Thursday, October 22, 2015

 

آئرز چٹان اور نوشی گیلانی









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکیاون

اکتوبر اٹھارہ، دو ہزار پندرہ


آئرز چٹان اور نوشی گیلانی



نقل کرنا سود مند ہوتا ہے۔ نقل کرنے کے بہت سے فوائد میں سب سا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ دوسروں کی نقل کرتے جائیے اور آگے بڑھتے جائیے۔ ایک زمانے میں پاکستان سے بھارت جانے والے کسی سیانے مسافر سے جب پوچھا گیا کہ وہ بھارت کیوں جارہا ہے تو اس نے کہا کہ وہ بھارت جا کر تاج محل اور دلیپ کمار کو دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک تاریخی عمارت اور ایک فلمی اداکار کو یوں ایک جملے میں ساتھ ملانے کی بذلہ سنجی یار لوگوں کو بہت پسند آئی۔ چنانچہ بہت عرصے تک بھارت یاترا کرنے والے اہم لوگوں کے اخبارات میں شائع شدہ انٹرویو میں یہ بات شامل ہوتی کہ موصوف تاج محل اور دلیپ کمار کو دیکھنے سرحد پار گئے تھے یا جائیں گے۔  سڈنی پہنچ کر جب میں نے معروف شاعرہ نوشی گیلانی کو فون کیا تو ذہن میں یہی تیاری کی کہ اگر نوشی پوچھیں گی کہ آسٹریلیا کس لیے آئے ہو تو کہہ دوں گا کہ آئرز چٹان اور نوشی گیلانی کو دیکھنے آسٹریلیا آیا ہوں۔ مگر قربان جائیے نوشی گیلانی کی سادگی پہ کہ انہوں نے یہ سوال پوچھا ہی نہیں۔ ان کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ میں آسٹریلیا آیا تھا اور ان سے ملنا چاہتا تھا۔ چند فیس بک اور فون ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ ہوا اور طے ہوگیا کہ ہم رات کے کھانے کے لیے ڈارلنگ ہاربر پہ ملیں گے۔ سڈنی کے مہنگے علاقے ڈارلنگ ہاربر پہ اس لیے کیونکہ نوشی گیلانی کے شوہر سعید خان اسی جگہ کام کرتے ہیں۔
ہمارا ہوٹل جس علاقے میں واقع تھا اسے ڈارلنگ ہرسٹ کہتے ہیں۔ اب نوشی گیلانی سے ڈارلنگ ہاربر پہ ملنا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان جگہوں کے ناموں میں بار بار یہ پیار بھرا لفظ ڈارلنگ کیوں آتا ہے۔ دراصل سڈنی کے یہ خاص مقامات اس علاقے کے ایک پرانے گورنر رالف ڈارلنگ کے نام سے منسوب ہیں۔ اپنے پیار بھرے نام کے باوجود رالف ڈارلنگ کی شہرت کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔
پرانے وقتوں میں تاریخوں کے بجائے موسم سے خاص واقعات کو یاد رکھا جاتا تھا۔ خاندان کے کسی پرانے شخص سے پوچھیے کہ منجھلے دادا کی شادی کب ہوئی تھی تو وہ فورا بتائے گا کہ منجھلے دادا کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب ساون میں پانچ دن کی جھڑی لگی تھی۔ نوشی گیلانی اور سعید خان سے ملاقات بھی ایسے ہی ایک بھیگے موسم میں ہوئی تھی۔ بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ چھجوں اور چوباروں کے کونوں سے پانی تیز دھار سے گر رہا تھا۔ شہر کی طرف سے نکاسی آب کا اچھا نظام ہونے کے باوجود پانی کے چھوٹے بڑے جوہڑ جا بجا نظر آتے تھے۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں ان چھوٹے چھوٹے تیلابوں میں گرتیں تو تڑپ کر پھر اٹھتیں اور پھر ریزہ ریزہ بکھر کر واپس پانی میں گر کر  اس کا حصہ بن جاتیں۔ جون کا وسط تھا۔ اس وجہ سے بارش کے ساتھ سردی بہت بڑھ گئی تھی۔
مگر یہ تو دو دن بعد کی بات ہے۔ نوشی گیلانی سے ملاقات سے ایک روز پہلے بونڈائی جانے کا موقع ملا۔ سڈنی کا بونڈائی ساحل مشہور تفریحی مقام ہے۔ ہم نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ بونڈائی ہمارے ہوٹل سے محض تین سے چار میل کے فاصلے پہ تھا۔ یہ دوری بھی کوئی دوری تھی، یہ سوچ کرہم بونڈائی ساحل کے لیے پیدل نکل پڑے۔ بونڈائی ساحل تک پہنچنے میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ گرمیوں میں اس ساحل کی ریت نیم برہنہ جسموں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے مگر سردیوں کے اس روز بونڈائی ساحل بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ ہم ساحل کے ساتھ ایک کونے سے چلنا شروع ہوئے اور دیر تک ساحل پہ سر پٹکتی موجوں سے بچ کر چلتے رہے۔ ہم نے گنتی کے ان چند سورمائوں کو حیرت و تحسین سے دیکھا جو اس سردی میں بھی وہاں سرفنگ کررہے تھے۔ اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اس موسم میں سرفنگ کا حوصلہ ہم میں تھا۔ جواب نفی میں آیا۔ انسان کی زندگی میں جسمانی ارتفاع کا وقت بہت جلد گزر جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان شدید جسمانی مشقت کرسکتا ہے، مقابلے کے کھیلوں میں شرکت کرسکتا ہے، اولمپکس میں حصہ لے سکتا ہے۔ جسمانی ارتفاع کا موقع گزر جانے کے باوجود ذہنی ارتفاع کا وقت اور امکان قائم رہتا ہے۔ ذہنی ارتفاع کا وقت وہ ہوتا ہے جب انسان ذہنی تخلیقات کر سکے۔ جب نئے نئے خیالات اس پہ وارد ہوں اور وہ ان خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ ذہنی ارتفاع کا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ بونڈائی ساحل پہ چلتے ہوئے میں نے پلٹ کر اپنے قدموں کے نشانات کو دیکھا۔ گیلی ریت پہ قدموں کےکچھ نشانات موجود تھے اور کچھ پانی نے ختم کردیے تھے۔ اس وقت مجھے ایک خوف آیا۔ کیا میری زندگی میں ذہنی ارتفاع کا وقت بھی گزر چکا تھا؟
جاری ہے۔


Labels: , , , ,


Comments:
correct usage of words, there was reasons, end the end ingredient of philosophy... learn a lot sir....

 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?