Friday, November 11, 2011

 

حب الوطنی کیا ہے؟

حب الوطنی کیا ہے؟ اس سوال سے متعلق موجود گنجلک سوچیں ایک دفعہ پھر ایک گفتگو میں سامنے آءیں۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ایک ملک کے اندر موجود تمام لوگوں کو بیک وقت خوش نہیں کیا جا سکتا مگر حب الوطنی کا تقاضہ ہوتا ہے کہ اکثریت جس طرح ملک کو چلانا چاہ رہی ہے اس طرح ملک کو چلانے دیا جاءے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے معترضین خاموشی سے ایک طرف بیٹھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حب الوطنی کیا شے ہے اور اس خیال سے وابستہ وفاداری اور طرح کی وفاداریوں سے کیوں بلند تر ہے۔ میں اپنی حب الوطنی کا تعلق اپنے لوگوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ میں کراچی میں پیدا ہوا اور وہاں پلا بڑھا۔ مجھے وہ شہر بہت پسند ہے۔ مگر اس شہر سے محبت میں میری اصل انسیت وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ اگر اس جگہ سے آپ سارے لوگوں کو نکال کر محض عمارتیں اور سڑکیں میرے سامنے کر دیں تو میں اس شہر سے تعلق نہ جوڑ پاءوں گا۔ حب الوطنی کی اس تعریف میں اصل وفاداری لوگوں کے ساتھ ہے نہ کہ وطن جیسے پیچیدہ نظریے کے خیال کے ساتھ۔ لوگ ہیں تو وطن ہے ورنہ پانی، مٹی، دریا، پہاڑ، وغیرہ تو ہر جگہ قریبا ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر حب الوطنی کی اس تعریف کو اصل مانا جاءے تو سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ خیال دل میں نہیں آتا کہ 'حب الوطنی' کے جذبے کے تحت اکثریت اقلیت کو دبا لے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھیں۔ دارالحکومت دہلی کے قریب رہنے والے ایک شخص کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہوگا کہ بھارت سے 'حب الوطنی' میں یہ جاءز ہے کہ کشمیریوں کی کوءی بات نہ سنی جاءے، یا ماءوسٹ تحریکوں کو کچل کر رکھ دیا جاءے، لیکن ایسی بات حب الوطنی کی صحیح تعریف کے تحت لغو ہوگی کیونکہ لوگوں کے کسی بھی گروہ کو کچل کر 'وطن' سے محبت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر پرانے دنیا کے کءی جمہوری ملک پھنس جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کے تحت ان لوگوں سے کس طرح معاملہ کریں جو ایک ملک میں باقی لوگوں کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ یہاں حب الوطنی کا پتہ کھیلا جاتا ہے۔ اکثریت پہ باور کیا جاتا ہے کہ جو لوگ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو لوگ اپنے خطے کو ملک سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ دراصل محب الوطن نہیں ہیں، چنانچہ حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے کہ ملک توڑنے کی خواہش رکھنے والے ان لوگوں کو سختی سے کچل دیا جاءے۔ حب الوطنی کا ترپ کا یہ پتہ بالکل بے محل ہے۔ اصل حب الوطنی یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جاءے۔ اگر لوگوں کا ایک گروہ کسی جغرافیاءی خطے کی آزادی چاہتا ہے تو ان کو آزاد کر دیا جاءے۔ پرانی دنیا کے بہت سے ممالک جو نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہوءے ہیں انہیں ایسے موقعوں پہ اپنی آزادی کی جدوجہد یاد کرنی چاہیے۔ انہیں یاد کرنا چاہیے کہ ان کے دل میں آزادی کی کیسی امنگ تھی، وہ کس طرح نوآبادیاتی طاقت کو اپنے سر سے ہٹانا چاہتے تھے۔ پھر ایک دن ان کی خواہش پوری ہوءی اور وہ آزاد ہو گءے۔ اب اگر ان کے درمیان ایسے گروہ ہیں جو کسی خطے میں اکثریت رکھتے ہیں اور اس خطے کی آزادی چاہتے ہیں تو کیا آزادی کی یہ خواہش آزادی کی اس خواہش سے مختلف ہے جو نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے اس ملک کی قیادت کے دل میں تھی؟

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?