Friday, November 11, 2011

 

لیکن میرا دل


نیو جرسی میں منعقد ہونے والے سالانہ این ای ڈی کنوینشن کے لیے لکھی جانے والی ایک تحریر۔

موسیقی طاقت رکھتی ہے۔ اتنی طاقت کہ یہ آپ کو گھسیٹ کر ماضی میں لے جا سکتی ہے۔ جس وقت میرا داخلہ جامعہ این ای ڈی میں ہوا اس وقت پاکستان کی موسیقی پہ نازیہ حسن کا راج تھا۔ اور آج بھی میں نازیہ حسن کا گیت 'لیکن میرا دل' سنوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں انیس سال کا ایک لڑکا ہوں جو این ای ڈی کے آڈیٹوریم میں داخل ہوا ہے جہاں یہ گانا زور زور سے چل رہا ہے۔ اس آڈیٹوریم میں نءے آنے والے طلبا کے لیے اورینٹیشن پروگرام کی تیاری میں صفاءی ہو رہی ہے۔ باہر گرمی ہے چنانچہ آڈیٹوریم کا اے سی سسٹم بہت خوشگوار احساس دے رہا ہے۔ طبیعت میں جولانی ہے۔ یہ دن بے فکری اور موج کے دن ہیں۔ سب کچھ آسان معلوم دیتا ہے۔ امنگیں جوان ہیں اور دل مشکل سے مشکل منزل سر کرنے کے لیے تیار۔ زندگی خوب صورت ہے۔

این ای ڈی کے ان اولین دنوں میں جامعہ سے، اس سے متعلق اصطلاحات سے، اور لوگوں سے تعارف ہو رہا ہے۔ یونین کی اہمیت اور طاقت نظر میں بڑھتی جا رہی ہے۔ یونین کے لوگ ہر کام میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ این ای ڈی میں اس وقت راشد علی بیگ کی یونین ہے۔ راشد یونین کے صدر ہیں، ان کے جنرل سیکریٹیری امان اللہ حنیف ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد یونین کے انتخابات ہوں گے جن میں نءے سال کے لیے عہدیداروں منتخب کیے جاءیں گے۔ سیاسی عزاءم رکھنے والے طلبا کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے فارغ التحصیل ہو جانے والے طلبا راہ نماءوں کے ناموں سے بھی واقفیت ہو گءی ہے۔ ان ناموں میں فرحت عادل، محمد حسین، سردار حنیف، اور امیر نقوی وغیرہ شامل ہیں۔ محمد حسین سے تعارف ایک اخباری رپورٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ این ای ڈی کے ایک طالب علم کو بلوچستان میں واقع اپنے گھر سے کوءی بری خبر ملی تھی؛ اسے فورا گھر جانا تھا مگر سواری کا کوءی انتظام نہیں تھا۔ محمد حسین نے واءس چانسلر کے کمرے سے این ای ڈی کی ایمبولینس کی چابی اٹھا کر اس لڑکے کو دے دی تھی۔ وہ لڑکا ایمبولینس پہ بلوچستان روانہ ہو گیا تھا۔ محمد حسین پہ چوری کا جو مقدمہ درج ہوا تھا نہ جانے اس مقدمے کا کیا بنا۔

یہ وہ وقت ہے کہ اچھا بولنے والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ کراچی کے اکثر تعلیمی اداروں میں مباحثے اور تقریری مقابلے ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں ایک سے بڑھ کر ایک مقرر شریک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الفاظ کے جادوگر ہیں، بیان کے ساحر ہیں۔ این ای ڈی میں بھی اچھے مقررین کی کوءی کمی نہیں۔ فیاض الحسن فارغ التحصیل ہو رہے ہیں مگر آشکار داور، وصی صدیقی، زاہد قمر، صفوان شاہ، امیرالسلام،اور شاہد محمود موجود ہیں۔ این ای ڈی سے باہر اچھا بولنے والوں میں اسلامیہ لاء کالج کے ن م دانش ایک بہت بڑا نام ہیں۔ ن م دانش کے ساتھ مکرانی طلبا کا ایک گروہ چلتا ہے۔ یہ لوگ محض ن م دانش کا دل بڑھانے کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ موقع آنے پہ ان کا 'ریکارڈ' لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ڈاءو میڈیکل کالج میں ہونے والا ایسا ہی ایک تقریری مقابلہ ہے جس میں ن م دانش اسٹیج پہ آءے ہیں اور ان کے ساتھ آنے والا گروہ نعرے بازی کر رہا ہے۔

ن م دانش، ننھا منھا دانش؛ ن م دانش، ننھا منھا دانش۔

این ای ڈی کیونکہ جامعہ کراچی سے متصل ہے اس لیے این ای ڈی میں رہتے ہوءے جامعہ کراچی سے بھی واقفیت بڑھ رہی ہے۔ اس وقت جامعہ کراچی میں یونین کے صدر محمود غزنوی ہیں۔ وہ بلا کے مقرر ہیں۔ ان سے پہلے جامعہ کراچی کے طلبا راہ نماءوں میں حسین حقانی اور شفیع نقی جامعی کے نام بھی سننے میں آتے ہیں۔

پہ ضیاالحق کا دور ہے، بھٹو کو پھانسی چڑھے کچھ عرصہ ہو چلا ہے۔ ہنرمند لوگوں کا عرب ریاستوں میں جانے اور وہاں کام کرنے کا جو سلسلہ قریبا دس سال پہلے شروع ہوا تھا اب بھی زور و شور سے جاری ہے۔ باہر کام کرنے والے یہ لوگ جب وطن واپس آتے ہیں تو اپنے ساتھ سوفینی کا کپڑا، سینٹ کی بوتلیں، اور وی سی آر ضرور لاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پلاسٹک کے دیدہ زیب اور مضبوط بیگ بھی آرہے ہیں۔ ہم ان پلاسٹک بیگوں کو غور سے دیکھتے ہیں کہ اب تک ہم سودا سلف کے لیے کاغذ کے لفافے استعمال کرتے رہے ہیں۔

پہلے سیمسٹر کی پڑھاءی شروع ہو چکی ہے۔ بعض مضامین ذرے پلے نہیں پڑ رہے۔ ہم سینءیر طلبا سے مدد لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک قابل سینءیر قیصر شاہ خان ہیں۔ وہ چھٹی کے روز جامعہ کراچی کے ایک لیکچر ہال میں ہمیں پڑھاتے ہیں۔ ان کو بات سمجھانے کا فن آتا ہے۔

بہت سے طلبا کی طرح میں بھی پواءنٹ سے این ای ڈی پہنچتا ہوں۔ لوگ ان بسوں کو کبھی ان کے علاقوں اور کبھی ان کے ڈراءیور اور کنڈیکٹر کے ناموں سے پہچانتے ہیں، مثلا ظہور کا پواءنٹ، نیازی کا پواءنٹ۔ بس جہاں آ کر کھڑی ہوتی ہے وہاں ہر صبح طلبا راہ نما پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہر شخص سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ان لوگوں میں مسعود محمود اور الطاف شکور آگے آگے ہیں۔

پھر ایک یاد ہے ایک گرم دن کی کہ جب میں سورج کی تپش سے بچنے کے لیے لاءبریری کے کوریڈور میں چلتا ہوا آگے تک آتا ہوں اور پھر تیزی سے پلازا کا بے سایہ ٹکڑا پار کر کے سول ڈیپارٹمنٹ کے کوریڈو کی چھاءوں میں آجاتا ہوں۔ اچانک سامنے سے امیرالاسلام آتا نظر آتا ہے۔ اس کے منہ پہ یوں ہواءیاں اڑ رہی ہیں کہ جیسے اس نے کوءی بھوت دیکھ لیا ہو۔

"بھاگو، تھنڈر اسکواڈ آرہا ہے،" وہ مجھ سے کہتا ہے۔ میرے لیے یہ نءی اصطلاح ہے۔

"یہ تھنڈر اسکواڈ کیا ہوتا ہے؟" میں اس سے پوچھتا ہوں۔

"جمعیت کا تھنڈر اسکواڈ۔" وہ جلدی سے جواب دیتا ہے، اور ساتھ ہی مجھ سے ہمدردی میں مجھے دھکا دے کر دوسری طرف روانہ کرتا ہے۔ امیرالسلام کیونکہ کراچی یونیورسٹی میں کچھ وقت گزار کر آیا ہے اس لیے وہ وہاں کی سیاست سمجھتا ہے۔ کچھ دیر بعد میں لاءبریری میں بیٹھا ہوا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں تو ایک عجیب منظر نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ شلوار قمیضیں پہنے، مختلف نوع کا آتشیں اسلحہ لیے چھتوں پہ دوڑ رہے ہیں۔

کچھ دیر بعد نعرے بازی ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی سے اسلامی جمعیت طلبا کا عسکری گروہ تھنڈر اسکواڈ طاقت کا مظاہرہ کرنے این ای ڈی آیا تھا مگر ان اسلحہ بردار اجنبیوں کو این ای ڈی میں دیکھ کر بلوچ اور پٹھان طلبا تیزی سے اپنے ہاسٹل کی طرف گءے اور اسلحہ نکال کر لاءے۔ مگر اتنی دیر میں تھنڈر اسکواڈ این ای ڈی سے روانہ ہو چکا تھا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے اس قدر اسلحہ یوں کھلے عام دیکھا ہے۔ طلبا کے پاس یہ جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟ مجھے اس وقت اس سوال کا جواب نہیں ملتا مگر بعد میں راز کھلتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد شروع ہونے کے ساتھ پاکستان میں اسلحے کی فراوانی کا دور بھی شروع ہو چکا تھا۔

اس واقعے کے بعد دین محمد بورو اور شیرین خان سمیت کءی بلوچ اور پٹھان طلبا پلازا کے فوارے کے ساتھ اسلحے کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔

یونین کے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ گہما گہمی بڑھ رہی ہے۔ این ای ڈی میں ایک عرصے سے پی ایس ایف جیتتی آ رہی ہے مگر اب کی دفعہ جمعیت نے بہت کام کیا ہے اور پی ایس ایف کی طرف سے یونین کی صدارت کے لیے کھڑےے ہونے والے امیدوار آفتاب صدیقی کے مقابلے میں الطاف شکور اور ان کے ناءب مسعود محمود زیادہ مقبول نظر آتے ہیں۔ پی ایس ایف کے پینل پہ بیرون کراچی طلبا کی بھی نماءندگی ہے۔ یہ نماءندگی پی ایس ایف کے پیچھے کام کرنے والے کراچی کے دماغ کو بلوچ اور پٹھان زور بازو فراہم کرنے کے صلے میں ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں اور وہی ہوتا ہے جس کا خیال تھا۔ تین عہدیداران جمعیت کے منتخب ہوتے ہیں اور بقیہ پی ایس ایف کے۔ پی ایس ایف کے ایک امیدوار ظفر گچکی کا ہارنا بلوچ طلبا کو ذرا پسند نہیں آتا۔ ابھی طلبا کا الطاف شکور اور مسعود محمود سے مبارک سلامت کا سلسلہ جاری ہے کہ زوردار فاءرنگ شروع ہوجاتی ہے۔ ہم سب بھاگ اٹھتے ہیں۔ معصومیت کا ایک دور ختم ہوا۔ طلبا سیاست میں تشدد اور قتل و غارت گری کا دور شروع ہو رہا ہے۔

اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے مگر یہ ساری باتیں بہت پرانی ہیں۔ زندگی کا جہاز کھلے پانی میں بہت آگے آگیا ہے۔ اتنی دور کہ یہاں سے این ای ڈی میں گزارا جانے والا وقت ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم دیتا ہے۔ لیکن میرا دل۔۔۔۔

Labels: , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?