Monday, November 25, 2013

 

ترون تیج پال اور جنسیت


نومبرچوبیس،  دو ہزار تیرہ 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پینسٹھ


ترون تیج پال اور جنسیت
Tarun Tejpal and Sex in South Asia


زندگی کے مختلف نمونے اپنی ہمت سے مجھے حیران کردیتے ہیں۔ میں پیدل چلتے ہوءے فٹ پاتھ کے ساتھ سڑک پہ نکاسی آب باراں کے نظام کو غور سے دیکھتا ہوں۔ وہاں سخت سڑک اور لوہے کی جالی کے درمیان جھری میں بس ہلکی سے مٹی کہیں سے آ پہنچی ہے۔ بس اتنی مٹی ہی گھاس اور دوسرے چھوٹے پودوں کے لیے کافی ہے۔ وہ نباتاتی نمونے سخت جانی سے وہاں موجود ہیں۔  زندگی کے ہرنمونے کی سب سے زیادہ دلچسپی زندگی برقرار رکھنے میں ہے: کھانے پینے اور اپنی جان بچانے میں، اور اپنی نسل آگے بڑھانے میں۔
میں جب پاکستان سے امریکہ پہنچا تو میرا پہلا ٹھکانہ ایمز، آءیوا تھا۔  ایمز اطراف کے علاقے سے یکسر مختلف قصبہ تھا کہ وہاں ایک بہت بڑی جامعہ تھی جہاں دنیا بھر سے آءے ہوءے طلبا پڑھتے تھے۔ ایمز سے باہر نکل جاءیے تو میلوں کھیت ہی کھیت تھے۔ ان کھیتوں کے درمیان ہی ڈنگر باڑے نظر آتے تھے۔ میرے ساتھ کءی ایسے طلبا پڑھتے تھے جو کسان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی موقع پہ گفتگو جانوروں اور انسانوں کی، نسل آگے بڑھانے کی خواہش پہ ہورہی تھی۔ مقامی کسان کے ایک لڑکے نے مجھے اپنا مشاہدہ بتایا تھا کہ بیل کو گاءے سے کچھ عرصہ دور رکھا جاءے اور پھر ایک گاءے کو ایک ایسے بیل کے سامنے لایا جاءے جو باڑھ کے ایک طرف ہو، تو بیل اپنی مستی میں باڑھ توڑ کر گاءے تک پہنچ جاتا ہے۔ نسل بڑھانے کی یہ شدید خواہش ہر طرح کے جانور کے نر میں بہت واضح نظر آتی ہے۔ اشرف الحیوانات کے اندر بھی یہ حیوانی جبلت بدرجہ اتم موجود ہے۔
بیس پچیس ہزار سال پہلے تک جب زراعت دریافت نہیں ہوءی تھی اور انسان نے بستیوں کی شکل میں رہنا نہیں شروع کیا تھا، شاید انسان اپنی دیگر حیوانی جبلتوں کی طرح افزاءش نسل کی خواہش کو بھی دوسرے جانوروں کی طرح زور و زبردستی سے پورا کرتا ہوگا یعنی اس وقت کا مرد اپنی طاقت کے حساب سے دوسرے مردوں کو پچھاڑ کر جس عورت سے چاہے اختلاط کرتا ہوگا۔ مگر پھر زمانہ بدلا۔ انسان نے پودوں اور جانوروں کو اپنے قابو میں کیا، زراعت اور گلہ بانی شروع ہوءی اور انسان ٹہر گیا۔ اس نے بستیوں میں رہنا شروع کیا۔ انسان نے آدم خوری چھوڑی اور مختلف انسانی بستیوں نے وہ اصول وضع کرنے شروع کیے جن کے تحت ان بستیوں کے لوگ رہتے تھے۔ جاءیداد کا تصور ابھرا اور اس کے ساتھ ترکے کے قوانین بنے۔ اب انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں سے چھین کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ جہاں انسان کی دوسری حیوانی جبلتوں کو چند اصولوں کے تحت پابند کیا گیا وہیں اس کی افزاءش نسل کی خواہش کو بھی قوانین سے باندھا گیا۔
دنیا بھر میں پھیلے مختلف انسانی گروہ کسی نہ کسی طور کی اخلاقی اقدار اور قوانین کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار اور قوانین انسان کی حیوانی جبلت کو ایک خاص راستہ دیتے ہیں جو اس گروہ کے تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔ جو معاشرے انسان کی ان ضروریات کو سمجھتے ہوءے انسان کو جس قدر ممکن ہو آسانیاں دیں، وہاں لوگوں کے لیے معاشرے کے بتاءے گءے راستے پہ چلنا آسان ہوتا ہے۔ جہاں انسان کی بنیادی ضرورتوں کو ہی نہ سمجھا جاءے اور انہیں حرام کہہ کر ان پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاءے وہاں انسان کی حیوانی جبلت عجیب و غریب راستے اختیار کرتی ہے۔ یہ ملا، یہ پیر،یہ راہب، یہ پروہت، یہ پنڈت، یہ پادری—یہ سارے مذہبی پیشوا جو اپنے ماننے والوں کو تزکیہ نفس کا درس دیتے ہیں خود ہر طرح کے جنسی اسکینڈل میں ملوث پاءے جاتے ہیں۔
خیال ہے کہ ترقی پسند لوگ اس پورے معاملے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہی حیوانی جبلت جو مولویوں اور پادریوں میں موجود ہے، روشن خیال لوگوں میں بھی ہے۔ مگر ترقی پسند لوگ سمجھتے ہیں کہ ارتقا کی اتنی منازل طے کرنے کے بعد مرد کو مست بیل سے زیادہ باشعور ہونا ہے۔ مست بیل کے سامنے گاءے کی مرضی نہ چلے، مگر انسانوں میں مرد اور عورت مساوی درجہ رکھتے ہیں۔  افزاءش نسل کی تسکین کی خواہش میں عورت کی بھی اتنی ہی مرضی ہونی چاہیے جتنی مرد کی ہو۔ اگر ایک مرد کا دل کسی عورت پہ ہے تو مرد کو چاہیے کہ اس عورت سے بات کرے اور پھر دونوں اپنی باہمی اخلاقی اقدار کے حساب سے بات کو آگے بڑھاءیں۔ ایک مہذب معاشرے میں تسکین افزاءش نسل میں زور وزبردستی کی کوءی گنجاءش نہیں ہے۔ چنانچہ تہلکہ میگزین کے ایڈیٹر ترون تیج پال کے بارے میں ایسی خبر پڑھ کر افسوس ہوا۔ الزام تھا کہ ترون تیج پال نے ایک ساتھی خاتون کو جنسی طور پہ ہراساں کیا۔ بعد میں تیج پال نے خود بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اس خبر پہ افسوس اس لیے ہوا کیونکہ تہلکہ ایک لبرل میگزین ہے اور تیج پال ایک نہایت روشن خیال صحافی خیال کیے جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں جہاں اور شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں عورت سے متعلق معاشرے کے رجحانات پہ بھی کام کرنا ضروری ہے۔ انسان کی بنیادی جبلتوں پہ پردہ ڈالنے کے بجاءے ان کے متعلق کھل کر بات کرنے اور عورت کو قانون کا مکمل تحفظ فراہم کرنے ہی سے ہم ایک ایسا منصف معاشرہ قاءم کرسکیں گے جہاں مرد کو قانون کے شکنجے کا ڈر ہو اور عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ بے خطر کام کرسکے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?