Thursday, October 29, 2015

 

برکھا رت میں ایک یادگار ملاقات










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو باون

اکتوبر پچیس، دو ہزار پندرہ


برکھا رت میں ایک یادگار ملاقات

 
 
سڈنی اوپرا ہائوس کو تین اطراف سے آپ دور و قریب سے دیکھ سکتے ہیں مگر چوتھی طرف یعنی سمندر کی کھونٹ سے اس عمارت کو کچھ فاصلے سے دیکھنے کے لیے کشتی کی سواری کرنا پڑتی ہے۔
سڈنی بندرگاہ ایسی قدرتی آبگاہ ہے جو خشکی کے اندر نہر کی صورت آتی ہے۔ سڈنی  میں رکنے والے بحری جہاز کھلے سمندر کی تغیانی سے دور آکر اسی آبگاہ میں لنگر انداز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آبگاہ کے دونوں طرف آبادی ہے اور آبگاہ کے ایک طرف موجود محلے سے دوسرے محلے تک پہنچنے کے لیے سب سے تیزرفتار سواری کشتی کی ہے۔ یہ کشتیاں سڈنی ہاربر، ڈارلنگ ہاربر، اور دوسرے مقامات سے چلتی ہیں اور مختلف جگہ رک کر مسافروں کو اتارتی چڑھاتی ہیں۔ ہماری کشتی سڈنی ہاربر کے وہارف شمار چار سے واٹسن بے کے لیے چلی تو ذرا سی دیر میں یخ بستہ ہوائوں نے اسے گھیر لیا۔ زیادہ تر مسافر سردی سے بچنے کے لیے کشتی کے اندر چلے گئے مگر سڈنی اوپرا ہائوس کے اچھے نظارے کے لیے باہر کھلے میں کھڑے رہنا ہی زیادہ بہتر تھا۔ سردی کی وہ تکلیف کچھ دیر  کی تھی مگر اس دید کا تجربہ عمر بھر کا تھا۔ کچھ دیر بعد ہمارے قریب سے کیپٹن کک سیاحتی ادارے کی ایک کشتی سیاحوں سے لدی پھندی گزری۔ ہم نے کسی قدر ترس کھاتے ہوئے ان ڈرپورک سیاحوں کی طرف دیکھا جو نئے شہر سے خوف زدہ شہر کے رہنے والے عام لوگوں کی طرح روزمرہ کی کشتی کی سواری کرنے کے بجائے سیاحتی کشتی میں ٹور بک کراتے ہیں اور اپنے جیسے سیاحوں کے درمیان رہ کر ہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
کشتی کی سواری سے واپس پلٹے تو مغرب ہوچلی تھی۔ بارش جو اب تک وقفے وقفے سے ہورہی تھی اب تواتر سے ہونے لگی۔ ہمیں نوشی گیلانی اور سعید خان سے ڈارلنگ ہاربر پہ ملنا تھا۔ وہ جگہ سڈنی ہاربر سے کچھ ہی فاصلے پہ تھی۔ ہم دکانوں کے چھجوں کا سایہ لیتے، بارش سے بچتے ڈارلنگ ہاربرکی طرف پیدل چل پڑے۔
ڈارلنگ ہاربر وسیع و عریض جگہ تھی اور ہم اس کے جغرافیے سے ناآشنا تھے اس لیے بہت دیر تک فون اور ٹیکسٹ کے ذریعے سعید خان سے ملاقات کی اس جگہ کا تعین کرتے رہے جو گردونواہ کی چمکدار نشانیوں سے ہمیں سمجھ میں آجائے۔ سعید خان اپنے دفتر سے وہاں پہنچ رہے تھے جب کہ نوشی گیلانی ٹرین سے گھر سے آرہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کے انتظار کے بعد نوشی گیلانی اور سعید خان ایک چھتری تلے آدھے آدھے بھیگتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ گو کہ سعید خان سے ہماری فیس بک کے ذریعے واقفیت ایک عرصے سے تھی مگر ان سے بالمشافہ وہ پہلی ملاقات تھی۔ سعید خان وسیع دل کے مالک ہیں؛ وہ ہم سے اس تپاک سے ملے جیسے وہ ہمیں برسوں سے جانتے ہوں۔
ڈارلنگ ہاربر پہ موجود جارجیوز نوشی گیلانی اور سعید خان کا پسندیدہ ریستوراں ہے۔ یہ دونوں ہمیں لے کر ادھر ہی چلے۔ شدید بارش کے باوجود ریستوراں گاہکوں سے بھر ہوا تھا۔ اندر کوئی میز خالی نہ تھی، باہر بھی لوگ وسیع چھجے کے نیچے بیٹھے تھے۔ باہر بیٹھنے والوں کی سہولت کے لیے برقی انگیٹھیاں موجود تھیں۔ ایسی ہی چار انگیٹھیاں ہماری میز کے چاروں کونوں پہ لگا دی گئیں۔ ان برقی انگیٹھیوں سے ذرا سی دیر میں سردی کا احساس جاتا رہا۔ سعید خان کو جارجیوز ریستوراں کا مینیو ازبر تھا۔ انہوں نے انواع و اقسام کے کھانے منگوا لیے۔
نوشی گیلانی بہت عرصہ شمالی کیلی فورنیا میں مقیم رہی ہیں اور اس علاقے کو بجا طور پہ اپنا گھر سمجھتی ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ سعید خان مجھے اپنا سسرالی سمجھ کر میری خاطر تواضع کررہے ہیں۔ مگر جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ سعید خان فطری طور پہ ایک یارباش شخص ہیں جن کے اندر مانسہرہ کی مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ سعید نے اس قدر زیادہ کھانا آرڈر کردیا تھا کہ ہم جیسے فاقہ مستی والے مسافر شدید پرخوری کے باوجود کھانا ختم نہ کر پائے اور بچ جانے والا کھانا اگلے روز میلبورن کے راستے میں ختم ہوا۔
اس شام بے مثال مہمان نوازی کا مقابلہ خوش کلام گفتگو سے تھا۔ بارش اور سردی کی شدت کے باوجود ہم نوشی گیلانی اور سعید خان کی محبت کی گرمی سے پگھلے جاتے تھے۔ اور باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔ سان فرانسسکو بے ایریا کی وہ محفلیں یاد کی گئیں جن میں نوشی کے ساتھ ہم بھی شریک تھے۔ اس خاص محفل کو یاد کیا گیا جو  تاشی ظہیرصاحب کی قیادت میں اردو اکیڈمی شمالی کیلی فورنیا نے مشہور اردو عالم شان الحق حقی کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔  نوشی نے فینکس میں ہونے والی جڑواں محفل کا حال بھی سنایا۔ افتی نسیم کو بہت یاد کیا گیا۔ احمد فراز سے عینی اختر کے گھر آخری ملاقات کو یاد کیا گیا۔ نوشی گیلانی نے وہ واقعہ سنایا جب انہوں نے فیض صاحب کے دربار میں پہلی بار فیض کی شاعری کے پنجابی ترجمے کے ساتھ حاضری دی تھی۔
اگلے دن ہمیں سویرے ہی میلبورن کے لیے روانہ ہونا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی دیر رات نوشی گیلانی اور سعید خان سے  رخصت لی۔ جارجیوز ریستوراں کے بحیرہ روم علاقوں کے مخصوص کھانے ایسے مزیدار تھے کہ آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ ہم نے ریستوراں چھوڑنے سے پہلے باورچی خانے کے اندر جھانک کر کھانا بنانے والے یونانی دیوتا کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یونانی کھانے بنانے والا دیوتا وہاں ضرور موجود تھا مگر وہ یونانی نہ تھا، فرزند کنفیوشس تھا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ یورپ، امریکہ، اور آسٹریلیا لاکھ دم لگائیں آخر میں جیت چین کی ہی ہوگی۔
ڈارلنگ ہاربر سے واپس اپنے ہوٹل کی طرف پلٹتے میں سوچ رہا تھا کہ کہیں آسٹریلیا پہنچ کر نوشی گیلانی اکیلی تو نہیں پڑ گئیں۔ بہت زمانے سے ہمارے لوگ جنوبی ایشیا سے شمالی امریکہ نقل مکانی کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے شمالی امریکہ میں اردو سمجھنے، بولنے، اور اس زبان میں نثر و شعر لکھنے اور ان سخن وروں کو سراہنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ جب کہ آسٹریلیا میں اس قبیلے کے اتنے لوگ نہیں ہیں۔ شعرا کو ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو ان کے کلام کو سمجھیں۔ ایسے میں موجودہ عہد کی اردو کی  مقبول ترین شاعرہ کی آسٹریلیا میں فکری تنہائی سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اس خیال کے ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر قسم کے آرٹسٹ کے لیے اپنے مداحوں تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں۔ نوشی گیلانی کی شاعری کو سراہنے والے فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ نوشی گیلانی یقینا ہر دفعہ کمپیوٹر کھولنے پہ اس مجمع کو اپنے سامنے پاکر یہ اطمینان کرتی ہوں گی کہ ان کے اور ان کے مداحوں کے درمیان فاصلہ محض چند کلک کا ہے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?