Friday, November 11, 2011

 

سامان سو برس کا ہے

وال اسٹریٹ پہ قبضہ نامی تحریک نیو یارک سے شروع ہوءی، امریکہ کے مختلف شہروں میں پہنچی اور اب مغربی دنیا کے بیشتر شہروں میں پھیل چکی ہے۔ یہاں کیلی فورنیا میں اور دوسرے شہروں کے مقابلے میں اوک لینڈ پہ قبضہ والی مہم اوک لینڈ پولیس کی زیادتیوں کی وجہ سے عالمی سطح پہ مشہور ہو گءی ہے۔ ان قبضہ تحریکوں کے ناقدین کا اعتراض ہے کہ قبضہ تحریک چلانے والوں کے سامنے کوءی واضح سمت نہیں ہے۔ کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنی اس تحریک کے ذریعے حکومت سے کیا منوانا چاہتے ہیں۔ بڑا میڈیا جو بڑے کاروبار کا حصہ ہے اور اس مالی سانجھے میں شامل ہے جس کے خلاف یہ قبضہ تحریک ہے، پوری کوشش کرتا نظر آرہا ہے کہ قبضہ تحریک کے متعلق شک و شبہات عام لوگوں کے ذہنوں میں رہیں۔ عوام کو قبضہ تحریک کے بارے میں معلومات حاصل نہ ہوں اور اگر کچھ معلوم ہو بھی تو صرف منفی خبروں کے حوالے سے۔ کوشش ہے کہ قبضہ تحریک کو یہ کہہ کر بدنام کیا جاءے کہ اس تحریک میں شامل لوگ جراءم پیشہ ہیں اور محض لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں قبضہ تحریک میں شامل لوگوں پہ فرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تحریک کے اغراض و مقاصد عام لوگوں تک پہنچاءیں۔ اس سلسلے میں یقینا کام ہو رہا ہے مگر تحریک چلانے والے ان لوگوں کے پاس ٹی وی کی طاقت نہیں ہے کہ اپنی آواز ذرا سی دیر میں امریکہ کے گھر گھر پہنچا دیں، اس لیے موثر خبررسانی کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

قبضہ تحریک دراصل غم و غصے کی تحریک ہے۔ اس وقت امریکہ کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی جو شرح ہے ایسی روزگاری تاریخ میں کبھی نہ رہی۔ لوگوں کو غصہ اس بات پہ ہے کہ امریکہ کی جمہوریت پہ بڑے کاروبار نے قبضہ کر کے اسے ایک مذاق بنا دیا ہے۔ یہ جمہوریت ایک فراڈ بن گءی ہے جس میں کوءی کم پیسے والا شخص انتخابات جیت ہی نہیں سکتا۔ انتخابات جیتنے کے لیے بڑے کاروبار کے مالی تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور بڑا کاروبار انتخابی چندہ ان امیدواروں کو دیتا ہے جو منتخب ہونے کے بعد بڑے کاروبار کا ساتھ دیں اور بڑے بیوپاری مالدار سے مالدار ہوتے جاءیں۔ چنانچہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن کاروباروں کی وجہ سے ملک کی معیشت کسادبازاری کا شکار ہوءی ہے،آج ان ہی بیوپار کو حکومت مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔ جب کہ غریب آدمی اس وقت کے انتظار میں ہے جب حکومت کی جانب سے خرچ کیا جانے والا یہ پیسہ رستا رستا نیچے اس تک پہنچے گا۔

اگر موجودہ سرمایہ داری نظام کی تہہ تک جاءیے تو پورا نظام لالچ کے جذبے پہ چل رہا ہے۔ لالچ کے کوڑے سے لوگ بگٹٹ بھاگتے ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات پوری ہونے کے بعد بھی دولت کے انبار لگاتے جاتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اتنا کچھ مال جمع کر لیتے ہیں کہ ان کی اگلی دس پشتیں بھی بیٹھ کر کھاءیں تو ان کا خزانہ کم نہ ہو۔ لوگوں کی ہوس دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ وہ زندگی کی بے ماءیگی کو نہیں پہچانتے۔ سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں۔ اسٹیو جابز ارب پتی شخص تھا مگر ایک دن وہ بھی مر گیا۔

مغربی دنیا میں جو ٹیکس کا نظام راءج ہے اس میں ٹیکس آمدنی پہ لگتا ہے، جمع پونجی پہ نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کسی طرح اپنا خزانہ وسیع کرتے جاتے ہیں انہیں فکر نہیں ہوتی کہ ان کے جمع شدہ خزانے کا ذرا سا حصہ بھی حکومت کی طرف جاءے گا۔ لوگ اپنی جمع پونجی کو اپنا تحفظ خیال کرتے ہیں اور لالچ کے جذبے کے تحت اس نام نہاد تحفظ کو پختہ سے پختہ کرتے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٹیکس کے انتظام میں بنیادی تبدیلی لاءی جاءے اور ٹیکس آمدنی کے بجاءے یا آمدنی کے ساتھ جمع پونجی پہ لگایا جاءے۔ واضح رہے کہ اسلام میں ٹیکس کا نظام ان ہی خطوط پہ کام کرتا ہے۔ جمع پونجی پہ ٹیکس لگانے سے لالچ کے اس جذبے پہ جس میں انسان دولت کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے ضرب لگے گی۔ اس وقت امریکی عوام ذہنی طور پہ نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔ قبضہ تحریک کے مطالبات میں دھن پہ ٹیکس کا مطالبہ برمحل بھی ہوگا اور موجودہ حالات میں اس مطالبے کی کامیابی کے امکانات بھی روشن نظر آتے ہیں۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?