Friday, February 23, 2007

 

کریگ جنتی ہے



ٹھیک ساڑھے پانچ بجے دروازے پہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو ایک شخص صاف ستھرے لباس میں ٹائی لگائے میرے سامنے موجود تھا۔
"ایلبرٹ" اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔
"ہاں، مجھے تمھارا ہی انتظار تھا" میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
یہ کہنے کے بعد میں اندر کی طرف پلٹا اور دروازے کے ساتھ پڑے ایک تھیلے کو اٹھا کر پھر نووارد کے سامنے پہنچ گیا۔
"یہ رہا تمھارا پرنٹر۔" میں نے تھیلا ایلبرٹ کو تھماتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ" اس نے تھیلے کے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔
"شکریہ تو دراصل تمھارا ہے کہ تم نے میرا یہ بوجھ ہلکا کر دیا" میں نے جواب دیا۔ ایلبرٹ مجھ سے الوداعی مصافحہ کر کے روانہ ہو گیا۔
میں اس پرانے پرنٹر کو ٹھکانے لگا کر واقعی بہت خوش تھا۔ دراصل یہ پرنٹر ایک منتقلی کے دوران ٹوٹ گیا تھا۔ مجھے پرنٹر سے نکلنے والے تار نظر آرہے تھے اور مجھے پورا یقین تھا کہ اگر مجھے یا کسی اور معمولی تعلیم یافتہ شخص کو یہ ناکارہ پرنٹر دیا جائے تو وہ کچھ وقت لگا کراس کی مرمت کرسکے گا اوراسے چالو کر دے گا۔ مجھے سال بھر سے بس وہ تھوڑا سا وقت نہیں مل پا رہا تھا اور میں اپنی خانہ بدوشی میں اس پرنٹر کو ایک ٹھکانے سے دوسرے ٹھکانے ڈھوتے ہوئے تھک گیا تھا۔اس پرنٹر کو میں کوڑے میں بھی نہیں پھینکنا چاہتا تھا۔
میں موجودہ دور کے رائج شدہ صارف معاشرے یعنی کنزیومر سوسائٹی کے تصور سے سخت نالاں ہوں۔ مجھے یہ جلدی جلدی چیزوں کو صرف کر کے کوڑے کے انبار لگانا اچھا نہیں لگتا۔ اسی لیے میں نہایت کنجوسی سے چیزوں کو استعمال کرتا ہوں۔ مستقل جدوجہد کرتا ہوں کہ چیزوں کو زیادہ سے زیادہ ہنڈائوں اورکم سے کم کوڑا نکالوں۔
میں خربوزے کے چھلکے بہت پتلے کاٹتا ہوں۔ جو لوگ میرے ہاتھ سے کٹا ہوا خربوزہ کھاتے ہیں وہ تنگ ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ خربوزے کے اندر سب سے نرم گودے والا حصہ کھانا چاہتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں قیام کے دوران مجھے لاکھ یقین دہانی کرائی جائے کہ گھر میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے میں بالٹی سے نہاتا ہوں۔ میرا دل نہیں مانتا کہ ایسی جگہ جہاں بہت سے لوگ پانی کے حصول کے لیے پریشان ہوں میں سخاوت سے اس میسردولت کو لٹائوں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی ایک ناکارہ پرنٹر کی جسے کوڑے میں پھینکنے کا دل نہیں تھا کیونکہ مجھے اچھی طرح پتہ تھا کہ اسے باآسانی صحیح کیا جا سکتا ہے، مگر اسے ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی ہمت بھی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ جب ایک دفعہ پھر سفر کا حکم صادر ہوا تو پرنٹر کو ٹھکانے لگانے کا خیال آیا۔ اب کی دفعہ ایک نئی ترکیب سمجھ میں آئی۔ میں نے کریگز لسٹ میں ایک اشتہار ڈالا کہ میرے پاس ایک ناکارہ پرنٹر ہے جو غالباً باآسانی صحیح کیا جا سکتا ہے۔ جسے چاہے وہ میرے گھر آ کر اسے مفت لے جائے۔ یہ اشتہارمیں نے ایک رات نو بج کر پانچ منٹ پہ کریگز لسٹ پہ ڈالا۔ اگلے پندرہ منٹ میں تین لوگوں نے مجھے ای میل بھیجیں اور پرنٹر اٹھانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ میں کریگز لسٹ کی مقبولیت اور افادیت کا قائل ہو گیا۔ میں نے فورا اس کی ویب سائٹ پہ جا کر اپنا اشتہار ہٹایا تاکہ اب مزید لوگ اس کا جواب نہ دے پائیں۔
اوپر جس ایلبرٹ کا ذکر ہے وہ میرے اشتہار کے جواب میں مجھے ای میل بھیجنے والوں میں سب سے پہلا تھا۔ میں نے اس سے طے کیا کہ وہ اگلے دن اپنی نوکری نمٹانے کے بعد ساڑھے پانچ بجے میرے پاس آئے گا اور پرنٹر لے جائے گا۔ اشتہار کے جواب میں ای میل لکھنے والے باقی دو لوگوں سے کہہ دیا کہ اگر پہلے نمبر پہ جواب دینے والے شخص نے حسب وعدہ پرنٹر نہ اٹھایا تو میں بالترتیب ان سے رابطہ کروں گا۔

کریگ نیومارک نے بارہ سال پہلے کریگز لسٹ شروع کی تاکہ لوگ ایک دوسرے سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ کر کے لین دین کر سکیں۔ کریگز لسٹ فلاحی طور پہ کام کرتی ہے اور ایک دو شعبوں کے علاوہ استعمال کرنے والوں کے لیے مکمل طور پہ مفت ہے۔ دنیا کے تیس سے زائد ممالک میں کثرت سے استعمال ہونے والی اس ویب سائٹ سے ہرروز لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں کتنے ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے بارہ سالوں میں اس نوعیت کے صدقہ جاریہ کے کام کیے ہوں؟

اگر مجھ سے کبھی پوچھا جائے گا کہ آیا کریگ نیومارک جنت میں جائے گا یا وہ مولوی جو روز نفرت سے بھرا زہر اگلتا ہے اور جس کی ذات سے خلق خدا کو ایک دھیلے کا فائدہ نہیں پہنچتا تو میرا جواب ہوگا کہ یقیناً کریگ نیومارک۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?