Thursday, October 29, 2015

 

برکھا رت میں ایک یادگار ملاقات










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو باون

اکتوبر پچیس، دو ہزار پندرہ


برکھا رت میں ایک یادگار ملاقات

 
 
سڈنی اوپرا ہائوس کو تین اطراف سے آپ دور و قریب سے دیکھ سکتے ہیں مگر چوتھی طرف یعنی سمندر کی کھونٹ سے اس عمارت کو کچھ فاصلے سے دیکھنے کے لیے کشتی کی سواری کرنا پڑتی ہے۔
سڈنی بندرگاہ ایسی قدرتی آبگاہ ہے جو خشکی کے اندر نہر کی صورت آتی ہے۔ سڈنی  میں رکنے والے بحری جہاز کھلے سمندر کی تغیانی سے دور آکر اسی آبگاہ میں لنگر انداز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آبگاہ کے دونوں طرف آبادی ہے اور آبگاہ کے ایک طرف موجود محلے سے دوسرے محلے تک پہنچنے کے لیے سب سے تیزرفتار سواری کشتی کی ہے۔ یہ کشتیاں سڈنی ہاربر، ڈارلنگ ہاربر، اور دوسرے مقامات سے چلتی ہیں اور مختلف جگہ رک کر مسافروں کو اتارتی چڑھاتی ہیں۔ ہماری کشتی سڈنی ہاربر کے وہارف شمار چار سے واٹسن بے کے لیے چلی تو ذرا سی دیر میں یخ بستہ ہوائوں نے اسے گھیر لیا۔ زیادہ تر مسافر سردی سے بچنے کے لیے کشتی کے اندر چلے گئے مگر سڈنی اوپرا ہائوس کے اچھے نظارے کے لیے باہر کھلے میں کھڑے رہنا ہی زیادہ بہتر تھا۔ سردی کی وہ تکلیف کچھ دیر  کی تھی مگر اس دید کا تجربہ عمر بھر کا تھا۔ کچھ دیر بعد ہمارے قریب سے کیپٹن کک سیاحتی ادارے کی ایک کشتی سیاحوں سے لدی پھندی گزری۔ ہم نے کسی قدر ترس کھاتے ہوئے ان ڈرپورک سیاحوں کی طرف دیکھا جو نئے شہر سے خوف زدہ شہر کے رہنے والے عام لوگوں کی طرح روزمرہ کی کشتی کی سواری کرنے کے بجائے سیاحتی کشتی میں ٹور بک کراتے ہیں اور اپنے جیسے سیاحوں کے درمیان رہ کر ہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
کشتی کی سواری سے واپس پلٹے تو مغرب ہوچلی تھی۔ بارش جو اب تک وقفے وقفے سے ہورہی تھی اب تواتر سے ہونے لگی۔ ہمیں نوشی گیلانی اور سعید خان سے ڈارلنگ ہاربر پہ ملنا تھا۔ وہ جگہ سڈنی ہاربر سے کچھ ہی فاصلے پہ تھی۔ ہم دکانوں کے چھجوں کا سایہ لیتے، بارش سے بچتے ڈارلنگ ہاربرکی طرف پیدل چل پڑے۔
ڈارلنگ ہاربر وسیع و عریض جگہ تھی اور ہم اس کے جغرافیے سے ناآشنا تھے اس لیے بہت دیر تک فون اور ٹیکسٹ کے ذریعے سعید خان سے ملاقات کی اس جگہ کا تعین کرتے رہے جو گردونواہ کی چمکدار نشانیوں سے ہمیں سمجھ میں آجائے۔ سعید خان اپنے دفتر سے وہاں پہنچ رہے تھے جب کہ نوشی گیلانی ٹرین سے گھر سے آرہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کے انتظار کے بعد نوشی گیلانی اور سعید خان ایک چھتری تلے آدھے آدھے بھیگتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ گو کہ سعید خان سے ہماری فیس بک کے ذریعے واقفیت ایک عرصے سے تھی مگر ان سے بالمشافہ وہ پہلی ملاقات تھی۔ سعید خان وسیع دل کے مالک ہیں؛ وہ ہم سے اس تپاک سے ملے جیسے وہ ہمیں برسوں سے جانتے ہوں۔
ڈارلنگ ہاربر پہ موجود جارجیوز نوشی گیلانی اور سعید خان کا پسندیدہ ریستوراں ہے۔ یہ دونوں ہمیں لے کر ادھر ہی چلے۔ شدید بارش کے باوجود ریستوراں گاہکوں سے بھر ہوا تھا۔ اندر کوئی میز خالی نہ تھی، باہر بھی لوگ وسیع چھجے کے نیچے بیٹھے تھے۔ باہر بیٹھنے والوں کی سہولت کے لیے برقی انگیٹھیاں موجود تھیں۔ ایسی ہی چار انگیٹھیاں ہماری میز کے چاروں کونوں پہ لگا دی گئیں۔ ان برقی انگیٹھیوں سے ذرا سی دیر میں سردی کا احساس جاتا رہا۔ سعید خان کو جارجیوز ریستوراں کا مینیو ازبر تھا۔ انہوں نے انواع و اقسام کے کھانے منگوا لیے۔
نوشی گیلانی بہت عرصہ شمالی کیلی فورنیا میں مقیم رہی ہیں اور اس علاقے کو بجا طور پہ اپنا گھر سمجھتی ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ سعید خان مجھے اپنا سسرالی سمجھ کر میری خاطر تواضع کررہے ہیں۔ مگر جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ سعید خان فطری طور پہ ایک یارباش شخص ہیں جن کے اندر مانسہرہ کی مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ سعید نے اس قدر زیادہ کھانا آرڈر کردیا تھا کہ ہم جیسے فاقہ مستی والے مسافر شدید پرخوری کے باوجود کھانا ختم نہ کر پائے اور بچ جانے والا کھانا اگلے روز میلبورن کے راستے میں ختم ہوا۔
اس شام بے مثال مہمان نوازی کا مقابلہ خوش کلام گفتگو سے تھا۔ بارش اور سردی کی شدت کے باوجود ہم نوشی گیلانی اور سعید خان کی محبت کی گرمی سے پگھلے جاتے تھے۔ اور باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔ سان فرانسسکو بے ایریا کی وہ محفلیں یاد کی گئیں جن میں نوشی کے ساتھ ہم بھی شریک تھے۔ اس خاص محفل کو یاد کیا گیا جو  تاشی ظہیرصاحب کی قیادت میں اردو اکیڈمی شمالی کیلی فورنیا نے مشہور اردو عالم شان الحق حقی کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔  نوشی نے فینکس میں ہونے والی جڑواں محفل کا حال بھی سنایا۔ افتی نسیم کو بہت یاد کیا گیا۔ احمد فراز سے عینی اختر کے گھر آخری ملاقات کو یاد کیا گیا۔ نوشی گیلانی نے وہ واقعہ سنایا جب انہوں نے فیض صاحب کے دربار میں پہلی بار فیض کی شاعری کے پنجابی ترجمے کے ساتھ حاضری دی تھی۔
اگلے دن ہمیں سویرے ہی میلبورن کے لیے روانہ ہونا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی دیر رات نوشی گیلانی اور سعید خان سے  رخصت لی۔ جارجیوز ریستوراں کے بحیرہ روم علاقوں کے مخصوص کھانے ایسے مزیدار تھے کہ آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ ہم نے ریستوراں چھوڑنے سے پہلے باورچی خانے کے اندر جھانک کر کھانا بنانے والے یونانی دیوتا کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یونانی کھانے بنانے والا دیوتا وہاں ضرور موجود تھا مگر وہ یونانی نہ تھا، فرزند کنفیوشس تھا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ یورپ، امریکہ، اور آسٹریلیا لاکھ دم لگائیں آخر میں جیت چین کی ہی ہوگی۔
ڈارلنگ ہاربر سے واپس اپنے ہوٹل کی طرف پلٹتے میں سوچ رہا تھا کہ کہیں آسٹریلیا پہنچ کر نوشی گیلانی اکیلی تو نہیں پڑ گئیں۔ بہت زمانے سے ہمارے لوگ جنوبی ایشیا سے شمالی امریکہ نقل مکانی کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے شمالی امریکہ میں اردو سمجھنے، بولنے، اور اس زبان میں نثر و شعر لکھنے اور ان سخن وروں کو سراہنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ جب کہ آسٹریلیا میں اس قبیلے کے اتنے لوگ نہیں ہیں۔ شعرا کو ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو ان کے کلام کو سمجھیں۔ ایسے میں موجودہ عہد کی اردو کی  مقبول ترین شاعرہ کی آسٹریلیا میں فکری تنہائی سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اس خیال کے ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر قسم کے آرٹسٹ کے لیے اپنے مداحوں تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں۔ نوشی گیلانی کی شاعری کو سراہنے والے فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ نوشی گیلانی یقینا ہر دفعہ کمپیوٹر کھولنے پہ اس مجمع کو اپنے سامنے پاکر یہ اطمینان کرتی ہوں گی کہ ان کے اور ان کے مداحوں کے درمیان فاصلہ محض چند کلک کا ہے۔



Thursday, October 22, 2015

 

آئرز چٹان اور نوشی گیلانی









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکیاون

اکتوبر اٹھارہ، دو ہزار پندرہ


آئرز چٹان اور نوشی گیلانی



نقل کرنا سود مند ہوتا ہے۔ نقل کرنے کے بہت سے فوائد میں سب سا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ دوسروں کی نقل کرتے جائیے اور آگے بڑھتے جائیے۔ ایک زمانے میں پاکستان سے بھارت جانے والے کسی سیانے مسافر سے جب پوچھا گیا کہ وہ بھارت کیوں جارہا ہے تو اس نے کہا کہ وہ بھارت جا کر تاج محل اور دلیپ کمار کو دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک تاریخی عمارت اور ایک فلمی اداکار کو یوں ایک جملے میں ساتھ ملانے کی بذلہ سنجی یار لوگوں کو بہت پسند آئی۔ چنانچہ بہت عرصے تک بھارت یاترا کرنے والے اہم لوگوں کے اخبارات میں شائع شدہ انٹرویو میں یہ بات شامل ہوتی کہ موصوف تاج محل اور دلیپ کمار کو دیکھنے سرحد پار گئے تھے یا جائیں گے۔  سڈنی پہنچ کر جب میں نے معروف شاعرہ نوشی گیلانی کو فون کیا تو ذہن میں یہی تیاری کی کہ اگر نوشی پوچھیں گی کہ آسٹریلیا کس لیے آئے ہو تو کہہ دوں گا کہ آئرز چٹان اور نوشی گیلانی کو دیکھنے آسٹریلیا آیا ہوں۔ مگر قربان جائیے نوشی گیلانی کی سادگی پہ کہ انہوں نے یہ سوال پوچھا ہی نہیں۔ ان کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ میں آسٹریلیا آیا تھا اور ان سے ملنا چاہتا تھا۔ چند فیس بک اور فون ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ ہوا اور طے ہوگیا کہ ہم رات کے کھانے کے لیے ڈارلنگ ہاربر پہ ملیں گے۔ سڈنی کے مہنگے علاقے ڈارلنگ ہاربر پہ اس لیے کیونکہ نوشی گیلانی کے شوہر سعید خان اسی جگہ کام کرتے ہیں۔
ہمارا ہوٹل جس علاقے میں واقع تھا اسے ڈارلنگ ہرسٹ کہتے ہیں۔ اب نوشی گیلانی سے ڈارلنگ ہاربر پہ ملنا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان جگہوں کے ناموں میں بار بار یہ پیار بھرا لفظ ڈارلنگ کیوں آتا ہے۔ دراصل سڈنی کے یہ خاص مقامات اس علاقے کے ایک پرانے گورنر رالف ڈارلنگ کے نام سے منسوب ہیں۔ اپنے پیار بھرے نام کے باوجود رالف ڈارلنگ کی شہرت کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔
پرانے وقتوں میں تاریخوں کے بجائے موسم سے خاص واقعات کو یاد رکھا جاتا تھا۔ خاندان کے کسی پرانے شخص سے پوچھیے کہ منجھلے دادا کی شادی کب ہوئی تھی تو وہ فورا بتائے گا کہ منجھلے دادا کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب ساون میں پانچ دن کی جھڑی لگی تھی۔ نوشی گیلانی اور سعید خان سے ملاقات بھی ایسے ہی ایک بھیگے موسم میں ہوئی تھی۔ بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ چھجوں اور چوباروں کے کونوں سے پانی تیز دھار سے گر رہا تھا۔ شہر کی طرف سے نکاسی آب کا اچھا نظام ہونے کے باوجود پانی کے چھوٹے بڑے جوہڑ جا بجا نظر آتے تھے۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں ان چھوٹے چھوٹے تیلابوں میں گرتیں تو تڑپ کر پھر اٹھتیں اور پھر ریزہ ریزہ بکھر کر واپس پانی میں گر کر  اس کا حصہ بن جاتیں۔ جون کا وسط تھا۔ اس وجہ سے بارش کے ساتھ سردی بہت بڑھ گئی تھی۔
مگر یہ تو دو دن بعد کی بات ہے۔ نوشی گیلانی سے ملاقات سے ایک روز پہلے بونڈائی جانے کا موقع ملا۔ سڈنی کا بونڈائی ساحل مشہور تفریحی مقام ہے۔ ہم نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ بونڈائی ہمارے ہوٹل سے محض تین سے چار میل کے فاصلے پہ تھا۔ یہ دوری بھی کوئی دوری تھی، یہ سوچ کرہم بونڈائی ساحل کے لیے پیدل نکل پڑے۔ بونڈائی ساحل تک پہنچنے میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ گرمیوں میں اس ساحل کی ریت نیم برہنہ جسموں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے مگر سردیوں کے اس روز بونڈائی ساحل بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ ہم ساحل کے ساتھ ایک کونے سے چلنا شروع ہوئے اور دیر تک ساحل پہ سر پٹکتی موجوں سے بچ کر چلتے رہے۔ ہم نے گنتی کے ان چند سورمائوں کو حیرت و تحسین سے دیکھا جو اس سردی میں بھی وہاں سرفنگ کررہے تھے۔ اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اس موسم میں سرفنگ کا حوصلہ ہم میں تھا۔ جواب نفی میں آیا۔ انسان کی زندگی میں جسمانی ارتفاع کا وقت بہت جلد گزر جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان شدید جسمانی مشقت کرسکتا ہے، مقابلے کے کھیلوں میں شرکت کرسکتا ہے، اولمپکس میں حصہ لے سکتا ہے۔ جسمانی ارتفاع کا موقع گزر جانے کے باوجود ذہنی ارتفاع کا وقت اور امکان قائم رہتا ہے۔ ذہنی ارتفاع کا وقت وہ ہوتا ہے جب انسان ذہنی تخلیقات کر سکے۔ جب نئے نئے خیالات اس پہ وارد ہوں اور وہ ان خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ ذہنی ارتفاع کا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ بونڈائی ساحل پہ چلتے ہوئے میں نے پلٹ کر اپنے قدموں کے نشانات کو دیکھا۔ گیلی ریت پہ قدموں کےکچھ نشانات موجود تھے اور کچھ پانی نے ختم کردیے تھے۔ اس وقت مجھے ایک خوف آیا۔ کیا میری زندگی میں ذہنی ارتفاع کا وقت بھی گزر چکا تھا؟
جاری ہے۔


Labels: , , , ,


Thursday, October 15, 2015

 

سڈنی



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچاس

اکتوبر دس، دو ہزار پندرہ


سڈنی



وہ آسٹریلیا میں ہمارا دوسرا دن تھا۔ ہم دور تک پیدل چلے کہ پیدل چل کر کسی نئے شہر سے واقفیت حاصل کرنا اچھا تجربہ ہوتا ہے۔ دوسرے دن کے مشاہدات سے ہمیں سڈنی یورپ کا ہی کوئی شہر محسوس ہوا۔ وہ مشاہدات کیا تھے؟ یہ داستان سنیے۔
اپنے اس سفر میں نہ صرف یہ کہ ہم شمال سے جنوب پہنچے تھے بلکہ مغرب کی طرف چلتے ہوئے ہم نے بین الاقوامی خط تاریخ پار کی تھی اور اب ہم کیلی فورنیا سے قریبا اٹھارہ گھنٹے آگے ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے سڈنی پہنچنے پہ جہاں رات کو جلدی نیند آئی وہیں صبح فجر سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ کم خرچ سفر کرنے والے مسافر ایسے کھانے کم کھاتے ہیں جن میں انہیں خدمت [سروس] کے پیسے دینے ہوں۔ ہمارا شمار بھی انہیں کنجوس مکھی چوس مسافروں میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے  رات ہوٹل کی طرف پلٹتے ہوئے ہم نے اگلی صبح کے ناشتے کا انتظام کر لیا تھا۔ صبح کے تین بجے بیدار ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو آسمان تاریک تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں اور پست و قدآور عمارتوں میں شبینہ قمقمے جل رہے تھے۔ اس تاریکی میں ہوٹل سے نکل کر باہر جانا مناسب نہ تھا۔ ہم نے کمرے میں ناشتہ کیا اور ساتھ ہی ٹی وی لگا دیا۔  ٹی وی پہ سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ انڈونیشیا نے آسٹریلیا پہ الزام لگایا تھا کہ آسٹریلیا کے حکام رشوت ستانی میں ملوث ہیں؛ غیرقانونی افراد سے بھری کشتیاں جو انڈونیشیا سے نکل کر آسٹریلیا کا رخ کرتی ہیں، آسٹریلیا کے حکام ان کشتیوں کے ناخدائوں کو رشوت دے کر کشتی واپس لوٹانے پہ مجبور کرتے ہیں۔ اس ساری بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی کہ دنیا میں کتنے زیادہ ممالک اور علاقے ایسے ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام ہے اور جہاں سے نکل کر لوگ پرامن جگہوں کا رخ کررہے ہیں۔ آخر سیاسی استحکام مغربی دنیا کا ہی خاصہ کیوں ہے؟ آخر مغربی دنیا کے لیے ہی یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک سے نکل بھاگنے والوں کو اپنی پناہ میں لے لے؟ نوآبادیاتی دور ختم ہونے کے بعد آخر پرانی نوآبادی سے تعلق رکھنے والے یہ ممالک کب سیاسی استحکام حاصل کرپائیں گے؟ یہ سوالات ایک عرصے سے میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ اگر میں اپنی موت سے پہلے اس بہت بڑے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنا کوئی چھوٹا سا کردار ادا نہ کرپایا تو میں ایک نہایت یاسیت بھری موت مروں گا۔  آسٹریلیا کے اسی سفر میں بہت بعد میں مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا جو پاکستان سے جان بچا کر بھاگے تھے اور انڈونیشیا پہنچنے کے بعد کشتی سے آسٹریلیا پہنچے تھے، مگر ان کے تجربات میں آپ کو اس سفر نامے کی اگلی اقساط میں سنائوں گا۔
کچھ دیر میں باہر روشنی پھیلی تو ہم ایک بار پھر اس نئے شہر سے روشناس ہونے کے لیے نکلے۔ گزری رات کی بارش کے بعد ہر چیز دھلی صاف ستھری نظر آرہی تھی۔ ہوٹل سے کچھ دور چل کر ہم بڑی سڑک پہ آگئے۔ وہاں خوب رونق تھی۔ لوگ سردیوں کے گرم کپڑے پہنے تیز تیز قدموں سے چلے جارہے تھے۔ ہمیں وہاں بڑی تعداد میں چینی خدوخال کے لوگ نظر آئے۔ اور یہ خیال ہوا کہ بس چند دہائیوں کی بات ہے، چینی نسل کے لوگ پوری دنیا پہ چھا جائیں گے اور لوگ پرانی تصاویر میں دیکھا کریں گے کہ کسی زمانے میں چینی شکل کے علاوہ شکلوں کے لوگ بھی اس دنیا میں ہوا کرتے تھے۔
ہم اوپرا ہائوس کی طرف چلتے ہوئے ایک اسکول کے قریب سے گزرے۔ اسکول سے دس گیارہ سال کے لڑکے نیلے کوٹ اور لال نک ٹائی پہنے نکل رہے تھے۔ وہ منظر انگلستان کے کسی پبلک اسکول کا بھی ہوسکتا تھا۔ ہمیں خیال ہوا کہ گو آسٹریلیا کی طرح امریکہ کا تعلق بھی انگلستان سے بہت گہرا ہے مگر امریکہ پہ انگلستان کا ایسا اثر نہیں ہے جیسا اثر انگلستان کا آسٹریلیا پہ ہے۔ آسٹریلیا تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انگلستان کا چھوٹا جزیرہ اپنے علاقے سے نکل کر ایک بڑے جزیرے پہ پھیل گیا ہو۔ مگر ہم جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ عہد رفتہ سے تعلق رکھنے والا آخری آخری منظر تھا۔ آسٹریلیا کے اطراف سے لوگوں کے جوق در جوق آسٹریلیا آنے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ آسٹریلیا اپنے علاقے کے حقائق سے قریب تر ہوجائے گا۔
سڈنی کے اوپرا ہائوس کا شمار دنیا کی ان چند عمارات میں ہوتا ہے جو اپنے شہر کی نمائندہ شکل بن گئی ہیں۔ سڈنی ہاربر پہ سمندر کے ساتھ سیپیوں کی شکل میں بنایا گیا یہ اوپرا ہائوس ستر کی دہائی میں بن کر مکمل ہوا مگر اپنے اچھوتے ڈیزائن کی وجہ سے ذرا سی دیر میں سڈنی کا سب سے معروف سیاحتی مقام بن گیا۔ وہ کام کا دن تھا مگر اوپرا ہائوس پہ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ قریبا ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ اور کئی کے پاس سیلفی اسٹک تھی جس سے لوگ اپنی تصاویر اس عالمی شہرت کی عمارت کے ساتھ بنا رہے تھے۔ ان سیاحوں میں سے کئی یقینا ان تصاویر کو ہاتھ کے ہاتھ فیس بک پہ بھی چڑھا رہے ہوں گے۔اصل میں یہی لوگ تو سوشل میڈیا کی جان ہیں۔ ان ہی کے دم سے سوشل میڈیا کی کائنات حرکت میں ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے شہزادے اور شہزادیاں اپنے آپ سے متعلق پل پل کی خبریں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ دیکھیے، یہ ہے وہ آملیٹ جو میں نے ناشتے میں کھایا۔ میں جس ٹرین میں سفر کررہا ہوں اس کے باہر کا منظردیکھیے۔ واہ، دوستوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کا کیا خوب مزا آرہا ہے۔ یہ دیکھیےسورج ڈوبنے کا منظر کتنا اچھا ہے۔ غرض کہ یہ لوگ جو بھی کر رہے ہوتے ہیں، فیس بک کے ذریعے اس کام کی خبر ہر خاص و عام تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ پھر فیس بک کے چند ایسے صارفین ہیں جو فیس بک پہ آتے ہیں، صبح و شام کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں، اور پھر ایک روز اچانک منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ وہ اتنے متحرک ہونے کے باوجود اس طرح ایک دن کیوں غائب ہوگئے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ فیس بک ان کا بہت زیادہ وقت لے رہی تھی۔ نہ جانے وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ فیس بک آپ کا صرف اتنا ہی وقت لے سکتی ہے جتنا وقت آپ خود اس کو دیں۔ فیس بک کے زیادہ تر صارفین ان تماش بینوں میں شمار ہوتے ہیں جو فیس بک پہ دل بہلانے کو جاتے ہیں۔ وہ فیس بک میں لاگ ان ہوتے ہیں اور اپنے دوستوں اور اقارب کے تازہ ترین احوال، ان کی تازہ تصاویر، اور ان کے سیاسی اور مذہبی خیالات دیکھنے کے بعد چپ چاپ وہاں سے کھسک لیتے ہیں۔ اور پھر فیس بک کے یقینا ایسے بھی صارفین ہیں جو فیس بک کو اپنے مذہبی یا سیاسی خیالات کے پرچار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ایسے ہی ایک دوست ہیں کہ پاکستان سے چاہے کیسی بھی خبر کیوں نہ آئے کہ وہاں مسلمانوں نے اقلیتوں کا جینا کیسے دوبھر کررکھا ہے وہ اپنی نظر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پہ رکھتے ہیں۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?