Sunday, November 10, 2013
منصف معاشرہ، معذوری
نومبر تین، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو باسٹھ
منصف معاشرہ، معذوری
کہا جاتا ہے کہ 'سب انسان برابر
ہیں'۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ اس بات کا محض یہ مطلب ہے کہ مہذب معاشرے میں قانون
کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔ اس دنیا پہ نظر دوڑاءیے۔ آپ کو انسانوں کے درمیان
فرق صاف نظر آءیں گے۔ کچھ دراز قد ہیں، کچھ پستہ قد ہیں، کچھ موٹے ہیں، کچھ دبلے
ہیں، کسی کے بالوں کا رنگ کچھ ہے، کسی کا کچھ اور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ حقیقت بھی
واضح ہے کہ کسی بھی کام کے لیے امیدوار کے انتخاب کے وقت 'تعصب' سے کام لیا جاتا
ہے۔ یہ 'تعصب' عموما تعلیم سے متعلق روا رکھا جاتا ہے۔ مثلا اگر مجھے ایک
اکاءونٹینٹ کو ملازم رکھنا ہے اور میرے سامنے دو امیدوار ہیں؛ ایک جس نے اکاءونٹنگ
پڑھی ہے اور دوسسرا وہ جس نے کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ہے تو میں یقینا اکاءنٹنگ
پڑھنے والے امیدوار کو ملازمت دوں گا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ 'سب انسان برابر
ہیں' اس لیے پہلے آنے والے امیدوار کو نوکری ملے گی۔ 'قانون کے سامنے سب انسان
برابر ہیں' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوانین کا اطلاق انسانوں کے ان اختلافات کی
بنیاد پہ نہ کیا جاءے گا جو یا تو پیداءشی ہیں یا ان کا تعلق منصب؛ معاشی تعلق؛ یا
لسانی، مذہبی، یا گروہی شناخت سے ہے۔ جو معاشرے منصف ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کے
لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور اور روایتی طور پہ دبے ہوءے گروہوں کی
خاص طور پہ مدد کریں تاکہ یہ لوگ اپنی اول کمزور کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جاءیں۔ آج
کل کیونکہ خیال باری کی طباعت سوءم پہ کام جاری ہے اس لیے اس کتاب میں شامل ہر
مضمون کو تنقیدی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں معذوری سے متعلق یہ مضمون
ملاحظہ فرماءیے۔
کیا ہم معذوروں کو محتاجی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
اگر حقیقت پسندی سے
کام لیا جاءے تو ہر شخص کسی نہ کسی طور سے معذور ہے۔ مگر ظاہر کو اہمیت دینے کے
باعث ہم عموما ان لوگوں کو معذور کہتے ہیں جن کی معذوری عام مشاہدے میں آسکے۔
انسان پیداءش کے بعد دنیا کے بارے میں تمام علم حواس خمسہ کی مدد سے حاصل کرتا ہے۔
پھر وہ فیصلہ کرتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ عمل کرنے کے لیے یا تو اس کو بولنا اور
لکھنا ہوتا ہے یا پھر چلنا پھرنا اور ہاتھ سے کام کرنا ہوتا ہے۔ اس درجہ بندی کو
ذہن میں رکھا جاءے تو معلوم ہوگا کہ معذوری کی تین شکلیں ہوسکتی ہیں۔ حواس خمسہ سے
معذوری، سوچنے سمجھنے سے معذوری، یا بولنے، چلنے یا ہاتھ پاءوں سے کام کرنے سے
معذوری۔
حواس خمسہ سے معذوری
دوسرے حواس کے
مقابلے میں سونگھنے اور چکھنے کے حواس کو ایک عام زندگی میں علم حاصل کرنے کے
معاملے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ ان حواس سے معذوری ممکن ہے مگر یہ عام
مشاہدے میں نہیں آتی۔ کسی شخص کی زندگی میں چھو کر محسوس کرنے کی بے انتہا حیثیت
ہے۔ کبھی کسی کے جسم کا کوءی حصہ مفلوج ہوجاءے تو اس حس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا
ہے۔ مذکورہ تین حواس کے مقابلے میں سماعت اور بیناءی سے معذوری کہیں زیادہ سنگین
ہوجاتی ہے۔
کوءی بھی شخص جب
کوءی بات کہتا ہے تو دوسروں کو سنانے کے علاوہ اپنی کہی ہوءی بات خود بھی سنتا ہے۔
جو لوگ پیداءشی طور پہ سماعت سے محروم ہوتے ہیں وہ گویاءی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں
کیونکہ انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ بعد کی عمر میں سماعت سے مکمل طور
پہ محروم ہوجاءیں ان کو بھی گفتگو میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی کہی ہوءی بات
خود سن نہیں پاتے۔ اسی طرح اونچا سننے والے لوگ چلا کر بولتے ہیں؛ وہ دراصل خود کو
سننے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
سماعت سے محروم
لوگوں سے اشاروں کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ اشاروں کی زبان سے مفہوم یا تو
ہاتھوں کے اشاروں سے بیان کیا جاتا ہے یا پھر انگلیوں کے اشاروں سے ہجے کر کے
سمجھایا جا سکتا ہے۔ مثلا اگر لفظ 'گھر' کہنا ہو تو یا تو ہاتھ کے اشارے سے گھر
بنایا جا سکتا ہے یا پھر انگلیوں کے اشارے—مٹھی کھلی یا بند، اور مختلف انگلیاں
گری یا اٹھی، مختلف حروف تہجی ظاہر کرتی ہیں—سے گ ھ ر توڑ
کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سماعت سے محروم بچوں کو
ابتداءی عمر ہی میں شناخت کر لیا جاءے اور ان کے لیے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا
جاءے۔
ساءنس کی ترقی کی
بدولت اب جو کچھ ایک عام شخص آنکھوں سے
دیکھ سکتا ہے وہی ایک نابینا شخص چھو کر محسوس کرسکتا ہے۔ انیسویں صدی میں ایک
نابینا فرانسیسی استاد نے ابھرے ہوءے نقطوں کی ایک زبان ایجاد کی جسے اس استاد کے
نام پہ بریل کہا جاتا ہے۔ بریل کے ہر سیل میں چھ نقطے ہوتے ہیں۔ کسی بھی سیل میں
مختلف ابھرے ہوءے نقطے مختلف حروف تہجی ظاہر کرتے ہیں مثلا انگریزی زبان کے حرف
'اے' کے لیے صرف باءیں ہاتھ کا سب سے اوپر والا نقطہ ابھرا ہوا ہوتا ہے، اس سیل کے
باقی پانچ نقطے گرے ہوءے ہوتے ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان
کی الگ بریل ہوسکتی ہے۔
نابینا افراد کو
بچپن ہی سے بریل کی تعلیم دی جانی چاہیے۔ بریل پہ اچھی طرح مشق کے بعد نابینا
افراد اتنے ماہر ہوجاتے ہیں کہ جو کچھ آپ جتنی دیر میں دیکھ کر پڑھیں، اسی تحریر
کو ایک نابینا فرد بریل میں چھو کر پڑھ سکتا ہے۔ جس طرح آپ ہر لفظ کو ہجے کر کے
نہیں پڑھ رہے ہوتے اسی طرح نابینا افراد بھی کسی لفظ کو چھونے کے بعد اس کو ہجے کر
کے نہیں پڑھتے بلکہ ابھرے ہوءے لفظ پہ سرعت سے انگلی پھیر کر پورے لفظ کو پڑھ لیتے
ہیں۔
نابینا افراد کے
ہاتھ میں سفید چھڑی ضرور ہونی چاہیے۔ راستہ تلاش کرنے میں چھڑی سے عموما تین طرح
کے کام لیے جاتے ہیں:
1-
چلتے ہوءے، چھڑی کو داءیں باءیں گھمانے سے
اندازہ ہوتا ہے کہ راستہ کتنا چوڑا ہے اور آگے کوءی رکاوٹ ہے یا نہیں۔
2-
سیڑھی آنے پہ چھڑی کی مدد سے سیڑھی کی گہراءی یا
اونچاءی کا جاءزہ لیا جاتا ہے۔
3-
گڑھا آنے پہ چھڑی کی
مدد سے گڑھے کی چوڑاءی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تاکہ اسے عبور کیا جاسکے۔
سفید چھڑی کا ایک
اور فاءدہ یہ ہے کہ اس سے نابینا افراد کی شناخت ہوجاتی ہے اور دوسرے لوگ ان کو
راستہ دے سکتے ہیں یا کسی اور طریقے سے ان کے معاون بن سکتے ہیں۔ بعض نابینا افراد
سفید چھڑی کے علاووہ ایک کتا بھی ساتھ لے کر چلنا پسند کرتے ہیں۔
ایک عرصے تک نابینا
افراد بریل کی مدد سے پڑھ تو سکتے تھے مگر لکھنا ایک مشکل معاملہ تھا۔ کمپیوٹر نے
یہ مشکل بھی حل کردی۔ نابینا افراد کے لیے کمپیوٹر کے ساتھ ایک بریل ڈسپلے ہوتا
ہے۔ [کمپیوٹر پہ کام کرنے والے بہت سے نابینا افراد ایسے سافٹ وءیر بھی استعمال
کرتے ہیں جو اسکرین پہ لکھے کو بول کر بتاتے ہیں]۔ اس طرح نابینا افراد کمپیوٹر کو
کتابت کے علاوہ پروگرامنگ کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ وہ کی بورڈ کے ذریعے
اپنا پروگرام ٹاءپ کرتے ہیں، پھر بریل ڈسپلے کو چھو کر اطمینان کرتے ہیں کہ انہوں
نے پروگرام صحیح ٹاءپ کیا ہے۔ پروگرام چلانے پہ کمپیوٹر نتاءج بریل ڈسپلے پہ ظاہر
کردیتا ہے۔ اس ڈسپلے کو چھو کر نتاءج کا جاءزہ لیا جاتا ہے اور پھر ایک عام پرنٹر
پہ پرنٹ آءوٹ نکال لیا جاتا ہے۔ اگر کمپیوٹر کے ساتھ ایک بریل پرنٹر [امبوسر] بھی منسلک ہو تو نابینا افراد خود اپنے لیے بھی پرنٹ آءوٹ نکال سکتے
ہیں۔
[اسی مضمون
میں 'چلنے پھرنے سے معذوری' اور 'ذہنی معذوری' پہ بات کی گءی ہے۔ مضمون کا وہ حصہ
'خیال باری' میں پڑھا جاسکتا ہے۔]