Monday, November 11, 2013

 

پوپ فضل اللہ


نومبردس،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو ترسٹھ

پوپ فضل اللہ

طالبان کی پاکستان میں ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ بہت سے معصوم لوگ قاءل ہوچکے ہیں کہ طالبان پاکستان میں سچا اسلامی معاشرہ قاءم کرنا چاہتے ہیں؛ کہ طالبان پاکستان میں حقیقی شریعت محمدی نافذ کریں گے۔ پاکستان کے بہت سے لوگ جو اسلام سے والہانہ محبت کرتے ہیں اس بہکاوے میں آجاتے ہیں کہ جو شخص قرآن کی دوچار آیتیں پڑھ کر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کررہا ہے وہ واقعی اسلام کا اصل سپاہی ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علماءے اسلام سے لے کر طالبان تک جو گروہ اسلام کی بات کرتے ہیں، بہت سے لوگوں پہ جادو سا کردیتے ہیں۔  اور پاکستان میں اسلام کا نام ایسا ترپ کا پتہ ہے کہ بڑے بڑے اس کے آگے بات کرتے کپکپاتے ہیں۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ بات کھل کرہوجاءے کہ اسلام کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار ہم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ 'اسلامی نظام' نہیں بلکہ اپنی مرضی کا وہ نظام ہم پہ مسلط کرنا چاہتے ہیں جس پہ یہ اپنی پسند کےاسلام کا تڑکا لگاءیں گے۔ یہ لوگ ملک میں ایسا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں ان کی مرضی چلے۔ اسلام عیساءیت سے اس طرح مختلف ہے کہ اس میں پاپاءیت کا تصور نہیں ہے۔ ہمارے نبی کی وفات کے بعد اس بات کی قطعا گنجاءش نہیں ہے کہ کوءی شخص یا گروہ 'اسلام' کا نام اپنی چودھراہٹ کے لیے استعمال کرے اور باقی مسلمانوں کو بتاءے کہ کس کا اسلام صحیح ہے اور کس کا غلط ۔ نہ ہم جماعت اسلامی کے امیر کو اپنا پوپ مانتے ہیں اور نہ ہی طالبان کے سربراہ کو۔ جو لوگ پوپ فضل اللہ کو اسلام کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ وزیرستان جا کر طالبان کے ساتھ رہنے لگیں اور باقی ملک پہ اپنے کچے پکے خیالات تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔
ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں کءی جگہ آزادی کی تحریکیں کام کررہی ہیں؛ بہت سے گروہ اپنی مرضی کا نظام کسی مخصوص علاقے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور بہت جگہ ایسا ہے کہ ایسے گروہوں کے قبضے میں پہلے ہی ایک بڑا علاقہ ہے۔ تو پھر یہ مستقل کشت و خون کیوں؟ یہ لوگ اپنی مرضی کا نظام اپنے زیراثر علاقے میں کیوں نافذ نہیں کردیتے؟ یہ دنیا کے سامنے اپنے خیالات کی ایک عملی مثال کیوں نہیں بنا کرپیش کردیتے؟ طالبان شمالی وزیرستان کو ایک مثالی اسلامی معاشرہ کیوں نہیں بنادیتے؟ اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ طالبان نے یا کسی اور گروہ نے ایک خاص علاقے میں ایک ایسا منصف معاشرہ قاءم کردیا جس کی دھوم دنیا میں ہوگءی اور دنیا بھر سے لوگ اس جگہ جانے کے لیے ایسے ہی تڑپنے لگے جیسا کہ آج امریکہ، کینیڈا، اور دوسرے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے تڑپتے ہیں تو پھر منصف معاشرہ بنانے والوں کو اس نظام کو دوسری جگہ نافذ کرنے کے لیے ڈنڈے کا سہارا نہ لینا پڑے گا۔ ہم ان سے خود درخواست کریں گے کہ وہ براءے مہربانی ہمیں بھی اسی طرح کا منصف نظام بخشیں۔ مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ آپ نے اپنے نظام کا وہ عملی مظاہرہ نہیں کیا ہے جسے دیکھ کر سب واہ واہ کریں [یا کیا ہے جیسا کہ سوات میں یا افغانستان میں، تو لوگوں نے کان ہی پکڑے ہیں؛ آپ کے اس نظام سے لوگ بھاگے ہی ہیں؛ سواءے ایک آدھ جنونیوں کے، کوءی آپ کے پاس دوڑ کر نہیں گیا]۔ اپنے قابل تقلید نظام کا عملی مظاہرہ نہ کرنے کے باوجود آپ کی خواہش ہے کہ پورا پاکستان آپ کے حوالے کردیا جاءے اور وہاں آپ اپنی خوب مرضی چلاءیں۔ کون بے وقوف ہے جو آپ کو ایسا کرنے کی اجازت دے گا؟ [سواءے چند نادانوں کے جن کے لیے 'اسلام' کا نام ہی کافی ہے چاہے اس نام کے پیچھے کتنا ہی بڑا فراڈ کھیلا جارہا ہو۔]
اور اپنے زیراثر علاقے میں اپنی مرضی کا نظام قاءم کر کے دنیا کو دکھانے کا یہ چیلنج جنوبی ایشیا کی دوسری آزادی کی تحریکوں کے لیے بھی ہے۔ خاران، آواران، پنجگور میں رہنے والے بلوچ ان علاقوں میں اپنی مرضی کا مثالی معاشرہ کیوں قاءم نہیں کردیتے؟ کشمیری حریت پسند بارہ مولا، بانڈی پور کو ایسی مثالی جگہیں کیوں نہیں بنا دیتے جسے دیکھ کر دنیا قاءل ہوجاءے کہ واقعی کشمیر کی آزادی کے بعد یہ لوگ اپنے علاقے کے لیے زبردست کام کریں گے؟ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ ایسی مثالی بستیوں میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ہماری جان و مال محفوظ ہوں، ہمارے بچوں کی تعلیم کا انتظام ہو، صحت عامہ کی سہولیات میسر ہوں، سڑکوں کے کنارے درخت لگے ہوں، جگہ جگہ کوڑا نہ پڑا ہو، اور گٹر نہ بہا کریں۔ آپ اپنے زیرانتظام علاقوں میں ہمیں ایسی بستیاں کیوں نہیں دے دیتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان تمام تحریکوں کی سب سے بڑی طاقت دوسروں سے نفرت اور مستقل تشدد سے ہے؛ یہ تحاریک چلانے والے لوگ قتل و خون کی سیاست سے باہر کوءی تعمیری سوچ نہیں رکھتے؟

Labels: , , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?