Monday, November 25, 2013

 

ترون تیج پال اور جنسیت


نومبرچوبیس،  دو ہزار تیرہ 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پینسٹھ


ترون تیج پال اور جنسیت
Tarun Tejpal and Sex in South Asia


زندگی کے مختلف نمونے اپنی ہمت سے مجھے حیران کردیتے ہیں۔ میں پیدل چلتے ہوءے فٹ پاتھ کے ساتھ سڑک پہ نکاسی آب باراں کے نظام کو غور سے دیکھتا ہوں۔ وہاں سخت سڑک اور لوہے کی جالی کے درمیان جھری میں بس ہلکی سے مٹی کہیں سے آ پہنچی ہے۔ بس اتنی مٹی ہی گھاس اور دوسرے چھوٹے پودوں کے لیے کافی ہے۔ وہ نباتاتی نمونے سخت جانی سے وہاں موجود ہیں۔  زندگی کے ہرنمونے کی سب سے زیادہ دلچسپی زندگی برقرار رکھنے میں ہے: کھانے پینے اور اپنی جان بچانے میں، اور اپنی نسل آگے بڑھانے میں۔
میں جب پاکستان سے امریکہ پہنچا تو میرا پہلا ٹھکانہ ایمز، آءیوا تھا۔  ایمز اطراف کے علاقے سے یکسر مختلف قصبہ تھا کہ وہاں ایک بہت بڑی جامعہ تھی جہاں دنیا بھر سے آءے ہوءے طلبا پڑھتے تھے۔ ایمز سے باہر نکل جاءیے تو میلوں کھیت ہی کھیت تھے۔ ان کھیتوں کے درمیان ہی ڈنگر باڑے نظر آتے تھے۔ میرے ساتھ کءی ایسے طلبا پڑھتے تھے جو کسان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی موقع پہ گفتگو جانوروں اور انسانوں کی، نسل آگے بڑھانے کی خواہش پہ ہورہی تھی۔ مقامی کسان کے ایک لڑکے نے مجھے اپنا مشاہدہ بتایا تھا کہ بیل کو گاءے سے کچھ عرصہ دور رکھا جاءے اور پھر ایک گاءے کو ایک ایسے بیل کے سامنے لایا جاءے جو باڑھ کے ایک طرف ہو، تو بیل اپنی مستی میں باڑھ توڑ کر گاءے تک پہنچ جاتا ہے۔ نسل بڑھانے کی یہ شدید خواہش ہر طرح کے جانور کے نر میں بہت واضح نظر آتی ہے۔ اشرف الحیوانات کے اندر بھی یہ حیوانی جبلت بدرجہ اتم موجود ہے۔
بیس پچیس ہزار سال پہلے تک جب زراعت دریافت نہیں ہوءی تھی اور انسان نے بستیوں کی شکل میں رہنا نہیں شروع کیا تھا، شاید انسان اپنی دیگر حیوانی جبلتوں کی طرح افزاءش نسل کی خواہش کو بھی دوسرے جانوروں کی طرح زور و زبردستی سے پورا کرتا ہوگا یعنی اس وقت کا مرد اپنی طاقت کے حساب سے دوسرے مردوں کو پچھاڑ کر جس عورت سے چاہے اختلاط کرتا ہوگا۔ مگر پھر زمانہ بدلا۔ انسان نے پودوں اور جانوروں کو اپنے قابو میں کیا، زراعت اور گلہ بانی شروع ہوءی اور انسان ٹہر گیا۔ اس نے بستیوں میں رہنا شروع کیا۔ انسان نے آدم خوری چھوڑی اور مختلف انسانی بستیوں نے وہ اصول وضع کرنے شروع کیے جن کے تحت ان بستیوں کے لوگ رہتے تھے۔ جاءیداد کا تصور ابھرا اور اس کے ساتھ ترکے کے قوانین بنے۔ اب انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں سے چھین کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ جہاں انسان کی دوسری حیوانی جبلتوں کو چند اصولوں کے تحت پابند کیا گیا وہیں اس کی افزاءش نسل کی خواہش کو بھی قوانین سے باندھا گیا۔
دنیا بھر میں پھیلے مختلف انسانی گروہ کسی نہ کسی طور کی اخلاقی اقدار اور قوانین کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار اور قوانین انسان کی حیوانی جبلت کو ایک خاص راستہ دیتے ہیں جو اس گروہ کے تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔ جو معاشرے انسان کی ان ضروریات کو سمجھتے ہوءے انسان کو جس قدر ممکن ہو آسانیاں دیں، وہاں لوگوں کے لیے معاشرے کے بتاءے گءے راستے پہ چلنا آسان ہوتا ہے۔ جہاں انسان کی بنیادی ضرورتوں کو ہی نہ سمجھا جاءے اور انہیں حرام کہہ کر ان پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاءے وہاں انسان کی حیوانی جبلت عجیب و غریب راستے اختیار کرتی ہے۔ یہ ملا، یہ پیر،یہ راہب، یہ پروہت، یہ پنڈت، یہ پادری—یہ سارے مذہبی پیشوا جو اپنے ماننے والوں کو تزکیہ نفس کا درس دیتے ہیں خود ہر طرح کے جنسی اسکینڈل میں ملوث پاءے جاتے ہیں۔
خیال ہے کہ ترقی پسند لوگ اس پورے معاملے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہی حیوانی جبلت جو مولویوں اور پادریوں میں موجود ہے، روشن خیال لوگوں میں بھی ہے۔ مگر ترقی پسند لوگ سمجھتے ہیں کہ ارتقا کی اتنی منازل طے کرنے کے بعد مرد کو مست بیل سے زیادہ باشعور ہونا ہے۔ مست بیل کے سامنے گاءے کی مرضی نہ چلے، مگر انسانوں میں مرد اور عورت مساوی درجہ رکھتے ہیں۔  افزاءش نسل کی تسکین کی خواہش میں عورت کی بھی اتنی ہی مرضی ہونی چاہیے جتنی مرد کی ہو۔ اگر ایک مرد کا دل کسی عورت پہ ہے تو مرد کو چاہیے کہ اس عورت سے بات کرے اور پھر دونوں اپنی باہمی اخلاقی اقدار کے حساب سے بات کو آگے بڑھاءیں۔ ایک مہذب معاشرے میں تسکین افزاءش نسل میں زور وزبردستی کی کوءی گنجاءش نہیں ہے۔ چنانچہ تہلکہ میگزین کے ایڈیٹر ترون تیج پال کے بارے میں ایسی خبر پڑھ کر افسوس ہوا۔ الزام تھا کہ ترون تیج پال نے ایک ساتھی خاتون کو جنسی طور پہ ہراساں کیا۔ بعد میں تیج پال نے خود بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اس خبر پہ افسوس اس لیے ہوا کیونکہ تہلکہ ایک لبرل میگزین ہے اور تیج پال ایک نہایت روشن خیال صحافی خیال کیے جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں جہاں اور شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں عورت سے متعلق معاشرے کے رجحانات پہ بھی کام کرنا ضروری ہے۔ انسان کی بنیادی جبلتوں پہ پردہ ڈالنے کے بجاءے ان کے متعلق کھل کر بات کرنے اور عورت کو قانون کا مکمل تحفظ فراہم کرنے ہی سے ہم ایک ایسا منصف معاشرہ قاءم کرسکیں گے جہاں مرد کو قانون کے شکنجے کا ڈر ہو اور عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ بے خطر کام کرسکے۔

Labels:


Monday, November 18, 2013

 

کتے کی موت اور آخرت کے فیصلے



نومبرسترہ،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چونسٹھ

کتے کی موت اور آخرت کے فیصلے


بات شروع ہوءی کتے کی موت سے اور پہنچی اپنے منطقی انجام تک، یعنی اس بات تک کہ جب دو مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے میں ایک ہلاک ہوجاءے تو کیا ہلاک ہونے والا شہید کہلاءے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا بیان تھا بھی اس قدر اشتعال انگیز کہ اس پہ ہونے والا واویلا عین مناسب تھا۔ منور حسن نے فرمایا کہ جو پاکستانی فوجی، طالبان سے لڑاءی میں ہلاک ہورہے ہیں وہ شہید نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ منور حسن سے یہ پوچھنا عین مناسب تھا کہ صاحب آپ کو کس نے شہادت کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا حق دیا ہے؟ مگر منور حسن کی بات شہادت کی اہلیت سے زیادہ گہری تھی۔ ان کا پیغام دراصل ان پاکستانی فوجیوں کے لیے تھا جو اس وقت طالبان سے برسرپیکار ہیں۔ منور حسن نے اپنے بیان کے ذریعے آج طالبان سے لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ طالبان سے نہ لڑیں، طالبان کو اپنی من مانی کرنے دیں، کیونکہ طالبان سے لڑکر یہ فوجی ہرگز شہادت کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منور حسن کے اس بیان پہ پاکستانی حکومت کے وکیل ان پہ بغاوت کا مقدمہ داءر کرتے مگر ایسا نہ ہوا۔ صرف فوج نے تڑپ کر منور حسن کے خلاف ایک بیان دیا۔ فوج کے اس بیان کے جواب میں جماعت اسلامی کی ثانوی درجے کی قیادت نے یہ موقف اختیار کیا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کوءی جماعت اسلامی سے پوچھے کہ شہادت کی اہلیت کا معاملہ سیاسی کہاں سے ہوگیا؟ آپ فوجیوں کو بغاوت پہ اکساءیں اور چاہیں کہ فوج اس معاملے میں خاموش رہے، یہ کیسے ممکن ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کی مسلمان سے لڑاءی میں شہادت کی اہلیت کی بحث قطعی غیرصحتمند ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ سارے معاملات جن کا فیصلہ روز جزا کے روز ہونا ہے، ان کے متعلق بحث کرنا واقعی فضول ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے ان حالات میں یہ بحث لوگوں کا شعور بیدار کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کو کس قسم کے حالات کا سامنا ہے؟ حالات یہ ہیں کہ ایک عسکری گروہ، یعنی طالبان، یہ دعوی کررہا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت پہ قبضہ کر کے 'شریعت محمدی' نافذ کرنا چاہتا ہے۔ ملک کی اکثریت مسلمان ہے اور اس کے لیے 'اسلام' کا نام ہی کافی ہے چاہے اس نام کے پیچھے کتنا  ہی جھوٹ بولا جارہا ہو۔ راءے عامہ کی اس صورتحال میں، عوام کی طالبان سے اس طرح کی ہمدردی میں پاکستانی فوج کس طرح اس گروہ سے موثر جنگ کرسکتی ہے؟ چنانچہ ضرورت ہے اس بات کی کہ شہادت کی اہلیت جیسی باتیں کھل کر ہوں۔ یہ بات کھل کر ہو کہ کس قرآنی حکم سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک گروہ ڈنڈے کے زور پہ سب کو بتاءے کہ 'صحیح اسلام' کیا ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون کس قدر اچھا مسلمان ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ خود کش حملوں کی مذہبی حیثیت کیا ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ 'نظام مصطفی' کیا ہے اور کس کو یہ اختیار دیا جاءے کہ وہ اس نظام کا چیمپءن بن کر سب کو بتاءے کہ اس نظام میں کیا کچھ ہونا چاہیے۔ اور یہ بات ہو کہ مسلمانوں میں آج کءی فرقے ہیں؛ وہ سب ایک قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآنی احکامات سے متعلق ایک دوسرے سے جدا فہم رکھتے ہیں، تو کون فیصلہ کرے گا کہ کس کا اسلام بالکل ٹھیک اسلام ہے اور باقی گروہوں کا غلط؟
  


Labels: , , , , , , ,


Monday, November 11, 2013

 

پوپ فضل اللہ


نومبردس،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو ترسٹھ

پوپ فضل اللہ

طالبان کی پاکستان میں ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ بہت سے معصوم لوگ قاءل ہوچکے ہیں کہ طالبان پاکستان میں سچا اسلامی معاشرہ قاءم کرنا چاہتے ہیں؛ کہ طالبان پاکستان میں حقیقی شریعت محمدی نافذ کریں گے۔ پاکستان کے بہت سے لوگ جو اسلام سے والہانہ محبت کرتے ہیں اس بہکاوے میں آجاتے ہیں کہ جو شخص قرآن کی دوچار آیتیں پڑھ کر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کررہا ہے وہ واقعی اسلام کا اصل سپاہی ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علماءے اسلام سے لے کر طالبان تک جو گروہ اسلام کی بات کرتے ہیں، بہت سے لوگوں پہ جادو سا کردیتے ہیں۔  اور پاکستان میں اسلام کا نام ایسا ترپ کا پتہ ہے کہ بڑے بڑے اس کے آگے بات کرتے کپکپاتے ہیں۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ بات کھل کرہوجاءے کہ اسلام کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار ہم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ 'اسلامی نظام' نہیں بلکہ اپنی مرضی کا وہ نظام ہم پہ مسلط کرنا چاہتے ہیں جس پہ یہ اپنی پسند کےاسلام کا تڑکا لگاءیں گے۔ یہ لوگ ملک میں ایسا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں ان کی مرضی چلے۔ اسلام عیساءیت سے اس طرح مختلف ہے کہ اس میں پاپاءیت کا تصور نہیں ہے۔ ہمارے نبی کی وفات کے بعد اس بات کی قطعا گنجاءش نہیں ہے کہ کوءی شخص یا گروہ 'اسلام' کا نام اپنی چودھراہٹ کے لیے استعمال کرے اور باقی مسلمانوں کو بتاءے کہ کس کا اسلام صحیح ہے اور کس کا غلط ۔ نہ ہم جماعت اسلامی کے امیر کو اپنا پوپ مانتے ہیں اور نہ ہی طالبان کے سربراہ کو۔ جو لوگ پوپ فضل اللہ کو اسلام کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ وزیرستان جا کر طالبان کے ساتھ رہنے لگیں اور باقی ملک پہ اپنے کچے پکے خیالات تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔
ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں کءی جگہ آزادی کی تحریکیں کام کررہی ہیں؛ بہت سے گروہ اپنی مرضی کا نظام کسی مخصوص علاقے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور بہت جگہ ایسا ہے کہ ایسے گروہوں کے قبضے میں پہلے ہی ایک بڑا علاقہ ہے۔ تو پھر یہ مستقل کشت و خون کیوں؟ یہ لوگ اپنی مرضی کا نظام اپنے زیراثر علاقے میں کیوں نافذ نہیں کردیتے؟ یہ دنیا کے سامنے اپنے خیالات کی ایک عملی مثال کیوں نہیں بنا کرپیش کردیتے؟ طالبان شمالی وزیرستان کو ایک مثالی اسلامی معاشرہ کیوں نہیں بنادیتے؟ اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ طالبان نے یا کسی اور گروہ نے ایک خاص علاقے میں ایک ایسا منصف معاشرہ قاءم کردیا جس کی دھوم دنیا میں ہوگءی اور دنیا بھر سے لوگ اس جگہ جانے کے لیے ایسے ہی تڑپنے لگے جیسا کہ آج امریکہ، کینیڈا، اور دوسرے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے تڑپتے ہیں تو پھر منصف معاشرہ بنانے والوں کو اس نظام کو دوسری جگہ نافذ کرنے کے لیے ڈنڈے کا سہارا نہ لینا پڑے گا۔ ہم ان سے خود درخواست کریں گے کہ وہ براءے مہربانی ہمیں بھی اسی طرح کا منصف نظام بخشیں۔ مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ آپ نے اپنے نظام کا وہ عملی مظاہرہ نہیں کیا ہے جسے دیکھ کر سب واہ واہ کریں [یا کیا ہے جیسا کہ سوات میں یا افغانستان میں، تو لوگوں نے کان ہی پکڑے ہیں؛ آپ کے اس نظام سے لوگ بھاگے ہی ہیں؛ سواءے ایک آدھ جنونیوں کے، کوءی آپ کے پاس دوڑ کر نہیں گیا]۔ اپنے قابل تقلید نظام کا عملی مظاہرہ نہ کرنے کے باوجود آپ کی خواہش ہے کہ پورا پاکستان آپ کے حوالے کردیا جاءے اور وہاں آپ اپنی خوب مرضی چلاءیں۔ کون بے وقوف ہے جو آپ کو ایسا کرنے کی اجازت دے گا؟ [سواءے چند نادانوں کے جن کے لیے 'اسلام' کا نام ہی کافی ہے چاہے اس نام کے پیچھے کتنا ہی بڑا فراڈ کھیلا جارہا ہو۔]
اور اپنے زیراثر علاقے میں اپنی مرضی کا نظام قاءم کر کے دنیا کو دکھانے کا یہ چیلنج جنوبی ایشیا کی دوسری آزادی کی تحریکوں کے لیے بھی ہے۔ خاران، آواران، پنجگور میں رہنے والے بلوچ ان علاقوں میں اپنی مرضی کا مثالی معاشرہ کیوں قاءم نہیں کردیتے؟ کشمیری حریت پسند بارہ مولا، بانڈی پور کو ایسی مثالی جگہیں کیوں نہیں بنا دیتے جسے دیکھ کر دنیا قاءل ہوجاءے کہ واقعی کشمیر کی آزادی کے بعد یہ لوگ اپنے علاقے کے لیے زبردست کام کریں گے؟ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ ایسی مثالی بستیوں میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ہماری جان و مال محفوظ ہوں، ہمارے بچوں کی تعلیم کا انتظام ہو، صحت عامہ کی سہولیات میسر ہوں، سڑکوں کے کنارے درخت لگے ہوں، جگہ جگہ کوڑا نہ پڑا ہو، اور گٹر نہ بہا کریں۔ آپ اپنے زیرانتظام علاقوں میں ہمیں ایسی بستیاں کیوں نہیں دے دیتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان تمام تحریکوں کی سب سے بڑی طاقت دوسروں سے نفرت اور مستقل تشدد سے ہے؛ یہ تحاریک چلانے والے لوگ قتل و خون کی سیاست سے باہر کوءی تعمیری سوچ نہیں رکھتے؟

Labels: , , , , , , , , , , , ,


Sunday, November 10, 2013

 

منصف معاشرہ، معذوری


نومبر تین،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو باسٹھ


منصف معاشرہ، معذوری

کہا جاتا ہے کہ 'سب انسان برابر ہیں'۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ اس بات کا محض یہ مطلب ہے کہ مہذب معاشرے میں قانون کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔ اس دنیا پہ نظر دوڑاءیے۔ آپ کو انسانوں کے درمیان فرق صاف نظر آءیں گے۔ کچھ دراز قد ہیں، کچھ پستہ قد ہیں، کچھ موٹے ہیں، کچھ دبلے ہیں، کسی کے بالوں کا رنگ کچھ ہے، کسی کا کچھ اور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کسی بھی کام کے لیے امیدوار کے انتخاب کے وقت 'تعصب' سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ 'تعصب' عموما تعلیم سے متعلق روا رکھا جاتا ہے۔ مثلا اگر مجھے ایک اکاءونٹینٹ کو ملازم رکھنا ہے اور میرے سامنے دو امیدوار ہیں؛ ایک جس نے اکاءونٹنگ پڑھی ہے اور دوسسرا وہ جس نے کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ہے تو میں یقینا اکاءنٹنگ پڑھنے والے امیدوار کو ملازمت دوں گا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ 'سب انسان برابر ہیں' اس لیے پہلے آنے والے امیدوار کو نوکری ملے گی۔ 'قانون کے سامنے سب انسان برابر ہیں' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوانین کا اطلاق انسانوں کے ان اختلافات کی بنیاد پہ نہ کیا جاءے گا جو یا تو پیداءشی ہیں یا ان کا تعلق منصب؛ معاشی تعلق؛ یا لسانی، مذہبی، یا گروہی شناخت سے ہے۔ جو معاشرے منصف ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور اور روایتی طور پہ دبے ہوءے گروہوں کی خاص طور پہ مدد کریں تاکہ یہ لوگ اپنی اول کمزور کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جاءیں۔ آج کل کیونکہ خیال باری کی طباعت سوءم پہ کام جاری ہے اس لیے اس کتاب میں شامل ہر مضمون کو تنقیدی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں معذوری سے متعلق یہ مضمون ملاحظہ فرماءیے۔
کیا ہم معذوروں کو محتاجی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جاءے تو ہر شخص کسی نہ کسی طور سے معذور ہے۔ مگر ظاہر کو اہمیت دینے کے باعث ہم عموما ان لوگوں کو معذور کہتے ہیں جن کی معذوری عام مشاہدے میں آسکے۔ انسان پیداءش کے بعد دنیا کے بارے میں تمام علم حواس خمسہ کی مدد سے حاصل کرتا ہے۔ پھر وہ فیصلہ کرتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ عمل کرنے کے لیے یا تو اس کو بولنا اور لکھنا ہوتا ہے یا پھر چلنا پھرنا اور ہاتھ سے کام کرنا ہوتا ہے۔ اس درجہ بندی کو ذہن میں رکھا جاءے تو معلوم ہوگا کہ معذوری کی تین شکلیں ہوسکتی ہیں۔ حواس خمسہ سے معذوری، سوچنے سمجھنے سے معذوری، یا بولنے، چلنے یا ہاتھ پاءوں سے کام کرنے سے معذوری۔
حواس خمسہ سے معذوری
دوسرے حواس کے مقابلے میں سونگھنے اور چکھنے کے حواس کو ایک عام زندگی میں علم حاصل کرنے کے معاملے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ ان حواس سے معذوری ممکن ہے مگر یہ عام مشاہدے میں نہیں آتی۔ کسی شخص کی زندگی میں چھو کر محسوس کرنے کی بے انتہا حیثیت ہے۔ کبھی کسی کے جسم کا کوءی حصہ مفلوج ہوجاءے تو اس حس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مذکورہ تین حواس کے مقابلے میں سماعت اور بیناءی سے معذوری کہیں زیادہ سنگین ہوجاتی ہے۔
کوءی بھی شخص جب کوءی بات کہتا ہے تو دوسروں کو سنانے کے علاوہ اپنی کہی ہوءی بات خود بھی سنتا ہے۔ جو لوگ پیداءشی طور پہ سماعت سے محروم ہوتے ہیں وہ گویاءی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ بعد کی عمر میں سماعت سے مکمل طور پہ محروم ہوجاءیں ان کو بھی گفتگو میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی کہی ہوءی بات خود سن نہیں پاتے۔ اسی طرح اونچا سننے والے لوگ چلا کر بولتے ہیں؛ وہ دراصل خود کو سننے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
سماعت سے محروم لوگوں سے اشاروں کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ اشاروں کی زبان سے مفہوم یا تو ہاتھوں کے اشاروں سے بیان کیا جاتا ہے یا پھر انگلیوں کے اشاروں سے ہجے کر کے سمجھایا جا سکتا ہے۔ مثلا اگر لفظ 'گھر' کہنا ہو تو یا تو ہاتھ کے اشارے سے گھر بنایا جا سکتا ہے یا پھر انگلیوں کے اشارے—مٹھی کھلی یا بند، اور مختلف انگلیاں گری یا اٹھی، مختلف حروف تہجی ظاہر کرتی ہیں—سے گ ھ  ر  توڑ کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سماعت سے محروم بچوں کو ابتداءی عمر ہی میں شناخت کر لیا جاءے اور ان کے لیے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا جاءے۔
ساءنس کی ترقی کی بدولت اب جو کچھ  ایک عام شخص آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے وہی ایک نابینا شخص چھو کر محسوس کرسکتا ہے۔ انیسویں صدی میں ایک نابینا فرانسیسی استاد نے ابھرے ہوءے نقطوں کی ایک زبان ایجاد کی جسے اس استاد کے نام پہ بریل کہا جاتا ہے۔ بریل کے ہر سیل میں چھ نقطے ہوتے ہیں۔ کسی بھی سیل میں مختلف ابھرے ہوءے نقطے مختلف حروف تہجی ظاہر کرتے ہیں مثلا انگریزی زبان کے حرف 'اے' کے لیے صرف باءیں ہاتھ کا سب سے اوپر والا نقطہ ابھرا ہوا ہوتا ہے، اس سیل کے باقی پانچ نقطے گرے ہوءے ہوتے ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان کی الگ بریل ہوسکتی ہے۔ 
نابینا افراد کو بچپن ہی سے بریل کی تعلیم دی جانی چاہیے۔ بریل پہ اچھی طرح مشق کے بعد نابینا افراد اتنے ماہر ہوجاتے ہیں کہ جو کچھ آپ جتنی دیر میں دیکھ کر پڑھیں، اسی تحریر کو ایک نابینا فرد بریل میں چھو کر پڑھ سکتا ہے۔ جس طرح آپ ہر لفظ کو ہجے کر کے نہیں پڑھ رہے ہوتے اسی طرح نابینا افراد بھی کسی لفظ کو چھونے کے بعد اس کو ہجے کر کے نہیں پڑھتے بلکہ ابھرے ہوءے لفظ پہ سرعت سے انگلی پھیر کر پورے لفظ کو پڑھ لیتے ہیں۔
نابینا افراد کے ہاتھ میں سفید چھڑی ضرور ہونی چاہیے۔ راستہ تلاش کرنے میں چھڑی سے عموما تین طرح کے کام لیے جاتے ہیں:
1-                        چلتے ہوءے، چھڑی کو داءیں باءیں گھمانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ راستہ کتنا چوڑا ہے اور آگے کوءی رکاوٹ ہے یا نہیں۔
2-                        سیڑھی آنے پہ چھڑی کی مدد سے سیڑھی کی گہراءی یا اونچاءی کا جاءزہ لیا جاتا ہے۔
3-                       گڑھا آنے پہ چھڑی کی مدد سے گڑھے کی چوڑاءی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تاکہ اسے عبور کیا جاسکے۔
سفید چھڑی کا ایک اور فاءدہ یہ ہے کہ اس سے نابینا افراد کی شناخت ہوجاتی ہے اور دوسرے لوگ ان کو راستہ دے سکتے ہیں یا کسی اور طریقے سے ان کے معاون بن سکتے ہیں۔ بعض نابینا افراد سفید چھڑی کے علاووہ ایک کتا بھی ساتھ لے کر چلنا پسند کرتے ہیں۔
ایک عرصے تک نابینا افراد بریل کی مدد سے پڑھ تو سکتے تھے مگر لکھنا ایک مشکل معاملہ تھا۔ کمپیوٹر نے یہ مشکل بھی حل کردی۔ نابینا افراد کے لیے کمپیوٹر کے ساتھ ایک بریل ڈسپلے ہوتا ہے۔ [کمپیوٹر پہ کام کرنے والے بہت سے نابینا افراد ایسے سافٹ وءیر بھی استعمال کرتے ہیں جو اسکرین پہ لکھے کو بول کر بتاتے ہیں]۔ اس طرح نابینا افراد کمپیوٹر کو کتابت کے علاوہ پروگرامنگ کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ وہ کی بورڈ کے ذریعے اپنا پروگرام ٹاءپ کرتے ہیں، پھر بریل ڈسپلے کو چھو کر اطمینان کرتے ہیں کہ انہوں نے پروگرام صحیح ٹاءپ کیا ہے۔ پروگرام چلانے پہ کمپیوٹر نتاءج بریل ڈسپلے پہ ظاہر کردیتا ہے۔ اس ڈسپلے کو چھو کر نتاءج کا جاءزہ لیا جاتا ہے اور پھر ایک عام پرنٹر پہ پرنٹ آءوٹ نکال لیا جاتا ہے۔ اگر کمپیوٹر کے ساتھ ایک بریل پرنٹر [امبوسر] بھی منسلک ہو تو نابینا افراد خود اپنے لیے بھی پرنٹ آءوٹ نکال سکتے ہیں۔
[اسی مضمون میں 'چلنے پھرنے سے معذوری' اور 'ذہنی معذوری' پہ بات کی گءی ہے۔ مضمون کا وہ حصہ 'خیال باری' میں پڑھا جاسکتا ہے۔]


Saturday, November 02, 2013

 

بیس برس

اکتوبر ستاءیس،  دو ہزار تیرہ
  
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکسٹھ

بیس برس

اگر آپ کو بے حس بن جانے کا شوق ہو اور آپ چاہیں کہ آپ کے اندر سے انسانیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی جاءے تو آپ پاکستان کے اخبارات باقادگی سے پڑھا کریں۔ اور اسی وجہ سے میں ہرممکن کوشش کرتا ہوں کہ پاکستانی اخبارات میں موجود قتل وغارت گری کی خبروں پہ بس اچٹتی ہوءی نظر ہی ڈالوں۔
میری دوسری کتاب کا عنوان 'خیال باری' تھا۔ یہ پہلی بار سنہ ۱۹۹۸ میں فضلی سنز نے شاءع کی تھی۔ پہلی طباعت کے قریبا چار سال بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شاءع ہوا۔ آج کل میں 'خیال باری' کی طباعت سوءم کے کام پہ لگا ہوں۔ اس کام کے دوران 'خیال باری' میں شاءع ہونے والا ایک مضمون سامنے آیا جو غالبا سنہ ۱۹۹۳ میں لکھا گیا تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ناکام حکومت پہ لکھا جانے والا یہ مضمون آج بیس برس بعد بھی تازہ معلوم دیتا ہے۔ ملاحظہ فرماءیے۔
ہم نے اپنی قیادت، ملک کا انتظام، اپنے شہروں کا نظم و ضبط ایسے لوگوں کے حوالے کردیا ہے جو شعور نہیں رکھتے۔ لگتا ہے کہ ان کو طویل عرصے کی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ یہ امروز کے فیصلے کرتے ہیں اور اپنی عقل پہ خوش ہوتے ہیں۔ ان کے 'سب چلتا ہے' کے فلسفے نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ سب ہرگز نہیں چلتا اور اگر سب چلتا ہوتا تو آج ہم اس قدر مساءل کا شکار نہ ہوتے۔ بیسویں صدی کے مساءل سے نبردآزما ہونے کے لیے بیسویں صدی کے دماغ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا دماغ جو منطقی سوچ کا عادی ہو، جو کسی مسءلے کے بارے میں ہر پہلو سے غور و خوض کرسکے۔ جو تحقیق کرنا جانتا ہو اور جو مستقبل کے امکانات کے بارے میں پہلے سے سوچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کسی بھی ملک میں انسان کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شہر پھیلتے جاتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے حرکت کرتا ہے تو لوگوں کی زندگیاں مصروف تر ہوتی جاتی ہیں۔ ان مصروف زندگیوں میں اس بات کی گنجاءش نہیں ہوتی کہ کثرت سے سماجی تعلقات رکھے جا سکیں۔ انسان کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو جانے۔ انسان صرف چیدہ چیدہ لوگوں سے مل سکتا ہے۔ جب اپنی مصروف زندگیوں کے باعث لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہوجاءے کہ وہ اپنے گردوپیش کے تمام لوگوں کے بارے میں جانیں تو حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ منظم طریقے سے لوگوں کا حساب رکھے۔ اگر انفرادی سطح کے علاوہ حکومتی سطح پہ بھی معاشرے کے افراد غیرمرءی گرفت میں نہ رہیں تو معاشرے میں جراءم بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ اب پورا شہر ایک بہت بڑا اندھیرا کمرہ ہے جس میں لوگوں کی کوءی شناخت نہیں۔ کوءی بھی اس اندھیرے میں کسی کی جیب کاٹ سکتا ہے، کسی کو دو مکے رسید کرسکتا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہر ایسے ہی اندھیرے کمرے بن چکے ہیں۔ ان شہروں میں لاقانونیت کا بڑھتا ہوا رجحان انتہاءی تشویشناک ہے۔
نومبر ۴، ۱۹۹۴ کا اخبار میرے ہاتھ میں ہے۔ طارق روڈ پہ سونے کی دکان لٹنے کے بعد صراف بازار احتجاجا بند رہا۔ میں پوچھتا ہوں کہ اس احتجاج کا کیا فاءدہ؟ کون آپ کے احتجاج کا نوٹس لے رہا ہے؟ کسی کو آپ کے نقصان سے کیا دلچسپی؟ اور اگر 'ارباب اختیار' کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ پاکستان جیسے غریب ملک کی کمزور حکومت میں اتنی سکت کہاں کہ وہ ایسے واقعات روک سکے۔ اس کے محدود وساءل تو وہ چادر ہے کہ اگر یہاں کھینچی گءی تو وہاں سے کھل جاءے گی۔
غور سے دیکھیں تو پاکستان کا ہر شہر یتیم نظر آتا ہے۔ ان شہروں کا کوءی رکھوالا نہیں ہے۔ علاقوں کی باقاعدہ نگہداشت کا کوءی انتظام نظر نہیں آتا۔ کوءی باہر کا آدمی آپ کے علاقے میں آکر آپ کے گھر کے سامنے سڑک کھود دے تو کوءی پوچھنے والا نہیں۔ کوءی شخص باہر سے آکر آپ کے محلے کے گٹر میں بڑے بڑے پتھر ڈال دے تو کوءی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے محلے کے گٹر کے ڈھکن چوری ہوجاتے ہیں۔ بکریاں چرانے والے اپنے گلے کو ہانک کر آپ کے محلے میں لاتے ہیں اور یہ بکریاں آپ کے گھر کے باہر موجود تمام پودے کھا جاتی ہیں۔ علاقے کا رکھوالا نہ ہونے کی وجہ سے سبزیاں بیچنے والے سوزوکی پہ آتے ہیں اور لاءوڈاسپیکر پہ چلا چلا کر آپ کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ پھر کسی فراڈ یتیم خانے کے لیے چندہ جمع کرانے والے آتے ہیں اور آپ کی ذہنی اذیت کا سامان بنتے ہیں۔ بیچ دوپہر میں فقیر آتے ہیں اور آپ کے گھر کا گیٹ پیٹ پیٹ کر آپ کو پریشان کرتے ہیں۔ کوءی موٹرساءیکل والا ساءیلینسر نکال کر آپ کے گھر کے سامنے سے اپنی موٹرساءیکل ادھر سے ادھر دوڑاتا ہے۔ غرض کہ آپ کا علاقہ مادرپدر آزاد ہے۔ جب جس کا جی چاہے آءے اور آپ کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کردے۔ اور اگر اسلحہ لے کر آءے تو آپ کو دن دھاڑے لوٹ کر چلا جاءے۔ کوءی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔
 اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی نااہلی کا یقین کرتے ہوءے اپنے اپنے علاقوں کا انتظام سنبھال لیں۔ ہم یہ کیسے گوارا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ہماری مرضی کے بغیر ہمارے محلے میں فاءرنگ کر کے چلے جاءیں اور ہم اپنے اپنے گھروں میں خوفزدہ بیٹھے رہیں؟ ہمارے محلے میں ہماری حکومت ہونی چاہیے۔



This page is powered by Blogger. Isn't yours?