Friday, November 11, 2011

 

گھر لوٹ جاءو





بعض تقاریر چونکا دیتی ہیں۔ حال میں پرسیپینی، نیو جرسی میں منعقد ہونے والے این ای ڈی المناءی کنوینشن ۲۰۱۱ میں ایسی ہی ایک چونکا دینے والی تقریر اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون نے کی۔ مگر سفیر صاحب کی تقریر کے بیان سے پہلے کچھ حال این ای ڈی کنوینشن کا ہوجاءے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں این ای ڈی کنوینشن منعقد کرنے کا یہ سلسلہ قریبا چھ برس پہلے شروع ہوا۔ ایک تعلیمی ادارہ جو ایک چھوٹے سے کالج کی صورت میں ۱۹۲۰ میں شروع ہوا تھا، بڑھا، ایک جامعہ بنا اور پھر وہاں سے نکلنے والے لوگ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گءے۔ این ای ڈی سے فارغ التحصیل طلبا شمالی امریکہ کے مختلف شہروں میں بکھرے ہوءے ہیں۔ معین احمد نامی ایک صاحب نے خیال پیش کیا کہ امریکہ میں موجود این ای ڈی کے سابق طلبا ہر سال ایک کنوینشن کی شکل میں جمع ہوں۔ پہلا کنوینشن سنہ ۲۰۰۵ میں ہیوسٹن میں ہوا۔ اور اب ہر سال یہ کنوینشن کسی نءی جگہ منعقد ہوتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کنوینشن بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کونینشن میں شرکت کرنے والے زیادہ تر لوگ میری طرح ہیں جو گزرے وقت کو یاد کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔ یہ کنوینشن ایک عجیب موقع ہوتا ہے۔ فضا میں ایک جادو ہوتا ہے۔ ہم سب ایک پرانے دور میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب سوچیں سادہ تھیں، خواہشات بہت کم تھیں، اور امنگیں جوان تھیں۔ میں ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہوں جن کی شکلیں میں صبح و شام دیکھا کرتا تھا۔ پھر وہی موسیقی فضا میں بلند ہوتی ہے جو میرے زمانہ طالب علمی میں گونجا کرتی تھی۔ غرض کہ ایک سحر کن ماحول بن جاتا ہے اور ہم سب اپنے حال کو بھول کر کچھ دیر کے لیے ماضی میں پہنچ جاتے ہیں۔ گو کہ پرسیپینی میں منعقد ہونے والا کنوینشن جمعے کی شام شروع ہوا اور اتوار کی صبح ختم ہوا مگر کنوینشن کا اصل دن سنیچر کا روز تھا۔ ہفتے کی صبح مختلف تقاریر ہوءیں جن میں نءے خیالات پیش کیے گءے اور اپنی شناخت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پہ بات ہوءی۔ صبح کے پروگرام کی نظامت راشد علی بیگ نے کی۔ پہلی تقریر سلمان صدیقی کی تھی جنہوں نے دنیا میں تواناءی کے بحران پہ روشنی ڈالی اور اپنی بات اس تجویز پہ ختم کی کہ کس طرح این ای ڈی کی چھت پہ فوٹو وولٹیک پینل لگا کر این ای ڈی کے لیے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور اپنی مادر علمی کو تواناءی میں خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ سلمان صدیقی کی تقریر کے بعد چار مبصرین--حسام احمد، خالد ملک، سلمان صدیقی، اور صفوان شاہ--نے نءے کاروبار شروع کرنے کے موضوع پہ اپنے خیالات پیش کیے۔ اس گفتگو کی راہ نماءی تنویر عالم ملک نے کی۔ جامعہ این ای ڈی کے ایک پرانے استاد ڈاکٹر سید فراست علی نے این ای ڈی المناءی کی ذمہ داریوں کے موضوع پہ تقریر کی۔ ڈاکٹر فراست علی کی تقریر کے بعد ایک اور گفتگو ہوءی جس کا موضوع 'سماجی اور سیاسی میدان میں این ای ڈی المناءی کا کردار' تھا۔ اس گفتگو کے شرکا اکبر انصاری، انور حسن، ابوالسلام اور خالد منصور تھے، جب کہ گفتگو کی پیشواءی امیرالسلام نے کی۔

شام کے پروگرام میں محمد علی شیھکی اور عالمگیر کے زوردار گانوں سے پہلے، ضیا محی الدین کی سحر کن ادب خوانی سے پہلے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون نے کلیدی تقریر کی جس نے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ حسین ہارون نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ انحطاط کا شکار ہے۔ امریکہ کے اچھے دن واپس نہ آنے کے لیے جا چکے ہیں۔ اور یہ کوءی اچھنبے کی بات نہیں۔ کوءی بھی ملک، کوءی قوم ہمیشہ دنیا میں اول نہیں رہتی۔ قوموں کا عروج و زوال تاریخ کا سبق ہے۔ انہوں نے کہا یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا میں غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ پاکستان کے حالات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ لیکن اگر غیریقینی ہرطرف ہے تو امریکہ میں بسنے والےپاکستانی کیوں نہ واپس پاکستان جانے کے بارے میں سوچیں؟ اگر مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنا پیسہ سرمایہ داری کے لیے کہیں نہ کہیں لگانا ہے تو کیوں نہ وہ یہ سرمایہ پاکستان میں کسی کام پہ لگاءیں؟ سفیر صاحب نے کہا کہ ماہرین معاشیات سے گفتگو میں انہوں نے یہ جانا ہے کہ آج کے ان غیر یقینی حالات میں اگر سرماءے پہ کہیں سب سے زیادہ فاءدہ مل سکتا ہے تو وہ ترقی پذیر دنیا ہے۔ مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ واپس اپنے وطن جاءیں اور وہاں رہ کر اپنا پیسہ وہاں لگاءیں۔ سفیر صاحب کی اس ولولہ انگیز تقریر کے دوران کءی موقعوں پہ حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجاءیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

زندگی کے اول مراحل میں انسان کے پاس تجربہ محدود ہوتا ہے مگر تواناءی بے انتہا ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کا علم اور تجربہ بڑھتے جاتے ہیں، مگر اس کے ساتھ اس کے اندر کچھ کرنے کے لیے تواناءی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر عمر کا وہ آخری دور آتا ہے جب علم اور تجربہ تو بہت زیادہ ہوتا ہے مگر عمل کے لیے تواناءی بہت کم ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں آ کر بس جانے والے ہمارے لوگ مستقل تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ آیا وہ اس نءی جگہ پہ رہتے رہیں یا اپنے پرانے وطن لوٹ جاءیں۔ وہ سارے لوگ جو اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر، ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، وہ موقع تلاش کر رہے ہوتے ہیں جب ان کے تجربے اور تواناءی کے درمیان ایک طلاءی توازن قاءم ہو چلا ہوگا کہ اس موقع پہ اگروہ واپس پلٹ جاءیں اور اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر کام کریں تو منہ کی مار نہ کھاءیں گے بلکہ پنپ جاءیں گے۔ علم اور تواناءی کے درمیان وہ سنہری توازن کہ اگر انہوں نے کچھ وقت تردد میں گزارا تو سوءی توازن کے کانٹے سے پرے ہوجاءے گی اور ان کے جسم میں اتنی تواناءی باقی نہ رہے گی کہ وہ اپنی زندگی میں کوءی بڑی تبدیلی لا سکیں۔ عبداللہ حسین ہارون نے اپنی تقریر سے ایسے ہی لوگوں کو للکارا ہے کہ انتظار کیسا، بس فیصلہ کرو اور گھر لوٹ جاءو۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?