Monday, April 29, 2013
شغل اور شخصیت
اپریل انتیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو پینتیس
شغل اور شخصیت
اس نءے دور میں زیادہ تر لوگ جبر
کی زندگی گزارتے ہیں۔ جبر کی یہ زندگی غلامی کی زندگی سے صرف ایک درجہ بہتر ہے کہ یہاں
آپ کا مالک کوءی اور نہیں آپ خود ہیں اور آپ کی جبر کی زندگی خود آپ کی اختیار
کردہ ہوتی ہے۔ مگر ہوتی پھر بھی یہ جبر کی زندگی ہے کہ آپ زندگی کے شکنجے میں یوں
بری طرح گرفتار ہوتے ہیں کہ میکانیکی انداز سے زندگی کا ہر دن گزارتے ہیں۔ آپ ہفتے
میں پانچ دن اور کبھی چھ دن یا ساتوں دن صبح سے شام کام کرتے ہیں اور طویل عرصے تک
زندگی یوں ہی بسر کرتے جاتے ہیں کہ آپ کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی کہ اپنی
زندگی پہ ایک نظر ڈال کر سوچیں کہ آپ کی سمت کیا ہے اور آپ اصل میں کہاں جانا
چاہتے ہیں۔ اور یوں جبر کی زندگی گزارتے لوگ نہ جانے کس دن کی تیاری میں عمر کا
بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں۔ وہ کل کی تیاری میں آج کا دن گنوا دیتے ہیں۔ کالی داس کی
درج ذیل نظم 'اس دن کو دیکھو' زندگی پہ ایک لاجواب تبصرہ ہے۔
اس دن کو دیکھو، اس لمحے کو
پہچانو
کہ یہ دن زندگی ہے، زندگی کی
زندگی
کہ اس دن کے مختصر دورانیے میں
پنہاں ہیں تمہاری زیست کے تمام
انداز
بالیدگی کا لطف
عمل کی عظمت
فتح یابی کا سرور
یہی تو ہیں زندگی کے انداز
کل جو گزر گءی محض ایک یاد ہے
اور فردا محض ایک خیال
آج کا دن جو اچھا گزرے، وہ بن
جاتا ہے
گزری کل کی خوب صورت یاد
اور ایسا اچھا دن، فردا کو
بناتا ہے،
ایک پرامید خیال
بس پہچان لو اس لمحے کی طاقت
کو
یہی ہے ہر صبح نو کا پیام
پیشے انسان کی شخصیت پہ
اثرانداز ہوتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟
انسان جس شغل کو جس قدر وقت دیتا ہے وہ شغل اس شخص کی نفسیات پہ اسی قدر
اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک منشی [اکاوءنٹنٹ] اگر صبح سے شام تک رقم کو جوڑنے گھٹانے کا
کام کرتا رہے گا تو یہ کام اس کے ذہن پہ یقینا اثرانداز ہوگا۔ اور یوں اپنے پیشے
پہ بہت زیادہ وقت لگانے والے لوگ اسی پیشے کے حساب سے ڈھل جاتے ہیں۔ اسی لیے انسان
کو کوءی بھی کام بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کہ ایک طرف تو وہ شخص وہ کام بنا رہا
ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ کام اس شخص کو
بنا رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی طویل مدت والے کام کو شروع کرنے سے پہلے بغور جاءزہ لینا
غوروفکر کی وہ منزل ہوتی ہے کہ جہاں انسان خود اپنے طور پہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ
مستقبل میں وہ کس طرح کا روپ دھارنا چاہتا ہے۔