Tuesday, July 03, 2007

 

کالی مسجد



جامعہ حفصہ اور لال مسجد سے متعلق تشویشناک خبریں ایک عرصے سے اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے منتظمین اور طلبا کا خیال ہے کہ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ صحیح اسلام کیا ہے۔ یہ لوگ اپنی مرضی کا "صحیح اسلام" پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مسجد اور مدرسے سے تعلق رکھنے والوں نے اسلام نافذ کرنے والی اس مہم میں لوگوں کو ان کے گھروں سے اغوا کیا ہے، اور پولیس والوں کو بھی زدوکوب کیا ہے۔
پاکستانی حکومت ملک کے دارالحکومت میں ایسی ریاست مخالف کاروائیاں کیسے برداشت کر رہی ہے، لوگوں کو قانون سے کھیلنے کی اجازت کیوں دے رہی ہے، اس بارے میں دو رائے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے خود جان بوجھ کر اس آگ کو بڑھنے کا موقع دیا ہے۔ مغربی سفارتکاروں کو وزیرستان لے جا کر مذہبی شدت پسندوں کی نمائش کروانا مشکل کام تھا، جامعہ حفصہ نے یہ موقع اسلام آباد میں ہی فراہم کر دیا جو جرنل نے چالاکی سے قبول کیا۔
اگر واقعی ایسا ہے تو صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر ایسے معاملے کو آگے بڑھنے دینے سے اس طرح کا ذہن رکھنے والے دوسرے لوگوں کو شہ ملے گی اور طویل مدت میں ملک کے لیے یہ خطرناک بات ثابت ہو گی۔
ایک دوسری رائے یہ ہے، اور جو دل کو لگتی ہے کہ، حکومت چلانے والے لوگ نااہل ہیں، وہ کسی قسم کی کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کا ہر وہ روز جو چین سے گزر جائے ان کے لیے غنیمت ہے۔ یہ نااہل لوگ مسائل کو ان کے نمودار ہونے پہ حل نہیں کرتے بلکہ انہیں دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں۔

لال مسجد کا مسئلہ آنکھیں بند کرنے سے حل ہونے والا نہ تھا۔ چنانچہ منگل کے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مدرسے کے طلبہ کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں اور نو افراد ہلاک ہو گئے۔
اب خبر آئی ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے گرد پولیس نے ناکہ سخت کر دیا ہے اور لال مسجد کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔
اب بھی وقت ہے کہ حکمت عملی سے ایک انسانی جان بھی لیے یا دیے بغیر اس معاملے کو ٹھنڈا کیا جائے۔
بجلی کاٹنا ایک اچھا فیصلہ تھا، اب بات اور آگے بڑھائی جائے۔ مسجد اور مدرسے کا پانی اور فون بھی کاٹ دیا جائے۔ محاصرہ ایسا سخت کیا جائے کہ پولیس کی مرضی کے بغیر محاصرہ شدہ علاقے میں نہ کوئی اندر جا سکے اور نہ وہاں سے باہر نکل سکے، تاکہ یقین کیا جاسکے کہ اسلحے یا غذا کی کوئی کمک اندر نہ پہنچ پائے گی۔
پھر ریڈیو اور ٹی وی سے اعلان کیا جائے کہ وہ والدین جن کے لڑکے لڑکیاں مسجد اور مدرسے میں ہیں اور وہ اپنی اولاد کی سلامتی چاہتے ہیں محاصرہ شدہ علاقے میں آ کر اپنی اولاد سے اپیل کریں کہ وہ ایک ایک کر کے محاصرہ شدہ علاقہ چھوڑ دیں۔ ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے خاص احکامات ہوں کہ وہ کس جگہ آئیں گے، کس طرح اپنا نہتا پن ثابت کریں گے اور پھر پولیس کے اہل کار انہیں اپنی تحویل میں لیں گے۔ زبردست محاصرہ رات دن قائم رکھا جائے۔ بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر، بجلی اور پانی کے بغیر مسجد اور مدرسے میں موجود افراد چند دن سے زیادہ اپنی ضد قائم نہ رکھ پائیں گے اور ہتھیار ڈال دیں گے۔

مذکورہ مسجد اسلام کے نام پہ ایک کالا دھبہ ہے۔ اس مناسبت سے اس مسجد کا نام بدل کر اب کالی مسجد رکھ دینا چاہیے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?