Sunday, November 27, 2011

 

عمران خان کا تاریخی جلسہ

نومبر تیرہ، دو ہزار گیارہ


عمران خان نے تیس اکتوبر کے روز لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پہ ایک کامیاب جلسے سے خطاب کیا۔ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اس جلسے میں ایک لاکھ سے اوپر لوگ شریک ہوءے۔ اس جلسے کے بعد پاکستانی ذراءع ابلاغ میں ایک زور دار شور مچا۔ یوں تو ایک عرصے سے عمران خان پاکستانی میڈیا کے چہیتے رہے ہیں مگر ان کے حالیہ جلسے نے تو انہیں پاکستانی میڈیا کی آنکھوں میں اوتار کا درجہ دے دیا۔ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینل پہ نظر آنے والے مبصرین کو سنیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسےعمران خان نے لاہور میں کامیاب جلسہ کر کے اگلے انتخابات جیت لیے ہیں اور وہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ اکتوبر تیس کے جلسے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیوں شریک ہوءے، اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ لوگ نہ جانے تجسس میں وہاں پہنچے، یا تفریح کے اور مواقع نہ میسر ہونے کی وجہ ان کی جلسے میں شمولیت کا سبب بنی، یا پھر وہ عمران خان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے، یا وہ واقعی تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کو دل و جان سے چاہتے ہیں اور اگلے انتخابات میں عمران خان کی تحریک انصاف کو جیتتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں اور لوگوں کے بارے میں جانوں یا نہ جانوں، اپنے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں اگر اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے کسی امیدوار کو ووٹ دوں گا تو اس لیے نہیں کہ مجھے عمران خان کے سیاسی نظریات سے مکمل اتفاق ہے بلکہ میں ایسا اس لیے کروں گا کیونکہ دوسری جماعتوں کے قاءدین کے مقابلے میں عمران خان کا دامن صاف نظر آتا ہے۔

مگر آج کے اس کالم کا مقصد عمران خان کی اندھی مدح سراءی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عمران خان کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ہے۔ عمران خان پہ سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ وہ مطلق العنان ہیں اور کسی قسم کی مشاورت میں یقین نہیں رکھتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں ہیں جن کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ، مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اور اسی لیے ان کی تحریک انصاف میں صرف وہی کارکن کام کر سکتے ہیں جو عمران خان کو اپنا خدا مانیں اور ان کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ وہ لوگ جو عمران خان کے سحر میں گرفتار ہوں اور ان کی موجودگی میں اس قدر ڈرے، سہمے اور سحر زدہ ہوں کہ منہ کھولنے کی جسارت نہ کریں۔ جب تک آپ عمران خان کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا عمل کرتے رہیں آپ تحریک انصاف میں کامیابی سے چلتے رہیں گے۔ اگر آپ نے عمران خان سے اختلاف کیا تو تحریک انصاف میں آپ کے لیے کوءی انصاف نہیں ہے۔

تحریک انصاف بننے کے بعد اس میں کءی مقتدر سیاسی شخصیات نےشمولیت اختیار کی مگر کچھ ہی عرصے میں یہ لوگ عمران خان سے اختلافات کی وجہ سے تحریک انصاف سے مستعفی ہو گءے ۔ ان ممتاز سیاسی راہ نماءوں میں جو تحریک انصاف میں شامل ہوءے اور پھر عمران خان سے اختلاف کی بنا پہ تحریک سے علیحدہ ہوءے، معراج محد خان کا نام بہت بلند ہے۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ گیارہ نوجوانوں کی ایک ٹیم کو تو مطلق العنانی سے چلایا جا سکتا ہے؛ ایک خیراتی اسپتال کے بورڈ کے کرتا دھرتا بن کر اس اسپتال کے انتظام کو چلانا بھی اتنا مشکل نہیں ہے؛ مگر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے ایک ملک کو چلانے کے لیے بہت سے صاحب الراءے افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ کسی ملک کی سربراہی کے کام میں اکڑفوں کو ایک طرف رکھ مشاورت کی راہ اپنانی ہوتی ہے۔ جو لوگ جمہوری عمل سے اقتدار میں آءیں، جمہور ان سے توقع کرتی ہے کہ وہ من مانی نہیں کریں گے بلکہ عوام کی مرضی سے قدم آگے بڑھاءیں گے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?