Friday, September 18, 2015

 

الٹ دنیا کی سیر



ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 ستمبر تیرہ، دو ہزار پندرہ

کالم شمار دو سو چھیالیس


الٹ دنیا کی سیر


یہ نئے زمانے کی ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ نہ صرف انسان چند گھنٹوں میں ہوائی جہاز سے اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتا ہے بلکہ وہ ان ہی چند گھنٹوں میں اپنے اطراف کا موسم بھی بدل سکتا ہے۔ ان گرمیوں میں میرے ساتھ بھی یوں ہی ہوا۔ جہاز کے ایک سفر نے مجھے خط استوا کے اس پار پہنچا دیا۔ شمالی نصف کرے سے جنوبی نصف کرے پہنچنے پہ میرے اطراف کا موسم گرما موسم سرما میں بدل گیا۔
سفر سان ہوزے، کیلی فورنیا سے شروع ہوا جہاں ہوائی اڈے تین گھنٹے پہلے پہنچ جانے کے باوجود ہمارا جہاز نکل گیا۔ اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ جب اہتمام سے وقت سے بہت پہلے ہوائی اڈے پہنچ گئے اور بورڈنگ پاس حاصل کر کے گیٹ تک رسائی بھی ہوگئی تو خیال ہوا کہ اب تو بس جہاز میں سوار ہونا ہے اور پرواز کی روانگی میں بہت وقت ہے۔ چار میں سے تین مسافر ہوائی اڈے پہ مختلف جگہوں پہ ہونے والے تماشے کے دیکھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ انہیں پلٹ کر آنے میں اتنی دیر ہوئی کہ ہمارے جہاز کی روانگی کا وقت ہوگیا۔ میں وہیں گیٹ پہ موجود تھا۔ جہاز میں چڑھنے والوں کی قطار لمبی تھی اس لیے میں نے خیال کیا کہ جب تک مجمع چھٹے گا میرے ساتھ کے تین مسافر بھی وہاں پہنچ جائیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ قطار سکڑتی سکڑتی درجن بھر مسافروں کی رہ گئی مگر میرے ساتھی نہ آئے، اور پھر میرے دیکھتے دیکھتے قطار میں لگا آخری مسافر بھی جہاز میں چڑھ گیا۔ میں جلدی سے گیٹ کے کائونٹر پہ پہنچا اور عملے کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے میرے ساتھیوں کے ناموں کا اعلان کیا اور تنبیہ کی کہ جہاز روانہ ہونے والا ہے۔ مگر ان تینوں کو وقت پہ نہ آنا تھا، نہ آئے۔ گیٹ پہ موجود ہوائی جہاز میں چڑھنے والا دروازہ بند ہوگیا۔ دروازہ بند ہونے کے چند منٹ بعد جب میرے ساتھی پلٹے تو ہم نے دیکھا کہ جہاز ابھی اپنی جگہ پہ ہی کھڑا تھا۔ ہم نے واویلہ کیا کہ جہاز تو ابھی ادھر ہی موجود ہے، ہمیں جہاز میں چڑھنے دیا جائے۔ مگر ہماری ایک نہ سنی گئی۔ الٹاہمیں بتایا گیا کہ ہمارا سامان پہلے ہی جہاز سے اتار لیا گیا تھا۔ اب کیا ہوگا؟ کیا ہم سے لاس اینجلس جانے والی اگلی پرواز کے اضافی پیسے لیے جائیں گے؟ اگلی پرواز کب روانہ ہوگی؟ کیا اگلی پرواز سے ہم لاس اینجلس، وہاں سے نندی کی پرواز کی روانگی سے پہلے پہنچ جائیں گے؟ یہ سارے سوالات بجلی کی تیزی سے ہمارے ذہن میں دوڑ رہے تھے۔ یہاں عملہ تھا کہ ہماری طرف دیکھے بغیر اپنے کمپیوٹر پہ تیزی تیزی ہاتھ چلا رہا تھا۔ پھر پرنٹر چلنا شروع ہوا۔ نئے بورڈنگ پاس باہر آئے۔ نئے بورڈنگ پاس دیتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ ہم گھنٹے بھر میں اگلی پرواز سے لاس اینجلس روانہ ہوں گے اور نندی روانہ ہونے والی پرواز سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے لاس اینجلس پہنچ جائیں گے۔ جان میں جان آئی۔ نہ عملے نے اضافی رقم کی بات کی اور نہ ہی ہم نے اس بارے میں کوئی سوال کیا۔
ہمارے پائوں میں چکر ہے۔ ہمیں مہینوں قریہ قریہ در بدر ہونے میں مزا آتا ہے۔ چیلنج اس سفر کو کم قیمت میں کرنے کا ہوتا ہے۔ ہمارے لیے کسی بھی طویل سفر کی کامیابی میں کلیدی کردار ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا ہوتا ہے۔ جب ہم نے فیصلہ کیا کہ گرمیوں میں آسٹریلیا کا رخ کیا جائے تو تلاش شروع ہوئی مناسب کرائے والے ٹکٹ کی۔ آسٹریلیا اسی رخ پہ ہے جس رخ پہ فجی ہے اس لیے ہم نے آسٹریلیا جانے کے سلسلے میں فجی سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست حنیف کویا سے رابطہ کیا۔ بھائی حنیف کویا نے بتایا کہ انہیں جب فجی جانا ہو تو وہ ٹکٹ پاتھ فائنڈر ٹریول ایجنسی کے کمال صاحب سے خریدتے ہیں۔ ہم نے کمال کو فون کیا اور غرض بیان کی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر مناسب دام میں آسٹریلیا کے ساتھ نیوزی لینڈ اور فجی کا دورہ بھی ہوجائے تو کیا ہی کہنے۔ کمال نے ہمارے سفر کی تاریخیں نوٹ کرلیں اور بتایا کہ وہ صحیح ٹکٹ معلوم کر کے ہمیں فون کریں گے۔
ایک عرصے سے ہمیں بتایا جارہا ہے کہ نئے دور میں ٹریول ایجنٹ کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ اب سارا کام انٹرنیٹ پہ موجود ایجنسیوں کے توسط سے کہیں کم قیمت میں ہوسکتا ہے۔ گھر بیٹے کمپیوٹر پہ کرائے معلوم کریں، بکنگ کروائیں، اور ٹکٹ حاصل کریں۔ کمال سے بات کرنے کے باوجود ہم نے انٹرنیٹ پہ ٹکٹ کی تلاش اس نیت سے جاری رکھی کہ ہمیں قیمت کا اندازہ  رہے۔ مگر ایک دن بعد جب کمال نے ہمیں فون کر کے بتایا کہ وہ ہمارا ایسا ٹکٹ بنا سکتے تھے جو ہمیں تینوں ممالک ہماری تاریخوں کے حساب سے لے جائے اور قیمت بھی انٹرنیٹ کی قیمتوں سے کم ہوگی تو ہم حیران رہ گئے۔ دل میں وسوسہ آیا کہ نہ جانے یہ کس طرح کا ٹکٹ بن رہا ہے، کہیں کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہے، مگر رفتہ رفتہ ہمارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے اور ہمارا کام بنتا گیا۔
سان ہوزے سے لاس اینجلس تو پہنچ گئے مگر وہاں پہنچ کر بھی ایک دفعہ پھر نندی جانے والی پرواز ہمارے ہاتھوں سے نکلتی محسوس ہوئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس قصے کو اگلے کالم میں بیان کیاجائے گا۔


Labels: , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?