Tuesday, July 03, 2007
مواقع
کراچی میں مون سون کے موسم سے پہلے ہونے والی بارش اور ساتھ میں چلنے والی شدید آندھی سے دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ دوسو افراد ہمارا بہت بڑا سرمایہ تھے۔ ان کے اندر کتنا استعداد، کتنی صلاحیتیں تھی نہ جانے کیا کچھ کرنے کی۔ یہ دو سو لوگ ایک دن میں چٹ پٹ ہو گئے۔ کتنا بڑا نقصان ہے یہ قوم کا۔ پھر اس کے بعد بلوچستان میں آنے والے سمندری طوفان سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابھی گنی ہی جا رہی ہے۔
انسان کا بستیوں کی شکل میں رہنا تہذیب کی پہلی منزل ہے۔ کہ اس منزل پہ انسان کو بستیوں میں رہنا تو آتا ہے مگر بستیوں کا انتظام یوں کرنا نہیں آتا کہ وہ قدرتی آفات میں بخوبی پنپ سکیں۔
پھرایسی بستیاں ہیں جہاں کا انتظام اچھا ہے۔ آندھی طوفان سے ان کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے مگر کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔ یہ تہذیب کی دوسری منزل ہے۔
مجھے تہذیب کی اس تیسری منزل کا انتظار ہے کہ جب ہم آندھی طوفان سمیت ہر قدرتی تبدیلی کو جنہیں اب تک آفات کا نام دیا جاتا ہےعطیات تصور کریں گے۔ ہم یہ جان لیں گے کہ ہم ہر قدرتی تبدیلی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنا بھلا کر سکتے ہیں۔ پھر جیسے ہی محکمہ موسمیات خبر دے گا کہ تیز ہوا چلنے کا امکان ہے تو لوگ جلدی سے اپنی اپنی پن چکیاں نکال لیں گے اور انہیں لگا کر ہوا کی طاقت کو نچوڑ لیں گے۔ وہ سارے معاملات جو پہلے مرحلے میں عذاب، دوسرے مرحلے میں محض دردسر لگتے تھے، اب اس تیسرے مرحلے میں قدرت کا انمول خزانہ نظر آئیں گے۔