان خصوصی بپسی سدھوا صاحبہ تھیں۔ تقریب کے ایک حصے میں دو ایسے لوگوں کی کہانیاں سنی گءیں جو سنہ سینتالیس میں ہوش سنبھالنے کی عمر میں داخل ہوءے تھے۔ ان کہانیوں میں علی شان صاحب کی کہانی ایسی غمناک تھی کہ اس کہانی کو سننے والا کوءی شخص ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ رواں ہوگءے ہوں۔
اور اب اس کالم کے پڑھنے والوں سے ہاتھ جوڑ کر ایک درخواست۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں جس نے سنہ سینتالیس کے فسادات خود دیکھے ہوں تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ پہلی فرصت میں ایک ویڈیو کیمرہ لے کر اس شخص کا انٹرویو کر لیں۔ اس انٹرویو میں اس شخص کی پوری کہانی سنیں اور خاص دھیان تاریخ، مقامات، اور ناموں پہ دیں۔ مثلا اگرایک مسلمان فسادات کی وجہ سے جالندھر سے اکھڑ کر موجودہ پاکستان میں آیا تو اس کی پوری کہانی کے ساتھ یہ معلومات اہم ہے کہ وہ جالندھر میں کہاں رہتا تھا [محلے کا نام، گھر کا پتہ]، کس تاریخ کو وہاں سے نقل مکانی پہ مجبور ہوا، اور وہ دوسرے مذہب کے کن لوگوں کو جانتا تھا اور ان سے میل ملاپ رکھتا تھا۔ اس انٹرویو کو پارٹیشن آرکاءیو کی ویب ساءٹ پہ ڈالا جا سکتا ہے۔ مگر انٹرویو کو شاءع کرنے کی بات ثانوی ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وقت ضاءع کیے بغیر ان بوڑھے لوگوں کا انٹرویو کر لیا جاءے جو سنہ سینتالیس کے فسادات سے متعلق معلومات رکھتے ہیں اور آپ کے آس پاس موجود ہیں۔ اگر اس طرح کی معلومات رکھنے والا شخص اپنی بات ریکارڈ کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو ہماری تاریخ کے اس اہم حصے سے متعلق ہماری معلومات ادھوری رہ جاءے گی۔


Monday, April 01, 2013

 

شرم



اپریل ایک، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اکتیس



شرم



اس وقت اس عورت کی عمرتیس سال سے کچھ اوپر ہوگی۔ پچھلے ہفتے میں نے اسے اپنے گھر بلایا۔ وہ اپنی دو لڑکیوں کے ساتھ میرے گھر آءی، ایک کتاب کی صورت میں۔ میں اس جوان عورت کی کہانی سننا چاہتا تھا؛ یہ جانتے ہوءے بھی کہ اس کی آپ بیتی دردناک ہے اور یہ کہانی مجھے شدید نفسیاتی گھاءو لگاءے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس عورت کی کہانی سن کر میں اندر سے ٹوٹ گیا۔ یہ داستان سن کر مستقل اپنے آپ سے یہ سوال کرتا رہا کہ آخر یہ ظلم اس عورت کے ساتھ کیوں ہوا۔ جب میں کسی کی کہانی سنتا ہوں اور اس کہانی میں کوءی تاریخ بتاءی جاتی ہے تو میں یہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس دن میں خود کیا کررہا تھا۔ اس طرح اس تاریخ پہ اپنی زندگی کو دیکھتے ہوءے مجھے احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں بیک وقت کیا کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں یوں غرق ہوتے ہیں کہ جیسے دنیا بھر میں اس سے زیادہ اہم بات تو کوءی ہو ہی نہیں رہی۔ میں جون سنہ اکیانوے میں کہاں تھا؟ میں جنوبی کیلی فورنیا میں تھا اور ایک اہم امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ بے فکری کا زمانہ تھے۔ باقاعدہ تعلیم ختم ہوچکی تھی اور نوکری سے اچھے پیسے مل جاتے تھے۔ میں امتحان کی تیاری کر رہا تھا اور ساتھ ہی ایک لمبے سفر کے لیے رقم جمع کر رہا تھا۔ اس وقت اس جوان عورت کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ یہ ساءوتھ لیک ٹاہو میں اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے ساتھ رہ رہی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی تھیں اور وہ گیارہ سالہ لڑکی ان چھٹیوں میں مصروفیت کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ ان ہی باتوں کو سوچتے ایک دن وہ گھر سے نکل کر سڑک کے اس کنارے تک جا رہی تھی جہاں اسکول بس رکتی تھی کہ اچانک ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی۔ بچی سے پتہ پوچھنے کے بہانے اسے گاڑی کے قریب بلایا گیا اور پھر جانوروں کو بجلی کا جھٹکا دینے والی اسٹن گن سے اس بچی پہ وار کیا گیا۔ یہ بچی بجلی کا جھٹکا کھاکر ادھر ہی فٹ پاتھ پہ گر پڑی۔ گاڑی چلانے والے آدمی نے ذرا سی دیر میں بچی کو اٹھا کر پچھلی سیٹ کے سامنے فرش پہ ڈال دیا۔ بچی پہ کمبل ڈال دیا گیا۔ یہ آدمی لڑکی کو لے کر اطمینان سے فرار ہوگیا اور گاڑی چلاتا ہوا ایک سو ساٹھ میل دور اینٹیوک میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ اس عورت کی بقیہ کہانی اٹھارہ سالوں پہ محیط ہے۔ ایک گیارہ سالہ بچی جو جنسی تشدد کا نشانہ بنی، اسی قید میں بلوغت تک پہنچی، اور پھر ماں بنی۔  ایک گیارہ سالہ بچی کو کوءی کچھ بھی بتا سکتا ہے؛ وہ اپنی معصومیت میں اس بات کا یقین کرجاءے گی۔ اس بچی کو یہ سمجھا دیا گیا کہ جو کچھ بھی خفیہ طور سے اینٹیوک کے اس گھر میں ہورہا تھا وہ بہت شرم کی بات تھی اور بہتر یہی ہے کہ وہ ان باتوں کو راز رکھے۔ اس بچی نے اٹھارہ سال تک اس بات کو راز رکھا۔ وہ اپنے اغواکنندہ کو بچا کر رکھتی رہی۔ وہ لڑکی اس شخص سے اتنی مانوس ہوگءی کہ جب اسے آزادی سے گھر میں گھومنے پھرنے کی آزادی ملی بھی تو وہاں سے فرار نہیں ہوءی۔ ایک خیال تو اس لڑکی کے ذہن میں یہ تھا کہ اس کے اغوا کی بات پرانی ہوگءی ہے، اب بھلا کون اس کو تلاش کررہا ہوگا؛ وہ فرار ہوکر کہاں جاءے گی۔  وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ، اتنے مانوس صیاد سے ہو گءے، اب رہاءی ملے گی تو مر جاءیں گے۔ اور پھر دوسرا خیال یہ تھا کہ اس کی کہانی ایک شرمناک راز ہے جو کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ مگر ایک دن یہ راز فاش ہو گیا۔ پھر خیرخواہوں کو ایک وقت لگا اس لڑکی کو یہ بات سمجھانے میں کہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں لڑکی کے لیے کوءی شرم کی بات نہیں ہے۔ شرم تو اس شخص کو آنی چاہیے جس نے اس درندگی کا مظاہرہ کیا۔  اس عورت کی کہانی ختم ہوچکی ہے مگر میں اپنے ذہن سے اس کہانی کو نکالنے سے قاصر ہوں۔ اس کہانی کے مختلف باب مستقل میرے ذہن میں دوڑتے رہتے ہیں۔ میں ملک شام میں ہونے والی جنگ کے بارے میں پڑھوں تو مجھے ان چھوٹی چھوٹی بچیوں کا خیال آتا ہے جو اس طواءف الملوکی میں بے سہارا ہوگءی ہوں گی اور موقع غنیمت جان کر درندے انہیں لے اڑے ہوں گے۔ میں بنگلہ دیش میں دلاور حسین سیدی کی حراست کے بارے میں پڑھوں تو مجھے سنہ ستر اکہتر کی شورش کا خیال آتا ہے۔ افراتفری کے ان دنوں بھی نہ جانے چھوٹے چھوٹے بچوں پہ کیا ظلم و ستم ہوا ہوگا۔ اور پھر سنہ سینتالیس کی غدربود کی طرف بھی ذہن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی عورت کا حال پڑھا تھا جو سنہ سینتالیس میں ایک سکھ گھرانے میں چھوٹی سی بچی تھی۔ اب وہ عورت ایک مسلمان گھر میں دادی اور نانی بنی ہوءی ہے۔ سنہ سینتالیس کی افراتفری میں سکھ گھر کی ایک بچی کسی مسلمان گھر کیسے پہنچی ، اس بارے میں آپ بھی میری طرح قیاس آراءی کر سکتے ہیں۔ اور اسی ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر منورحسن صاحب کا ایک انٹرویو بھی غور طلب ہے۔ اس انٹرویو میں منورحسن صاحب کا فرمانا تھا کہ زنا ایک شرمناک جرم ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس جرم کو مشتہر نہ کیا جاءے اور اگر کوءی ایسی بات ہو بھی جاءے تو اسے چھپا لیا جاءے۔ شکر ہے کہ منورحسن صاحب کا انٹرویو کرنے والا شخص ایک مرد تھا اور منورحسن کے سامنے مختاراں ماءی نہ تھی۔ مجھے تعجب نہ ہوتا کہ اگر مختاراں ماءی منورحسن کو گریبان سے پکڑ لیتی اور کہتی کہ تمھارے جیسے دو ٹکے کے راہ نما یہ چاہتے ہیں کہ مرد جو چاہے زیادتی کرتا رہے اور عورت 'شرم' کی اوٹ میں مرد کے جراءم پہ پردے ڈالتی رہے۔  عورتوں پہ ہونے والے ظلم کے شرم کو وہاں پہنچانا ضروری ہے جہاں اس شرم کا اصل مقام ہے۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?