Sunday, November 27, 2011

 

حسن نثار کا عمران خان کو مفت مشورہ

نومبر ستاءیس، دو ہزار گیارہ




حسن نثار ایک نامی گرامی کالم نویس ہیں اور وسیع مطالعہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے دیگر پاکستانی کالم نویسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذکی اور ترقی پسند ہیں۔ حسن نثار نے حال میں ایک کالم لکھا ہے جس کا عنوان ہے 'بن مانگے مفت مشورے۔' اس کالم میں حسن نثار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں سیاسی میدان میں عمران خان سینچری بناءے بغیر ننانوے کے اسکور پہ نہ آءوٹ ہو جاءیں۔ حسن نثار کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کو صرف عمران خان مار سکتا ہے۔ اس کالم کا اول حصہ ایسا پیچیدہ ہے کہ آپ سمجھتے ہی رہ جاءیں کہ آخر حسن نثار صاحب کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آخر عمران خان اپنے آپ کو کیسے مارے گا؟ مگر کالم کے آخر میں بات واضح ہوتی ہے کہ حسن نثار عمران خان کو تنظیم سازی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حسن نثار کی راءے میں عمران خان کو ان لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو عمران خان کے آس پاس موجود ہیں اور پارٹی میں نءے آنے والوں کے لیے مزاحمت پیدا کر رہے ہیں۔ حسن نثار کا خیال ہے کہ عمران خان کو پارٹی کے ہر رکن سے ذاتی رابطہ رکھنا چاہیے۔ حسن نثار کے عمران خان کو یہ مشورے یقینا پرخلوص ہیں اور واضح ہے کہ حسن نثار کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی جماعت بن جاءے اور اگلے انتخابات میں ملک گیر کامیابی حاصل کرے۔

یوں تو پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں مگر ایک پارٹی جو اپنے آپ کو تحریک انصاف کہے اس سے لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوگی۔ کہ اس پارٹی میں شخصیت پرستی کو چھوڑ کر ادارہ سازی پہ زور دی جاءے گی۔ انسان فانی ہے اور تھوڑا سا دم خم دکھا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر ادارے قاءم رہتے ہیں؛ اسی لیے اداروں کو مضبوط بنانا اچھا ہوتا ہے۔ جہاں ادارے مضبوط ہوں اور ادارے میں بہت سے لوگ قیادت کی مختلف سیڑھیوں پہ موجود ہوں وہاں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ خدانخواستہ ادارے کا سب سے بڑا قاءد نہ بھی رہا تو ادارہ قاءم رہے گا،نءی قیادت معاملات کو سنبھال لے گی اور ادارہ ان خطوط پہ چلتا رہے گا جس کا خاکہ گزر جانے والے قاءد نے پیش کیا تھا۔ تحریک انصاف سے اس عوامی امید کے باوجود اب تک تحریک انصاف کے واحد نامور قاءد عمران خان ہی ہیں۔ کاش حسن نثار اپنے دوست عمران خان کو یہ مشورہ دیتے کہ وہ تنظیم سازی کے دوران اپنی جماعت میں نءی قیادت کو ابھارنے کے لیے بھی کام کریں۔ تحریک انصاف کے اندر مستقل ایسی ورکشاپ ہو رہی ہوں جن میں کارکنوں کی قاءدانہ صلاحیت کو پروان چڑھایا جاءے، ان لوگوں کو بتایا جاءے کہ انہیں تحریک انصاف کے منشور کو سامنے رکھتے ہوءے اپنی تقریر میں کس طرح کی باتیں کرنی ہیں، جماعت میں نظم و ضبط کیسے لانا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ ممکن ہے کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو واقعی یہ باتیں روز بتاتے ہوں مگر ایسی خبر اب تک عوام تک نہیں پہنچی ہے۔

کوءی بھی شخص جو ملک کے حالات سے عاجز ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ وہ سیاسی طور پہ مضبوط بن کر انتخابات کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کرے اور پھر ملک کی باگ دوڑ سنبھال کر ملک کو صحیح رخ پہ لاءے، اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اس کے اصل اہداف کیا ہیں اور ان اہداف تک جلد از جلد کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص مقبول ہے اور لوگ جوق در جوق اس کے پیچھے آرہے ہیں تو اس کے پاس پہلے ہی بڑی قوت موجود ہے۔ وہ اپنے حمایتیوں کی طاقت استعمال کرتے ہوءے اپنے اہداف پا سکتا ہے۔

ہم، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ، جذباتی واقع ہوءے ہیں۔ جس کے پیچھے چل پڑے سو چل پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا، اور مکان کا نعرہ لگایا تو پاکستان میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو یہ نعرہ اچھا لگا اور وہ بھٹو کے پیچھے دیوانہ وار چلنا شروع ہو گءے۔ مگر بھٹو اس عوامی حمایت کا فاءدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ اسی طرح سنہ پچاسی میں کراچی کے بہت سے لوگ الطاف حسین کے پیچھے چل پڑے۔ اس وقت الطاف حسین کے حمایتی، جذبات میں اس قدر بہے جا رہے تھے کہ اگر الطاف حسین انگلی کے اشارے سے ایک خالی میدان کی طرف اشارہ کرتے کہ، 'کل یہاں ایک بہترین اسکول ہونا چاہیے جہاں مفت تعلیم دی جاءے' تو اس بات کا امکان تھا کہ ان کے چاہنے والے راتوں رات اس جگہ ایک اسکول کھڑا کر دیتے۔ مگر افسوس کہ الطاف حسین نے بھی عوامی حمایت کا مثبت فاءدہ نہ اٹھایا اور اس راہ پہ چل دیے جہاں قاءد کو درخت کے پتوں پہ اپنی شبیہ نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ جہموری نظام ان کے لیے وہ نسخہ کیمیا نہیں بن سکا ہے جس کی کہ انہیں امید تھی۔ نہ صرف یہ کہ آج بہت سے پڑھے لکھے لوگ عمران خان کی طرف امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بہت سے جذباتی نوجوان عمران خان کے پیچھے دیوانہ وار چل پڑے ہیں۔ یہ وقت ہے عوامی حمایت کو صحیح طور پہ استعمال کرنے کا۔ یہ وقت ہے سوچنے کا کہ اصل اہداف کیا ہیں اور عوامی حمایت استعمال کرتے ہوءے ان اہداف تک جلد از جلد کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنے حمایتیوں سے کہہ دیں کہ وہ گلیوں اور محلوں کی سطح پہ منظم ہو جاءیں، کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے اپنے محلے کو جرم سے پاک کر دیں، کہ جہاں عمران خان کے ماننے والے لوگ موجود ہیں وہاں لوگ صفاءی ستھراءی سے رہیں گے اور اس محلے میں جگہ جگہ کچرا نظر نہ آءے گا، کہ جہاں تحریک انصاف کا زور ہے وہاں عورتوں پہ کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا، وہاں ہر بچہ تعلیم حاصل کرے گا، وہاں مذہب کے نام پہ فتنہ نہ پھیلایا جاءے گا اور ہر شخص کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے مذہب و مسلک پہ بلاخوف چل سکے، کہ تحریک انصاف کے اثر والے محلے میں لوگ اس بات کی یقین دہانی کریں گے کہ کوءی شخص بھوکا نہ سوءے گا۔ کاش کہ عمران خان اپنی سیاسی جماعت کو واقعی ایسی تحریک انصاف بنا دیں جو اس سطح پہ بنیادی انصاف لے کر آءے جو عام لوگوں پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور جس کا تعلق حکام اعلی کے کرتوت سے محض واجبی ہے۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?