Sunday, November 27, 2011

 

حسن نثار کا عمران خان کو مفت مشورہ

نومبر ستاءیس، دو ہزار گیارہ




حسن نثار ایک نامی گرامی کالم نویس ہیں اور وسیع مطالعہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے دیگر پاکستانی کالم نویسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذکی اور ترقی پسند ہیں۔ حسن نثار نے حال میں ایک کالم لکھا ہے جس کا عنوان ہے 'بن مانگے مفت مشورے۔' اس کالم میں حسن نثار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں سیاسی میدان میں عمران خان سینچری بناءے بغیر ننانوے کے اسکور پہ نہ آءوٹ ہو جاءیں۔ حسن نثار کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کو صرف عمران خان مار سکتا ہے۔ اس کالم کا اول حصہ ایسا پیچیدہ ہے کہ آپ سمجھتے ہی رہ جاءیں کہ آخر حسن نثار صاحب کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آخر عمران خان اپنے آپ کو کیسے مارے گا؟ مگر کالم کے آخر میں بات واضح ہوتی ہے کہ حسن نثار عمران خان کو تنظیم سازی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حسن نثار کی راءے میں عمران خان کو ان لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو عمران خان کے آس پاس موجود ہیں اور پارٹی میں نءے آنے والوں کے لیے مزاحمت پیدا کر رہے ہیں۔ حسن نثار کا خیال ہے کہ عمران خان کو پارٹی کے ہر رکن سے ذاتی رابطہ رکھنا چاہیے۔ حسن نثار کے عمران خان کو یہ مشورے یقینا پرخلوص ہیں اور واضح ہے کہ حسن نثار کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی جماعت بن جاءے اور اگلے انتخابات میں ملک گیر کامیابی حاصل کرے۔

یوں تو پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں مگر ایک پارٹی جو اپنے آپ کو تحریک انصاف کہے اس سے لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوگی۔ کہ اس پارٹی میں شخصیت پرستی کو چھوڑ کر ادارہ سازی پہ زور دی جاءے گی۔ انسان فانی ہے اور تھوڑا سا دم خم دکھا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر ادارے قاءم رہتے ہیں؛ اسی لیے اداروں کو مضبوط بنانا اچھا ہوتا ہے۔ جہاں ادارے مضبوط ہوں اور ادارے میں بہت سے لوگ قیادت کی مختلف سیڑھیوں پہ موجود ہوں وہاں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ خدانخواستہ ادارے کا سب سے بڑا قاءد نہ بھی رہا تو ادارہ قاءم رہے گا،نءی قیادت معاملات کو سنبھال لے گی اور ادارہ ان خطوط پہ چلتا رہے گا جس کا خاکہ گزر جانے والے قاءد نے پیش کیا تھا۔ تحریک انصاف سے اس عوامی امید کے باوجود اب تک تحریک انصاف کے واحد نامور قاءد عمران خان ہی ہیں۔ کاش حسن نثار اپنے دوست عمران خان کو یہ مشورہ دیتے کہ وہ تنظیم سازی کے دوران اپنی جماعت میں نءی قیادت کو ابھارنے کے لیے بھی کام کریں۔ تحریک انصاف کے اندر مستقل ایسی ورکشاپ ہو رہی ہوں جن میں کارکنوں کی قاءدانہ صلاحیت کو پروان چڑھایا جاءے، ان لوگوں کو بتایا جاءے کہ انہیں تحریک انصاف کے منشور کو سامنے رکھتے ہوءے اپنی تقریر میں کس طرح کی باتیں کرنی ہیں، جماعت میں نظم و ضبط کیسے لانا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ ممکن ہے کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو واقعی یہ باتیں روز بتاتے ہوں مگر ایسی خبر اب تک عوام تک نہیں پہنچی ہے۔

کوءی بھی شخص جو ملک کے حالات سے عاجز ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ وہ سیاسی طور پہ مضبوط بن کر انتخابات کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کرے اور پھر ملک کی باگ دوڑ سنبھال کر ملک کو صحیح رخ پہ لاءے، اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اس کے اصل اہداف کیا ہیں اور ان اہداف تک جلد از جلد کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص مقبول ہے اور لوگ جوق در جوق اس کے پیچھے آرہے ہیں تو اس کے پاس پہلے ہی بڑی قوت موجود ہے۔ وہ اپنے حمایتیوں کی طاقت استعمال کرتے ہوءے اپنے اہداف پا سکتا ہے۔

ہم، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ، جذباتی واقع ہوءے ہیں۔ جس کے پیچھے چل پڑے سو چل پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا، اور مکان کا نعرہ لگایا تو پاکستان میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو یہ نعرہ اچھا لگا اور وہ بھٹو کے پیچھے دیوانہ وار چلنا شروع ہو گءے۔ مگر بھٹو اس عوامی حمایت کا فاءدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ اسی طرح سنہ پچاسی میں کراچی کے بہت سے لوگ الطاف حسین کے پیچھے چل پڑے۔ اس وقت الطاف حسین کے حمایتی، جذبات میں اس قدر بہے جا رہے تھے کہ اگر الطاف حسین انگلی کے اشارے سے ایک خالی میدان کی طرف اشارہ کرتے کہ، 'کل یہاں ایک بہترین اسکول ہونا چاہیے جہاں مفت تعلیم دی جاءے' تو اس بات کا امکان تھا کہ ان کے چاہنے والے راتوں رات اس جگہ ایک اسکول کھڑا کر دیتے۔ مگر افسوس کہ الطاف حسین نے بھی عوامی حمایت کا مثبت فاءدہ نہ اٹھایا اور اس راہ پہ چل دیے جہاں قاءد کو درخت کے پتوں پہ اپنی شبیہ نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ جہموری نظام ان کے لیے وہ نسخہ کیمیا نہیں بن سکا ہے جس کی کہ انہیں امید تھی۔ نہ صرف یہ کہ آج بہت سے پڑھے لکھے لوگ عمران خان کی طرف امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بہت سے جذباتی نوجوان عمران خان کے پیچھے دیوانہ وار چل پڑے ہیں۔ یہ وقت ہے عوامی حمایت کو صحیح طور پہ استعمال کرنے کا۔ یہ وقت ہے سوچنے کا کہ اصل اہداف کیا ہیں اور عوامی حمایت استعمال کرتے ہوءے ان اہداف تک جلد از جلد کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنے حمایتیوں سے کہہ دیں کہ وہ گلیوں اور محلوں کی سطح پہ منظم ہو جاءیں، کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے اپنے محلے کو جرم سے پاک کر دیں، کہ جہاں عمران خان کے ماننے والے لوگ موجود ہیں وہاں لوگ صفاءی ستھراءی سے رہیں گے اور اس محلے میں جگہ جگہ کچرا نظر نہ آءے گا، کہ جہاں تحریک انصاف کا زور ہے وہاں عورتوں پہ کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا، وہاں ہر بچہ تعلیم حاصل کرے گا، وہاں مذہب کے نام پہ فتنہ نہ پھیلایا جاءے گا اور ہر شخص کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے مذہب و مسلک پہ بلاخوف چل سکے، کہ تحریک انصاف کے اثر والے محلے میں لوگ اس بات کی یقین دہانی کریں گے کہ کوءی شخص بھوکا نہ سوءے گا۔ کاش کہ عمران خان اپنی سیاسی جماعت کو واقعی ایسی تحریک انصاف بنا دیں جو اس سطح پہ بنیادی انصاف لے کر آءے جو عام لوگوں پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور جس کا تعلق حکام اعلی کے کرتوت سے محض واجبی ہے۔

Labels: , , ,


 

میموگیٹ کا جھوٹا طوفان


نومبر بیس، دو ہزار گیارہ


مولا تیرا شکر ہے


ایک زمانہ تھا کہ مجھے ماں کا دن، باپ کا دن، شکریے کا دن، وغیرہ کے مختص کرنے کا معاملہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ماں کا احسان، باپ کا احسان تو ہر روز ماننا چاہیے، اور اسی طرح ہر لمحے اور ہر حال میں مولا کا شکرادا کرنا چاہیے تو پھر ان معاملات میں دنوں کے اختصاص کی کیا ضرورت ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ مجھے یہ بات سمجھ میں آءی کہ اس اختصاص کی یقینا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہر وقت اپنے اوپر برسنے والی نعمتوں کو یاد کرنا چاہیے مگر اس کے ساتھ اگر سال میں شکرانے کا ایک دن مختص کیا جاءے تو اس میں کوءی حرج نہیں ہے کہ شاید کچھ لوگ ایسے ہوں جنہیں ہر حال میں شکر کرنے کا موقع نہ ملتا ہو۔ ایسے ناشکرے اس مخصوص دن ہی سب کے ساتھ اپنے رب کے شکرگزار ہو جاءیں۔ سنہ ۲۰۰۴ کے تھینکس گونگ دن کے موقع پہ لکھا جانے والا ایک خیال حاضر خدمت ہے۔ ہزار برکتیں، لکھوکھا احسانات۔ زندگی کی دوڑ میں بہت آسان ہے کئی واضح باتیں بھلا دینا۔ یہ بھول جانا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں، کہ ہم پہ ہزارہا برکتوں کی بارش مستقل ہو رہی ہے، کہ نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن کے احسانات کا سہارا لیے ہم آج اس مقام پہ پہنچے ہیں۔ بہت آسان ہے یہ ساری باتیں بھلا دینا اور پھر قسمت سے گلہ کرنا کہ ہمیں وہ کچھ نہیں ملا جو ہم نے چاہا تھا۔ بہت آسان ہے شکایت کرنا اور ان ساری چیزوں کی خواہش کرنا جو ہماری دسترس سے بہت دور ہیں۔

میں مستقل برکتوں کی بارش میں جیتا ہوں۔ میں نے مستقل لوگوں سے ان کے احسانات کی بھیک مانگی ہے۔ اور نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو میرے بھیک مانگنے سے پہلے مجھے اپنی محبت سے نوازتے ہیں۔ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ برکتوں کا ساون گزر گیا اور لوگوں نے مجھے اپنی مہربانی کی بھیک ڈالنا بند کر دی تو میں کہیں کا نہ رہوں گا۔ میں ڈرتا ہوں ایسی خشک سالیء الفت کے موسم سے۔

ایک پراسرار خط۔

آج کل ایک پراسرار خط پاکستانی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور اس پراسرار خط سے زبردستی اٹھاءے جانے والے سیاسی طوفان کو میموگیٹ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس خط پہ کوءی تاریخ درج نہیں ہے مگر عبارت سے واضح ہے کہ یہ خط اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے تین چار دن کے اندر لکھا گیا تھا، گویا مءی چار یا اس کے آس پاس۔ اس پراسرار خط پہ کسی کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں مگر یہ واضح ہے کہ یہ خط اس وقت کے امریکی جواءنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ماءک ملن کے نام ہے۔ اس خط میں ماءک ملن سے درخواست کی گءی ہے کہ وہ جنرل کیانی کو تنبیہ کریں کہ وہ سویلین حکومت کو دھمکیاں نہ دیں۔ اس کے ساتھ ملن کو تجویز پیش کی گءی ہے کہ وہ پاکستانی فوج پہ دباءو ڈالیں اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں تبدیلیاں لاءی جاءیں اور اس میں ایسے لوگ شامل کیے جاءیں جو امریکی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ اس پراسرار خط کو پاکستانی فوج کےخلاف ایک بغاوت کے طور پہ پیش کیا جارہا ہے اور جب سے یہ خط منظر عام پہ آیا ہے پاکستان کا مادر پدر آزاد میڈیا صبح و شام اس خط کا تجزیہ کر رہا ہے اور مختلف حکومتی عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبات کر رہا ہے۔ اس خط کو عام کرنے والے شخص کا نام منصور اعجاز ہے جو پاکستانی نژاد امریکی ہے۔ آپ خود اس خط کو پڑھیے اور پھر اپنا سر دھنیے کہ نہ جانے اس حماقت بھرے خط کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟ یہ خط یقینا ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جو اچھا لکھنے کے فن سے نابلد ہے۔ پھر اس خط کے متن میں جو تجویزات ہیں ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ وہ کون احمق ہے جس کا خیال ہے کہ ماءک ملن اگر جنرل کیانی کو سختی سے تنبیہ کریں گے تو کیانی ان کے سامنے بھیگی بلی بن کر ان کی ہر بات ماننے کو تیار ہو جاءیں گے؟ کوءی اور ملک ہوتا تو اس قسم کے فراڈ خط کو ذرا اہمیت نہ دی جاتی اور ایسے خط کو میڈیا میں پیش کرنے والے شخص کو نوسر باز اور سستی شہرت کا طالب ہی سمجھا جاتا مگر پاکستانی میڈیا میں بہت سے لوگ ہیں جن کو آصف علی زرداری ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ یہ لوگ زرداری اور ان کے ساتھیوں کو بدنام کرنے کا کوءی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس خط کی شکل میں ان لوگوں کو ایک نیا شوشہ میسر آیا ہے چنانچہ صبح و شام اس حماقت بھرے خط کو ٹی وی پہ آنے والے مختلف اینکر اچھال رہے ہیں۔ اتنا کافی تھا کہ ماءک ملن سے پوچھا جاتا کہ آیا تمھیں یہ خط حسین حقانی نے بھیجا تھا؛ وہ جواب دیتے کہ نہیں تو بس بات ادھر ہی ختم کر دی جاتی۔ کہ منصور اعجاز نامی بہت سے لوگ ہیں جو اپنے روپے پیسے کی وجہ سے اہم لوگوں کے قریب آ سکتے ہیں اور پھر کسی کے نام سے بھی ایک خط لکھ کر کسی اہم عہدیدار تک پہنچا سکتے ہیں۔ صبح و شام میموگیٹ کا راگ الاپنے والے یہ نام نہاد صحافی اپنی صحافیانہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر وہ منصور اعجاز کو غیراہم اور چال باز سمجھ کر نظرانداز نہیں کر سکتے تو کم از کم اس شخص سے تیڑھے ترچھے سوالات ہی کریں۔ اس سے پوچھیں کہ اگر تم حسین حقانی کے اتنے قریبی ساتھی تھے کہ حقانی نے ماءک ملن تک یہ خط پہنچانے کے لیے تمھیں استعمال کیا تھا تو آج تم اس خط کو میڈیا میں اچھال کر اپنے 'حلیفوں' کو کیوں بدنام کر رہے ہو؟ اس کے ساتھ اس شخص سے ہر بات کا دستاویزی ثبوت مانگا جاءے کہ تمھیں پاکستانی سفارت خانے کے کن لوگوں سے کس طرح کی تحریری ہدایات ملی تھیں۔ اسی قسم کے بے باک سوالات سے ذرا سی دیر میں معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے مگر اتنی تکلیف برداشت کرنے کے لیے یہ صحافی تیار نہیں ہیں۔

Labels:


 

عمران خان کا تاریخی جلسہ

نومبر تیرہ، دو ہزار گیارہ


عمران خان نے تیس اکتوبر کے روز لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پہ ایک کامیاب جلسے سے خطاب کیا۔ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اس جلسے میں ایک لاکھ سے اوپر لوگ شریک ہوءے۔ اس جلسے کے بعد پاکستانی ذراءع ابلاغ میں ایک زور دار شور مچا۔ یوں تو ایک عرصے سے عمران خان پاکستانی میڈیا کے چہیتے رہے ہیں مگر ان کے حالیہ جلسے نے تو انہیں پاکستانی میڈیا کی آنکھوں میں اوتار کا درجہ دے دیا۔ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینل پہ نظر آنے والے مبصرین کو سنیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسےعمران خان نے لاہور میں کامیاب جلسہ کر کے اگلے انتخابات جیت لیے ہیں اور وہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ اکتوبر تیس کے جلسے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیوں شریک ہوءے، اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ لوگ نہ جانے تجسس میں وہاں پہنچے، یا تفریح کے اور مواقع نہ میسر ہونے کی وجہ ان کی جلسے میں شمولیت کا سبب بنی، یا پھر وہ عمران خان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے، یا وہ واقعی تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کو دل و جان سے چاہتے ہیں اور اگلے انتخابات میں عمران خان کی تحریک انصاف کو جیتتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں اور لوگوں کے بارے میں جانوں یا نہ جانوں، اپنے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں اگر اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے کسی امیدوار کو ووٹ دوں گا تو اس لیے نہیں کہ مجھے عمران خان کے سیاسی نظریات سے مکمل اتفاق ہے بلکہ میں ایسا اس لیے کروں گا کیونکہ دوسری جماعتوں کے قاءدین کے مقابلے میں عمران خان کا دامن صاف نظر آتا ہے۔

مگر آج کے اس کالم کا مقصد عمران خان کی اندھی مدح سراءی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عمران خان کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ہے۔ عمران خان پہ سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ وہ مطلق العنان ہیں اور کسی قسم کی مشاورت میں یقین نہیں رکھتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں ہیں جن کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ، مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اور اسی لیے ان کی تحریک انصاف میں صرف وہی کارکن کام کر سکتے ہیں جو عمران خان کو اپنا خدا مانیں اور ان کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ وہ لوگ جو عمران خان کے سحر میں گرفتار ہوں اور ان کی موجودگی میں اس قدر ڈرے، سہمے اور سحر زدہ ہوں کہ منہ کھولنے کی جسارت نہ کریں۔ جب تک آپ عمران خان کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا عمل کرتے رہیں آپ تحریک انصاف میں کامیابی سے چلتے رہیں گے۔ اگر آپ نے عمران خان سے اختلاف کیا تو تحریک انصاف میں آپ کے لیے کوءی انصاف نہیں ہے۔

تحریک انصاف بننے کے بعد اس میں کءی مقتدر سیاسی شخصیات نےشمولیت اختیار کی مگر کچھ ہی عرصے میں یہ لوگ عمران خان سے اختلافات کی وجہ سے تحریک انصاف سے مستعفی ہو گءے ۔ ان ممتاز سیاسی راہ نماءوں میں جو تحریک انصاف میں شامل ہوءے اور پھر عمران خان سے اختلاف کی بنا پہ تحریک سے علیحدہ ہوءے، معراج محد خان کا نام بہت بلند ہے۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ گیارہ نوجوانوں کی ایک ٹیم کو تو مطلق العنانی سے چلایا جا سکتا ہے؛ ایک خیراتی اسپتال کے بورڈ کے کرتا دھرتا بن کر اس اسپتال کے انتظام کو چلانا بھی اتنا مشکل نہیں ہے؛ مگر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے ایک ملک کو چلانے کے لیے بہت سے صاحب الراءے افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ کسی ملک کی سربراہی کے کام میں اکڑفوں کو ایک طرف رکھ مشاورت کی راہ اپنانی ہوتی ہے۔ جو لوگ جمہوری عمل سے اقتدار میں آءیں، جمہور ان سے توقع کرتی ہے کہ وہ من مانی نہیں کریں گے بلکہ عوام کی مرضی سے قدم آگے بڑھاءیں گے۔

Friday, November 11, 2011

 

سامان سو برس کا ہے

وال اسٹریٹ پہ قبضہ نامی تحریک نیو یارک سے شروع ہوءی، امریکہ کے مختلف شہروں میں پہنچی اور اب مغربی دنیا کے بیشتر شہروں میں پھیل چکی ہے۔ یہاں کیلی فورنیا میں اور دوسرے شہروں کے مقابلے میں اوک لینڈ پہ قبضہ والی مہم اوک لینڈ پولیس کی زیادتیوں کی وجہ سے عالمی سطح پہ مشہور ہو گءی ہے۔ ان قبضہ تحریکوں کے ناقدین کا اعتراض ہے کہ قبضہ تحریک چلانے والوں کے سامنے کوءی واضح سمت نہیں ہے۔ کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنی اس تحریک کے ذریعے حکومت سے کیا منوانا چاہتے ہیں۔ بڑا میڈیا جو بڑے کاروبار کا حصہ ہے اور اس مالی سانجھے میں شامل ہے جس کے خلاف یہ قبضہ تحریک ہے، پوری کوشش کرتا نظر آرہا ہے کہ قبضہ تحریک کے متعلق شک و شبہات عام لوگوں کے ذہنوں میں رہیں۔ عوام کو قبضہ تحریک کے بارے میں معلومات حاصل نہ ہوں اور اگر کچھ معلوم ہو بھی تو صرف منفی خبروں کے حوالے سے۔ کوشش ہے کہ قبضہ تحریک کو یہ کہہ کر بدنام کیا جاءے کہ اس تحریک میں شامل لوگ جراءم پیشہ ہیں اور محض لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں قبضہ تحریک میں شامل لوگوں پہ فرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تحریک کے اغراض و مقاصد عام لوگوں تک پہنچاءیں۔ اس سلسلے میں یقینا کام ہو رہا ہے مگر تحریک چلانے والے ان لوگوں کے پاس ٹی وی کی طاقت نہیں ہے کہ اپنی آواز ذرا سی دیر میں امریکہ کے گھر گھر پہنچا دیں، اس لیے موثر خبررسانی کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

قبضہ تحریک دراصل غم و غصے کی تحریک ہے۔ اس وقت امریکہ کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی جو شرح ہے ایسی روزگاری تاریخ میں کبھی نہ رہی۔ لوگوں کو غصہ اس بات پہ ہے کہ امریکہ کی جمہوریت پہ بڑے کاروبار نے قبضہ کر کے اسے ایک مذاق بنا دیا ہے۔ یہ جمہوریت ایک فراڈ بن گءی ہے جس میں کوءی کم پیسے والا شخص انتخابات جیت ہی نہیں سکتا۔ انتخابات جیتنے کے لیے بڑے کاروبار کے مالی تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور بڑا کاروبار انتخابی چندہ ان امیدواروں کو دیتا ہے جو منتخب ہونے کے بعد بڑے کاروبار کا ساتھ دیں اور بڑے بیوپاری مالدار سے مالدار ہوتے جاءیں۔ چنانچہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن کاروباروں کی وجہ سے ملک کی معیشت کسادبازاری کا شکار ہوءی ہے،آج ان ہی بیوپار کو حکومت مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔ جب کہ غریب آدمی اس وقت کے انتظار میں ہے جب حکومت کی جانب سے خرچ کیا جانے والا یہ پیسہ رستا رستا نیچے اس تک پہنچے گا۔

اگر موجودہ سرمایہ داری نظام کی تہہ تک جاءیے تو پورا نظام لالچ کے جذبے پہ چل رہا ہے۔ لالچ کے کوڑے سے لوگ بگٹٹ بھاگتے ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات پوری ہونے کے بعد بھی دولت کے انبار لگاتے جاتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اتنا کچھ مال جمع کر لیتے ہیں کہ ان کی اگلی دس پشتیں بھی بیٹھ کر کھاءیں تو ان کا خزانہ کم نہ ہو۔ لوگوں کی ہوس دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ وہ زندگی کی بے ماءیگی کو نہیں پہچانتے۔ سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں۔ اسٹیو جابز ارب پتی شخص تھا مگر ایک دن وہ بھی مر گیا۔

مغربی دنیا میں جو ٹیکس کا نظام راءج ہے اس میں ٹیکس آمدنی پہ لگتا ہے، جمع پونجی پہ نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کسی طرح اپنا خزانہ وسیع کرتے جاتے ہیں انہیں فکر نہیں ہوتی کہ ان کے جمع شدہ خزانے کا ذرا سا حصہ بھی حکومت کی طرف جاءے گا۔ لوگ اپنی جمع پونجی کو اپنا تحفظ خیال کرتے ہیں اور لالچ کے جذبے کے تحت اس نام نہاد تحفظ کو پختہ سے پختہ کرتے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٹیکس کے انتظام میں بنیادی تبدیلی لاءی جاءے اور ٹیکس آمدنی کے بجاءے یا آمدنی کے ساتھ جمع پونجی پہ لگایا جاءے۔ واضح رہے کہ اسلام میں ٹیکس کا نظام ان ہی خطوط پہ کام کرتا ہے۔ جمع پونجی پہ ٹیکس لگانے سے لالچ کے اس جذبے پہ جس میں انسان دولت کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے ضرب لگے گی۔ اس وقت امریکی عوام ذہنی طور پہ نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔ قبضہ تحریک کے مطالبات میں دھن پہ ٹیکس کا مطالبہ برمحل بھی ہوگا اور موجودہ حالات میں اس مطالبے کی کامیابی کے امکانات بھی روشن نظر آتے ہیں۔


Labels: , , ,


 

پاکستان کے غیر ملکی مسیحا



سان فرانسسکو بے ایریا میں بسنے والے بیشتر پاکستانی نہ صرف یہ کہ اصحاب ثروت ہیں بلکہ دل میں انسانیت کا درد بھی رکھتے ہیں۔ بہت مختف وجوہات کی وجہ سے اس سال پاکستان میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ٹی وی، اخبارات، اور انٹرنیٹ کی زینت اس طرح نہ بنیں جس طرح پچھلے سال کے سیلاب کی خبریں بنیں تھیں۔ مگر میڈیا میں اس خبر کی شدت میں کمی کے باوجود سیلاب سے وابستہ پریشانیوں کی شدت متاثرین میں بھرپور طریقے سےموجود ہے۔ بڑھتے پانی کے ریلے سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گءے ہیں۔ سیلاب سے بے گھر متاثرین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ پریشانی کی اس حالت میں یہ لوگ سوالیہ نظروں سے باقی پاکستانیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سان فرانسسکو بے ایریا کے پاکستانیوں نے ان سوالیہ نظروں کی چبھن محسوس کی ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک اتفاق ہی تو ہے کہ وہ ایسی کسی قدرتی آفت سے بچے ہوءے ہیں ورنہ مصیبت آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ یہ محض اتفاق ہی تو ہے کہ وہ ایک نسبتا پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ورنہ زندگی کی بازی پلٹنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ سیلاب سے متاثر اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے کءی بااثر افراد اور فلاحی ادارے اکھٹا ہوءے اور سیلاب زدگان کے لیے چندہ اکھٹا کیا گیا۔ پھر ایک ایسی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں چندہ دینے والے بیشتر لوگ شریک ہوءے۔ واضح رہے کہ ساءتھ ایشیا ریلیف کے جھنڈے تلے چلنے والی اس مہم میں چندہ کسی ایک فلاحی تنظیم کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ چندے کے لیے فلاحی اداروں کی ایک فہرست متمول افراد کو فراہم کر دی گءی تھی کہ وہ جس تنظیم کو چاہیں چندہ دیں۔ سنیچر، اکتوبر ۲۹ کو کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں جو تقریب منعقد کی گءی اس کا مقصد لوگوں کو ایک بار پھر سیلاب کی آفات سے مطلع کرنا تھا۔ اس تقریب کی نظامت عمر خان نے کی۔ اس محفل میں شاءن ہیومینٹی نامی ایک فلاحی تنظیم کے روح رواں ٹاڈ شے مہمان اعزاز تھے۔ تقریب میں جب ٹاڈ شے کا تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ اب ٹاڈ کی انتہاءی دلچسپ داستان سنیے تو ایک لمحے کو میرا دل ڈوب گیا۔ میرا دھیان فورا گریگ مورٹینسن کی طرف گیا۔ ان کا تعارف بھی قریبا ایسے ہی الفاظ سے کیا جاتا تھا کہ، آءیے اب گریگ مورٹینسن سے ان کی انتہاءی حیرت انگیز اور قابل ستاءش کہانی سنیے۔ سنیچر کی تقریب میں ٹاڈ شے ماءکروفون تک پہنچے تو دل میں خیال آیا کہ دلچسپ داستانیں تو ہم سنتے ہی آءے ہیں، کاش یہ ساری کہانیاں سچی ہوتیں۔ ٹاڈ شے نے تصویروں کے ذریعے حاضرین کو اپنے فلاحی کاموں کے بارے میں بتایا اور خوب داد وصول کی۔ مگر مجھے ان کی اس دیانت نے متاثر کیا جس کا اظہار انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ، "میں بہت سے ایسے پاکستانیوں سے ملا ہوں جو پچھلے تیس چالیس سال سے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کر رہے ہیں مگر ان کے کام کا چرچا نہیں ہوتا، نیویارک ٹاءمز ان کے کارناموں کی خبر نہیں لگاتا اور نہ ہی وہ عاطف اسلم کے دوست ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گورے نہیں ہیں اور ان کا تعلق امریکہ سے نہیں ہے۔ مگر ان کا کام اہم ہے اور انہوں نے میرے مقابلے میں کروڑ گنا زیادہ کام کیا ہے۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ان لوگوں کو بھی سراہیں اور ان کی مدد کریں۔"

ٹاڈ شے کے یہ مشاہدات برمحل ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ امریکہ میں بسنے والے بہت سے پاکستانی یقینا پاکستان کے غیرملکی مسیحاءوں کو ملکی مسیحاءوں پہ ترجیح دیتے ہیں۔ جب گریگ مورٹینسن کا جادو چڑھ کر بول رہا تھا تو پاکستانیوں کا ایک بڑا گروہ مورٹینسن کو اپنا پیر سمجھتا تھا اور مستقل ان کے آگے پیچھے لگا رہتا تھا۔ مورٹینسن کے بہت سے معتقدین ایسے تھے جن سے پوچھا گیا کہ تم نے مورٹینسن کے بناءے ہوءے کتنے اسکولوں کا دورہ کیا ہے۔ اس سوال کا جواب تھا، صفر۔ مگر اس کے باوجود مورٹینسن ایک سفید فام امریکی تھا اس لیے ان لوگوں کی نظروں میں واقعی سچا تھا۔ جھوٹ تو یہ کالے پیلے لوگ بولتے ہیں۔ یہاں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ فلاحی کام کسی رنگ و نسل کا مرد یا زن کرے اس میں کسی قسم کا حرج نہیں ہے اور ہمارے دل میں ہر طرح کے اچھے لوگوں کے لیے مساوی عزت ہونی چاہیے۔ مگر لوگوں کے رنگ و نسل سے متاثر ہو کر سوال کرنے کی طاقت کھو دینا مناسب نہیں ہے۔ اس کالم کے قاری جب کسی فلاحی تنظیم کو چندہ دینا چاہیں تو چندے کا چیک کاٹنے سے پہلے فلاحی تنظیم کے متعلق یہ بنیادی سوال کریں۔ کیا یہ فلاحی تنظیم اس جگہ اتنی ہی مقبول ہے جتنی مقبول یہ چندہ جمع کرنے والوں کے درمیان ہے؟ مثلا، گریگ مورٹینسن کی شہرت پاکستان کے مقابلے میں امریکہ میں کہیں زیادہ تھی اور پاکستان میں ڈھونڈے سے ایسے لوگ نہ ملتے تھے جو مورٹینسن کے فلاحی کاموں کی وجہ سے انہیں جانتے ہوں۔ کیا مقامی میڈیا (مغربی میڈیا نہیں) نے اس فلاحی تنظیم کا ذکر کسی خبر یا اخباری رپورٹ میں کیا ہے یا یہ فلاحی تنظیم خود ہی اپنے 'کارناموں' کی تصویریں کھینچتی ہے اور پھر جگہ جگہ جا کر ان تصویروں کو دکھا کر چندہ اکٹھا کرتی ہے؟ وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں اس تنظیم کے فلاحی کاموں سے براہ راست فاءدہ پہنچا ہے اور ان لوگوں کی اس تنظیم کے بارے میں کیا راءے ہے؟

Labels: , , , ,


 

حب الوطنی کیا ہے؟

حب الوطنی کیا ہے؟ اس سوال سے متعلق موجود گنجلک سوچیں ایک دفعہ پھر ایک گفتگو میں سامنے آءیں۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ایک ملک کے اندر موجود تمام لوگوں کو بیک وقت خوش نہیں کیا جا سکتا مگر حب الوطنی کا تقاضہ ہوتا ہے کہ اکثریت جس طرح ملک کو چلانا چاہ رہی ہے اس طرح ملک کو چلانے دیا جاءے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے معترضین خاموشی سے ایک طرف بیٹھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حب الوطنی کیا شے ہے اور اس خیال سے وابستہ وفاداری اور طرح کی وفاداریوں سے کیوں بلند تر ہے۔ میں اپنی حب الوطنی کا تعلق اپنے لوگوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ میں کراچی میں پیدا ہوا اور وہاں پلا بڑھا۔ مجھے وہ شہر بہت پسند ہے۔ مگر اس شہر سے محبت میں میری اصل انسیت وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ اگر اس جگہ سے آپ سارے لوگوں کو نکال کر محض عمارتیں اور سڑکیں میرے سامنے کر دیں تو میں اس شہر سے تعلق نہ جوڑ پاءوں گا۔ حب الوطنی کی اس تعریف میں اصل وفاداری لوگوں کے ساتھ ہے نہ کہ وطن جیسے پیچیدہ نظریے کے خیال کے ساتھ۔ لوگ ہیں تو وطن ہے ورنہ پانی، مٹی، دریا، پہاڑ، وغیرہ تو ہر جگہ قریبا ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر حب الوطنی کی اس تعریف کو اصل مانا جاءے تو سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ خیال دل میں نہیں آتا کہ 'حب الوطنی' کے جذبے کے تحت اکثریت اقلیت کو دبا لے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھیں۔ دارالحکومت دہلی کے قریب رہنے والے ایک شخص کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہوگا کہ بھارت سے 'حب الوطنی' میں یہ جاءز ہے کہ کشمیریوں کی کوءی بات نہ سنی جاءے، یا ماءوسٹ تحریکوں کو کچل کر رکھ دیا جاءے، لیکن ایسی بات حب الوطنی کی صحیح تعریف کے تحت لغو ہوگی کیونکہ لوگوں کے کسی بھی گروہ کو کچل کر 'وطن' سے محبت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر پرانے دنیا کے کءی جمہوری ملک پھنس جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کے تحت ان لوگوں سے کس طرح معاملہ کریں جو ایک ملک میں باقی لوگوں کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ یہاں حب الوطنی کا پتہ کھیلا جاتا ہے۔ اکثریت پہ باور کیا جاتا ہے کہ جو لوگ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو لوگ اپنے خطے کو ملک سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ دراصل محب الوطن نہیں ہیں، چنانچہ حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے کہ ملک توڑنے کی خواہش رکھنے والے ان لوگوں کو سختی سے کچل دیا جاءے۔ حب الوطنی کا ترپ کا یہ پتہ بالکل بے محل ہے۔ اصل حب الوطنی یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جاءے۔ اگر لوگوں کا ایک گروہ کسی جغرافیاءی خطے کی آزادی چاہتا ہے تو ان کو آزاد کر دیا جاءے۔ پرانی دنیا کے بہت سے ممالک جو نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہوءے ہیں انہیں ایسے موقعوں پہ اپنی آزادی کی جدوجہد یاد کرنی چاہیے۔ انہیں یاد کرنا چاہیے کہ ان کے دل میں آزادی کی کیسی امنگ تھی، وہ کس طرح نوآبادیاتی طاقت کو اپنے سر سے ہٹانا چاہتے تھے۔ پھر ایک دن ان کی خواہش پوری ہوءی اور وہ آزاد ہو گءے۔ اب اگر ان کے درمیان ایسے گروہ ہیں جو کسی خطے میں اکثریت رکھتے ہیں اور اس خطے کی آزادی چاہتے ہیں تو کیا آزادی کی یہ خواہش آزادی کی اس خواہش سے مختلف ہے جو نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے اس ملک کی قیادت کے دل میں تھی؟

Labels: , ,


 

گھر لوٹ جاءو





بعض تقاریر چونکا دیتی ہیں۔ حال میں پرسیپینی، نیو جرسی میں منعقد ہونے والے این ای ڈی المناءی کنوینشن ۲۰۱۱ میں ایسی ہی ایک چونکا دینے والی تقریر اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون نے کی۔ مگر سفیر صاحب کی تقریر کے بیان سے پہلے کچھ حال این ای ڈی کنوینشن کا ہوجاءے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں این ای ڈی کنوینشن منعقد کرنے کا یہ سلسلہ قریبا چھ برس پہلے شروع ہوا۔ ایک تعلیمی ادارہ جو ایک چھوٹے سے کالج کی صورت میں ۱۹۲۰ میں شروع ہوا تھا، بڑھا، ایک جامعہ بنا اور پھر وہاں سے نکلنے والے لوگ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گءے۔ این ای ڈی سے فارغ التحصیل طلبا شمالی امریکہ کے مختلف شہروں میں بکھرے ہوءے ہیں۔ معین احمد نامی ایک صاحب نے خیال پیش کیا کہ امریکہ میں موجود این ای ڈی کے سابق طلبا ہر سال ایک کنوینشن کی شکل میں جمع ہوں۔ پہلا کنوینشن سنہ ۲۰۰۵ میں ہیوسٹن میں ہوا۔ اور اب ہر سال یہ کنوینشن کسی نءی جگہ منعقد ہوتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کنوینشن بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کونینشن میں شرکت کرنے والے زیادہ تر لوگ میری طرح ہیں جو گزرے وقت کو یاد کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔ یہ کنوینشن ایک عجیب موقع ہوتا ہے۔ فضا میں ایک جادو ہوتا ہے۔ ہم سب ایک پرانے دور میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب سوچیں سادہ تھیں، خواہشات بہت کم تھیں، اور امنگیں جوان تھیں۔ میں ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہوں جن کی شکلیں میں صبح و شام دیکھا کرتا تھا۔ پھر وہی موسیقی فضا میں بلند ہوتی ہے جو میرے زمانہ طالب علمی میں گونجا کرتی تھی۔ غرض کہ ایک سحر کن ماحول بن جاتا ہے اور ہم سب اپنے حال کو بھول کر کچھ دیر کے لیے ماضی میں پہنچ جاتے ہیں۔ گو کہ پرسیپینی میں منعقد ہونے والا کنوینشن جمعے کی شام شروع ہوا اور اتوار کی صبح ختم ہوا مگر کنوینشن کا اصل دن سنیچر کا روز تھا۔ ہفتے کی صبح مختلف تقاریر ہوءیں جن میں نءے خیالات پیش کیے گءے اور اپنی شناخت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پہ بات ہوءی۔ صبح کے پروگرام کی نظامت راشد علی بیگ نے کی۔ پہلی تقریر سلمان صدیقی کی تھی جنہوں نے دنیا میں تواناءی کے بحران پہ روشنی ڈالی اور اپنی بات اس تجویز پہ ختم کی کہ کس طرح این ای ڈی کی چھت پہ فوٹو وولٹیک پینل لگا کر این ای ڈی کے لیے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور اپنی مادر علمی کو تواناءی میں خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ سلمان صدیقی کی تقریر کے بعد چار مبصرین--حسام احمد، خالد ملک، سلمان صدیقی، اور صفوان شاہ--نے نءے کاروبار شروع کرنے کے موضوع پہ اپنے خیالات پیش کیے۔ اس گفتگو کی راہ نماءی تنویر عالم ملک نے کی۔ جامعہ این ای ڈی کے ایک پرانے استاد ڈاکٹر سید فراست علی نے این ای ڈی المناءی کی ذمہ داریوں کے موضوع پہ تقریر کی۔ ڈاکٹر فراست علی کی تقریر کے بعد ایک اور گفتگو ہوءی جس کا موضوع 'سماجی اور سیاسی میدان میں این ای ڈی المناءی کا کردار' تھا۔ اس گفتگو کے شرکا اکبر انصاری، انور حسن، ابوالسلام اور خالد منصور تھے، جب کہ گفتگو کی پیشواءی امیرالسلام نے کی۔

شام کے پروگرام میں محمد علی شیھکی اور عالمگیر کے زوردار گانوں سے پہلے، ضیا محی الدین کی سحر کن ادب خوانی سے پہلے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون نے کلیدی تقریر کی جس نے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ حسین ہارون نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ انحطاط کا شکار ہے۔ امریکہ کے اچھے دن واپس نہ آنے کے لیے جا چکے ہیں۔ اور یہ کوءی اچھنبے کی بات نہیں۔ کوءی بھی ملک، کوءی قوم ہمیشہ دنیا میں اول نہیں رہتی۔ قوموں کا عروج و زوال تاریخ کا سبق ہے۔ انہوں نے کہا یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا میں غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ پاکستان کے حالات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ لیکن اگر غیریقینی ہرطرف ہے تو امریکہ میں بسنے والےپاکستانی کیوں نہ واپس پاکستان جانے کے بارے میں سوچیں؟ اگر مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنا پیسہ سرمایہ داری کے لیے کہیں نہ کہیں لگانا ہے تو کیوں نہ وہ یہ سرمایہ پاکستان میں کسی کام پہ لگاءیں؟ سفیر صاحب نے کہا کہ ماہرین معاشیات سے گفتگو میں انہوں نے یہ جانا ہے کہ آج کے ان غیر یقینی حالات میں اگر سرماءے پہ کہیں سب سے زیادہ فاءدہ مل سکتا ہے تو وہ ترقی پذیر دنیا ہے۔ مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ واپس اپنے وطن جاءیں اور وہاں رہ کر اپنا پیسہ وہاں لگاءیں۔ سفیر صاحب کی اس ولولہ انگیز تقریر کے دوران کءی موقعوں پہ حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجاءیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

زندگی کے اول مراحل میں انسان کے پاس تجربہ محدود ہوتا ہے مگر تواناءی بے انتہا ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کا علم اور تجربہ بڑھتے جاتے ہیں، مگر اس کے ساتھ اس کے اندر کچھ کرنے کے لیے تواناءی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر عمر کا وہ آخری دور آتا ہے جب علم اور تجربہ تو بہت زیادہ ہوتا ہے مگر عمل کے لیے تواناءی بہت کم ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں آ کر بس جانے والے ہمارے لوگ مستقل تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ آیا وہ اس نءی جگہ پہ رہتے رہیں یا اپنے پرانے وطن لوٹ جاءیں۔ وہ سارے لوگ جو اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر، ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، وہ موقع تلاش کر رہے ہوتے ہیں جب ان کے تجربے اور تواناءی کے درمیان ایک طلاءی توازن قاءم ہو چلا ہوگا کہ اس موقع پہ اگروہ واپس پلٹ جاءیں اور اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر کام کریں تو منہ کی مار نہ کھاءیں گے بلکہ پنپ جاءیں گے۔ علم اور تواناءی کے درمیان وہ سنہری توازن کہ اگر انہوں نے کچھ وقت تردد میں گزارا تو سوءی توازن کے کانٹے سے پرے ہوجاءے گی اور ان کے جسم میں اتنی تواناءی باقی نہ رہے گی کہ وہ اپنی زندگی میں کوءی بڑی تبدیلی لا سکیں۔ عبداللہ حسین ہارون نے اپنی تقریر سے ایسے ہی لوگوں کو للکارا ہے کہ انتظار کیسا، بس فیصلہ کرو اور گھر لوٹ جاءو۔

Labels: , , , , , ,


 

لیکن میرا دل


نیو جرسی میں منعقد ہونے والے سالانہ این ای ڈی کنوینشن کے لیے لکھی جانے والی ایک تحریر۔

موسیقی طاقت رکھتی ہے۔ اتنی طاقت کہ یہ آپ کو گھسیٹ کر ماضی میں لے جا سکتی ہے۔ جس وقت میرا داخلہ جامعہ این ای ڈی میں ہوا اس وقت پاکستان کی موسیقی پہ نازیہ حسن کا راج تھا۔ اور آج بھی میں نازیہ حسن کا گیت 'لیکن میرا دل' سنوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں انیس سال کا ایک لڑکا ہوں جو این ای ڈی کے آڈیٹوریم میں داخل ہوا ہے جہاں یہ گانا زور زور سے چل رہا ہے۔ اس آڈیٹوریم میں نءے آنے والے طلبا کے لیے اورینٹیشن پروگرام کی تیاری میں صفاءی ہو رہی ہے۔ باہر گرمی ہے چنانچہ آڈیٹوریم کا اے سی سسٹم بہت خوشگوار احساس دے رہا ہے۔ طبیعت میں جولانی ہے۔ یہ دن بے فکری اور موج کے دن ہیں۔ سب کچھ آسان معلوم دیتا ہے۔ امنگیں جوان ہیں اور دل مشکل سے مشکل منزل سر کرنے کے لیے تیار۔ زندگی خوب صورت ہے۔

این ای ڈی کے ان اولین دنوں میں جامعہ سے، اس سے متعلق اصطلاحات سے، اور لوگوں سے تعارف ہو رہا ہے۔ یونین کی اہمیت اور طاقت نظر میں بڑھتی جا رہی ہے۔ یونین کے لوگ ہر کام میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ این ای ڈی میں اس وقت راشد علی بیگ کی یونین ہے۔ راشد یونین کے صدر ہیں، ان کے جنرل سیکریٹیری امان اللہ حنیف ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد یونین کے انتخابات ہوں گے جن میں نءے سال کے لیے عہدیداروں منتخب کیے جاءیں گے۔ سیاسی عزاءم رکھنے والے طلبا کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے فارغ التحصیل ہو جانے والے طلبا راہ نماءوں کے ناموں سے بھی واقفیت ہو گءی ہے۔ ان ناموں میں فرحت عادل، محمد حسین، سردار حنیف، اور امیر نقوی وغیرہ شامل ہیں۔ محمد حسین سے تعارف ایک اخباری رپورٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ این ای ڈی کے ایک طالب علم کو بلوچستان میں واقع اپنے گھر سے کوءی بری خبر ملی تھی؛ اسے فورا گھر جانا تھا مگر سواری کا کوءی انتظام نہیں تھا۔ محمد حسین نے واءس چانسلر کے کمرے سے این ای ڈی کی ایمبولینس کی چابی اٹھا کر اس لڑکے کو دے دی تھی۔ وہ لڑکا ایمبولینس پہ بلوچستان روانہ ہو گیا تھا۔ محمد حسین پہ چوری کا جو مقدمہ درج ہوا تھا نہ جانے اس مقدمے کا کیا بنا۔

یہ وہ وقت ہے کہ اچھا بولنے والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ کراچی کے اکثر تعلیمی اداروں میں مباحثے اور تقریری مقابلے ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں ایک سے بڑھ کر ایک مقرر شریک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الفاظ کے جادوگر ہیں، بیان کے ساحر ہیں۔ این ای ڈی میں بھی اچھے مقررین کی کوءی کمی نہیں۔ فیاض الحسن فارغ التحصیل ہو رہے ہیں مگر آشکار داور، وصی صدیقی، زاہد قمر، صفوان شاہ، امیرالسلام،اور شاہد محمود موجود ہیں۔ این ای ڈی سے باہر اچھا بولنے والوں میں اسلامیہ لاء کالج کے ن م دانش ایک بہت بڑا نام ہیں۔ ن م دانش کے ساتھ مکرانی طلبا کا ایک گروہ چلتا ہے۔ یہ لوگ محض ن م دانش کا دل بڑھانے کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ موقع آنے پہ ان کا 'ریکارڈ' لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ڈاءو میڈیکل کالج میں ہونے والا ایسا ہی ایک تقریری مقابلہ ہے جس میں ن م دانش اسٹیج پہ آءے ہیں اور ان کے ساتھ آنے والا گروہ نعرے بازی کر رہا ہے۔

ن م دانش، ننھا منھا دانش؛ ن م دانش، ننھا منھا دانش۔

این ای ڈی کیونکہ جامعہ کراچی سے متصل ہے اس لیے این ای ڈی میں رہتے ہوءے جامعہ کراچی سے بھی واقفیت بڑھ رہی ہے۔ اس وقت جامعہ کراچی میں یونین کے صدر محمود غزنوی ہیں۔ وہ بلا کے مقرر ہیں۔ ان سے پہلے جامعہ کراچی کے طلبا راہ نماءوں میں حسین حقانی اور شفیع نقی جامعی کے نام بھی سننے میں آتے ہیں۔

پہ ضیاالحق کا دور ہے، بھٹو کو پھانسی چڑھے کچھ عرصہ ہو چلا ہے۔ ہنرمند لوگوں کا عرب ریاستوں میں جانے اور وہاں کام کرنے کا جو سلسلہ قریبا دس سال پہلے شروع ہوا تھا اب بھی زور و شور سے جاری ہے۔ باہر کام کرنے والے یہ لوگ جب وطن واپس آتے ہیں تو اپنے ساتھ سوفینی کا کپڑا، سینٹ کی بوتلیں، اور وی سی آر ضرور لاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پلاسٹک کے دیدہ زیب اور مضبوط بیگ بھی آرہے ہیں۔ ہم ان پلاسٹک بیگوں کو غور سے دیکھتے ہیں کہ اب تک ہم سودا سلف کے لیے کاغذ کے لفافے استعمال کرتے رہے ہیں۔

پہلے سیمسٹر کی پڑھاءی شروع ہو چکی ہے۔ بعض مضامین ذرے پلے نہیں پڑ رہے۔ ہم سینءیر طلبا سے مدد لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک قابل سینءیر قیصر شاہ خان ہیں۔ وہ چھٹی کے روز جامعہ کراچی کے ایک لیکچر ہال میں ہمیں پڑھاتے ہیں۔ ان کو بات سمجھانے کا فن آتا ہے۔

بہت سے طلبا کی طرح میں بھی پواءنٹ سے این ای ڈی پہنچتا ہوں۔ لوگ ان بسوں کو کبھی ان کے علاقوں اور کبھی ان کے ڈراءیور اور کنڈیکٹر کے ناموں سے پہچانتے ہیں، مثلا ظہور کا پواءنٹ، نیازی کا پواءنٹ۔ بس جہاں آ کر کھڑی ہوتی ہے وہاں ہر صبح طلبا راہ نما پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہر شخص سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ان لوگوں میں مسعود محمود اور الطاف شکور آگے آگے ہیں۔

پھر ایک یاد ہے ایک گرم دن کی کہ جب میں سورج کی تپش سے بچنے کے لیے لاءبریری کے کوریڈور میں چلتا ہوا آگے تک آتا ہوں اور پھر تیزی سے پلازا کا بے سایہ ٹکڑا پار کر کے سول ڈیپارٹمنٹ کے کوریڈو کی چھاءوں میں آجاتا ہوں۔ اچانک سامنے سے امیرالاسلام آتا نظر آتا ہے۔ اس کے منہ پہ یوں ہواءیاں اڑ رہی ہیں کہ جیسے اس نے کوءی بھوت دیکھ لیا ہو۔

"بھاگو، تھنڈر اسکواڈ آرہا ہے،" وہ مجھ سے کہتا ہے۔ میرے لیے یہ نءی اصطلاح ہے۔

"یہ تھنڈر اسکواڈ کیا ہوتا ہے؟" میں اس سے پوچھتا ہوں۔

"جمعیت کا تھنڈر اسکواڈ۔" وہ جلدی سے جواب دیتا ہے، اور ساتھ ہی مجھ سے ہمدردی میں مجھے دھکا دے کر دوسری طرف روانہ کرتا ہے۔ امیرالسلام کیونکہ کراچی یونیورسٹی میں کچھ وقت گزار کر آیا ہے اس لیے وہ وہاں کی سیاست سمجھتا ہے۔ کچھ دیر بعد میں لاءبریری میں بیٹھا ہوا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں تو ایک عجیب منظر نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ شلوار قمیضیں پہنے، مختلف نوع کا آتشیں اسلحہ لیے چھتوں پہ دوڑ رہے ہیں۔

کچھ دیر بعد نعرے بازی ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی سے اسلامی جمعیت طلبا کا عسکری گروہ تھنڈر اسکواڈ طاقت کا مظاہرہ کرنے این ای ڈی آیا تھا مگر ان اسلحہ بردار اجنبیوں کو این ای ڈی میں دیکھ کر بلوچ اور پٹھان طلبا تیزی سے اپنے ہاسٹل کی طرف گءے اور اسلحہ نکال کر لاءے۔ مگر اتنی دیر میں تھنڈر اسکواڈ این ای ڈی سے روانہ ہو چکا تھا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے اس قدر اسلحہ یوں کھلے عام دیکھا ہے۔ طلبا کے پاس یہ جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟ مجھے اس وقت اس سوال کا جواب نہیں ملتا مگر بعد میں راز کھلتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد شروع ہونے کے ساتھ پاکستان میں اسلحے کی فراوانی کا دور بھی شروع ہو چکا تھا۔

اس واقعے کے بعد دین محمد بورو اور شیرین خان سمیت کءی بلوچ اور پٹھان طلبا پلازا کے فوارے کے ساتھ اسلحے کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔

یونین کے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ گہما گہمی بڑھ رہی ہے۔ این ای ڈی میں ایک عرصے سے پی ایس ایف جیتتی آ رہی ہے مگر اب کی دفعہ جمعیت نے بہت کام کیا ہے اور پی ایس ایف کی طرف سے یونین کی صدارت کے لیے کھڑےے ہونے والے امیدوار آفتاب صدیقی کے مقابلے میں الطاف شکور اور ان کے ناءب مسعود محمود زیادہ مقبول نظر آتے ہیں۔ پی ایس ایف کے پینل پہ بیرون کراچی طلبا کی بھی نماءندگی ہے۔ یہ نماءندگی پی ایس ایف کے پیچھے کام کرنے والے کراچی کے دماغ کو بلوچ اور پٹھان زور بازو فراہم کرنے کے صلے میں ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں اور وہی ہوتا ہے جس کا خیال تھا۔ تین عہدیداران جمعیت کے منتخب ہوتے ہیں اور بقیہ پی ایس ایف کے۔ پی ایس ایف کے ایک امیدوار ظفر گچکی کا ہارنا بلوچ طلبا کو ذرا پسند نہیں آتا۔ ابھی طلبا کا الطاف شکور اور مسعود محمود سے مبارک سلامت کا سلسلہ جاری ہے کہ زوردار فاءرنگ شروع ہوجاتی ہے۔ ہم سب بھاگ اٹھتے ہیں۔ معصومیت کا ایک دور ختم ہوا۔ طلبا سیاست میں تشدد اور قتل و غارت گری کا دور شروع ہو رہا ہے۔

اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے مگر یہ ساری باتیں بہت پرانی ہیں۔ زندگی کا جہاز کھلے پانی میں بہت آگے آگیا ہے۔ اتنی دور کہ یہاں سے این ای ڈی میں گزارا جانے والا وقت ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم دیتا ہے۔ لیکن میرا دل۔۔۔۔

Labels: , , , , , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?