Saturday, July 28, 2007

 

ایک خطرناک خود تکمیلی پیش گوئی



پاکستان کے مستقبل کی جنگ تیزتر ہو گئی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ جب کسی خودکش حملے، کسی بم دھماکے، کسی حربی جھڑپ کی خبر نہ آئے۔۔
کہنے کو تو خوں ریزی میں موجودہ تیزی کے ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہیں جہنوں نے اپنے فائدے کے لیے لال مسجد کے خلاف ایک پر تشدد راستے کا انتخاب کیا اور اب ملک کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
مگر بات اس سے بھی پرانی ہے۔ اس واقعے کی ایک منزل گیارہ ستمبر کے فورا بعد ملتی ہے کہ جب امریکی حکومت نے القاعدہ کا ہوا کھڑا کیا۔ اور پھر افغانستان پہ حملہ کر کے طالبان کی حکومت کو زبردستی ختم کیا۔ طالبان کی حکومت یقینا فرسودہ خیالات رکھتی تھی مگر بدقسمتی سے وہ اس علاقے کی اکثریت کے نظریات کی ترجمانی کرتی تھی۔ ایک ایسی حکومت کو زور و زبردستی سے ختم کرنا جسے عوامی حمایت حاصل ہو یقینا دانشمندی نہیں اور طویل مدت میں کامیاب حکمت عملی نہیں ہے۔
وقتی پسپائی کے بعد طالبان دوبارہ متحد ہو گئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
پھر امریکی حکومت نے ایک اور حماقت کی۔ اس نے اپنے ذہن میں طالبان کو القاعدہ سے جوڑ دیا۔ حالانکہ طالبان میں اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں تھی کہ وہ اپنے ملک سے باہر کسی چیز کے بارے میں غور کر سکیں۔
نفسیات میں ایک اصطلاح ہے سیلف فل فلنگ پروفیسی، یعنی خود تکمیلی پیش گوئی۔ گویا ایک پیش گوئی کی جائے اور اس کو یوں اپنے اور دوسروں کے ذہن پہ طاری کیا جائے کہ وہ رفتہ رفتہ حقیقت بن جائے۔
امریکی حکومت کے پاس القاعدہ کا جو ذہنی خاکہ ہے کہ کس طرح وہ ایک منظم جماعت ہے جسے بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور جو یہ طاقت رکھتی ہے کہ ہزاروں میل دور سے لوگوں کو بھیج کر امریکہ میں دہشت گردی کروا سکے، ایک ایسی ہی خود تکمیلی پیش گوئی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت بنتی نظر آ رہی ہے۔

Saturday, July 21, 2007

 

پرانے گھر کے بدلتے موسم



پاکستان کی سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرینس رد کر تے ہوئے انہیں اپنے عہدے پہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خوش آئند فیصلے کے آثار کچھ عرصہ پہلےملنا شروع ہو گئے تھے جب حکومت نے افتخار چوہدری کے خلاف بہت سے الزامات واپس لے لیے تھے۔
پاکستانی وکلا اور جمہوریت دوست لوگوں نے اس فیصلے پہ خوشی کا اظہار کیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ عدلیہ نے اپنی آزادی پہ مہر ثبت کر دی ہے۔ دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے یہ پورا عمل، یعنی چیف جسٹس کو غیر فعال بنانا، اور پھر وکلا کی مہم ملک کے لیے اچھا تجربہ ثابت ہوا۔ ایک تو تمام ججوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ لوگوں کی ان سے توقعات بہت بلند ہیں اور ان سے کسی بھول چوک کی امید نہیں ہے۔ اور پھر اس پورے واقعے سے نہ صرف موجودہ فوجی حکومت کوبلکہ آئندہ آنے والے تمام حکمرانوں کو یہ احساس رہے گا کہ اب پاکستانی عوام کا سیاسی شعور بہت پختہ ہے اورعدلیہ کو حکومتی دبائو کے ذریعے قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اب کھیل کا اگلا رائونڈ ستمبر میں ہو گا جب جنرل پرویز مشرف موجودہ اسمبلیوں سے دوسری بار صدارتی مدت کا فیصلہ لینا چاہیں گے۔ اگر اسمبلیاں انہیں یہ اجازت نہیں دیتیں اور وہ فوج کی طاقت کو عوام کی مرضی کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے یہ فیصلہ قبول کرلیتے ہیں تو یہ خوش خیالی بے جا نہ ہوگی کہ پاکستانی فوج نے عوام کے جذبات کو پڑھ لیا ہے۔ وہ سمجھ گئی ہے کہ فوج کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ اور ملک اور خود فوج کی عافیت اسی میں ہے کہ پاکستانی فوج رفتہ رفتہ پیچھے ہٹے اور اقتدار جمہوری طاقتوں کے حوالے کر دے۔

Saturday, July 14, 2007

 

تشدد کا پھیلتا دائرہ




لال مسجد میں فوج کا آپریشن ختم ہو چکا ہے۔ سو سے اوپر لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور مسجد اور مدرسہ خالی کرائے جا چکے ہیں۔ بظاہر یہ اختتام موجودہ پاکستانی حکومت کی جیت ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس نے مذہبی انتہا پسندوں کو ایک اچھا سبق سکھا دیا ہے۔ اور آئندہ کسی مدرسے کو یہ ہمت نہ ہوگی کہ وہ اپنے طور پہ شریعت کے نفاذ کی کوشش کرے۔
مگر جیت کا یہ احساس محض خام خیالی ہے۔ اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ تشدد سے وقتی طور پہ اپنی بات تو منوائی جاسکتی ہے مگر لوگوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے ۔

لال مسجد والوں نے زور و زبردستی کا ایک راستہ اپنایا تھا جس سے لوگ متنفر تھے۔ ویسا ہی زور و زبردستی کا راستہ پاکستانی حکومت نے بھی اپنایا۔ اور اب یقینا لال مسجد کے حامی لوگ اس تشدد سے متنفر ہوں گے۔

تشدد کا یہ پھیلتا دائرہ طویل مدت میں ملک کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوگا، اس بات کا فیصلہ صرف وقت کرے گا۔


Tuesday, July 03, 2007

 

کالی مسجد



جامعہ حفصہ اور لال مسجد سے متعلق تشویشناک خبریں ایک عرصے سے اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے منتظمین اور طلبا کا خیال ہے کہ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ صحیح اسلام کیا ہے۔ یہ لوگ اپنی مرضی کا "صحیح اسلام" پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مسجد اور مدرسے سے تعلق رکھنے والوں نے اسلام نافذ کرنے والی اس مہم میں لوگوں کو ان کے گھروں سے اغوا کیا ہے، اور پولیس والوں کو بھی زدوکوب کیا ہے۔
پاکستانی حکومت ملک کے دارالحکومت میں ایسی ریاست مخالف کاروائیاں کیسے برداشت کر رہی ہے، لوگوں کو قانون سے کھیلنے کی اجازت کیوں دے رہی ہے، اس بارے میں دو رائے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے خود جان بوجھ کر اس آگ کو بڑھنے کا موقع دیا ہے۔ مغربی سفارتکاروں کو وزیرستان لے جا کر مذہبی شدت پسندوں کی نمائش کروانا مشکل کام تھا، جامعہ حفصہ نے یہ موقع اسلام آباد میں ہی فراہم کر دیا جو جرنل نے چالاکی سے قبول کیا۔
اگر واقعی ایسا ہے تو صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر ایسے معاملے کو آگے بڑھنے دینے سے اس طرح کا ذہن رکھنے والے دوسرے لوگوں کو شہ ملے گی اور طویل مدت میں ملک کے لیے یہ خطرناک بات ثابت ہو گی۔
ایک دوسری رائے یہ ہے، اور جو دل کو لگتی ہے کہ، حکومت چلانے والے لوگ نااہل ہیں، وہ کسی قسم کی کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کا ہر وہ روز جو چین سے گزر جائے ان کے لیے غنیمت ہے۔ یہ نااہل لوگ مسائل کو ان کے نمودار ہونے پہ حل نہیں کرتے بلکہ انہیں دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں۔

لال مسجد کا مسئلہ آنکھیں بند کرنے سے حل ہونے والا نہ تھا۔ چنانچہ منگل کے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مدرسے کے طلبہ کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں اور نو افراد ہلاک ہو گئے۔
اب خبر آئی ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے گرد پولیس نے ناکہ سخت کر دیا ہے اور لال مسجد کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔
اب بھی وقت ہے کہ حکمت عملی سے ایک انسانی جان بھی لیے یا دیے بغیر اس معاملے کو ٹھنڈا کیا جائے۔
بجلی کاٹنا ایک اچھا فیصلہ تھا، اب بات اور آگے بڑھائی جائے۔ مسجد اور مدرسے کا پانی اور فون بھی کاٹ دیا جائے۔ محاصرہ ایسا سخت کیا جائے کہ پولیس کی مرضی کے بغیر محاصرہ شدہ علاقے میں نہ کوئی اندر جا سکے اور نہ وہاں سے باہر نکل سکے، تاکہ یقین کیا جاسکے کہ اسلحے یا غذا کی کوئی کمک اندر نہ پہنچ پائے گی۔
پھر ریڈیو اور ٹی وی سے اعلان کیا جائے کہ وہ والدین جن کے لڑکے لڑکیاں مسجد اور مدرسے میں ہیں اور وہ اپنی اولاد کی سلامتی چاہتے ہیں محاصرہ شدہ علاقے میں آ کر اپنی اولاد سے اپیل کریں کہ وہ ایک ایک کر کے محاصرہ شدہ علاقہ چھوڑ دیں۔ ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے خاص احکامات ہوں کہ وہ کس جگہ آئیں گے، کس طرح اپنا نہتا پن ثابت کریں گے اور پھر پولیس کے اہل کار انہیں اپنی تحویل میں لیں گے۔ زبردست محاصرہ رات دن قائم رکھا جائے۔ بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر، بجلی اور پانی کے بغیر مسجد اور مدرسے میں موجود افراد چند دن سے زیادہ اپنی ضد قائم نہ رکھ پائیں گے اور ہتھیار ڈال دیں گے۔

مذکورہ مسجد اسلام کے نام پہ ایک کالا دھبہ ہے۔ اس مناسبت سے اس مسجد کا نام بدل کر اب کالی مسجد رکھ دینا چاہیے۔

 

مواقع



کراچی میں مون سون کے موسم سے پہلے ہونے والی بارش اور ساتھ میں چلنے والی شدید آندھی سے دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ دوسو افراد ہمارا بہت بڑا سرمایہ تھے۔ ان کے اندر کتنا استعداد، کتنی صلاحیتیں تھی نہ جانے کیا کچھ کرنے کی۔ یہ دو سو لوگ ایک دن میں چٹ پٹ ہو گئے۔ کتنا بڑا نقصان ہے یہ قوم کا۔ پھر اس کے بعد بلوچستان میں آنے والے سمندری طوفان سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابھی گنی ہی جا رہی ہے۔
انسان کا بستیوں کی شکل میں رہنا تہذیب کی پہلی منزل ہے۔ کہ اس منزل پہ انسان کو بستیوں میں رہنا تو آتا ہے مگر بستیوں کا انتظام یوں کرنا نہیں آتا کہ وہ قدرتی آفات میں بخوبی پنپ سکیں۔
پھرایسی بستیاں ہیں جہاں کا انتظام اچھا ہے۔ آندھی طوفان سے ان کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے مگر کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔ یہ تہذیب کی دوسری منزل ہے۔
مجھے تہذیب کی اس تیسری منزل کا انتظار ہے کہ جب ہم آندھی طوفان سمیت ہر قدرتی تبدیلی کو جنہیں اب تک آفات کا نام دیا جاتا ہےعطیات تصور کریں گے۔ ہم یہ جان لیں گے کہ ہم ہر قدرتی تبدیلی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنا بھلا کر سکتے ہیں۔ پھر جیسے ہی محکمہ موسمیات خبر دے گا کہ تیز ہوا چلنے کا امکان ہے تو لوگ جلدی سے اپنی اپنی پن چکیاں نکال لیں گے اور انہیں لگا کر ہوا کی طاقت کو نچوڑ لیں گے۔ وہ سارے معاملات جو پہلے مرحلے میں عذاب، دوسرے مرحلے میں محض دردسر لگتے تھے، اب اس تیسرے مرحلے میں قدرت کا انمول خزانہ نظر آئیں گے۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?