Friday, November 11, 2011

 

پاکستان کے غیر ملکی مسیحا



سان فرانسسکو بے ایریا میں بسنے والے بیشتر پاکستانی نہ صرف یہ کہ اصحاب ثروت ہیں بلکہ دل میں انسانیت کا درد بھی رکھتے ہیں۔ بہت مختف وجوہات کی وجہ سے اس سال پاکستان میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ٹی وی، اخبارات، اور انٹرنیٹ کی زینت اس طرح نہ بنیں جس طرح پچھلے سال کے سیلاب کی خبریں بنیں تھیں۔ مگر میڈیا میں اس خبر کی شدت میں کمی کے باوجود سیلاب سے وابستہ پریشانیوں کی شدت متاثرین میں بھرپور طریقے سےموجود ہے۔ بڑھتے پانی کے ریلے سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گءے ہیں۔ سیلاب سے بے گھر متاثرین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ پریشانی کی اس حالت میں یہ لوگ سوالیہ نظروں سے باقی پاکستانیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سان فرانسسکو بے ایریا کے پاکستانیوں نے ان سوالیہ نظروں کی چبھن محسوس کی ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک اتفاق ہی تو ہے کہ وہ ایسی کسی قدرتی آفت سے بچے ہوءے ہیں ورنہ مصیبت آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ یہ محض اتفاق ہی تو ہے کہ وہ ایک نسبتا پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ورنہ زندگی کی بازی پلٹنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ سیلاب سے متاثر اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے کءی بااثر افراد اور فلاحی ادارے اکھٹا ہوءے اور سیلاب زدگان کے لیے چندہ اکھٹا کیا گیا۔ پھر ایک ایسی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں چندہ دینے والے بیشتر لوگ شریک ہوءے۔ واضح رہے کہ ساءتھ ایشیا ریلیف کے جھنڈے تلے چلنے والی اس مہم میں چندہ کسی ایک فلاحی تنظیم کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ چندے کے لیے فلاحی اداروں کی ایک فہرست متمول افراد کو فراہم کر دی گءی تھی کہ وہ جس تنظیم کو چاہیں چندہ دیں۔ سنیچر، اکتوبر ۲۹ کو کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں جو تقریب منعقد کی گءی اس کا مقصد لوگوں کو ایک بار پھر سیلاب کی آفات سے مطلع کرنا تھا۔ اس تقریب کی نظامت عمر خان نے کی۔ اس محفل میں شاءن ہیومینٹی نامی ایک فلاحی تنظیم کے روح رواں ٹاڈ شے مہمان اعزاز تھے۔ تقریب میں جب ٹاڈ شے کا تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ اب ٹاڈ کی انتہاءی دلچسپ داستان سنیے تو ایک لمحے کو میرا دل ڈوب گیا۔ میرا دھیان فورا گریگ مورٹینسن کی طرف گیا۔ ان کا تعارف بھی قریبا ایسے ہی الفاظ سے کیا جاتا تھا کہ، آءیے اب گریگ مورٹینسن سے ان کی انتہاءی حیرت انگیز اور قابل ستاءش کہانی سنیے۔ سنیچر کی تقریب میں ٹاڈ شے ماءکروفون تک پہنچے تو دل میں خیال آیا کہ دلچسپ داستانیں تو ہم سنتے ہی آءے ہیں، کاش یہ ساری کہانیاں سچی ہوتیں۔ ٹاڈ شے نے تصویروں کے ذریعے حاضرین کو اپنے فلاحی کاموں کے بارے میں بتایا اور خوب داد وصول کی۔ مگر مجھے ان کی اس دیانت نے متاثر کیا جس کا اظہار انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ، "میں بہت سے ایسے پاکستانیوں سے ملا ہوں جو پچھلے تیس چالیس سال سے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کر رہے ہیں مگر ان کے کام کا چرچا نہیں ہوتا، نیویارک ٹاءمز ان کے کارناموں کی خبر نہیں لگاتا اور نہ ہی وہ عاطف اسلم کے دوست ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گورے نہیں ہیں اور ان کا تعلق امریکہ سے نہیں ہے۔ مگر ان کا کام اہم ہے اور انہوں نے میرے مقابلے میں کروڑ گنا زیادہ کام کیا ہے۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ان لوگوں کو بھی سراہیں اور ان کی مدد کریں۔"

ٹاڈ شے کے یہ مشاہدات برمحل ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ امریکہ میں بسنے والے بہت سے پاکستانی یقینا پاکستان کے غیرملکی مسیحاءوں کو ملکی مسیحاءوں پہ ترجیح دیتے ہیں۔ جب گریگ مورٹینسن کا جادو چڑھ کر بول رہا تھا تو پاکستانیوں کا ایک بڑا گروہ مورٹینسن کو اپنا پیر سمجھتا تھا اور مستقل ان کے آگے پیچھے لگا رہتا تھا۔ مورٹینسن کے بہت سے معتقدین ایسے تھے جن سے پوچھا گیا کہ تم نے مورٹینسن کے بناءے ہوءے کتنے اسکولوں کا دورہ کیا ہے۔ اس سوال کا جواب تھا، صفر۔ مگر اس کے باوجود مورٹینسن ایک سفید فام امریکی تھا اس لیے ان لوگوں کی نظروں میں واقعی سچا تھا۔ جھوٹ تو یہ کالے پیلے لوگ بولتے ہیں۔ یہاں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ فلاحی کام کسی رنگ و نسل کا مرد یا زن کرے اس میں کسی قسم کا حرج نہیں ہے اور ہمارے دل میں ہر طرح کے اچھے لوگوں کے لیے مساوی عزت ہونی چاہیے۔ مگر لوگوں کے رنگ و نسل سے متاثر ہو کر سوال کرنے کی طاقت کھو دینا مناسب نہیں ہے۔ اس کالم کے قاری جب کسی فلاحی تنظیم کو چندہ دینا چاہیں تو چندے کا چیک کاٹنے سے پہلے فلاحی تنظیم کے متعلق یہ بنیادی سوال کریں۔ کیا یہ فلاحی تنظیم اس جگہ اتنی ہی مقبول ہے جتنی مقبول یہ چندہ جمع کرنے والوں کے درمیان ہے؟ مثلا، گریگ مورٹینسن کی شہرت پاکستان کے مقابلے میں امریکہ میں کہیں زیادہ تھی اور پاکستان میں ڈھونڈے سے ایسے لوگ نہ ملتے تھے جو مورٹینسن کے فلاحی کاموں کی وجہ سے انہیں جانتے ہوں۔ کیا مقامی میڈیا (مغربی میڈیا نہیں) نے اس فلاحی تنظیم کا ذکر کسی خبر یا اخباری رپورٹ میں کیا ہے یا یہ فلاحی تنظیم خود ہی اپنے 'کارناموں' کی تصویریں کھینچتی ہے اور پھر جگہ جگہ جا کر ان تصویروں کو دکھا کر چندہ اکٹھا کرتی ہے؟ وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں اس تنظیم کے فلاحی کاموں سے براہ راست فاءدہ پہنچا ہے اور ان لوگوں کی اس تنظیم کے بارے میں کیا راءے ہے؟

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?